Impact Of Sufism on Art, Music and Literature | آرٹ، موسیقی اور ادب پر تصوف کے اثرات

0

آرٹ، موسیقی اور ادب پر تصوف کے اثرات

  • 4.1 تمہید
  • 4.2 مقاصد
  • 4.3 آرٹ، موسیقی اور ادب پر تصوف کے اثرات
  • 4.4 عمومی جائزہ
  • 4.5 سوالات
  • 4.6 امدادی کتب

4.1 تمہید

تصوف عرب سے نکل کر ایران و عجم میں آیا تو جہاں مختلف انسانی نسلوں، فرقوں اور مذاہب پر اس کے اثرات پڑے وہیں تصوف کے اثرات فن ، موسیقی اور ادب پر بہت گہرے پڑے ہیں۔ اولاً تو شاعری کے اندر بحر و وزن اور قافیہ و ردیف ایسے جزئیات ہیں کہ ان کے برتاؤ سے مصروں اور شعروں میں موسیقی پیدا ہوتی ہے لیکن شاعری جب صوفیا کے ہاتھ لگی خواہ وہ فارسی، اردو یا ہندی زبان میں ہو، قریب قریب ہر زبان پر تصوف کے اثرات نمایاں ہیں۔ ہندوستانی جب امیر خسرو کے یہاں آئی تو امیر خسرو نے تصوف کے لے میں کئی راگ کو اخترع کیا۔ بعد میں ولی دکنی، میر درد اور خواجہ حیدر علی آتش کے علاوہ مثنویات میں فرید الدین گنج شکر اور میر اثر وغیرہ نے بھی تصوف کے اثرات کو قبول کیا۔

موسیقی پر تصوف کے خاص طور پر اثرات نمایاں ہوئے، بلکہ آج بھی ہیں کہ قوالی گانے کی ابتدا امیر خسرو سے ہوئی ہے۔پھر محفل سماع کے نام سے عہد بعہد اس کا ارتقاء ہوتا گیا۔ خواہ وہ مسلم صوفیا ہوں یا نرگن وادی اور بھگتی تحریک کے سادھو سنت سب کی موسیقی میں تصوف کے اثرات نمایاں ہیں۔ وارث شاہ کا کلام ہو یا میروغالب یا اقبال کا کلام یا پنجابی کلام، مختلف قوالوں نے اور غزل خواں حضرات نے انکو صوفیانہ سر اور تال دیے ہیں۔ عزیز میاں، نصرت فتح علی خان، مہدی حسن، غلام علی، تارا چند ، اس طرح کے کئی غزل خواں اور قوالوں نے فارسی، اردو، ہندی، پنجابی اور کشمیری وغیرہ زبانوں میں لکھے جانے والے صوفیانہ کلام کو موسیقی کی سر و تال پر اتارا ہے۔بلکہ ان کی دھن بھی صوفیانہ طرز کی اختراع کی ہیں۔ اس اکائی میں تفصیلی بحث تصوف کے اثرات فن، موسیقی اور ادب پر کیا ہوئے ہیں ہوگی۔

4.2 مقاصد

اس سبق کو پڑھنے پڑھانے کا مقصد یہ ہے کہ طلبا جان لیں کہ موسیقی اور موسیقی کے راگ کیا کیا ہیں۔ نیز اس بات سے بھی واقف ہوں کہ موسیقی، فن اور ادب پر تصوف کے اثرات کب سے پڑنا شروع ہوئے ہیں اور کیا کیا اثرات ہیں۔ اس سبق کے پڑھنے کے بعد طلبا کے اندر یہ صلاحیت پیدا ہو کہ وہ جان سکیں کہ ادب موسیقی اور فن کا تعلق تصوف سے کیا رہا ہے۔

