Jaan Pehchan Class 8 Notes | وہ صبح کبھی تو آئے گی

0
  • کتاب”جان پہچان”برائے آٹھویں جماعت
  • سبق نمبر08:کہانی
  • مصنف کا نام: سلمی
  • سبق کا نام:وہ صبح کبھی تو آئے گی(ایک سچی کہانی)

خلاصہ سبق:

وہ صبح کبھی تو آئے گی سبق کی کہانی ایک سچے واقعے پر مشتمل ہے۔ اس کہانی کی روای سلمی بھوپال میں زہریلی گیس پھیلنے کے سانحے کی متاثرہ ہے۔ اس سانحے میں ہزاروں لوگ اپنی جان گنوا بیٹھے تھے۔سلمی بہت چھوٹی تھی جب بھوپال میں گیس پھیلی۔

اس کی طبیعت بگڑی تو اس کی امی اسے بازوؤں میں جکڑ کر ہسپتال کی طرف دوڑیں۔ اس حادثے نے اس پر دیرپا اثرات چھوڑے ۔ سلمی کا گلا سوج جاتا ہے۔ گلے کے اندر خون رستا اور سانس بند ہوتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ پورے بدن پر لال چکے پڑ جاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے چلنے میں بھی دقت ہوتی ہے۔

اس حادثے نے ان کی زندگی پوری طرح بدل کر رکھ دی۔ بھوپال گیس حادثے میں سلمی کے ابو کا انتقال ہو گیا۔ اس کی امی کو اس صدمے نے ذہنی مریض بنا دیا۔ وہ ان کی موت کو قبول نہیں کر پاتی تھیں۔ ان کا انتظار کرتی رہتی تھیں۔ مگر جیسے ہی بچے انھیں کہتے کہ ابو نہیں آئیں گے تو وہ ناراض ہوتی تھیں کہ ایسے مت کہا کرو۔

رفتہ رفتہ اس کی امی نے خود کو سنبھالا اور بچوں کے لیے کچھ تدبیر کرنے لگیں۔ سلمی کے ابو کی ایک دوکان تھی اسے بکوا کر جو پیسہ ملا جب تک وہ گھر تھا گزرممکن تھا۔ اس کے بعد ہر جان پہچان کے آدمی سے ادھارا مانگا اور انکار سننا پڑا۔ سلمی کی امی کبھی چلاتی ہیں کہ وہ اس کے مسلسل علاج سے تنگ آ چکی ہیں۔

ایک مرتبہ کی بات ہے کہ سلمی کی طبیعت بہت خراب ہوئی تو اس کی امی اسے پرائیویٹ نرسنگ ہوم کے کر گئیں۔نرسنگ ہوم کے ڈاکٹر نے سلمی کی امی سے کہا کہ سلمی مرنے والی ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس کے علاج کےلیے نرسنگ ہوم کے بستر کا خرچ ہی روزانہ کا اڑھائی سو روپیہ ہے۔ ڈاکٹر نے اںھیں سلمی کو گھر لے جانے کا کہا۔ مگر وہ اسے واپس نہ لے گئیں اور جیسے تیسے ممکن ہوتا پیسہ لا کر دیتی رہیں۔

اب سلمی آئیرویدک دوائیں استعمال کر رہی ہے۔ اب سلمی کے پاؤں کے چھاکے سوکھ رہے ہیں۔ پسلیوں کا درد اور چہرے کی سوجن کم ہے۔ سر درخ ،بدن درد اور زخموں سے خون رسنا بھی بند ہو چکا ہے۔ طبیعت میں سدھار ہونے کی وجہ سے سلمی اب جینے کی خواہش رکھتی ہے۔ وہ اب بہت خوش رہتی ہے۔

سوچیے اور بتایئے:

سلمی کی امی اسے بازوؤں میں جکڑ کر جہانگیر آباد کی طرف کیوں دوڑیں؟

سلمی بہت چھوٹی تھی جب بھوپال میں گیس پھیلی۔ اس کی طبیعت بگڑی تو اس کی امی اسے بازوؤں میں جکڑ کر ہسپتال کی طرف دوڑیں۔

سلمی کی امی کس بات پر اس سے ناراض ہوتی تھیں؟

بھوپال گیس حادثے میں سلمی کے ابو کا انتقال ہو گیا۔ اس کی امی کو اس صدمے نے ذہنی مریض بنا دیا۔ وہ ان کی موت کو قبول نہیں کر پاتی تھیں۔ ان کا انتظار کرتی رہتی تھیں۔ مگر جیسے ہی بچے انھیں کہتے کہ ابو نہیں آئیں گے تو وہ ناراض ہوتی تھیں کہ ایسے مت کہا کرو۔

سلمی کی امی کی دماغی حالت کیوں خراب ہوگئی تھی؟

سلمی کی امی کی دماغی حالت ان کے شوہر کی حادثاتی موت کی وجہ سے خراب ہو گئی۔ جبکہ ان کے بچے بھی بہت چھوٹے تھے۔

نرسنگ ہوم کے ڈاکٹر نے امی سے کیا کہا؟

نرسنگ ہوم کے ڈاکٹر نے سلمی کی امی سے کہا کہ سلمی مرنے والی ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس کے علاج کےلیے نرسنگ ہوم کے بستر کا خرچ ہی روزانہ کا اڑھائی سو روپیہ ہے۔ ڈاکٹر نے اںھیں سلمی کو گھر لے جانے کا کہا۔

