اسلام میں خاندان کی اہمیت

0
  • سبق نمبر 23:

(الف) مندرجہ ذیل سوالات کے تفصیلی جوابات تحریر کریں:

۱۔ اسلام میں خاندان کی اہمیت پر مضمون تحریر کریں۔

جواب: خاندان کی ضرورت و اہمیت:

خاندان و کنبہ سے ہی معاشرتی زندگی کی شروعات ہوتی ہے۔ خاندان کی ابتدا مرد و عورت (شوہر اور بیوی) کے باہمی نکاح سے شروع ہوتی ہے۔ اسی بنا پر اسلام دونوں مرد و عورت کو مساوی اہمیت دیتا ہے۔ ہر ایک کا دائرہ متعین ہے، اسلام ہر ایک کے حقوق و فرائض کی ادائیگی پر تلقین و تاکید کرتا ہے۔ قرآن مجیدمیں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ: اے لوگو! بے شک ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا۔(سورۃ الحجرات)

انسانوں کے علاوہ خاندان اور رشتوں ناطوں کا تصور کسی بھی مخلوق میں موجود نہیں، یہ شرف اشرف المخلوقات انسان کو حاصل ہے کہ وہ گھر میں ماں، باپ، دادا،دادی، بہن، بھائیوں اور اولاد کی حیثیت سے عزت و احترام، پیار و محبت سے پیش آتے ہیں۔ مرد کما کر لاتا ہے ان کی ضروریات کو پورا کرتا ہے اگر ان کے درمیان ان بن ہو جائے تو خوش دلی سے ان کا تصفیہ کراتا ہے، یہ تمام چیزیں ایک خاندن کی بدولت ظاہر ہوتی ہے اس لیے اسلام نے خاندنا کو سماج اور صالح معاشرہ کی زینت بنایا ہے۔

خاندانی نظام کی اہمیت:

1۔نسل انسانی کی بقاء:

خاندانی نظام یا عائلی زندگی کا مقصد نسل انسانی کی افزائش اور اس کی بقاء ہے۔

2۔ نکاح:

عائلی زندگی مردوزن کے درمیان نکاح سے شروع ہوتی ہے اور نکاح رسول اللہ صلی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کی سنت ہے، لہٰذا معاشرے کی بنیادی ستون خاندان نکاح کے ذریعہ وجود میں آتا ہے۔

3۔ بدکاری سے حفاظت:

خاندانی زندگی سے مرد و عورت دونوں کو پاکیزہ زندگی گزارنے کا موقع ملتا ہے کیونکہ بدکاری اور زنا کو اللہ نے بہت براراستہ قرار دیا ہے جس سے معاشرہ بگاڑ کاشکار ہو جاتا ہے۔

4۔ معاشرے کا استحکام:

کسی معاشرے کی بنیاد خاندانی نظام اور مرد و عورت کی پاکیزہ عائلی زندگی ہے۔ اس سے معاشرے میں استحکام پیدا ہوتا ہے۔ اگر اس بنیاد یعنی خاندانی زندگی کو ختم کر دیا جائے تو معاشرہ میں انتشاروافساد پیدا ہو جائے گا۔

5۔ سکون کا ذریعہ:

اور اللہ کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمہاری ہی جانوں سے تمہارے جوڑے پیدا کیے تاکہ ان سے تم سکون حاصل کرو اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کی۔

والدین کے قرابت داروں کے ساتھ بھی اچھا سلوک کرنا، بہن بھائی اور وہ رشتہ دار جو ماں باپ کے تعلق سے رشتہ دار ہیں مثلاً دادا، دادی،نانا،نانی،چچا،چچی،پھوپھا،پھوپھی، خالہ، خالو، ماموں، مامی اور ان کی اولاد سب کے ساتھ حسن سلوک روا رکھنے اور ان کی مالی مدد کرنے کا حکم دیا گیاہے۔
قرابت دار بلکہ ہر مسلمان کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آنا چاہئے، ان کو ایذادینا حرام ہے۔۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ: (اے محمد صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ)لوگو سے پوچھتے ہیں کہ (اللہ کی راہ میں) کس طرح کا مال خرچ کریں۔کہہ دیجئے کہ (جو چاہو خرچ کرو لیکن) جو مال خرچ کرنا چاہو وہ(درجہ بدرجہ اہل استحقاق یعنی) ماں باپ کو اور قریب کے رشتہ داروں کو اور یتیموں کو محتاجوں اور مسافروں کو (سب کو دو) اور جو بھلائی تم کرو گے اللہ اس کو جانتا ہے۔ (البقرۃ)

