علامہ اقبال کی قطعہ نگاری

0

آپ نے بانگِ درا میں علامہ اقبالؒ کا یہ مشہور قطعہ ”عید پر شعر لکھنے کی فرمائش کے جواب میں“ کئی بار پڑھا ہوگا۔ یہ دراصل مسلمانوں کے زوال کا ایک پر درد مرثیہ ہے جو لاہور کے مشہور تاریخی باغ ”شالامار“ کے ایک ”برگ زرد“ کی زبانی بیان کیا گیا۔ اس ”برگ زرد“ کو حضرت علامہؒ نے ”موسم گل کا راز دار“ کہا ہے۔ نظم میں ہمارے شان دار ماضی کے تذکرے کے ساتھ گزشتہ تہذیب و تمدن کی وہ جھلکیاں دکھائی گئی ہیں جو اب ہماری آنکھوں سے اوجھل ہو چکیں۔ ایک ایک لفظ میں جہانِ معنی پنہاں ہے۔ ہر مصرع پر مضمون لکھا جا سکتا ہے،

گیا وہ موسم گلگ جس کا رازدار ہوں
اُجاڑ ہو گئے عہد کہن کے میخانے
خزاں میں مجھ کو رلاتی ہے یاد فصل بہار
خوشی ہو عید کی کیونکر کہ سوگوار ہوں میں!

اقبالؒ نے یہ اشعار کب اور کس کی فرمائش پر لکھے؟ یہ سوالات پڑھنے والے کے دل میں پیدا ہوتے ہیں اور ان کا جواب شاید دلچسپی سے خالی نہ ہو۔ دلچسپ اس لئے بھی کہ اقبالؒ فرمائشوں پر بہت کم توجہ دیتے تھے۔ وہ شخص کس قدر خوش نصیب ہوگا جو اقبالؒ کو گرم سوز و ساز کر سکا اور جس کی تحریک پر انہوں نے یہ دل دوز قطعہ لکھا۔کراچی کے انگریزی روزنامہ ڈان نے 1950 میں اس اخبار کا اردو ایڈیشن شائع کرنے کا تجربہ بھی کیا جس کی ادارات الطاف حسین، سید حسن ریاض اور فیض احمد صدیقی کے سپرد تھی۔ اس کی 22اپریل 1950 کی اشاعت میں جناب بدر الحسن اختر بد ایوانی کا ایک مضمون شائع ہوا۔

مضمون نگار نے یہ انکشاف کرتے ہوئے کہ علامہ اقبالؒ نے یہ نظم بدایوں کے مولوی نظام الدین حسین، مدیر ہفتہ وار ذوالقرنین کی فرمائش پر لکھی تھی۔ میں نے اس تحقیق کو آگے بڑھایا اور مولوی نظام الدین حسین نظامی مرحوم کے پوتے ، جمال الدین مونس سے 12 اگست 1915کے ذوالقرنین کا وہ پرچہ حاصل کر لیا جس میں اس نظم کی شانِ نزول کی پوری کیفیت دی گئی۔واقعہ یہ ہے کہ مولوی نظام الدین نے اگست ۵۱۹۱ءمیں عید الفطر کی تقریب پُر سعید پر بدایوں میں اپنی شان اور نوعیت کا ایک انوکھا مشاعرہ منعقد کیا۔

یہ ایک قسم کا عید ملن جشن تھا۔مقامی شاعروں کے علاوہ باہر سے بھی چند بزرگ شاعروں کو مدعو کیا گیا۔ ان میں سے لسان العصر حضرت اکبر الہ آبادی اور علامہ نے اپنی بعض مجبوریوں کا عذر کر کے مشاعرے میں شرکت تو نہ کی لیکن اپنی نظمیں ڈاک کے ذریعے بھیج دیں۔ جو خاص عید کے موضوع پر مولوی نظامی کی فرمائش کے جواب میں تھیں۔یہ دونوں نظمیں 14 اگست کے مشاعرے میں جو سید محفوظ علی بدایونی کی صدارت میں ہوا تھا پڑھوانے کے بعد جشن عید کی پوری روداد کے ساتھ 12 اگست 1915 کے ذوالقرنین میں شائع کر دی گئیں۔

مشاعرے کی تمام غزلیں اور نظمیں پڑھنے کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اظہار و بیان کے اسلوب اور پیرائے مختلف ہونے کے باوجود جذبات سب کے ایک جیسے تھے۔یہ جنگ عظیم کا زمانہ تھا۔ ترکی اور دیگر اسلامی ریاستوں میں آگ کے شعلے بھڑک رہے تھے۔ مسلمان جہاں کہیں بھی تھے اپنے دینی بھائیوں کی تباہی و بربادی کی لرزہ خیز داستانیں سن سن کر خون کے آنسو رو رہے تھے۔ اسی لئے اکبر الہ آبادی نے اپنی نظم میں کہا:

پیش نظر ہمارے ہے شام شب فراق
اس کی سحر جو ہو تو ہماری بھی عید ہو

اقبالؒ بھی سوگوار تھے۔ ان کی یہ نظم انہی جذبات کی آئینہ دار ہے:

پیام عیش و مسرت ہمیں سناتا ہے!
ہلالِ عید ہماری ہنسی اُڑاتا ہے!

