Advertisement
Advertisement

وہ پتھر کا مجسمہ اس قدر حسین اور دلکش تھا کہ اسے ایک نظر دیکھنے کے لیے احمد روزانہ لائیبریری کے آخری کوری ڈور میں آ کر بیٹھ جاتا۔وہ میز پر کھلی کتاب سامنے رکھ کر اس پر یوں نظریں جمائے رکھتا کہ ارد گرد کے لوگوں کو گمان گزرے کہ جیسے وہ محو مطالعہ ہے۔ اسے مجسمے کو دیکھنے کے لیے گھنٹوں انتظار کرنا پڑتا اور یہ سلسلہ پچھلے 9 سالوں سے چل رہا تھا۔

Advertisement

ان دونوں میں اس قدر آشنائی ہو چکی تھی کہ مجسمہ احمد کی فرمائش پر کبھی کبھار انسانی شکل میں اس کے سامنے آجاتا۔ انسانی روپ دھارنے کے بعد اس سے زعفران اور گلاب کی ملی جلی خوشبو آتی۔ محض اس کی خوشبو ہی احمد کے لیے تسکین اور راحت کا سبب بنی ہوئی تھی۔ وہ اس کی خوشبو کے سحر میں اس قدر مبتلا تھا کہ اس کی ہر دنیوی خواہش دم توڑ چکی تھی۔

اس دن پھر احمد کی خواہش پر وہ ایک خوبصورت عورت کے روپ میں اس کے سامنے آئی۔ لائیبریری کے در و دیوار اس کی خوشبو سے مہک اٹھے۔ جب وہ انسانی روپ میں سامنے آتی تو ایک نارمل انسان کی طرح باتیں کرتی، کتابیں پڑھتی، اور پوری لائیبریری میں ننگے پاؤں چلتی۔ بعض اوقات وہ احمد کے اس قدر قریب سے گزر جاتی کہ وہ اس کے پسینے کی مہک محسوس کر لیتا۔ اس دن بھی وہ اپنے دونوں ہاتھوں میں چار پانچ بہت وزنی کتابیں اٹھائے ہوئے ، پیٹ کے ساتھ کس کر لگائے ہوئے اس کی طرف آ رہی تھی۔

Advertisement

اس کا نرم پیٹ کتابوں کے اوپر گرا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔ اس کے ننگے پاؤں لائیبریری کے فرش پر ایسے پھیل رہے تھے جیسے آٹے کے پیڑے کو دبانے سے وہ اپنا حجم بڑھا دیتا ہے ۔ گندمی رنگ کی پنڈلیاں سیاہ بالوں میں دن اور رات کا ایک محلول سا لگ رہی تھیں۔ ٹخنے گوشت سے بھرے ہوئے ایسے لگ رہے تھے کہ جیسے کمر کی بالکل نچلی طرف تین معمولی سے گڑھے ہوتے ہیں۔

Advertisement

چھاتیوں کے ابھار یوں محسوس ہو رہے تھے جیسے ایک مرد کے بڑے سائز کے ہاتھ کی بند کی ہوئی مٹھیاں ہوں۔ گردن کسی حور کی طرح اس قدر صاف شفاف کہ پانی کا ایک گھونٹ بھی حلق سے اترتا ہوا صاف نظر آئے۔ سر کے بال سیاہ، گھنے اور اس قدر لمبے تھے کہ آدھے شانوں کو ڈھانپ رکھا تھا۔سیاہ حلقوں کے اندر سفید اور روشن آنکھیں چودھویں کا چاند لگ رہی تھیں۔ہاتھ ریشم کی طرح نرم تھے۔ اس کے ہاتھوں اور پاؤں کی انگلیوں کے ناخنوں سے لالی ایسے ٹپک رہی تھی کہ جیسے خون رس رہا ہو۔

رسیلے ہونٹ یاقوت کو مات دے رہے تھے۔چوڑا ماتھا اور گول چہرہ یہاں تک کہ جسم کا انگ انگ احمد کے تخیل اور تصور کو حقیقت کا رنگ دے رہا تھا۔ وہ اس کی طرف پشت کیے ہوئے شیلف سے کتابیں نکال رہی تھی کہ احمد اچانک اس کے پیچھے آ کر کھڑا ہو گیا۔ اس کی اوپر اور نیچے کی سانسیں باہم گتھم گتھا ہو رہی تھیں۔ احمد نے پیچھے سے اس کی گردن کو اپنی دونوں بانہوں میں بھر لیا۔ خلاف توقع کسی بھی طرح کی کوئی مزاحمت نہ پا کر اس نے مرد کے بڑے سائز کے ہاتھ کی بند کی ہوئی مٹھیوں کو پکڑ لیا۔ اب ان دونوں کی سانسوں کا شور ایک دوسرے کو یوں سنائی دے رہا تھا جیسے تیز طوفان میں ہوا سائیں سائیں کرتی ہے۔

Advertisement

کچھ ہی دیر بعد طوفان تھم گیا تو احمد واپس اپنی کرسی پر بیٹھ گیا۔ وہ بھی بوجھل قدموں کے ساتھ واپس آئی اور اپنی نشست پر براجمان ہو گئی۔ ایک نظر اس نے احمد کو آنکھیں بھر کر دیکھا اور زیر لب مسکراہٹ کے ساتھ گویا ہوئی !! تم نے مجھے ” خوشی ” نام دیا تھا۔ وہ نام واپس لے لو۔ اب میں کبھی بھی مجسم صورت میں تمہارے سامنے نہیں آ سکوں گی۔ میری ساری شکتی ماند پڑ چکی ہے۔ البتہ !! تم مجسمہ بننے کے قابل ہو گئے ہو۔ اب ہم دونوں ہی مجسموں کی صورت میں ملاقات کر سکیں گے۔ اور ہاں !! اب مجھ سے زعفران کی خوشبو نہیں آیا کرئے گی اور آپ کے لائے ہوئے گلاب کے پھول بھی نہیں سونگھ سکوں گی۔

تحریرامتیاز احمد، کالم نویس، افسانہ نگار

[email protected]

Advertisement