خاندان والوں کے باہمی حقوق:

  • خاندان کافرد ہونےکی حیثیت سے ہر ایک کے لیے لازمی ہے کہ:
  • خاندان والوں سے حسن سلوک کرے۔
  • محبت و شفقت سے پیش آئے۔
  • مصیبت و پریشانی کے وقت دلجوئی کرے۔ غربت اور تنگ حالی کے وقت مالی مدد کرے۔
  • خاندان کے یتیم بچوں کی پرورش اور تربیت کرے۔ خاندان کی خوشی اور غمی میں شرکت کرے۔
  • باہمی تعاون کرے(مسائل کرنے میں مالی، جسمانی اور نیک مشوروں کی صورت میں تعاون کرے)
  • خاندان میں تنازعات کے وقت صلح صفائی کرے۔

۲۔ شوہر بیوی کے حقوق و فرائض پر نوٹ تحریر کریں۔

میاں بیوی کا رشتہ:

انسانیت کی بقاء اور نسل انسانی کا وجود مرد وعورت کے باہمی تعلق سے ہے اور انسانوں کے باہمی تعلقات میں میاں بیوی کے رشتہ کو بڑی اہمیت حاصل ہے، جانبین کے والدین کی رضامندی کے بعد ایجاب و قبول اور نکاح سے رشتہ قائم ہوتا ہے اور اس سے عظیم مصالح اور منافع وابستہ ہیں۔ نکاح ہی اچھے خاندان اور پاکیزہ سماج کو جنم دیتا ہے۔

قرآن کریم نے رشتہ ازدواج کو احصان کا نام دیا ہے یعنی قلعہ بند ہو کر محفوظ ہو جانا۔ درحقیقت نکاح ایک معاہدہ ہے جس کے ذریعہ میاں بیوی ایک دوسرے کے لیے زندگی کے دو ساتھی دکھ سکھ میں شریک اور ایک دوسرے کے ہمدرد بن جاتے ہیں۔ مشکلات اور مسائل کے حل میں ایک دوسرے کے مدد گار ہوتے ہیں۔ زندگی کا سکون اور قلب کا اطمینان بڑی حد تک ان کی خوشگواری اور باہمی الفت و اعتماد کے ذریعے ہوتی ہے۔ جس قدر محبت و الفت زیادہ ہوگی اس قدر اس کا نتیجہ بھی نفع بخش ہوگا۔

نکاح نسل انسان کے لیے نہ صرف بقا کا سبب ہے بلکہ اس کے ذریعہ آدمی بہت ساری غیر اخلاقی کاموں سے محفوظ رہتا ہے، اولاد پیدا ہوتے ہی ایک نئے خاندان کی ابتداء ہو جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے زوجین کے تعلق مزید مضبوط ہوجاتے ہیں۔ دونوں طرف سے محبت و احترام بڑھ جاتا ہے۔ گھر اولاد کی وجہ سے بارونق ہو جاتا ہے۔

حضور اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: نکاح والی زندگی گزارنا میری سنت ہے، پس جو بھی میری سنت سے اعتراض کرے گا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ (سنن ابن ماجہ)
نکاح کے اس بابرکت رشتہ کو اللہ تعالیٰ نے میاں بیوی کے لیے باہمی پردہ لباس قرار دیا ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ: وہ (عورتیں) تمہارے لیے ہیں اور تم ان کے لیے لباس ہو۔

میاں بیوی کے حقوق و فرائض:

  • حدیث میں ہے کہ:تم سب نگران ہو اور تم سے تمہاری نگرانی میں موجود افراد اور رعایا کے بارے میں باز پرس ہوگی۔(صحیح بخاری)
  • اسلامی تعلیمات کے مطابق زوجین کے ایک دوسرے پر کچھ حقوق و فرائض مقرر کیے گئے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
  • ترجمہ:اور عورتوں کا حق مردوں پر ویسا ہی ہے جیسے دستور کے مطابق مردوں کا حق عورتوں پر ہے۔ (سورۃ بقرۃ)
  • زوجین کے ایک دوسرے پر حقوق و فرائض ہیں جو شریعت نے مقرر کردیے ہیں جو درج ذیل ہیں۔

شوہر کے فرائض/ بیوی کے حقوق:

  • خاندان کی کفالت شوہر کی ذمہ داری ہے لہٰذا وہ اپنی مالی حیثیت کے مطابق بیوی بچوں کے کھانے پینے، لباس اور مکان کے اخراجات پورےکرے گا۔
  • شوہر بیوی کو مہر ادا کرے گا جو نکاح کے وقت مقرر کیا گیا تھا۔
  • شوہر بیوی کی ذاتی ملکیت رکھنے اور کاروبار کرنے کا جائز حدود میں اختیار دے۔
  • شوہر بیوی پر کوئی ظلم و زیادتی نہ کرے اور اس کو مارے پیٹے نہیں۔
  • شوہر بیوی کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔
  • شوہر وراثت کے حقوق شریعت کے مطابق ادا کرے۔
  • مرد کے فرائض میں یہ امود بھی شامل ہیں:
  • بیوی اور گھر کے دوسرے افراد سے پیار و الفت سے پیش آنا۔
  • اس پر ظلم و زیادتی نہ کرنا۔
  • عدل و احسان کا رویہ اختیار کرنا۔
  • ان کے حقوق شریعت کے مطابق ادا کرنا۔

بیوی کے فرائض/شوہر کے حقوق:

  • بیوی کی ذمہ داری ہے کہ شوہر کی عدم موجودگی میں مال و اسباب کی امانت کی طرح حفاظت کرے۔
  • شوہر کی اجازت کے بغیر کسی نامحرم کو گھر میں آنے کی اجازت نہ دے۔ فرمان الہیٰ:
  • ترجمہ: تو جو نیک بیبیاں ہیں وہ فرمانبردار ہوتی ہیں اور ان کی پیٹھ پیچھے اللہ کی حفاظت میں و آبرو کی حفاظت کرتی ہیں۔(سورۃ النساء)
  • شوہر کی آمدنی اور مالی حیثیت سے بڑھ کر خرچہ کا مطالبہ نہ کرے۔
  • شوہر کے گھر میں کوئی تکلیف یا تنگی دیکھے تو خواہ مخواہ دوسروں کو اس کی شکایت نہ کرے بلکہ درگزر اور برداشت کرے۔
  • شوہر یا گھر کے راز فشاں نہ کرے۔ گھر کی باتیں دوسروں کو نہ بتاتی پھرے۔
  • نسب و نسل کی حفاظت اور بچوں کی نگہداشت و تربیت کرے۔
  • شوہر کی خدمت و اطاعت کرے وغیرہ۔

(ب) مندرجہ ذیل سوالات کے مختصر جوابات تحریر کریں:

۱۔ خاندان سے کیا مراد ہے تحریر کریں۔

خاندان کے معنی و مفہوم:

”خاندان“ فارسی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی گھرانہ، کنبہ، قبیلہ، بال، بچے، حسب نسب کے ہیں۔ ایک ہی نسل کے قریبی رشتہ داروں کا مجموعہ عائلی(خاندانی) زندگی کا مفہوم ہے۔ انسان کی فطرت و طبیعت میں یہ بات شامل ہے کہ وہ اکیلے نہیں رہ سکتا بلکہ گھر محلہ گاؤں، اور شہر بسا کر اکٹھے رہتا ہے، خاندان کے اہم عناصر ماں باپ، میاں بیوی اور اولاد بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔ اور یہ سلسلہ آہستہ آہستہ وسعت اختیار کر کے دادا، دادی،نانا،نانی،چچا،چچی،پھوپھا،پھوپھی، خالہ، خالو، ماموں، مامی اور ان کی اولاد سے رشتےمل کر ایک کنبہ خاندان بناتے ہیں۔ خاندانی زندگی انسان کی تمدنی زندگی کی سب سے پہلی کڑی ہے لیکن انسان اپنی سماجی فطرت کی وجہ سے اپنے خاندان، رشتہ داروں اور دیگر انسانوں کے بغیر آرام و اطمینان والی زندگی گزار نہیں سکتا۔ گویا خاندان معاشرے کا بنیادی جزو ہے۔