4.3 آرٹ، موسیقی اور ادب پر تصوف کے اثرات

تصوف باضابطہ طور پر تیسری صدی ہجری سے ساتویں صدی ہجری کے درمیان واضح ہوا۔ اس کے ضابطے اور اصول بنے اور ارتقائی منزلوں کے عروج تک پہنچا۔ تصوف نے زندگی کے ہر شعبے پر اپنے اثرات چھوڑے ہیں خاص طور پر تمام مذاہب و ادیان پر اس کے اہم اثرات پڑے۔ اسی طرح تصوف کے اثرات ادب فن اور موسیقی کے اوپر بھی پڑے۔ موسیقی اپنی مختلف شکلوں کے ساتھ ابتدائے آفرینش سے وجود پذیر ہے لیکن جیسے جیسے زندگی کا ارتقا ہوتا چلا گیا موسیقی بھی ارتقا کی طرف بڑھتی گئی۔

جس ملک جس علاقے میں جو عوامی مزاج رہا ہے اس مزاج کے مطابق موسیقی بھی سر و تال بدلتے رہے۔ موسیقی فارسی میں رہی ہے وہاں بھی صوفیانہ کلام کے گانے کے لئے صوفیانہ سر اور تال اختراع کیے گئے۔ اس طرح ہندوستان میں بھی ہندوستانی مزاج کے مطابق جو موسیقی رہی ہے اس پر بھی تصوف کے اثرات نمایاں ہیں۔ ادب کے اوپر تو تصوف کے اثرات واضح ہو چکے اس پر ماسبق میں تفصیلی گفتگو ہو چکی ہے لیکن موسیقی کے اوپر تصوف کے کیا اثرات پڑے ہیں اس پر یہاں بحث مقصود ہے۔ اولاً ہم موسیقی کے بارے میں ذرا معلومات فراہم کرتے ہیں۔

موسیقی ایک لطیف اور نازک فن ہے۔ دنیا کے قدیم ترین علوم میں علم موسیقی کا شمار ہوتا ہے۔دوسرے علموں کی طرح علم موسیقی بھی اپنے ارتقا کی کئی منزلیں طے کر چکی ہے اور ابھی ابھی ارتقا میں ہے بادشاہ ہوں ، راجاؤں کے دربار ہوں کہ فقیروں کی خانقاہیں، یا سادھو سنتوں کی عبادت کی عبادت گاہیں، کافروں کے بتکدے ہوں یا مومنوں کی مسجدیں ہوں، رزم ہو کہ بزم ، شادی ہو کہ غم ، ولادت ہو کہ وفات، مرد ہو کہ عورت، بچہ ہو کہ ضعیف، امیر ہو کہ غریب، تمام کے تمام ہر زمان و مکان میں اس علم موسیقی سے وابستہ ہیں اور رہیں گے۔

موسیقی در حقیقت شاعری کی طرح انسانی لطیف جذبات کی ترجمانی ہے۔ موسیقی کو اس جدید دور میں انسان کی روح و بدن کی بیماریوں کو دور کرنے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ موسیقی نے نہ صرف انسان بلکہ حیوانات بھی متاثر سر کیے ہیں۔قدیم زمانے میں جب لوگ انفرادی قافلوں کی شکل میں سفر کرتے تھے اس وقت کاروان میں ایک شخص خوش لحن آواز میں گیت گاتا تھا جس کو حدی خوان کہا جاتا تھا جس کی آواز سن کر کاروان کے جانور مسحور ہوجاتے تھے اور اپنی تھکن بھول جاتے تھے اور پھر تیزی سے چلنے لگتے تھے۔ بعض قدیم موسیقی دانوں نے ایسی راگیں بنائی تھیں کہ جن سے جانور مسحور ہوجاتے اور شکار کر لیے جاتے۔

ہندوستانی موسیقی کی نسبت یونانی، عربی اور فارسی موسیقی معمولی اور سادہ ہے۔ عربی اور فارسی موسیقی درحقیقت قدیم ساسانی موسیقی سے اخذ کی گئی ہے۔ یونانی موسیقی کی طرح عربی اور فارسی موسیقی کو بھی 12 راگوں میں منقسم کیا گیا ہے جو بارہ برجوں سے حاصل کیا گیا تھا۔ فارسی موسیقی میں باربد اور نگیسا آج تک موسیقی میں مشہور ہیں۔ یہ بالکل صحیح ہے کہ علم موسیقی کو جتنا فروغ ہندوستان میں ملا ہے اور کسی جگہ نصیب نہ ہوا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ہندو دھرم میں موسیقی مذہب کا جزو شمار کی جاتی ہے۔ اگرچہ تمام دنیا کے مذاہب موسیقی کو یا اس کے راگوں اور راگنیوں کو کسی نہ کسی طرح ضرور اہمیت دیتے ہیں خواہ وہ قرآن کی قرأت ہو، یا حمدیہ، نعتیہ یا مرثیہ، بہرحال ترنم اور خوش لحن ایک قسم کی راگ ہے جو موسیقی کا جز ہے۔ کلیسا کے گھنٹوں، پادری کے خطبوں، دیوار گریہ کے جملوں اور بت کدے کے ناقوس میں موسیقی کے راگ چھپے ہوئے ہیں اور یہی موسیقی ان کے اثر کو دوبالاکرتی ہے۔

