Jaan Pehchan Urdu Book Class 9 Answers | احسان کا بدلہ احسان

0
  • کتاب”جان پہچان”برائے نویں جماعت
  • سبق نمبر08: مضمون
  • مصنف کا نام: ڈاکٹر ذاکر حسین
  • سبق کا نام:احسان کا بدلہ احسان

تعارف مصنف:

ڈاکٹر ذاکر حسین حیدرآباد میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق قصبہ قائم گنج ضلع فرخ آباد( اتر پردیش) کے ایک معزز پٹھان خاندان سے تھا۔ ان کی ابتدائی تعلیم اسلامیہ اسکول، اٹاوہ ( یو پی ) میں ہوئی۔ وہ اعلی تعلیم کے لیے علی گڑھ ،الہ آباد اور جرمنی تک گئے ۔ جرمنی سے انھوں نے پی ایچ۔ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔

ڈاکٹر ذاکر حسین کی شخصیت کے کئی اہم پہلو تھے۔ وہ بیک وقت ایک صاحب طرز ادیب، ماہر تعلیم ،قومی رہنما اور سیاست داں تھے۔ وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہی اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے وائس چانسلر رہے۔ انھوں نے صوبہ بہار کے گورنر ، نائب صدر اور صدر جمہوریہ ہند کی حیثیت سے ملک وقوم کی غیر معمولی خدمات انجام دیں۔

ذاکر صاحب کا ادبی سفر دنیا کی چند اہم کتابوں کے تر جموں سے شروع ہوا۔ ان ترجموں میں مشہور فلسفی افلاطون کی کتاب ’’ریاست‘‘ اور اڈون کین کی ’’ سیاسی اقتصادیات‘‘ وغیرہ شامل ہیں۔ انھوں نے جرمنی زبان میں گاندھی جی پر ایک کتاب لکھی ۔ بچوں کی تعلیم و تربیت اور بچوں کے ادب سے انھیں خصوصی دلچسپی تھی۔ انھوں نے بچوں کے لیے متعدد مضامین اور کہانیاں لکھیں۔ ’’ابو خاں کی بکری‘‘ ’’ لومڑی کی چالا کی‘‘ ’’مور کا حسن‘‘ ’’ اونٹ کا ضبط ‘اور’’ گھوڑے کی نرمی‘‘ وغیرہ ان کی مشہور کہانیاں ہیں۔

خلاصہ سبق:

ڈاکٹر ذاکر حسین کی کہانی “احسان کا بدلہ” میں ایک تاجر اور اس کے گھوڑے کی کہانی کو دلچسپ انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ بہت دنوں پہلے کا ذکر ہے کہ دنیا میں نیک لوگ بستے تھے۔ہندو اور مسلمان آپس میں مل کر رہتے اور ایک دوسرے کا خیال رکھتے۔ حق دار کو اس کا حق ملتا تھا اور انصاف کا بول بالا تھا۔انہی دنوں ایک شہر عادل آباد تھا۔ جہاں کے ایک تاجر نے عرب سے ایک گھوڑا خرید رکھا تھا۔

ایک روز یہ دکان دار تجارت کی غرض سے گھوڑے پر سوار ہو کر جا رہا تھا۔ بے خیالی میں وہ شہر سے باہر جنگل میں جا پہنچا۔جہاں ڈاکوؤں نے اس پر حملہ کیا۔دکان دارتاجرتجارت کی غرض سے گھوڑے پر سوار ہو کر جا رہا تھا۔ بے خیالی میں وہ شہر سے باہر جنگل میں جا پہنچا۔جہاں ڈاکوؤں نے اس پر حملہ کر دیا۔

تاجر نے اول تو ان سے مقابلہ کیا۔جب دیکھا کہ ڈاکوؤں کی تعداد زیادہ تو واپسی کے لیے گھوڑے کو ایڑ لگائی۔ ڈاکو اس کا تعاقب کرنے لگے مگر تاجر کا گھوڑا بہت تیز دوڑا اور اس نے اپنے مالک کو بحفاظت واپس پہنچا کر اس کی جان بچائی۔ بدقسمتی سے اس کے بعد اس گھوڑے کی ٹانگیں جاتی رہیں۔

رفتہ رفتہ اس کی آنکھیں بھی جواب دینے لگی۔ تاجر نے گھوڑے کی حفاظت پر مامور سائیں کو کہا کہ وہ اس کا خوب خیال رکھے۔ لیکن اس سائیں نے گھوڑے کے ساتھ الٹا برتاؤ کیا۔ اس نے گھوڑے کا دانہ کم کرتے کرتے بالکل ختم کر دیا۔ یہی نہیں ایک روز اس نے اسے اپاہج اور اندھا سمجھ کر گھر سے بھی نکال دیا۔ جس کی وجہ سے گھوڑا رات بھر بھوکا، پیاسا بارش اور طوفان میں باہر کھڑا رہا۔

