اقبال اور انسانیت ، سوالات و جوابات | Baharistan Urdu 10th Class Solutions

0

سبق نمبر: 7
صنف: مقالہ
سبق کا نام: اقبال اور انسانیت
مصنف: خواجہ غلام السیدین

3: سوالات:

سوال: صالح زندگی کی تعمیرکے لیے اقبال نے کس بات کو ضروری قرار دیا ہے؟

جواب:شاعرِمشرق علامہ اقبالؒ نے صالح انسان کی زندگی کے لیے جس بات کو ضروری قرار دیا ہے وہ یہ ہے کہ انسان خود اپنی خودی اور دوسروں کی خودی کا احترام کرے۔

سوال: ”خودی“سے کیا مراد ہے؟

جواب:خودی سے مراد یہ ہے کہ ایک انسان اپنے آپ کو پہنچانے ،دوسروں کے تئیں اپنی ذمہ داریاں سمجھے، اپنی تمام تر زندگی حق وصداقت،دیانتداری،ایمانداری اور انصاف پرگزارے۔خودی انانیت،غرور وگھمنڈکا نام نہیں ہے۔

سوال: دنیا آج کل کس خطرے کی زد میں ہے؟

جواب: آج کل کی دنیا حسد،تنگ نظری،فریب،ذات پات،نسلی تشدد،دہشت گردی،قوم پرستی،مذہب پرستی،فرقہ پرستی وغیرہ خطرناک تفرکات کی زد میں ڈوبی ہے۔

سوال: اقبالؒ کی شاعری کے بنیادی فکری پہلو کیا ہیں؟

جواب : علامہ اقبالؒ کی شاعری کے بنیادی فکری پہلو یہ ہیں کہ عالمی دنیا میں ہر طرف انسانیت کا بول بالا ہو، ہر انسان دوسرے انسان کو انسان سمجھے نہ کہ حیوان ۔ایک دوسرے کے دکھوں کو بانٹے۔ اقبال چاہتے تھے کہ ہر انسان کا دل و دماغ،تعصب،ذات پات،رنگ ونسل سے صاف وپاک ہو۔

سوال: انسان اور انسانیت کی فلاح کے لیے اقبالؒ کا پیغام کیا ہے؟

جواب:علامہ کا پیغام انسانیت کے لئے یہ ہے کہ انسانیت کی خدمت ہو اور اس کے لئے ضروری ہے کہ انسانوں کے دل ودماغ، تعصب،ذات پات،رنگ ونسل،مشرق ومغرب،گورے وکالے و غیرہ بڑے تفرقات کی تمیزوں سے خالی ہو تب جاکے صحیح معنوں میں انسانیت کی جیت و خدمت ہوسکے گی۔

سوال: اس مقالے کا خلاصہ اپنے الفاظ میں لکھیے۔

جواب:خواجہ غلام السیدین کا یہ مقالہ بعنوانِ ”اقبال اور انسانیت“ ہماری درسی کتاب ”بہارستانِ اردو“ اردو کی دسویں کتاب کے حصۂ نثر میں شامل ہے۔ اس مقالہ میں خواجہ غلام السیدین نے اقبالؒ کی اِ س فکر کو روشن کیا ہے جس میں وہ چاہتے ہیں کہ ہر طرف انسانیت کا بول بالا ہو۔اپنی مثنوی ”اسرارِ خودی“ میں لکھتے ہیں کہ میری مثنوی لکھنے کا مقصد اسلام کی وکالت کرنا نہیں ہے میں اصل میں ایک بہتر انسانی سماجی کی بقا چاہتا ہوں۔

اقبالؒ نے اپنے کلام میں باربار ایک ایسے دل ودماغ والے انسان کی تصویر کھینچی ہے جو انسانی وحدت کی حقیقت کو سمجھ سکتا ہے۔ اقبالؒ نے سائنس کی اہمیت کو بھی مانا ہے مگر اس کے نقصانات بھی بتائے ہیں۔ اسی طرح ایک انسان اپنے وجود کو پہنچانے،دوسروں کے تئیں ذمہ داریاں سمجھے،اپنی تمام تر زندگی حق وصداقت،دیانتداری،ایمانداری وانصاف کے ساتھ گزارے، یہی اصل خودی ہے۔