سلمی نے ایسا کیوں کہا کہ میں اب جینا چاہتی ہوں؟

اب سلمی کے پاؤں کے چھاکے سوکھ رہے ہیں۔ پسلیوں کا درد اور چہرے کی سوجن کم ہے۔ سر درخ ،بدن درد اور زخموں سے خون رسنا بھی بند ہو چکا ہے۔ طبیعت میں سدھار ہونے کی وجہ سے سلمی اب جینے کی خواہش رکھتی ہے۔ وہ اب بہت خوش رہتی ہے۔

خالی جگہوں کو مناسب الفاظ سے بھریے:

پیسے،کام ،سوج ،جینا ،چھالے

  • میرا گلا اور آنکھیں سوج جاتی ہیں۔
  • انھیں دوسروں کا کام بھی کرنا پڑتا۔
  • ہمارے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں۔
  • میرے پاؤں کے چھالے سوکھ رہے ہیں۔
  • میں اب جینا چاہتی ہوں۔

نیچے دیے گئے لفظوں جو جملوں میں استعمال کیجیے:

بیماری علی کی بیماری نا قابل علاج ہے۔
آرام ڈاکٹر نے مریض کو آرام کی تلقین کی۔
چھالے اس کے پاؤں پہ چھالے نکل آئے۔
حادثہ کل میں نے ایک خوفناک ٹریفک حادثہ دیکھا۔
علاج ڈاکٹر نے ا سکے مرض کو ناقابلِ علاج قرار دیا۔
سوجن علی کے پاؤں میں موچ آنے سے سوجن ہو گئی۔

اس سبق میں لفظ “رفتہ رفتہ” استعمال ہوا ہے۔ کسی بات میں زور پیدا کرنے کے لیے جملے میں لفظ کو دو بار استعمال کیا جاتا ہے۔

ان جملوں پر غور کیجئے اور ایسے تین جملے بنائیے۔

شام ہوتے ہوتے گھونسلہ تیار ہو گیا۔
چلتے چلتے وہ تھک گیا۔
تھوڑے تھوڑے وقفے سے وہ ہمیں دیکھتا رہا۔
ذرا ذرا سی بات پر روٹھ جاتا ہے۔
بڑی دیر کردی مہرباں آتے آتے۔
اس کی باتیں سنتے سنتے میرے کان پک گئے۔
وہ مسلسل بولتے بولتے تھک گیا۔

عملی کام: اس سبق میں بھوپال گیس سانحے سے ہوئی تباہ کاری کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس کا شکار ہونے والی سلمی کی کہانی’ وہ صبح کبھی تو آئے گی’ عنوان کے تحت بیان کی گئی ہے۔ یہی عنوان ساحر لدھیانوی کے گیت ‘امید’ کا ایک مصرع بھی ہے۔آپ اسی طرح کے کچھ اور گیتوں،نغموں،کہانیوں،مضامین ، کے کسی جملے یا مصرعے کو تلاش کیجئے۔ اور ان کی فہرست بنائیں۔

قرۃ العین حیدر کے ناول کا عنوان ” سفینہ غم دل” ہے۔ فیض احمد فیض کا ایک مصرع بھی اسی عنوان سے کچھ یوں ہے۔

کہیں تو جا کے رکے گا سفینہ غم دل

قرۃ العین حیدر کے ایک ناول کا عنوان ” میرے بھی صنم خانے ہے” ہے۔ اسی عنوان سے علامہ اقبال کا ایک شعر کچھ یوں ہے۔

تیرے بھی صنم خانے،میرے بھی صنم خانے
دونوں کے صنم خاکی، دونوں کے صنم فانی

قرۃ العین حیدر کے ناول کا عنوان ” آگ کا دریا” ہے۔ اس عنوان سے جگر مراد آبادی کا ایک مصرع یوں ہے۔

اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے۔

اسی طرح کے کسی اور سانحے کے بارے میں مختصر نوٹ لکھیے:

جلیانوالہ باغ کا قتلِ عام، جسے امرتسر قتلِ عام بھی کہا جاتا ہے، 13 اپریل، 1919ء کو واقع ہوا جب پرامن احتجاجی مظاہرے پر برطانوی ہندوستانی فوج نے جنرل ڈائر کے احکامات پر گولیاں برسا دیں۔ اس مظاہرے میں بیساکھی کے شرکا بھی شامل تھے جو پنجاب کے ضلع امرتسر میں جلیانوالہ باغ میں جمع ہوئے تھے۔ یہ افراد بیساکھی کے میلے میں شریک ہوئے تھے جو پنجابیوں کا ثقافتی اور مذہبی اہمیت کا تہوار ہے۔

بیساکھی کے شرکا بیرون شہر سے آئے تھے اور انہیں علم نہیں تھا کہ شہر میں مارشل لا نافذ ہے۔پانچ بج کر پندرہ منٹ پر جنرل ڈائر نے پچاس فوجیوں اور دو آرمرڈ گاڑیوں کے ساتھ وہاں پہنچ کر کسی اشتعال کے بغیر مجمع پر فائرنگ کا حکم دیا۔ اس حکم پر عمل ہوا اور چند منٹوں میں سینکڑوں افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

باغ کا رقبہ 6 سے 7 ایکڑ جتنا تھا اور اس کے پانچ دروازے تھے۔ ڈائر کے حکم پر فوجیوں نے مجمعے پر دس منٹ گولیاں برسائیں اور زیادہ تر گولیوں کا رخ انہی دروازوں سے نکلنے والے لوگوں کی جانب تھا۔ برطانوی حکومت نے ہلاک شدگان کی تعداد 379 جبکہ زخمیوں کی تعداد 1٬200 بتائی۔ دیگر ذرائع نے ہلاک شدگان کی کل تعداد 1٬000 سے زیادہ بتائی۔ اس ظلم نے پوری قوم کو ہلا کر رکھ دیا اور برطانوی اقتدار سے ان کا بھروسا اٹھ گیا۔