ہندوستانی موسیقی پر دھرم اور تصوف کے اثرات:

ویدک عہد میں مقدس گانہ تمام مذہبی قربانیوں کا لازمی جزو سمجھا جاتا تھا۔ بعض ویدوں میں ہمیں سنگیت اور سازوں کے مختلف حوالے ملتے ہیں۔ اکثر بھجن جو عام طور پر تاکیدی لہجے میں گائے جاتے ہیں سام وید ہی کے جز ہیں۔
” بھرت کا ناٹیہ شاستر“ سنگیت کا وہ پہلا رسالہ ہے جو ہم تک پہنچا۔ اس تصنیف میں مصنف نے زیادہ تر ناٹک کے موضوع پر روشنی ڈالی ہے لیکن ناٹک کے فن میں چونکہ موسیقی اور رقص بھی شامل ہوتا ہے اس لئے 6 باب سنگیت کو دیے ہیں۔مصنف نے سات سروں اور بائیس شروتیوں کا نیز اٹھاراں جائتیوں کا ذکر کیا ہے۔ لیکن راگ کا لفظ اس نے برتا نہیں۔

کچھ عرصہ بعد جائتیوں سے وہ راگ پیدا ہوئے جنہیں آج تک ہندوستانی سنگیت کی سب سے اہم خصوصیت مانا جاتا ہے۔ بارہویں صدی میں جے دیو نے ” راگ کاویہ اور گیتا گووندم“ لکھی جس کا ہر گیت ایک مخصوص راگ میں پیش کیا گیا ہے۔ کتاب کا موضوع رادھا اور کرشن کی داستان محبت ہے۔

عہد وسطی میں موسیقی کو ملک کے مختلف درباروں کی سرپرستی حاصل تھی۔ اس کے علاوہ موسیقی کے ارتقا میں بھگتی تحریک اور سادھو سنتوں کا بھی بڑا حصہ رہا ہے۔جن کے بھجن اور عقیدت مندانہ گیت ہندوستانی موسیقی کے لازمی اجزا شمار کیے جاتے ہیں۔

واضح ہو کہ کرناٹک سنگیت پر سنت سادھوؤں اور مذہبی عالموں کا بڑا اثر رہا ہے۔ اس سلسلہ میں تامل علاقے شیوائی نرنار الوار اور کرناٹک کے ہری داسوں کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جاسکتا جنہوں نے اپنے عقیدت مندانہ گیتوں اور پدوں کے ذریعے اعلی اخلاقی اقدار کو پھیلانے کی کوشش کی۔ ان میں سب سے اہم شخصیت پورنداس (١٤٨٠-١٥٦٤) کی تھی جنہیں کرناٹک سنگیت کا پتا مہیا کہا جاتا ہے۔ قیاس ہے کہ انہوں نے لگ بھگ پانچ لاکھ پد لکھے تھے۔ تروپتی میں (پندرہویں اور سولہویں صدی) تلا پاکم سنگیت کاروں کا سلسلہ چار نسلوں تک جاری رہا۔