علامہ اقبالؒ نے صالح انسان کی زندگی کے لیے جس چیز کو ضروری قرار دیا ہے وہ اپنی خودی کے ساتھ دوسروں کی خودی کا احترام کرنا ہے اور جس انسان میں یہ دونوں جمع ہوجائیں تو پھر اس انسان میں خوداری صداقت،دیانت داری اور جرات کا مادہ پیدا ہوجاتا ہے۔ اقبالؒ کا یہ پیغام نہ نیا ہے نہ ہی انوکھا۔ یہ باتیں پہلے دانشوروں نے بھی دہرائی ہیں۔ الغرض اقبالؒ کا پیغام آفاقی ہے اوراس کو دنیا میں عام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ کیوں کہ اقبالؒ جیسی شخصیت روز پیدا نہیں ہوتی ہے۔

سوال: جملوں میں استعمال کیجئے۔
( خیال ،تلاش کرنا ،ٹھیس ،حامی)

خیال ہمیں اپنی عزت کا ہمیشہ خیال رکھنا چاہیے۔
تلاش کرنا ہمیں کرونا وائرس کی دوا کی تلاش کرنی چاہیے۔
ٹھیس ہمیں کسی کے دل کو ٹھیس نہیں پہنچانی چاہیے۔
حامی ہمارا ہر حال میں اللہ ہی حامی و مدد گار ہے۔

خواجہ غلام السیدین کی حالاتِ زندگی اور اُن کے کارناموں کا تذکرہ کیجیے۔

حالات زندگی

جواب: خواجہ غلام السیدین کی پیدائش پانی پت میں 16 اکتوبر1904ء؁ کو ہوئی آپ کے والد صاحب کا نام خواجہ غلام الثقلین تھا جن کا سلسلہ شجرہ نسب مولانا حالی کے خاندان سے ملتا ہے۔ اس لئے تعلیم سے لگاؤ ورثے میں ہی ملا تھا۔ آپ پیدائشی ذہین اور محنتی تھے۔ آپ میڑک سے بی اے تک امتحانات میں اپنے صوبے میں اول آئے۔

ائیسی ایس امتحان پاس کرنے کے بعد حکومت نے انگلستان بھیجااور وہاں پرآ پ نے ایم ایڈ کی ڈگری حاصل کی۔ واپسی کے بعد ایڈمیسٹریٹر بننے سے بہتر ایک استاد بننا پسند کیا۔ علی گڑھ میں ایک انگلش اسکول کے پرنسپل مقرر ہوئے۔ پھرٹیچرس ٹریننگ کالج کے پرنسپل کے عہدے پر اپنے فرائض انجام دیتے رہے۔

رام پور میں مشیر کی حیثیت کے طور پر کام کیا۔ سرِ زمیں کشمیرمیں ڈاریکٹر تعلیم کا عہدہ بھی سنبھالا۔ اس کے علاوہ امریکہ کی کئی یونیورسٹیوں میں پروفیسر اور مشیر کی حیثیت کے طور بھی کام کیا۔ آ پ کا انتقال علی گڑھ میں 19 دسمبر 1971ء؁ میں ہوا پھرآپ کی تدفین جامعہ نگر کے قبرستان میں کی گئی۔

ادبی خدمات:

خواجہ غلام السیدین ایک تجربہ کار ماہر ِ تعلیم تصور کیے جاتے ہیں۔ آپ جنتا اچھا لکھتے تھے اتنا ہی بہتر تقریر کر تے تھے۔ آپ کو انگریزی زبان پر زبردست دسترس حاصل تھی یہی وجہ ہے انگریزی زبان میں زیادہ لکھا۔ اردو میں ان کی تصنیفات ”روحِ تہذیب“ آندھی میں چراغ“”اصول ِ تعلیم“ وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔

4: مصنف کا حوالہ دے کر درج ذیل اقتباس کو سیاق وسباق کے ساتھ اپنے الفاظ میں لکھیے۔

اپنے دل اور دماغ کے دروازوں کو کھو ل دو۔تاکہ تعصب اور تنگ نظری اور نسلی حس کے جالے صاف ہو جائیں تاکہ انسان، انسان کو اس کے اصلی روپ میں دیکھ سکے تاکہ محبت،دھیمی روشنی اورٹھنڈی ہوا، بند غنچوں کو پھول بنادے،تاکہ انسان ایک دوسرے کا خون پینے کے بجائے ایک دوسرے کے دُکھ سُکھ کے ساتھی بننا سیکھیں، تاکہ علم ارو سائنس کی فتح مندوں نے انسان کو جو بے اندازقُوت بخشی ہے وہ انسان کی سیوا کے لیے تخلیقی جدوجہد کے لیے زندگی کی گود کو فراغت اور خوشحالی اور اطمینان سے بھر نے کے لئے استعمال ہوسکے۔یہی اقبال کی شاعری کا مرکزی پیغام ہے۔

جواب: یہ اقتباس خواجہ غلام السیدین کے مقالے ”اقبال اور انسانیت“ سے لیا گیا ہے جو ہماری درسی کتاب”بہارستان اردو“’اردو کی دسویں کتاب‘کے حصے نثرمیں شامل ہے۔ مصنف اس اقتباس میں اقبال کے پیغام کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ایک انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے دل کی بستی کو تعصب،تنگ نظری یعنی ہربرائی سے پاک کرے تب جا کے ایک انسان کو دوسرا انسان اُس کی اصلی شکل وصورت میں نظر آئے گا اور دنیا میں امن وسکون کی فضا قائم ہو جائیگی۔نفرتیں مٹ جائیں گی، ایک انسان دو سرے انسان کا دکھ سکھ کا ساتھی بن جائے گا۔ جب سائنس کی ایجادات انسان کی بربادی کے بجائے اس کی بھلائی و خوشحالی کے طو ر پرکام آئے گی اور اس طرح انسان کی اپنی ساری زندگی امن وسکون اورآ رام کے ساتھ گزر جائیں گی۔

5: صحیح جواب تلاش کیجیے۔

۱۔”آندھی میں چراغ“ کے مصنف کا نام: ڈاکٹر اقبال،سرسید احمد خان،خواجہ غلام السیدین

جواب: خواجہ غلام السیدین

۲۔”کہکشاں“سے مراد ہے: ستاروں کا جھر مٹ ، سیاروں کا مجمع، چاند کا چکر

جواب: ستاروں کا جھر مٹ

٣- مولانا حالی“:جدید تعلیم کے مخالف تھے، جدید تعلیم کے حامی تھے، جدید تعلیم سے بے زار تھے

جواب:جدید تعلیم کے حامی تھے۔

۴۔”افسانہ“ ایسی نثری کہانی ہے جس میں: ایک یا ایک سے زیادہ کردار ہوسکتے ہیں، اشعار کاہونا ضروری ہے، پلاٹ نہیں ہوتا ہے۔

جواب:ایک یا ایک سے زیادہ کردار ہوسکتے ہیں۔

۵۔”باغ وبہار“ ایک: کہانی، ڈرامہ، داستان، ہے۔

جواب: داستان ہے۔

۶۔”خوشامد“ ایک: افسانہ، مقالہ، انشائیہ، ہے۔

جواب: انشائیہ ہے

6: مضمون: ١- سائنس کے فائدے ٢- سائنس کے نقصانات

مضمون سائنس کے فائدے

آج کا دور سائنس و انفامیشن ٹیکنالوجی کا دور کہلاتا ہے۔ پتھر کے دور سے ہی انسان نے آگ جلانا، پھر بعد کے ادوار میں پہیے کی ایجاد، گیہوں کے دانہ سے زراعت وغیرہ سے اپنی ترقی کی شروعات کی جو اب تک نہ رکنے، نہ تھمنے کا کہیں نام لیتی ہے۔ ایک زمانہ وہ تھا جب ایک انسان خوابوں و خیالوں کی دنیا میں محو رہتا تھا، جو پچھلے لوگوں کے خیالوں میں جو بات تھی وہ اب حقیقت بن گئی۔

