پسِ منظر:

محمد شاہی دور میں ریختہ کی شاعری کو قبول عام مل چکا تھا۔ اس دور میں ایہام کی تحریک بلبلے کی طرح اٹھی۔ ایک مختصر سے عرصے کے لیے رقص آب کا مظاہرہ کیا اور پھرختم ہوگئی۔ اس تحریک کے بہت سے شعرا سپاہی پیشہ، داروغوگان مطبخ اور ملازم تھے۔ چنانچہ ایہام کی تحریک فارسی کے بلند پایہ شعرا کی مخالفت میں نسبتاً کم تر درجے کے شعرا کی تحریک تھی۔

اس تحریک کے خلاف رد عمل میرزا مظہر جان جاناں جیسے شاعر نے ظاہر کیا۔ جو تیموری خاندان کا نواسا تھا اور جس کے والد اورنگ زیب عالم گیر کے دربار میں صاحب منصب تھے۔ میرزا مظہر جان جاناں کا نسب باپ کی طرف سے محمد ابن حنیفہ سے ملتا ہے۔ اس لحاظ سے ان کی رگوں میں عرب اور عجم دونوں کا خون دوڑ رہا تھا اور اس میں ہندوستانی خون کی آمیزش نہیں ہوئی تھی۔

میرزا مظہر جان جاناں کی شخصیت کا دوسرا زاویہ تصوف سے پھوٹتا ہے۔ میرزا مظہر جان جاناں خود بھی صاحب طریقت تھے اور ان کا تعلق نقشبندی سلسلے کے ساتھ تھا۔ انھوں نے علم حدیث با اصول پڑھا تھا اور حنفی مذہب کی شریعت کو صدق دل سے ادا کرتے تھے۔ میرزا مظہر جان جاناں کی سلاست طبع اور لطافت کی بڑی شہرت ہے۔ چنانچہ ان کی نازک طبعی نے ایہام کو قبول نہ کیا اور اسے متروک قرار دے کر اپنے عہد کے شعرا کا طبقہ الگ کر دیا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ایہام کے تصنع کے خلاف میرزا مظہر جان جاناں نے مضبوط آواز اٹھائی تاہم اسے صرف ان کے لطیف مزاج کا رد عمل قرار دینا ممکن نہیں۔حقیقت یہ ہے کہ ردعمل کی نئی اسلامی تحریک کے پس پشت کچھ دوسرے عوامل بھی کارفرما تھے اور ان میں زیادہ اہمیت اس تصادم کو حاصل ہے جو ہندی اور ایرانی تہذیبوں کے مابین برصغیر میں رونما ہورہا تھا۔ مغلوں کا زوال در حقیقت عجمی تحریک کا زوال تھا۔ اس تحریک کے پیچھے جو مقاصد کارفرما تھے وہ ذیل میں پیش کیے گئے ہیں۔

اصلاح زبان کی تحریک کے مقاصد:

اصلاح زبان کی تحریک کا شمار اردو میں سر اٹھانے والی اہم تحریکوں میں کیا جاتا تھا۔ یہ تحریک دراصل ایہام گوئی کی تحریک کے ردعمل کے طور پر سامنے آئی لیکن اس کے کچھ مقاصد بھی مقرر تھے۔اصلاح زبان کی تحریک کا ایک مقصد اردو زبان کو ہندی سے پاک کرنا تھا۔ اس تحریک کا مقصد ریختہ میں فارسی الفاظ ، تراکیب اور صنعتوں کا استعمال کرنا تھا۔جس کا ذکر کرتے ہوئے میر تقی میر نے بھی لکھا کہ شاعری میں فارسی کی محض وہ تراکیب لائی جانی چاہیے جو زبانِ ریختہ کے مناسب ہوں۔ایسی تراکیب جو ریختہ کے لیے معیوب ہوں ان کا لانا مناسب نہیں ہے۔اس وقت تک دلی میں چونکہ فارسی آمیز اردو کا اثر موجود تھا اس لیے اس رویے کو جلد مقبولیت ملی۔

اصلاح زبان کی تحریک میں نمایاں کردار ادا کرنے والی شخصیات:

اصلاح زبان کی تحریک کا عملی طور پر آغاز اگرچہ مرزا مظہر جان جاناں سے ہوتا ہے۔ان کو اس تحریک میں اولیت کا مقام حاصل ہے۔ جن کا ساتھ انعام اللّٰہ خان یقین نے دیا۔وہ دور اگرچہ ایہام گوئی کا دور تھا جس میں بڑے بڑے اور نامور شعرا اپنا نام پیدا کر چکے تھے۔انھیں میں سے ایک شا عر شاہ حاتم بھی تھے۔ اولین طور پر تو انھوں نے ایک جامد شاعر نہ ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے ایہام گوئی کی تحریک کو نہ صرف قبول کیا بلکہ اس فن میں ترقی بھی پائی مگر ان کا ذہن مسلسل آنے والے وقت کے قدموں کی چاپ سن رہا تھا۔

یوں شاہ حاتم نے ایہام گوئی سے اصلاح زبان کا سفر کرتے ہوئے نہ صرف اصلاح زبان کی ایک نئی منزل کی جانب قدم بڑھایا بلکہ انھوں نے اپنی تصنیف ”دیوان زادہ“ کے دیباچے میں اصلاح زبان کے کچھ اصول وضع کیے اور متروکات کی ایک فہرست بھی مرتب کی۔ان کے ان خیالات سے اس وقت کی زبان کے بدلتے ہوئے ڈھانچے سامنے آئے۔

اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اس وقت ریختہ یا اردو زبان پر مقامی زبانوں کا اثر بھی غالب تھا۔ چنانچہ شاہ حاتم نے ایک مرکزی زبان کی جانب توجہ مبذول کی اور زبان کو غیر مانوس الفاظ سے پاک کرنے کا ارادہ کیا۔ انھوں نے نہ صرف متروک الفاظ کی فہرست بنائی بلکہ اس کے متبادل مانوس الفاظ بھی پیش کیے۔ مثال کے طور پر قدیم رائج لفظ انکھیاں کے لیے آنکھیں ، جیو کےلیے جی ، سرج کے لیے سورج اور رین کےلیے رات وغیرہ جیسے الفاظ کا اقافہ کیا۔ شاہ حاتم نے جو قواعد مرتب کیے خود بھی اس پر عمل کیا اور اس وقت کے شعرا میرزا مظہر جان جاناں ، یقین ، تاباں ، سودا،میر درد اور میر تقی میر جیسے شعرا نے ان کا ساتھ بھی دیا۔جیسے کہ میر نے لکھا کہ ؀

دل کس طرح نہ کھینچیں اشعار ریختہ کے
بہتر کیا ہے میں نے اس عیب کو ہنر سے

میرزا مظہر جان جاناں کا نام اصلاح زبان کی تحریک میں ایک خاص مقام رکھتا ہے۔ آپ کی شخصیت اس تحریک کا نقطۂ آغاز ٹھہری۔ آپ نے فارسی اور اردو زبان کو ایک تار سے بننے کی کوشش کی اور اس کام کو مذہبی اور سیاسی فریضہ سمجھ کر ادا کیا۔ان کا حلقہ احباب زیادہ ہونے کے باعث ان کا یہ رویہ جلد مقبول بھی ہو گیا۔یہی وجہ ہے کہ ان کو اردو کا لسانی اسلوب کے ڈھانچے میں استوار کرنے والے ادیبوں میں شمار کیا جاتا ہے۔

مرزا رفیع سودا کا شمار غزل اور قصیدے کے قادر الکلام شعرا میں کیا جاتا ہے۔آپ نے شاعری میں اضافتوں اور تراکیب کے استعمال سے کفایت لفظی کے رجحان کو فروغ دیا۔جیسے کہ سرِزخمِ دل ، فرشِ پا ، صیادِگلِ اندام وغیرہ۔ انھوں نے فارسی زبان کو اردو کے خمیر میں یوں شامل کیا کہ بعض اوقات اردو کا پرانا روپ نہ پہچانا جا سکتا تھا۔

اصلاح زبان کی اس تحریک میں میر تقی میر نے بھی حصہ ڈالا۔ ان کی زبان میں دلی کے تہذیبی نقوش اور وہاں کے عام لوگوں کا لہجہ موجود تھا۔وہ دلی کی جامع مسجد کی سیڑھیوں پر بولی جانے والی زبان کو برتنے کا دعویٰ کرتے تھے۔ میر نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ” نکات الشعراء” میں ریختہ میں فارسی حروف ،افعال اور غیر مانوس الفاظ ،تراکیب اور بندشوں کے استعمال کو ممنوع قرار دیا۔ لیکن فارسی کی وہ تراکیب جو زبانِ ریختہ سے مناسبت رکھتی تھی قبول کرنے کی اجازت دی۔ میر نے جس طرح جلالی کی بجائے کومل اور لطیف زبان استعمال کرنے کا مشورہ دیا اس سے ان کی اپنی شاعری جگمگا اٹھی۔

لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت
آفاق کی اس کار گہہِ شیشہ گری کا

میر کی زبان نے اردو گرائمر کو بھی متاثر کیا انھوں نے سیر ، جراحت ، جان اور خلعش جیسے الفاظ کو مذکر باندھا جبکہ خواب ، حشر ، گلزار اور مزار جیسے الفاظ کو مؤنث باندھا۔ اردو زبان پہلے شاہ حاتم ، مظہر جانِ جاناں اور میر جیسے شعرا کے زمانے کی لسانی اصطلاحات سے گزر رہی تھی۔اس وقت تک یہ زبان ایک مقبول زبان بن چکی تھی، مصحفی اور ناسخ کے دور میں یہ زبان ایک نئے دور سے گزری۔ اس دور میں اس زبان کی آرائش و سجاوٹ کی جانب توجہ کی جانے لگی۔

مصحفی نے اپنے رائج الوقت محاورے کی زبان کے حسن کو اجاگر کیا اور لفظ کو گنجینہ معنی کا طلسم شمار کیا۔انھوں نے دبستانِ لکھنؤ کی زبان کو تصنع اور ایہام سے پاک کیا۔تحریک اصلاح زبان کا یہ دور اساتذہ کی تقلید کے رویے کو سامنے لاتا ہے۔سودا اور میر نے زبان کو عجمی سانچے میں اتارا تو اس کا مادری مزاج سے تعلق برائے نام رہ گیا۔دونوں نے شاہ حاتم کے قواعد کی مکمل پابندی تو نہ کی اور تخلیقی عمل کو آزاد چھوڑا مگر کچھ تخلیقات خود بخود متروکات کا حصہ بن گئیں۔

اس رویے کی وجہ سے زبان یکسانیت کا شکار ہونے لگی۔ زبان پر یکسانیت جمود کا جو دود آیا تھا اس کو توڑنے میں اہم کردار ناسخ نے ادا کیا۔ناسخ نے اردو زبان کو سنگلاخ زمینوں اور لفظوں کا اسیر بنایا۔ انھوں نے زبان کی اصلاح میں متشدد رویہ اپناتے ہوئے قدیم پیغمبرانِ سخن کی شریعتوں کو منسوخ کیا۔ناسخ نے دلی اور لکھنو کی زبانوں کو ان کے مزاج کے مطابق تقسیم کیا۔قدیم طریقے کو بدلتے ہوئے فصاحت و بلاغت کے نئے اصول فارسی قواعد و ضوابط کے مطابق متعین کیے۔ مقامی پراکرتوں کے الفاظ کو نکال کر اس کی جگہ عربی اور فارسی کے کچھ پیچیدہ الفاظ شامل کیے۔جس کی بدولت اردو زبان میں سادگی ، سلاست اور نرمی آنے کے باعث عوام میں اس کی مقبولیت میں اضافہ ہوا۔

ناسخ کی لسانی تحریک بنیادی طور پر اردو زبان کے لکھنوی انداز کو پیش کرتی ہے۔ناسخ نے اردو زبان میں جن تبدیلیوں کو رواج دیا ان میں سب سے اہم فارسی اور عربی الفاظ کا استعمال تھا۔ ناسخ کے متروک الفاظ میں چند الفاظ یہ ہیں۔ جگ کے لیے دنیا ، سجن کے لیے صنم ، ٹک کے لیے ذرا اور دارو کے لیے دوا وغیرہ جیسے الفاظ استعمال کیے۔

ناسخ نے جن الفاظ کو رواج دیا ان میں سے بیشتر اب اردو کا حصہ نہیں ہیں۔ ان کے کچھ متروک کیے گئے الفاظ کا اردو میں نعم البدل بھی نہیں ملتا ہے۔ ناسخ نے اصلاح زبان کے ان قوانین کے لیے جو اصول مقرر کیے وہ کچھ یوں تھے کہ الفاظ حشو و زوائد سے پاک ہوں ، تنافر ، غرابت اور تعقید سے بچنے کو کہا۔ بندش فارسی کی ہونا ضروری قرار دیا۔اس سب کا نتیجہ یہ ہوا کہ زبان میں فارسی کے الفاظ کی اضافتوں میں اضافہ ہونے لگا۔