جب یہ قطعہ اخبار ذوالقرنین میں شائع ہوا تو اس کے آٹھ شعر تھے۔ بانگِ درا کی ترتیب کے وقت اس سے دو شعر حذف کر دیئے گئے۔ یوں فرمائش کرنے والے کا نام نکلنے سے اور نظم کا عنوان ایک معمہ بن کر رہ گیا۔دوسرا قطعہ ”وحی“ کے زیر عنوان ضرب کلیم میں شامل ہے۔اقبالؒ اپنے گلے کی بیماری کے برقی علاج کے لئے اکثر بھوپال جاتے اور سر راس مسعود کے ہاں کئی دن مہمان رہتے۔ ڈاکٹر ظہیر الدین احمد الجامعی (مرحوم) صدر شعبہ مذہب و ثقافت ، جامع عثمانیہ، حیدر آباد دکن، درج ذیل واقعے کے راوی ہیں:ایک مرتبہ لاہور جاتے ہوئے میں راس مسعود سے ملنے بھوپال اتر گیا۔ اتفاق سے اقبال بھی مسعود ہی کے مکان پر فروکش تھے۔ لیکن بیماری کا ان پر غلبہ تھا۔ معراج کی شب تھی۔ مسعود کا مدار لہمام امور مذہبی کی حیثیت سے مسجد شاہ جہانی میں منعقدہ تقریب میں شریک ہونا شاید ضروری تھا۔ تقریب معراج میں جاتے ہوئے مسعود نے مجھے بھی ساتھ لے لیا۔

منبر پر فروکش ایک مولانا وعظ فرما رہے تھے۔ انہوں نے وحی اور نبوت کے اسرار جس عالمانہ انداز میں پیش کئے اور جس دریدہ دہنی کے ساتھ اس موقع پر اقبالؒ کے کلام سے استناد کیا راس مسعود کو اس جہل و جرا¿ت نے بہت دکھ پہنچایا۔ وہ ان مہملات کو سننے کی تاب نہ لا سکے۔ زیادہ دیر تک وہاں نہ ٹھہرے اور جلد ہی لوٹ آئے۔گھر پہنچے تو اقبالؒ جاگ رہے تھے۔ مسعود نے ان کا دل بہلانے کی خاطر نہایت ہی دلچسپ اور شیریں انداز میں مولانا کی اس ہرزہ سرائی کا ذکر کیا جس سے وہ خود تو پُر دل ہوئے تھے، لیکن اقبالؒ کو خوش دل کر دیا۔اقبال کے لئے مُلا جی کی ہرزہ سرائی نے مہمیز کا کام کیا اور بہترین الہام کا سامان مہیا کر دیا۔ ڈاکٹر ظہیر فرماتے ہیں صبح جب ہم اقبال کے ہاں چائے پی رہے تھے تو اقبال نے کہا کہ رات ”حقیقت وحی“ کے متعلق بے ساختہ ایک خیال نظم ہو گیا:

عقل بے مایہ امامت کی سزاوار نہیں
راہبر ہو ظن و تخمیں تو زبوں کار حیات!
فکر بے نور ترا، جذبِ عقل بے بنیاد!
سخت مشکل ہے کہ روشن ہو شب تارِ حیات!
خوب و ناخوب عمل کی ہو گرہ وا کیونکر
گر حیات آپ نہ ہو شارحِ اسرارِ حیات“

ڈاکٹر ظہیر فرماتے ہیں”حقیقت وحی“ کے متعلق اس اظہار خیال کو خود اقبالؒ کی زبانی سن کر عجیب وجد اور سرشاری کی کیفیت تھی جو صرف محسوس کی جا سکتی ہے۔الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں۔خوب کہا ہے :

فاش می خواہی اگر اسرارِ دیں
جز باعماق ضمیر خود مبیں

(دین کے راز اگر فاش دیکھنا چاہے، تو اپنے ضمیر کی گہرائی کے سوا کہیں نہ دیکھ) گویا:

حقیقت را بہ رندے فاش کروند
کہ ملا کم شناسد رازِ دیں را

(فاش اک رند پہ قدرت نے حقیقت کو کیا دین کی رمز کو مُلا نے نہیں پہچانا)

تحریر محمد ذیشان اکرم