جہاد کی اقسام ، سوالات و جوابات

0
  • سبق نمبر 14:

سوال۱ : جہاد سے کیا مراد ہے؟

جواب: جہاد کے لغوی معنی کوشش اور کسی مقصد کے حصول کے لئے مسلسل محنت کرنے کے ہیں مگر اسلام نے اس لفظ کو نیکیاں حاصل کرنے کی جدوجہد کے لئے استعمال کی ہے یہ کوشش مال سے بھی کی جاتی ہے اور علم کے ذریعہ بھی۔ اسلحہ اور ہتھیاروں کے ذریعے اور نفس کی خواہشات کے خلاف بھی کی جاتی ہے اس لئے علماء دین نے جہاد کو مختلف حصوں میں تقسیم کیا ہے جو اپنے اپنے موقع و محل پر باعث اجرو ثواب اور رضائے الہیٰ کا سبب ہے۔

سوال۲:جہاد کی اقسام بیان کریں۔

جواب: جہاد کی کئی اقسام ہیں جن میں سے چند درج ذیل ہیں:

جہاد بالعلم:

اس سے مراد وہ جہاد اور حددرجہ کوشش ہے جو باطل عقیدوں اور غیر الہیٰ قانون اور جو استبداد کے مقابلہ پر کلمۃ الحق کہہ کرکی جائے اور علمی دلیلوں کے ذریعے انسانوں کی فلاح و بہتری کے لئے بلاخوف ترغیب کی جائے۔ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا۔
”سب سے بڑا جہاد حق بات ظالم اور سرکش حکمران کے سامنے کلمہ حق کہنا ہے۔“

جہاد بالمال:

جو شخص استطاعت رکھتا ہو اور اس کی مالی حالت بہتر ہو تو وہ مال کے ذریعہ دین اور دشمنوں کے خلاف ملک و ملت کی حفاظت کیلئے مال صرف کرکے جہاد میں حصہ دار بن سکتا ہے اور اجر صاحل کر سکتا ہے۔

جہاد بالسیف:

اس سے مراد وہ مسلح جدوجہد ہے جو مسلمانوں کی بستیوں یا ملک کے خلاف دشمنان اسلام کے حملے کے وقت ان کی حفاظت عزت و جان و مال اور تحفظ ناموس کے لئے ہتھیاروں کے ذریعہ کی جائے کہ جب مسلمانوں کا حاکم تفیر کرےیعنی دشمنوں کے خلاف مقابلہ کے لئے بلائے اور اعلان کرے تو مسلمانوں پر یہ فرض ہو جاتا ہے کہ وہ اس میں شریک ہوں اور دشمن کا مقابلہ مسلح ہو کر کریں۔ ایسے وقت میں یہ فرض ہر مسلمان عاقل و بالغ پر فرض عین ہو جاتا ہےالبتہ بچے عورتیں اور بیمار و ضعیف افراد اس سے مستثنیٰ ہیں۔ یہ فرضیت اتنی اہم ہے کہ رسول اللہﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ:

”اگر ممکن ہوتا تو میں دشمنوں کے مقابلہ پر جنگ کرتے ہوئے شہید ہوتا اور پھر چاہتا کہ دوبارہ زندہ کیا جاؤں، پھر شہید کیا جاؤں اور پھر زندہ ہو کر جنگ کروں پھر شہید ہو جاؤں پھر زندہ ہو کر اللہ کی راہ میں شہید ہو جاؤں۔“

اس جہاد میں شریک ہو کر راہ اللہ میں جان دینے والوں کے لئے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:
”ان لوگوں کو جو اللہ کی راہ میں قتل کئے جائیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تمہیں اس کا شعور نہیں۔“ (سورۃ البقرہ: ۱۵۴)

جہاد بالنفس:

اس سے مراد یہ کہ ناجائز نفسانی خواہشات سے ہر لمحہ جنگ کی جائے اور اپنے نفس کو نامرضیات اور ناپسندیدہ کاموں سے روکا جائے۔ یہ جہاد سب سے افضل ہے کیونکہ اولاً یہ ہر وقت اور ہر آن مسلمان کو کرنا پڑتا ہے۔ دوم اس جہاد میں ہر وقت انسان مصروف رہتا ہے۔ کیونکہ جہاد بالسیف کی فضیلت حاصل کرنے کا کبھی کبھی موقع ملتا ہے مگر مومن اپنے نفس سے ہر وقت جہاد کرنے میں مصروف رہتا ہے۔

سوم اس کی فضیلت یہ ہے کہ اس کے بغیر للہیت پیدا نہیں ہو سکتی خواہ وہ جہاد بالعلم ہو یا جہاد بالمال یا پھر جہاد بالسیف کہ ان تمام اعمال میں خلوص نیت اور للہیت ضروری ہے جو جہاد بالنفس کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی۔ اس لئے رسول اللہﷺ نے اسے اپنے ارشاد میں جہاد اکبر فرمایا ہے کیونکہ کوئی عمل اس وقت تک اللہ کے نزدیک قابل اجر نہیں ہوتا جب تک اس میں شرکت رضا الہیٰ کے لئے نہ ہو۔

جہاد باللسان و جہاد بالقلم:

اسلام میں کہا گیا ہے کہ جب برائی کو دیکھو تو ہاتھ سے منع کرو ایسا نہ کرو تو زبان سے ہی برا جانو ورنہ دل میں برا خیال کرو اور یہ ایمان کا کمزور درجہ ہے۔ اسلام ہمیں سکھاتا ہے کہ برائی کو جہاں دیکھو اسے منع کرو۔ جہاد کے دوران مختلف پرپیگنڈے کئے جاتے ہیں اسلام نے کہا کہ اس کا توڑ کرو اور عمل کے ساتھ اور زبان سے تبلیغ کرکے جہاد کے لئے نوجوانوں کو تیار کرو۔

اس دور میں حکم وقت کے منہ پر حق بات کہنا بہت بڑا جہاد ہے اور حق بات لکھنا، قلم کے ذریعے برائیوں کی نشاندہی کرنا بہت بڑا جہاد ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے جہاں تلوار کام نہیں کر سکتی وہاں قلم کر دیتا ہے۔ قلم کے ذریعے مغرب کی یلغار کو توڑ کرنا اور اسلامی معاشرے کی اصلاح کرنے کو جہاد بالقلم کہتے ہیں۔

سوال۳: جہاد کے فضائل بیان کریں۔

جہاد کے فضائل:

قرآن حکیم اور احادیث مبارکہ میں جہاد کے متعدد فضائل بیان ہوئے ہیں۔ ارشاد باری تعالی ہے:
ترجمہ: بے شک اللہ پسند کرتا ہے ان لوگوں کو جو لڑتے ہیں اس کی راہ میں قطار باندھ کر۔ گویاوہ دیوار ہیں سیسہ پلائی ہوئی۔ (سورة الصف:۴)

حضرت محمد رسول اللہ خاتم النبیین ﷺکا ارشاد ہے۔ قسم ہے اللہ کی جس کی مٹھی میں محمد (رسول اللہ خاتم النبیینﷺ) کی جان ہے۔ اللہ کی راہ میں جہاد کرنے کے لیے ایک صبح یا ایک شام کا سفر د نیا ومافیہا کی تمام نعمتوں سے بڑھ کر ہے، اور اللہ کی راہ میں دشمن کے مقابل آکر ٹھہرے رہنے کا ثواب گھر میں ستر نمازوں سے زیادہ ہے۔ بلاشبہ یہ جہاد کی عظمت و فضیلت اور شہادت کی تڑپ ہی کا جذبہ تھا کہ قرون اولیٰ کےمسلمان دنیا پر چھائےرہے اور دشمنان اسلام کےدلوں پر ان کی عظمت و شوکت کی دھاک بیٹھی ہوتی تھی۔