Jhoothe Ki Kahani | Chapter 12 | جھوٹے کی کہانی کا خلاصہ

0
  • کتاب”جان پہچان”برائے آٹھویں جماعت
  • سبق نمبر12: کہانی
  • مصنف کا نام: محمد مجیب
  • سبق کا نام: جھوٹے کی کہانی

جھوٹے کی کہانی کا خلاصہ

سبق ” جھوٹے کی کہانی” میں رئیس نامی شخص کی ایک دلچسپ کہانی کو بیان کیا گیا ہے۔رئیس کسی دور دراز کے ملک سے آیا تھا اور دیہات میں اپنے دوست کے ساتھ سیر کر رہا تھا۔وہ اس کو جھوٹے سچے قصے سنانے لگا۔

رئیس موسموں کا ذکر کرتے ہوئے کہنے لگا کہ تمھارا ملک بھلا کوئی رہنے کی جگہ ہے۔ کبھی تو سردی اور کبھی اتنی گرمی کہ خدا کی پناہ۔ کبھی سورج مہینوں بادل میں منھ چھپائے بیٹھا رہتا ہے اور کبھی ایسا نکلتا ہے کہ آنکھیں چکا چوند ہو جائیں۔ وہاں تو بس جنت کا مزہ ہے۔نہ تو لحاف کی ضرورت اور نہ لالٹین کی۔ نہ کبھی رات نہ اندھیرا پورا سال بہار کا دن معلوم ہوتا ہے۔

رئیس نے اپنے ساتھی کو یہ کہانی سنائی کہ وہاں نہ کوئی ہل چلاتا ہے نہ کچھ بوتا ہے مگر وہاں سب کچھ اگتا ہے۔ میں نے ایک مرتبہ وہاں ایک کھیرا دیکھا وہ پہاڑ کے برا بر بڑا تھا۔ غرض وہ ساری دنیا ہی عجائبات سے بھری پڑی تھی۔رئیس کے دوست نے اسے کہا کہ میں بھی تمھیں آج ایک عجیب و غریب چیز دکھاؤں گا۔ وہ سامنے دکھنے والا۔پل جس سے ابھی ہم گزریں گے وہ جھوٹے آدمی کو کبھی برداشت نہیں کرتا ہے۔ جیسے ہی کوئی جھوٹا انسان اس کے اوپر سے گزرنے لگے وہ ٹھوکر کھا کر دریا میں جا گرتا ہے۔

حال ہی میں ایک درزی اور دو رپورٹرز کا انتقال اس سے گرنے کی وجہ سے ہوا ہے۔ یہ سن کر رئیس نہ صرف اپنے جھوٹ سے مکرا بلکہ پہاڑ جتنا بڑا کھیرا بھی ہوتے ہوتے اتنا چھوٹا ہو گیا کہ اس میں دو لوگ بمشکل سما سکتے تھے۔ وہ کہنے لگا کہ یہ کون سی زبردستی ہے کہ ہم پل کے اوپر سے ہی جائیں۔ آؤ کہیں اتھلا ہو تو وہاں سے چلے جاتے ہیں۔

سوچیے اور بتایئے:

رئیس کہاں جا رہا تھا؟

رئیس کسی دور دراز کے ملک سے آیا تھا اور دیہات میں اپنے دوست کے ساتھ سیر کر رہا تھا۔

رئیس نے موسموں کا ذکر کس کس طرح کیا ہے؟

رئیس موسموں کا ذکر کرتے ہوئے کہنے لگا کہ تمھارا ملک بھلا کوئی رہنے کی جگہ ہے۔ کبھی تو سردی اور کبھی اتنی گرمی کہ خدا کی پناہ۔ کبھی سورج مہینوں بادل میں منھ چھپائے بیٹھا رہتا ہے اور کبھی ایسا نکلتا ہے کہ آنکھیں چکا چوند ہو جائیں۔ وہاں تو بس جنت کا مزہ ہے۔نہ تو لحاف کی ضرورت اور نہ لالٹین کی۔ نہ کبھی رات نہ اندھیرا پورا سال بہار کا دن معلوم ہوتا ہے۔

رئیس نے اپنے ساتھی کوکون سی کہانی سنائی؟

رئیس نے اپنے ساتھی کو یہ کہانی سنائی کہ وہاں نہ کوئی ہل چلاتا ہے نہ کچھ بوتا ہے مگر وہاں سب کچھ اگتا ہے۔ میں نے ایک مرتبہ وہاں ایک کھیرا دیکھا وہ پہاڑ کے برا بر بڑا تھا۔ غرض وہ ساری دنیا ہی عجائبات سے بھری پڑی تھی۔

رئیس کے دوست نے اس کے جھوٹ کا امتحان کیسے لیا؟

رئیس کے دوست نے اسے کہا کہ میں بھی تمھیں آج ایک عجیب و غریب چیز دکھاؤں گا۔ وہ سامنے دکھنے والا۔پل جس سے ابھی ہم گزریں گے وہ جھوٹے آدمی کو کبھی برداشت نہیں کرتا ہے۔ جیسے ہی کوئی جھوٹا انسان اس کے اوپر سے گزرنے لگے وہ ٹھوکر کھا کر دریا میں جا گرتا ہے۔ حال ہی میں ایک درزی اور دو رپورٹرز کا انتقال اس سے گرنے کی وجہ سے ہوا ہے۔ یہ سن کر رئیس نہ صرف اپنے جھوٹ سے مکرا بلکہ وہ کہنے لگا کہ یہ کون سی زبردستی ہے کہ ہم پل کے اوپر سے ہی جائیں۔ آؤ کہیں اتھلا ہو تو وہاں سے چلے جاتے ہیں۔

جھوٹے کی کہانی سے کیا سبق ملتا ہے؟

جھوٹے کی کہانی سے یہ سبق ملتا ہے کہ کسی انسان کو اپنا فرضی رعب قائم کرنے کے لیے لمبی لمبی نہیں چھوڑنی چاہیے۔ جھوٹ اتنا ہی بولا جائے جتنا ہضم کیا جا سکے۔

خالی جگہوں کو مناسب الفاظ سے بھریے:

کھیرا ،چیز ،سیر ، درزی ،دھڑام۔

  • دیہات میں اپنے دوست کے ساتھ سیر کر رہا تھا۔
  • ایک مرتبہ میں نے ملک روم میں ایک کھیرا دیکھا تھا۔
  • ابھی تھوڑی دیر میں ہم ایک چیز دیکھنے والے ہیں۔
  • آدمی تھوڑی دور تک پہنچا نہیں کہ ٹھوکر کھا تا ہے اور دھڑام سے پانی میں گر جا تا ہے۔
  • ابھی تھوڑے دن ہوۓ دو اخبار والے اور ایک درزی اسی پر سے گر کر ڈوب گئے۔

درج ذیل الفاظ کے مترادف لکھیے:

مکان گھر
گاؤں دیہات
قصہ واقعہ/کہانی

عملی کام:اس کہانی کو اپنے الفاظ میں لکھیے۔

ملاحظہ کیجئے “خلاصہ سبق”