ریڈیو،ٹیلی ویژن موبائل و انٹرنیٹ نے انسان کی تو زندگی ہی بدل دی۔آج کے دور کے انسان کے لئے انٹر نیٹ کے بغیر زندگی گزارنا مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن سی بن گئی ہے۔ آ ئے روز سائنس کی بدولت انسان کے ذریعے ایسی ایسی ایجادات وجود میں آ تی رہتی ہیں کہ جن سے ایک انسان کی عقل دنگ ہو کر رہ جاتی ہے۔

آ ج کی دنیا سائنس کی جدید ٹیکنالوجی کی وجہ سے گلوبل ویلیج کی حیثیت اختیار کر گئی ہے۔ دنیا کی پل پل کی خبروں اور واقعات سے ایک انسان لمحہ بھر میں آگاہی حاصل کرپاتا ہے۔ سائنس کا دعوی اب یہا ں تک بڑھ گیا کہ اگر ایک انسان یہ بتا دے کہ دنیا میں اس کا م کے لئے کوئی مشین،اوزار یا کوئی اپلیکیشن نہیں بنی ہے تو ا یسے انسان کو انعام واکرام سے نوازا جائے گا۔

مضمون سائنس کے نقصات

یوں تو خالقِ ارض و سماں نے اس کائنات کو کس مقصد کے تحت تخلیق کیا ہوگا یہ انسان کے لیے صیغہ راز رہا۔مگر جوں جوں ان رازوں سے پردے اٹھتے گئے، انسان کی عقل وفہم دنگ ہو کر رہ جاتی ہے۔

ربُ العالمین نے ہر چیز کی دو دو چیزیں بنائی ہیں تاکہ ایک انسان کی زندگی امن وسکون سے بسر ہوجائے۔ مثلاََ زمین و آسماں، چاند و سورج، رات و دن،مغرب ومشرق،شمال وجنوب، دائیں وبائیں، سچ و جھوٹ وغیرہ اسی طرح جہاں سائنس سے بے شمار،ان گنت فائدے و برکتیں حاصل ہوئیں ہیں وہیں اس سے کائنات کو بے پناہ نقصانات سے دوچار بھی ہونا پڑا ہے۔آج سائنس کی ایجادات کی بدولت سے کرہ ارض کو کئی طرح کے خطرات لائق ہیں۔

دو ایٹم بم جو یکے بعد دیگرے ناگہ ساکی اور ہیرو شیما پر ڈالئے گئے ان کی تباہ کاریوں سے انسانی زندگی سنتے اور پڑھتے ہی لرز جاتی ہے۔ پالیتھین کے بے شمار استعمال نے عالمی دنیاکو تباہی کے دہانے پر لاکے کھڑ اکردیا۔ کل تک جن ندی نالوں کا پانی کھانے پینے کی چیزوں میں استعمال ہوتا تھا وہ پالیتھین کے غیر ضروری استعمال سے زہر بن گیا ہے۔

ٹیلی ویژن، موبائل اور انٹر نیٹ کے استعما ل نے جدید دور کے انسان کو فحش گوئی کی طرح دھکیل دیا ہے۔ اب ہر انسان دوسرے انسان سے روٹھا روٹھا سا نظر آتا ہے۔ کسی میں کسی کے لئے نہ شفقت،نہ محبت،نہ ہی ہمدردی کا عنصر نظر آ تا ہے۔ الغرض جہاں سائنس نے انسانی زندگی کو آسان سے آسان تر بنادیا وہیں عالمی دنیا کو تباہی کے دہانے پر لاکے کھڑا کردیا۔ اب دنیا کے کئی ممالک کو ٹیکنالوجی یہاں تک حاصل ہوئی ہے اگر وہ چاہے تو اس دنیا کو ہی چند لمحات میں تباہ وبرباد کرسکتے ہیں۔