انہوں نے بگوان وینکٹیشور کی عظمت میں لاتعداد گیت لکھے جو تانبے کے تختوں پر کندہ ہیں۔ اس دور کا آخری بڑا سنگیت کار نارائن تیرتھ تھا جس نے ”گیت گووند“ کی طرز پر ایک گیت لکھا جسے ناچ کے ساتھ گایا جاتا ہے۔ یہ گیت ”کرشنا لیلا ترنگی“ کے نام سے موسوم ہے۔ جنوب کے سنگیت سمیلنوں میں اس گیت کے کچھ حصے آج بھی پیش کیے جاتے ہیں۔ بھگتی تحریک نے جس طرح جنوب کے آرٹ کو فروغ دیا اور زندہ رکھا اسی طرح تمام شمال کی بڑی شخصیات کو بھی متاثر کیا۔ یہ لوگ بیک وقت سنت بھی تھے اور سنگیت کار بھی۔مہاراشٹر کے نام دیو (١٢٧٠-١٣٥٠) داسو پنت (١٥٥١-١٦١٦) اور دیگر خدا رسیدہ بزرگوں نے اپنے پدوں کو مختلف راگوں میں پیش کیا۔ میرا بائی (١٤٩٨-١١٥٤٦) کے بھجنوں سے کون واقف نہیں ہے۔ اسی طرح آگرہ کے سوداس(١٤٨٣-١٥٦٣) اور لافانی تصنیف ”رام چرت مانس“ کے مصنف تلسی داس (١٥٣٢-١٦٢٣) کا شمار بھی ان نامور شخصیات میں ہوتا ہے جنہوں نے ہندوستانی سنگیت کو سنوارنے میں بڑا حصہ لیا۔

گوالیار کے راجہ مان سنگھ(١٤٨٤-١٥١٧) نے بھی ہندوستانی سنگیت کی ترقی میں نمایاں حصہ لیا اور ” دھرپد“ کو جو ہندوستانی کلاسیکی موسیقی کی ایک اہم صنف ہے، ترقی دی۔ یہاں اس کا تذکرہ بے جا نہ ہوگا کہ دھرپد جس کی ابتدا قدیم پربندہ سے ہوئی ہے، یہ سنگیت علاء الدین خلجی کے زمانے میں بھی رائج تھا۔ یہی دور گوپال ناٹک اور امیر خسرو کا بھی ہے۔

امیر خسرو نے کچھ نئے راگوں، نئے سازوں کا اضافہ کیا اور موسیقی کو قوّالی جیسی چیز عطا کی جسے بھجن کا بدل کہا جا سکتا ہے۔ ترانہ امیر خسرو کی ایجاد ہے جس سے جنوبی ہند کا ترانہ نکلا۔ چار سو سالہ قدیم کتاب ‘تذکرہ میخانہ’ میں ملا عبدالنبی فخر الزمانی لکھا ہے کہ امیر خسرو موسیقی میں مہارت تمام رکھتے تھے۔ملا کہتے ہیں کہ ایک دن ایک موسیقی کار نے یہ بحث کی کہ علم موسیقی، علم شاعری سے مشکل فن ہے اور موسیقی شاعری سے بلند ہے، اس کا جواب خسرو میں قطعے کی صورت میں اسطرح دیا:

  • مطربی میگفت خسرو را کہ ای گنج سخن
  • علم موسیقی ز فن نظم نیکوتر بود
  • زانکہ این علمی است کز دقت نیاید در قلم
  • وان نہ دشوار است کاندر کاغذ و دفتر بود

یعنی خسرو نے کہا کہ اے موسیقار؛ میں شاعری اور موسیقی دونوں میں کامل ہوں اور جان لے کہ نظم دلہن اور موسیقی زیور کے مانند ہے اور کوئی عیب نہیں اگر دلہن خوب بغیر زیور کے رہے۔

اسے زمانے کی ستم ظریفی کہئے یا کوتاہ نگری کہ البیرونی جیسے مایہ ناز مورخ نے اپنی کتاب “الہند” میں ہندوستانی موسیقی کا ذکر تک کرنا گوارا نہیں کیا۔ جبکہ ہندوستانی موسیقی یونانی، عربی اور فارسی موسیقی سے بالا و برتر ہے۔ امیر خسرو پہلے مسلمان صوفی شاعر و ادیب تھے جنہوں نے یونانی عربی اور فارسی راگوں کو ہندی رگوں سے جوڑ توڑ دے کر نئی راگیں اختراع کیں اور جن پر تصوف پوری طرح حاوی رہا ہے۔ امیر خسرو نے ہندوستانی موسیقی میں ایک ایسی جان ڈال دی کہ دنیائے موسیقی انہیں کبھی بھلا نہیں سکتی۔ امیر خسرو کو موسیقی میں وہ کمال حاصل ہو گیا تھا کہ انہیں ناٹک کا خطاب دیا گیا تھا جو آج سات سو سال گزرنے کے بعد بھی کسی کو نصیب نہ ہوسکا۔