یوں یہ گھوڑا در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہو گیا۔اسی شہر عادل آباد میں ہندو اور مسلمانوں کی الگ الگ عبادت گاہیں تھیں۔ جہاں وہ لوگ پوری آزادی سے اپنی عبادت کرتے تھے۔ ان کے بیچ و بیچ شہر میں ایک حویلی تھی جس کا دروازہ ہر وقت کھلا رہتا تھا اور اس میں ایک بڑا گھنٹہ نصب تھا۔ اس اونچے مکان میں گھنٹہ اس لیے لٹکایا تھا کہ جب کوئی کسی پر ظلم کرتا یا اس کا مال دبا لیتا۔یا کوئی کسی کا حق مار لیتا تو یہ گھنٹہ بجا کو وہ شخص خود پر ہونے والے ظلم کی خبر سارے شہر کو کر ڈالتا اور مدد طلب کرتا۔

سائیں نے جب گھوڑے کو نکالا تو وہ اتفاقاً اس عمارت میں جا پہنچا جہاں یہ گھنٹا نصب کیا گیا تھا۔ غریب گھوڑا مارے بھوک کے ہر چیز پر منھ چلاتا تھا۔ جیسے ہی اس نے گھنٹے کی رسی گھوڑے کے منھ سے تکرائی تو وہ اسے منھ میں ڈال کے چبانے لگا تو یہ گھنٹہ بج اٹھا۔گھنٹہ بجنے پر جب لوگ اکھٹے ہوئے اور انھوں نے گھوڑے کے مالک کا معلوم کیا۔انہیں جب اس کے مالک کا معلوم ہوا اور یہ بھی کہ اس نے کس طرح سے اپنے مالک کی جان بچائی تھی تو انھوں نے اس تاجر کو بلوا بھیجا۔

شہر کے پنجوں نے تاجر کو احساس دلایا کہ اس کا رویہ گھوڑے کے ساتھ اچھا نہیں۔ جس گھوڑے نے اس کی جان بچائی اس کو تم نے گھر سے نکال دیا۔تم آدمی ہو یہ جانور ہے۔ تم سے اچھا تو جانور ہے۔عادل پور میں حق دار کو اس کا حق اور احسان کا بدلہ احسان ہوتا ہے۔ یہ سب سن کر تاجر کا چہرہ شرم سے سرخ ہو گیا اور اسے اپنی غلطی کا احساس ہوا۔اس کی انکھوں میں آنسو آگئے اور اس نے آگے بڑھ کر گھوڑے کے گلے میں باہیں ڈال لیں۔اس سے کہا کہ میرا قصور معاف کر دے اور لے کر ساتھ چل پڑا اور اس کے آرام کا مناسب بندوبست کرنے لگا۔

سوچیے اور بتایئے:

ڈاکوؤں نے دکان دار پر کیوں حملہ کیا؟

ایک روز دکان دار تجارت کی غرض سے گھوڑے پر سوار ہو کر جا رہا تھا۔ بے خیالی میں وہ شہر سے باہر جنگل میں جا پہنچا۔جہاں ڈاکوؤں نے اس پر حملہ کیا۔

دکان دارکوگھوڑے کے دام کس طرح وصول ہوئے؟

جب اس گھوڑے نے اپنی تیز رفتاری سے تاجر کو ان ڈاکوؤں کے چنگل سے نکال لیا اور بحفاظت اس کو گھر پہنچایا تو یوں ایک طرح سے دکان دار کے گھوڑے کے دام وصول ہو گئے۔

سائیں کے برتاؤ کی وجہ سے گھوڑے کو کیا کیا تکلیفیں اٹھانی پڑیں؟

سائیں نے گھوڑے کا دانہ کم کرتے کرتے بالکل ختم کر دیا۔ یہی نہیں ایک روز اس نے اسے اپاہج اور اندھا سمجھ کر گھر سے بھی نکال دیا۔ جس کی وجہ سے گھوڑا رات بھر بھوکا، پیاسا بارش اور طوفان میں باہر کھڑا رہا۔ یوں یہ گھوڑا در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہو گیا۔

اونچے مکان میں گھنٹا کیوں لٹکایا گیا تھا؟

اونچے مکان میں ایک گھنٹہ اس لیے لٹکایا تھا کہ جب کوئی کسی پر ظلم کرتا یا اس کا مال دبالیتا۔یا کوئی کسی کا حق مار لیتا تو یہ گھنٹہ بجا کو وہ شخص خود پر ہونے والے ظلم کی خبر سارے شہر کو کر ڈالتا اور مدد طلب کرتا۔