7: گرامر

اسم تصغیر:

اسم تصغیر وہ اسم ہے جس میں چھوٹے پن کے معنی پائے جائیں۔ مثلاََ دیکچہ، پیالی، نالی وغیرہ۔

اسم تصغیر بنانے کا قاعدہ

کبھی کسی لفظ کے آخر میں، یا،ی،لی،لا،ڑا، ڑی، ط،،چی،ٹا ،ک بڑھا دیتے ہیں جیسے پہاڑسے پہاڑی، بہن سے بہنا،پاگل سے پگلا و غیرہ
اردو میں فارسی اسم تصغیر بھی مستعمل ہیں جن کے آخر میں یچہ،چہ،یزہ، اوردک کی علامت موجود ہوتی ہے۔ مثلاََ صندوقچہ، باغیچہ ،مردک، پسرد وغیرہ۔

اسم تصغیر کے مختلف معنی

  • ۱۔ چھوٹائی کے معنی میں۔ باغ سے باغیچہ، دیگ سے دیگچہ وغیرہ۔
  • ۲۔ حقارت کے معنی میں۔مرد سے مردوا، ٹٹو سے ٹٹوا وغیرہ
  • ۳۔پیار اور محبت کے معنی میں۔ بہن سے بہنا، بھائی سے بھیا وغیرہ

مثالیں دیکھ کر خالی جگہیں بھریں:

لفظ لا حقہ اسم تصغیر
پہاڑ ی پہاڑی
انٹی ا انٹیا
ڈال ی ڈالی
ڈبہ ا ڈبا
تھال ی تھالی
بہن ا بہنا
نگر ی نگری
صندوق چہ صندوقچہ
دُم چی دمچی
طاق چہ طاقچہ
ڈول چی ڈولچی
کتاب چہ کتابچہ
بچھو ا بچھوا
بقچہ چی بقچی
دیگ چہ دیگچہ
دیگ چی دیگچی

8: جملہ

الگ الگ حروف کو حروف تہجی کہتے مثلاََ ا۔۔۔ب۔۔۔ ت۔۔۔۔۔ے جب یہ حروف دو یا دو سے زیادہ ملتے ہیں تو لفظ بناتے ہیں اور جب دو یا دو سے زیادہ الفاظ آپس میں ملتے ہیں تو جملہ بنتا ہے۔

دو یا دو سے زائد الفاظ کامرکب جس سے کہنے والے کا مطلب سننے والے کی سمجھ میں آ جائے جُملہ کہلاتا ہے۔ جیسے؛ مشتاق آیا، وغیرہ

مسند کے لحاظ سے جملے کی دو قسمیں ہیں ۱۔ جملہ اسمیہ ۲۔ جملہ فعلیہ

۱۔جملہ اسمیہ:

وہ جملہ ہے جس میں مسند اور مسند الیہ دونوں اسم ہوں۔ جیسے؛ احمد بیمار ہے ،راشد ڈاکٹر ہے وغیرہ

۲۔جملہ فعلیہ:

جملہ فعلیہ وہ جملہ ہوتا ہے جس میں مسند الیہ، اور مسند فعل ہو جیسے بشیر کھیلتا ہے، احمدہنستا ہے وغیرہ

کسی چیز کو کسی دوسرے کے لئے ثابت کرنا جیسے ”مشتاق آیا“ اس میں ”آیا“ مشتاق کے لیے ثابت کیا گیا ہے جسے ثابت کیا جائے وہ ”مسند“ کہلاتا ہے اور جس کے کیے ثابت کیا جائے ”مسند الیہ“ کہلاتا ہے اور اسی طرح”بشیر کھیلتاہے“ میں بشیر”مسند الیہ“ اور کھیلتا”مسند“ ہے۔ یاد رہے مسند، اسم اور فعل دونوں ہوسکتے ہیں جبکہ مسند الیہ ہمیشہ اسم ہی ہوتاہے۔