۲۔ والدین کے ادب و احترام کے متعلق تحریر کریں۔

والدین کا ادب و احترام:

تمام رشتوں میں والدین کا رشتہ اہم اور قابل احترام ہے، ان ہی کی وجہ سے ہم اس جہاں میں آئے، اور ان کی دیکھ بھال اور پرورش سے ہمارے اندر قوت پیدا ہوئی، اس لیے ہمیں والدین کی خدمت اور احترام مین کوتا ہی نہیں کرنی چاہئے، اللہ تعالیٰ ہمیں یہی حکم دیتا ہے:

ترجمہ: اور آپ کے پروردگار نے یہ فیصلہ فردیا ہے کہ تم لوگ اللہ کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کروماں باپ کے ساتھ بہتر سلوک کرو،اگر تمہارے سامنے ان دونوں میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کو اف تک نہ کہو اور نہ ان کو جھڑکو، ان کے ساتھ خوب ادب کے ساتھ بات کرو۔ ان کے سامنے نیاز مندی سے عاجزی کے ساتھ جھک رہو اور دعا کرتے رہو: اے میرے رب! جیسے ان دونوں نے بچپن میں میری پرورش کی آپ ان پر اسی طرح رحم فرمائیے۔

ماں باپ اگر کافر اور مشرک ہی کیوں نہ ہوں،دنیا میں ان کا ادب و احترام کرنا، ان کی فرمانبرداری کرنا، اچھا سلوک کرنا اور خدمت کرنا لازمی امر ہے۔ ہاں اگر وہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی یا کفر و شرک اختیار کرنے کا حکم کریں تو ان سے معذرت کی جائے گی۔ والدین کے رشتہ داروں اور دوستوں سے بھی بہتر تعلق رکھنا چاہئے۔

والدین کے حقوق (اولاد کے فرائض) یہ ہیں:

عزت و احترام، اطاعت و فرمانبرداری، حسن سلوک، والدین کے اقرباء ورفقاء سے حسن سلوک، اعتراف شکر، دعائے مغفرت۔

۳۔ اولاد کے حقوق تحریر کریں۔

اولاد کے حقوق:

  • خاندان کی رونق اولاد ہے اور اولاد کا مقصد بقاء نوع اور زندگی کا سبب ہے، اولاد ہونا اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت اور اولاد کے لیے باپ کے ذمے ادب سکھانا اور صحیح تربیت ہے۔ ساتھ ہی والدین پر ان کے لیے بعض دیگر ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔جن کو اولاد کے حقوق سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
  • اولاد کی اچھی پرورش تعلیم، اچھی تربیت کا اہتمام کرنا۔رحمت و شفقت اچھی جگہ ان کی شادی کرنا۔ وراثت میں عدل کرنا۔
  • اولاد کو دین کی ضروری باتیں، قرآن کریم کی تعلیم اور نماز کی تربیت دینا۔
  • اولاد کو اسلامی اقدار کی تعلیم دینا، ان کی تعلیم و تربیت کرنا تاکہ وہ معاشرے میں اچھے انسان اور شہری بن کر زندگی گذار سکیں۔
  • اولاد کے درمیان برابری اور انصاف کا معاملہ رکھنا، بیٹیوں کو بھی بیٹوں کی طرح تحفہ تحائف اور پیار میں شریک ہونا۔ بیٹی کی پیدائش پر غمگین نہ ہونا کیونکہ ناراضگی کا اظہار کرنا ناشکری ہے۔
  • اولاد پر بے جا سختی اور تشدد سے پرہیز کرنا اور ان سے شفقت اور پیار محبت کا رویہ رکھنا۔ بے جا لاڈپیار نہ دیں۔
  • اپنی اولاد کو بھوک و تنگدستی کی وجہ سے قتل نہ کرنا۔
  • اولاد کی حفاظت کرنا، بالخصوص جان کی۔