گھوڑے نے گھنٹہ کس طرح بجایا؟

سائیں نے جب گھوڑے کو نکالا تو وہ اتفاقاً اس عمارت میں جا پہنچا جہاں یہ گھنٹا نصب کیا گیا تھا۔ غریب گھوڑا مارے بھوک کے ہر چیز پر منھ چلاتا تھا۔ جیسے ہی اس نے گھنٹے کی رسی گھوڑے کے منھ سے تکرائی تو وہ اسے منھ میں ڈال کے چبانے لگا تو یہ گھنٹہ بج اٹھا۔

تاجر کا چہرہ شرم سے کیوں سرخ ہو گیا ؟

گھنٹہ بجنے پر جب لوگ اکھٹے ہوئے اور انھوں نے گھوڑے کے مالک یعنی تاجر کو بلوا بھیجا تو پنجوں نے تاجر کو احساس دلایا کہ اس کا رویہ گھوڑے کے ساتھ اچھا نہیں۔ جس گھوڑے نے اس کی جان بچائی اس کو تم نے گھر سے نکال دیا۔تم آدمی ہو یہ جانور ہے۔ تم سے اچھا تو جانور ہے۔عادل پور میں حق دار کو اس کا حق اور احسان کا بدلہ احسان ہوتا ہے۔ یہ سب سن کر تاجر کا چہرہ شرم سے سرخ ہو گیا اور اسے اپنی غلطی کا احساس ہوا۔

نیچے لکھے ہوئے لفظوں سے جملے بنائیے:

وفادار کتا اپنے مالک کا وفادار جانور ہے۔
بے چارا بے چارا بچہ بھوک سے بے حال ہو چکا تھا۔
حق دار حق دار تک اس کا حق پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔
ظلم بے بسوں پر ظلم ڈھانا اللہ تعالیٰ کے عتاب کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔
فریادی فریادی بادشاہ کے دربار میں اپنی فریاد لے کر پہنچا۔
احسان گھوڑے نے مالک کے احسان کا بدلہ چکا دیا۔
قصور استاد نے فراخدلی سے طالب علم کا قصور معاف کر دیا۔
عبادت ہمیشہ ایک اللہ کی عبادت کرنی چاہیے۔
تاجر تاجر برادری نے پہیہ جام ہڑتال کا حکم سنا دیا۔

نیچے لکھے ہوئے لفظوں سے خالی جگہوں کو بھریے:
آنکھیں ، گونج ،بیچ ،جانور ،گھر۔

  • تم آدمی ہو،یہ جانور ہے۔
  • سارا جنگل گھوڑوں کی ٹاپوں سے گونج رہا تھا۔
  • اس نے وفادار گھوڑے کو ساتھ لیا اور گھر لے آیا۔
  • کچھ دنوں بعد غریب کی آنکھیں جاتی رہیں۔
  • مندر اور مسجد کے بیچ میں ایک اونچا مکان تھا۔

نیچے لکھے ہوئے لفظوں کے واحد اور جمع لکھیے:

واحد جمع
حکم احکام
تاجر تاجران
حق حقوق
مکان مکانات
شکایت شکایات
احسان احسانات

نیچے لکھے ہوئے محاوروں کو جملوں میں استعمال کیجیے:-

حق مارنا ہمیں ناحق کسی کا حق نہیں مارنا چاہیے۔
چہرہ شرم سے سرخ ہونا استا د سے بے عزتی پر اس کا چہرہ مارے شرم کے سرخ ہو گیا۔
وار خالی دینا کھیل کے مقابلے میں مخالف ٹیم کا وار خالی گیا۔

نیچے لکھے ہوئے لفظوں کے متضاد لکھیے :

وفادار بے وفا
نیک بد
ظلم راحت
آرام بے آرامی
حق نا حق

عملی کام:-

اسم کی جگہ استعمال ہونے والے الفاظ کو’’ضمیر کہتے ہیں۔ مثلاً اس ، و ہ ،تم ، میں ، ہم وغیرہ

اس سبق میں سے پانچ ایسے جملے لکھیے ، جن میں کسی ضمیر کا استعمال کیا گیا ہو۔

  • وہ دکان دار تجارت کی غرض سے گھو ڑے پر سوار ہو کر جا رہا تھا۔
  • اس عادل آباد میں ایک بہت دولت مند تاجر تھا۔
  • یہ اپنی دھن میں آگے جا ہی رہا تھا۔
  • اس نے ان کے ایک دو وار تو خالی دیے۔
  • اس گھوڑے نے تمہاری جان بچائی اور تم نے اس کے ساتھ کیا کیا؟