اسم:

ایسے الفاظ جوکسی بھی چیز،جگہ یا جاندار کا نام بتائیں اسم کہلاتے ہیں۔ جیسے؛ کتاب، میز،دہلی وغیرہ۔ اسم پہنچانے کی ایک بڑ ی پہچان یہ ہے کہ انسان جو کچھ آنکھوں سے دیکھ سکتا ہے یا جسم سے چھو سکتا ہے یا محسوس کرسکتا ہے عموماََ اسم ہی ہوتے ہیں۔ جیسے؛ ”کتاب“” میز“ انسان اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتا ہے مگر اس کے برعکس”سردی“ ”گرمی“ کو محسوس کرسکتا ہے یاد رہے اسم کی اپنی نوعیت کے حساب سے کئی اقسام ہیں جن کے اپنے اپنے نام ہیں۔

معنوں کے لحاظ سے جملے کی دو قسمیں ہیں
۱۔ جملہ انشائیہ ۲۔ جملہ خبریہ

۱۔ جملہ انشائیہ :

وہ جملہ ہوتا ہے جس میں فعل امر، فعل نہی،سوال،تعجب،انبساط،تمنا وغیرہ پائی جائے جیسے نماز پڑھ(امر)،جھوٹ نہ بھول(نہی)،آپ کا کیانام ہیں؟(استفہام یا سوال)،کاش! کرونا وائس کا علاج نکلتا(تمنا) وغیرہ

۲۔ جملہ خبریہ :

وہ جملہ جس میں کسی بات کی خبر دی جائے اور بولنے والے کے لئے سچا یا جھوٹا کہہ سکیں۔ جملہ اسمیہ کی دوقسمیں ہیں۔
۱۔جملہ اسمیہ خبریہ
۲۔ جملہ فعلیہ خبریہ

۱۔جملہ اسمیہ خبریہ:

وہ جملہ ہے جس میں مسند اور مسند الیہ دونوں اسم ہوں مثلاََ شبیر چالاک ہے وغیرہ اس مثال میں شبیر’اسم‘ مسند الیہ ہے جبکہ چالاک’اسم صفت‘ مسند ہے۔

جملہ اسمیہ کے اجزاء:

۱۔اسم یا مبتدا ۲۔متعلق فعل۳۔خبر۴۔فعل ناقص وغیرہ مثلاََمشتاق بیمار ہے مشتاق(اسم یا مبتدا) بیمار(خبر) اور۔ ہے (فاعل نقص)

جملہ فعلیہ کے اجزاء:

۱۔ فعل ۲۔ فاعل۳۔ مفعول۴۔متعلق فعل۵۔ علامت فاعل۶۔ علامت مفعول وغیرہ مثلاََ بشیر دوڈتا ہے بشیر(فاعل) ،دوڈتا(فعل) ، ہے (فعل ناقص)

جملہ فعلیہ میں مسند الیہ کو فاعل کہا جاتا ہے اورمسند میں فعل اورمفعول کا ذکر کیاجاتا ہے۔

ترکیب نحوی:

جملے کے اجزا کو الگ الگ کرنا اور ان کے باہمی تعلق کو ظاہر کرنا ترکیبِ نحوی کہلاتا ہے۔

9: نیچے دیے ہوئے جملوں میں سے جملہ اسمیہ اور جملہ فعلیہ الگ الگ کریں:
مقصوردوڑتا ہے ،حمید نادان ہے، محبوب نے گانا گایا ،خورشید چالاک ہے، اشرف کھیلتا ہے ، رمیش نے پانی پیا، کواکالا ہے

جملہ اسمیہ: جملہ فعلیہ:
حمید نادان ہے، محبوب نے گانا گایا
خورشید چالاک ہے اشرف کھیلتا ہے
کواکالا ہے رمیش نے پانی پیا