Advertisement
Advertisement
  • کتاب”دورپاس”برائے نویں جماعت
  • سبق نمبر20:نظم
  • شاعر کا نام:اکبر الہ آبادی
  • نظم کا نام: جلوہ دربار دہلی

نظم جلوہ دربار دہلی کی تشریح:

سر میں شوق کا سودا دیکھا
دہلی کو ہم نے بھی جا دیکھا
جو کچھ دیکھا اچھا دیکھا
کیا بتلائیں کیا کیا دیکھا

نظم کے اس بند میں شاعر اکبر الہ آبادی کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ مجھے دہلی شہر دیکھنے کا شوق ہوا تو میں دہلی کو دیکھنے جا پہنچا۔جب میں نے شہر کی سیر کی تو یہاں پر جو کچھ دیکھا وہ بہت خوب اور اچھا تھا۔اب میں کیا بتاؤں کہ یہاں میں نے کیا کیا دیکھا تھا۔

Advertisement
جمنا جی کے پاٹ کو دیکھا
اچھے ستھرے گھاٹ کو دیکھا
سب سے اونچے لاٹ کو دیکھا
حضرت ”ڈیوک کناٹؔ” کو دیکھا

اس بند میں شاعر نے کہا ہے کہ جب وہ دہلی آئے تو انھوں نے دریائے جمنا کا پاک اور صاف ستھرے گھاٹ دیکھے، سب سے اونچے لاٹ (لارڈ) اور ڈیوک کناٹ کے دیدار کیے۔

پلٹن اور رسالے دیکھے
گورے دیکھے کالے دیکھے
سنگینیں اور بھالے دیکھے
بینڈ بجانے والے دیکھے

وہ دور چونکہ انگریزوں کا دور تھا تب شاعر نے دہلی میں سب سے اونچے لاٹ (لارڈ) اور ڈیوک کناٹ کے دیدار کیے۔ پلٹن، فوجی رسالے، ہتھیاربنداور یہاں گورے، کالے فوجی تھے اور انہیں کے ساتھ بینڈ باجے والے بھی موجود تھے۔

Advertisement
خیموں کا اک جنگل دیکھا
اس جنگل میں منگل دیکھا
برھما اور ورنگل دیکھا
عزت خواہوں کا دنگل دیکھا

دہلی میں شاعر نے دیکھا کہ دور تک (کشمیری گیٹ تا کنگزوے کیمپ) خیموں کا جنگل تھا، جدھر نظر جاتی تھی، خیمے ہی خیمے تھے۔ اس دربار دہلی کے لئے بلند مرتبہ، عزت دار لوگوں کے درمیان مقابلہ ہو رہا تھا کہ وہ کس مقام پر رہے گا، اس کا خیمہ کہاں ہوگا، وہ انگریز حکمراں کس قدر نزدیک رہے گا۔

Advertisement
سڑکیں تھیں ہر کمپ سے جاری
پانی تھا ہر پمپ سے جاری
نور کی موجیں لیمپ سے جاری
تیزی تھی ہر جمپ سے جاری

اس بند میں شاعر نے ان کیمپوں کے لگنے کی منظر کشی کرتے ہوئے بتایا کہ خیمے لگانے میں یہ اہتمام کیا گیا تھا کہ ہر کیمپ کا الگ راستہ تھا جو سڑک کی طرف جاتا تھا، ہرطرف پانی کے پمپ لگے ہوئے تھے، روشنی کے لئے لیمپ تھے، ہر شخص تیزی سے دوڑ دوڑ کر کام کر رہا تھا۔

کچھ چہروں پر مروی دیکھی
کچھ چہروں پر زردی دیکھی
اچھی خاصی سردی دیکھی
دل نے جو حالت کردی دیکھی

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ یہاں پر کچھ لوگوں کے چہروں پر تو کمزوری دیکھنے کو ملی جبکہ باقی لوگوں کے چہرے زرد تھے۔ موسم کی کیفیت یوں تھی کہ اچھی خاصی سردی تھی۔دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر جو لوگ یہاں موجود تھے یہاں ان سب کی حالت دیکھی۔

Advertisement
ڈالی میں نارنگی دیکھی
محفل میں سارنگی دیکھی
بے رنگی بارنگی دیکھی
دہر کی رنگا رنگی دیکھی

شاعر کہتا ہے کہ کہیں سجاوٹ زیادہ تھی اور کہیں کم، ماحول کو خوبصورت بنانے کے لئے درختوں، ٹہنیوں پر مصنوعی نارنگیاں لگائی گئی تھیں، محفل میں موسیقی میں سارنگی بج رہی تھی۔ ہر جانب رنگا رنگ جلوے موجود تھے۔

اچھے اچھوں کو بھٹکا دیکھا
بھیڑ میں کھاتے جھٹکا دیکھا
منہ کو اگرچہ لٹکا دیکھا
دل دربار سے اٹکا دیکھا

شاعر یہاں کے ہجوم کی کیفیت بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اس قدر لوگ تھے اور رونق تھی کہ معلوم ہو رہا تھا کہ پوری دنیا یہاں سمٹ آئی ہے۔ لوگوں کے ہجوم میں اچھے اچھے بھٹک رہے تھے، بھیڑ میں دھکے لگ رہے تھے۔ اس وجہ سے لوگوں کے چہرے لٹکے ہوئے تھے مگر دل دربار میں اٹکا ہوا تھا۔

ہاتھی دیکھے بھاری بھرکم
ان کا چلنا کم کم تھم تھم
زریں جھولیں نور کا عالم
میلوں تک وہ چم چم چم چم

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ دہلی کی اس رونق میں میں نے دیکھا کہ بھاری بھرکم ہاتھیوں کی کمر پر سنہری کام والی جھولیں پڑی ہوئی تھیں۔ وہ ٹھہر ٹھہر کر آہستہ آہستہ چل رہے تھے، جدھر نظر جاتی تھی، میلوں تک رونق نظر آ رہی تھی۔ سنہری روشنیاں چم چم کر رہی تھیں۔

چوکی اک چولکھی دیکھی
خوب ہی چکھی پکھی دیکھی
ہر سو نعمت رکھی دیکھی
شہد اور دودھ کی مکھی دیکھی

دہلی میں دربار کے لئے ایک بہت قیمتی چوکی کا اہتمام کیا گیا تھا۔ ہر طرف نعمتیں رکھی ہوئی تھیں (کھانے پینے کا سامان) اسی کے ساتھ ساتھ شہد اور دودھ پر بیٹھنے والی مکھی بھی موجود تھی۔

Advertisement
ایک کا حصہ من و سلویٰ
ایک کا حصہ تھوڑا حلوا
ایک کا حصہ بھیڑ اور بلوا
میرا حصہ دور کا جلوا

شاعر نے اس محفل کے کھانے کی کیفیت کو یوں بیان کیا ہے کہ یہاں موجود تو طرح طرح کے کھانے تھے مگر عالم یہ تھا کہ کسی کے حصّے میں لذیذ کھانے آرہے تھے تو کسی کو صرف حلوے پر اکتفا کرنا پڑ رہا تھا۔ کوئی بھیڑ اور ہنگاموں کا حصہ بنا ہوا تھا۔ اکبر کہتے ہیں کہ ان کے حصے میں دور کا جلوہ آیا یعنی انہوں نے دور ہی سے دربار دہلی منعقد ہوتے دیکھا۔

Advertisement

Advertisement