امیر خسرو کا ہم عصر ہندوستان کا مشہور موسیقار اور گویا ناٹک گوپال تھا جس کی شہرت کا چرچا سارے ہندوستان میں پھیلا ہوا تھا۔ اس کے بارہ سو سے زیادہ شاگرد تھے جو اس کو تخت پر بیٹھا کر اپنے کاندھوں پر لے جاتے تھے۔

آنند رام کی ”مراۃ المصطلحات” اور عالمگیر دور کے سیف خان کی “درپن” جو قدیم موسیقی کی کتاب “مانک سوہل” کا فارسی ترجمہ ہے اس میں تفصیل سے لکھا ہے کہ ناٹک گوپال اور امیر خسرو کے موسیقی کے مقابلے میں امیر خسرو نے ناٹک گوپال کو لاجواب اور مبہوت کر دیا۔

عظیم شعرا نے راگوں کو اشعار میں نظم کیا ہے۔ مولانا نظامی نے” خسرو ویژن” میں بار بید کے تیس راگوں کے نام دیے ہیں۔ نظامی کے تین چار سو سال بعد شیرازی نے ان راگوں کے ناموں کو منظوم کیا اور اس کے ساتھ ساتھ راگوں کی خصوصیات بھی بتلائی ہیں۔ عشاق، نوا، عراق، حجاز، حسینی، زنگولہ، صفہان، راست، رہادسہت، کوچک، بزرگ، بوسلیک۔

وارث شاہ نے اپنی مثنوی “ہیر وارث شاہ” میں کئی راگوں کے ناموں کو نظم کیا ہے جو اغلب ہندوستانی ہیں۔ بشن پت، طنجا، پہاڑی، دھول، شدھ، تیور، رکھب، پنجم، وادی، اڑانا، سورٹھ، گن کلی، مہین، سوہنی، تنک، سارنگ، سوہلے، شاہانہ، للت، سڈج، گنڈھار، دھیو، مدھم، سر، کومل، شپور، بسنت، توڑی، ٹپہ، ترانہ، پلاس‌ وغیرہ۔

امیر خسرو فارسی راگوں کے ساتھ ساتھ ہندی راگوں سے واقف تھے اس لئے دونوں موسیقی کی راگوں کو ترکیب دے کر نئی راگوں کو اختراع کیا اور دنیائے موسیقی میں ہیجان پیدا کر دیا۔عالمگیر کے امیر فقیر اللہ سیف خان نے “راگ درپن” میں لکھا ہے کہ سازگری ، باخرو، عشاق اور موافق راگوں میں خسرو نے موسیقی کا کمال دکھایا ہے اور دیگر راگوں میں کچھ ادل بدل کر کے ان کے نئے نام رکھ دیے ہیں۔ چنانچہ قول، ترانہ، خیال، نقش، نگار، بسیط، تلانہ، اور سوہلہ؛ سب امیر خسرو کی ایجاد ہیں۔مولانا ابوالکلام آزاد نے “غبار خاطر” میں لکھا ہے کہ ساتویں صدی ہجری میں امیر خسرو جیسے مجتہدینِ فن کا پیدا ہونا اس کا واضح ثبوت ہے کہ ہندوستانی موسیقی اب ہندوستانی مسلمانوں کی موسیقی بن چکی تھی۔ سازگری، ایمن اور خیال تو خسرو کی ایسی مجتہدانہ اختراعات ہیں کہ جب تک ہندوستان کی آواز میں رس اور تار زخموں میں نغمہ ہے دنیا ان کا نام نہیں بھول سکتی۔ قول، ترانہ اور سوہلہ تو گانے کی ایسی عام چیزیں بن گئی ہیں کہ ہر گویے کی زبان پر ہیں۔ بقول سید تقی علی عابدی ؛ کتاب ” مآثر الامر” جلد دوم مطبوعہ کلکتہ میں امیر خسرو کی ایجاد کردہ راگوں اور یہ راگیں کن راگوں کی ترکیب سے بنی ہیں، مفصل طور پر بیان کی گئی ہیں، جن سے کچھ اشارے یہاں پیش کئے جاتے ہیں:

امیر خسرو کی ایجاد کردہ راگیں۔۔۔۔۔۔کن راگوں سے بنائی گئی ہیں۔

  • ١. لسجیر۔۔۔۔۔۔غار+ ایک فارسی راگ
  • ٢. سازگری۔۔۔۔۔۔۔پوربی+گورا+گنکلی+ایک اور فارسی راگ
  • ٣. ایمن۔۔۔۔۔۔۔ ہنڈول+نیریز
  • ٤. عشاق۔۔۔۔۔۔۔سارنگ+بسنت+نوا
  • ٥. موافق۔۔۔۔۔۔توڑی+مالٹری+دوگاہ+حسینی
  • ٦. غنم۔۔۔۔۔پوربی میں تھوڑا تصرف کیا گیا ہے۔
  • ٧. زیلف۔۔۔۔۔کھٹ+شہ ناز
  • ٨. فرغنہ۔۔۔۔۔گنکلی+گورا+فرخانہ
  • ٩. سرپردہ۔۔۔۔سارنگ+پلاوں+بسنت
  • ١٠. باخرز۔۔۔۔۔دیکار+ایک فارسی راگ
  • ١١. پھر دوست۔۔۔۔۔کانزا+ گوری+ پوربی+ ایک فارسی راگ

یہی نہیں بلکہ امیر خسرو نے ستار کو اخترع کیا اور آج ستار دنیا کے عظیم آلات موسیقی میں شمار کیا جاتا ہے۔امیر خسرو نے مردنگ کو ڈھولک کی شکل میں تبدیل کیا جسے پورے ایشیا میں مقبولیت حاصل ہے۔ایرانی باجے طنبور کے بجا لے بینا ایجاد کی۔اس کے علاوہ برصغیر میں جو قوالی اور صوفیانہ مشہور ہے وہ قوالی بھی امیر خسرو ہی کی ایجاد ہے۔ سلطان المشائخ خواجہ نظام الدین اولیا نے امیر خسرو کی موسیقی میں مہارت دیکھ کر آپ کو “مفتاح السماع” کا خطاب دیا۔ آج بھی ہند و پاک میں جو صوفیانہ کلام گائے جاتے ہیں وہ امیر خسرو کے راگ یا ان سے استفادہ کرکے راگ بنائے گئے ہیں۔ اس طرح موسیقی پر متصوفانہ اثرات واضح ہیں۔

4.4 عمومی جائزہ

تصوف اپنے مرکز خاص سے نکل کر جب عجم اور خاص طور پر ایران و ہندوستان تک آیا تو لازمی طور پر تمام مذہب کے لوگ اس سے متاثر ہوئے۔ اسی طرح ادب فن اور سنگیت بھی تصوف کے اثرات سے بچ نہ سکے۔ فارسی عربی ادب ہو یا ہندی اردو اور سنسکرت ادب، ہر زبان کے ادب پر تصوف کے گہرے اثرات پڑے، فارسی شعر و ادب پر تصوف کے گہرے اثرات ہیں۔ اسی طرح ہندی اور اردو زبان و ادب پر بھی تصوف کے اثرات صاف طور پر نظر آتے ہیں۔فرید الدین گنج شکر، بو علی قلندر، امیر خسرو سے لے کر بجریانی سدھو، ناتھ پھنیوں اور نرگن وادیوں، بھگتی تحریک تک تصوف کے گہرے اثرات موجود ہیں۔ اسی طرح ولی دکنی، میر تقی میر، خواجہ میر درد سے لے کر آتش اور بہادر شاہ ظفر تک تصوف کے مسائل کا سلسلہ ادب کے اندر دراز رہا ہے۔جدید شعر و ادب میں جستہ جستہ تصوف کے مسائل و جذبات اپنی اور متوجہ کرتے ہیں۔ اسی طرح سنگیت کی بات کی جائے تو ہندوستانی سنگیت بہت ہی بلند رہا ہے۔ یونانی عربی اور فارسی موسیقی ہندوستانی سنگیت کے مقابلے میں بہت سادہ ہے۔

