Ilm e Deen Ki Ahmiyat Essay

0

علم سیکھنا ہر مسلمان کی ضرورت ہے یا یوں کہہ لیا جائے کہ بغیر علم کے ہم نہ خدا کو پہچان سکتے ہیں اور نہ ہی دین پر صحیح طریقے سے عمل پیرا ہوسکتے ہیں۔ اس کے بارے میں فرمان رسولﷺ ہےکہ *طلب العلم فريضه على كل مسلم* ( ترمذی) علم دین کا سیکھنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔

اس لیے ہر ایمان والے پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ علمِ دین کو اپنا کام سمجھ کر اس میں وقت لگائیں تاکہ دین کے رموز و نکات ،نشیب و فراز ،حلال وحرام میں فرق کرسکے۔ اس لیے علماء نے لکھا ہے کہ مسلمان خواہ مرد ہو یا عورت اسے کم از کم اتنا علم سیکھنا فرض ہے جس سے کہ وہ حلال و حرام کی تمیز کرسکے۔

علم دین سے خدا کی معرفت ہوتی ہے کیونکہ بغیر علم کے اللہ کو پہچاننا اور مخلوقات پر غور کرنا مشکل ہے۔ علم دین کو اسلام میں بڑی اہمیت حاصل ہے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب اطہر پر نازل ہونے والا وحی کا پہلا لفظ عقائدوعبادات سے متعلق نہیں بلکہ علم سے متعلق تھا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے *اقرا باسم ربك الذي خلق* پڑھیے اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا۔

علم وہ حکمت کی جوہر ہے جس کی بنا پر انسان کو فضلیت حاصل ہے اور اشرف المخلوقات کے عظیم لقب سے ملقب کیا گیا ہے حالانکہ دوسری چیزیں مثلاً اطاعت ،فرمانبرداری ،عبادات قوت و طاقت اور بہادری میں دوسری مخلوقات انسان سے بڑھ کر ہیں۔

دوستو! علم سے انسان کو روشنی ملتی ہے کیونکہ اسکے بنا انسان جہالت و ضلالت، گمراہی و بے راہ روی کے دلدل میں پھنسا رہتا ہے۔ تاریکیوں کی لپیٹ میں رہتا ہے ، اسے صحیح راستہ سوجھتا ہی نہیں، اسکے عقائد واعمال میں فساد وبگاڑ رہتا ہے۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ *العلم نور* علم روشنی ہے کیونکہ اس سے ضلالتوں اور جہالت کے پردے کھل جاتے ہیں۔

علم سے انسان کو زندگی نصیب ہوتی ہے کیونکہ بغیر علم کے انسان مردہ ہے۔ جیسا کہ شاعر نے کہا ہے *وفي الجهل قبل الموت موت لاهله* کہ جہالت میں جاھل کی موت ہے اس کی موت آنے سے پہلے ہی۔ اسکے علاوہ کلام ربانی اور احادیث میں جابجا عالم دین کی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے *هل يستوي الذين يعلمون والذين لا يعلمون* کیا علم و غیر علم والے برابر ہو سکتے ہیں؟

اسکی مثال کچھ ایسے سمجھ لیجئے جیسے کافر ،مسلم اور بینا ،نابینا برابر نہیں ہو سکتے ٹھیک اسی طرح عالم اور جاہل بھی برابر نہیں ہو سکتے۔ عالم کے سلسلے میں حضورﷺ کا فرمان ہے کہ *من يرد الله به خيرا يفقهه في الدين* اللہ تعالی جس کے ساتھ بھلائی کرنا چاہتا ہے اسے دین کی سمجھ عطا فرماتا ہے۔ دوسری جگہ فرمان رسول ﷺ ہےکہ *من سلك طريقا يلتمس فيه علما سهل الله له طريقا الى الجنه* جو بھی علم کے کسی راستے پر نکلے گا اللہ اس کے لیے جنت کا راستہ آسان کردے گا۔ اس لیے حدیث میں ایک عالم کو ہزار عابدوں پر ترجیح دی گئی ہے۔

حاصل یہ ہے کہ انسانی زندگی میں عقائد عبادات دونوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ انسان لامحالہ کچھ نہ کچھ اعمال خواہ وہ بد ہو یا نیک ہو اگر اسکے پاس دین کی صحیح معرفت ہے تو اس کے عقائد و اعمال شریعت کے مطابق ہوں گے جس کی بنا پر وہ اجر و ثواب کا مستحق ہوگا چاہے نتیجتاً تھوڑا عمل ہو وہ بھی بہت ہو جائے گا۔ اسکے برعکس علم کے بنا عمل کرنا یا کوئی عقیدہ بنانا نتیجتاً وہ زیادہ ہی کیوں نہ ہو وہ عمل ضائع ہو جائے گا۔

اس لیے علم کو عمل کا امام کہا گیا ہے۔ تو ضرورت اس بات کی ہےکہ ہم تمام علم کی روشنی میں ہی اپنا عقیدہ رکھیں یا عمل کریں۔ کیوں کہ وہ ہمارے لیے باعثِ خیر اور دونوں جہاں میں خوش نصیبی و سرخروئی کا ذریعہ بنے گا۔ اس لئے شاعر نے کیا خوب کہا ہے؀

احساس علم و عمل کی چنگاری جس دل میں فیروزاں ہوتی ہے
اس لب کا تبسم ہیرا ہے اس آنکھ کا آنسو موتی ہے

اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہم سب کو علم کے ساتھ عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