ناسخ نے اردو کی صرف و نحو کودرست کیا۔روزمرہ اور محاورہ کو چھانا اور اس کے قاعدے مقرر کیے۔ مستعمل الفاظ کی تذکیر و تانیث میں تبدیلیاں لائیں اور محاورہ دہلی کے مقابلے میں محاورہ لکھنو وضع کیا۔ اس تمام کا اخلاقی پہلو یہ سامنے آیا کہ زبان میں فحش الفاظ کے استعمال میں پابندی سے فحش نگاری کا رجحان ختم ہو گیا۔ مقامی زبانوں کی تراش خراش ،چھانٹ اور الفاظ کے استعمال کی پابندی سے اردو زبان سے ہندی رس ختم ہو کر یہ فارسی کے زیادہ قریب ہو گئی۔

ناسخ کی تحریک کے متوازی ہی دلی میں ایک زاویہ غالب کی شخصیت کی صورت میں ابھرا۔غالب کا فارسی زبان و ادب سے فطری لگاؤ تھا یہی وجہ ہے کہ جب وہ اردو شاعری کی جانب راغب ہوئے تو ان پر فارسیت کا رنگ گہرا ہو چکا تھا۔غالب اپنی شاعری میں معنویت کو لفاظی پر بھی ترجیح دیتے تھے۔ اس لیے ناسخ نے اصلاح زبان ،کفایت اور لفظی بندش و تراکیب وغیرہ کے جو اصول بتائے تھے غالب نے اپنی شاعری میں ان سب کو کسی خارجی تحریک کے بغیر عملی طور پر استعمال کر لیا۔لیکن بہت جلد ہی اس تحریک کے ردعمل کا ایک زاویہ بھی ابھرا۔

اصلاح زبان کی تحریک کا ردعمل:

اصلاح زبان کی تحریک کے ردعمل کے طور پر انشاء کا نام سامنے آتا ہے۔اصلاح زبان کی تحریک کے بدولت زبانِ ریختہ مقامی زبانوں سے بے رنگ ہو چکی تھی۔ لیکن انشا نے مقامی زبانوں کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے زبان کو ان کے رنگ سے روشناس کروانا شروع کیا۔ انشا نے فارسی اور عربی زبان کی پیروی چھوڑ کر اردو کی اصلیت کو اجاگر کیا۔

انشا نے اردو شاعری میں ہندوستان کا معاشرتی مزاج سمونے کی کوشش کی۔مشکل پسندی اور سہل گوئی کے دو سروں کو سر کرکے انھوں نے لکھنو کی زبان دانی کو پھلجھڑی بنایا۔انشا نے زبان دانی کے یہ جوہر ”رانی کیتکی کی کہانی“ میں دکھائے۔انشا کی تحریک کا یہ ردعمل سامنے آیا کہ زبان سے فارسی کا غلبہ شعوری طور پر کم ہونے لگا۔ اس تحریک نے اردو زبان کو سادہ گوئی کی ڈگر پہ ڈالا۔ ادب میں ہندوستانی عناصر کو سمونے کی کوشش کی اور اردو میں انگریزی الفاظ کو رواج دینے کی ابتدا بھی کی۔ اس ردعمل میں دیگر شعرا میں نظیر اکبر آبادی ، ذوق اور بہادر شاہ ظفر کا نمایاں کرادر رہا۔ مجموعی طور پر اس زبان نے جہاں اردو کو ایہام گوئی کے اثر سے نکالا وہیں اس پر فارسیت کی ایک تہہ بھی جمائی لیکن جلد اس کو سادہ گوئی کی راستے پر بھی ڈالا۔

سوالات:

  • اصلاح زبان کی تحریک سے کیا مراد ہے؟
  • اصلاح زبان کی تحریک کس تحریک کا ردعمل ہے؟
  • اصلاح زبان کی تحریک کا پسِ منظر بیان کریں؟
  • اصلاح زبان کی تحریک کا آغاز کس شاعر نے کیا؟
  • اصلاح زبان کی تحریک کے مقاصد کیا تھے؟
  • اصلاح زبان کی تحریک کے خلاف ردعمل کس شاعر نے ظاہر کیا؟