ہندوستانی سنگیت کی بلندی کی ایک وجہ یہ ہے کہ ویدک دور سے لے کر ویدانت، ویشنوی تحریک اور نرگن وادی اور بھگتی تحریک تک بھجن کا گانا سنگیت پر منحصر ہے بلکہ ہندو دھرم کا ایک جزو ہے سنگیت، اس لیے بھی ہندوستانی سنگیت کے اندر موسیقی راگوں کی کثرت ہے۔ اسلام جب ہندوستان میں آیا تو یہاں ہر طرف بھجن اور سنگیت کا دور دورہ تھا، اسلامی صوفیا نے اپنے پیغام اور اسلام کے پیغام کو صوفیانہ طریقے سے پیش کیا۔ اہل تصوف نے اگر ہندوستانیوں پر اپنے گہرے اثرات چھوڑے تو وہیں ہندوستانیوں سے بہت کچھ اخذ استفادہ بھی کیا۔ تصوف کی فلاسفی ہویا خارجی رسوم و روایات، صوفیا نے ان سے بہت کچھ لیا، اسی میں سنگیت بھی ہے۔ اسلامی صوفیا میں اس حوالے سے موثر ترین نام ہے تو وہ امیر خسرو کا ہے۔انہوں نے پوربی، ایرانی اور ہندوستانی قدیم سنگیت سے اخذ و استفادہ کر کے بہت سارے نئے راگ اختراع کیے جو متصوفانہ کلام کو گاتے ہوئے ہندوستان اور ایران کے سنگیت کار استعمال کرتے ہیں۔

اسی طرح وارث شاہ نے اپنی مثنوی “پہر وارث شاہ” میں کئی راگوں کے ناموں کو نظم کیا ہے، جالب یہی ہے کہ یہ ہندوستانی راگ ہیں اور ان پر تصوف کے اثرات نمایاں ہیں۔عالمگیر دور کے امیر فقیر اللہ سیف خان نے “راگ درپن” میں لکھا ہے کہ سازگری، باخرو، عشاق اور موافق راگوں میں خسرو نے موسیقی کا کمال دکھایا ہے اور دیگر راگوں میں کچھ ادل بدل کر کے ان کے نام رکھ دیے ہیں۔ چنانچہ قول، ترانہ، خیال، نقش، نگار، بسیط، تلانہ، اور سوہلہ؛ سب امیر خسرو کی ایجاد ہیں۔مولانا ابوالکلام آزاد نے “غبار خاطر” میں لکھا ہے کہ ساتویں صدی ہجری میں امیر خسرو جیسے مجتہد فن کا پیدا ہونا اس حقیقت حال کا واضح ثبوت ہے کہ ہندوستانی موسیقی اب ہندوستانی مسلمانوں کی موسیقی (صوفیانہ) بن چکی ہے۔

4.5 سوالات

  • 1. موسیقی کی ابتدا کب ہوئی ؟
  • 2. موسیقی کے ابتدائی راگوں کے بارے میں اپنی معلومات لکھیے۔
  • 3. موسیقی، فن اور ادب پر تصوف کے اثرات کیا پڑے؟
  • 4. امیر خسرو نے کن راگوں کو اختراع کیا؟

4.6 امدادی کتب

  • 1. اردو انسائیکلوپیڈیا جلد سوم۔۔۔۔ فضل الرحمن
  • 2. تاریخ تصوف۔۔۔۔۔ پروفیسر یوسف سلیم چشتی
  • 3. اردو شاعری اور تصوف۔۔۔۔ پروفیسر ڈاکٹر عبدالقادر غیاث الدین فاروقی
  • 4. درپن۔۔۔۔ سیف خان
از تحریر ڈاکٹر محمد آصف ملک اسسٹنٹ پروفیسر بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری جموں و کشمیر