• سبق : نعت
  • شاعر : رسا جاودانی

تعارفِ شاعر

رسا جاودانی کا اصل نام عبد القدوس ہے۔ آپ ۷ جولائی کو پیدا ہوئے۔ آپ کے والد تجارت پیشہ تھے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم کے بعد پنجاب یونی ورسٹی سے  منشی فاضل کی ڈگری حاصل کی۔ آپ برسوں تک اردو و فارسی پڑھاتے رہے۔ شعر گوئی کے علاوہ آپ موسیقی میں دلچسپی رکھتے تھے۔ آپ کی شاعری میں اساتذہ کا رنگ جھلکتا تھا۔ لالہ صحرا اور نظم ثریا آپکے شعری مجموعے ہیں۔ کشمیری زبان میں بھی شعر کہتے تھے۔ آپ کی کشمیری شاعری کو خاصی مقبولیت حاصل تھی۔

بنی نوع انسان کا غم خوار آیا
وہ تخلیقِ عالم کا شہکار آیا
وہ نبیوں کا سرتاج سردار آیا
خوش اندام آیا خوش اطوار آیا
تو آیا تیرے آنے کی آرزو تھی
نگاہوں کو بس تیری ہی جستجو تھی

تشریح :

یہ شعر اس نعت کا پہلا شعر ہے جس میں شاعر ہمارے پیارے نبی ﷺ کی آمد کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہمارے پیارے نبی ﷺ کی آمد دراصل انسانوں اور بنی نوع کے لیے ایک غم خوار کی آمد کے برابر تھی کیونکہ ہمارے نبی ﷺ تمام انسانوں کے غم خوار تھے۔ شاعر کہتے ہیں ہمارے پیارے نبی ﷺ  اللہ تعالیٰ کی سب سے خوبصورت تخلیق ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب کو ہر شے سے زیادہ خوبصورتی عطا کی ہے۔

شاعر مزید کہتے ہیں کہ ہمارے نبی ﷺ تمام نبیوں کے سردار ہیں اور آپ کے خوش انداز اور خوش اطوار ہیں یعنی آپ کے انداز و اطوار کسی کے لیے پریشانی کا باعث کبھی بھی نہیں بنے ہیں۔ پھر شاعر ہمارے نبی ﷺ سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ ہمارے نبی ﷺ اس دنیا میں اس وقت آئے جب ان کی آمد کی اس دنیا کو بہت زیادہ ضرورت تھی اور پوری دنیا میں جہالت کا اندھیرا چھا گیا تھا تب ہمارے پیارے نبی ﷺ اس دنیا میں اجالا بن کر آئے۔ شاعر کہتے ہیں کہ ہمارے نبی ﷺ کی آمد کے وقت نگاہوں کو انھی کی جستجو تھی کیونکہ اس وقت کسی ایسے انسان کی ضرورت تھی جو پوری دنیا کے انسانوں کی تربیت کرسکے۔

تو اے ابرِ رحمت جو دنیا میں آیا
شرف آدم و آدمیت نے پایا
تو وہ سرو قامت نہیں جس کا سایہ
مگر بن کے رحمت تو عالم پہ چھایا
قدم تیرا جب سے پڑا ہے زمیں پر
زمیں فوق رکھتی ہے عرشِ بریں پر

تشریح :

اس شعر میں شاعر نے ہمارے نبی حضرت محمد ﷺ کو ابرِ رحمت سے تشبیہ دی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمارے نبی ﷺ جب ابرِ رحمت بن کر اس دنیا میں آئے تو آدم اور آدمیت نے یہ شرف حاصل کیا کہ حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد میں سے ایک شخص نے تمام انسانیت کو اللہ کا پیغام پہنچایا۔
شاعر کہتے ہیں کہ ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفی ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے بہت خوبصورت اور بےپناہ حسین بنایا ہے۔ آپ ﷺ کے سائے کے برابر خوبصورتی بھی کسی اور انسان کو نصیب نہیں ہوئی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب ﷺ کو سب سے زیادہ خوبصورت تخلیق کیا ہے۔

اس شعر کے پہلے مصرعے میں شاعر کا اشارہ اسی بات کی طرف ہے اور دوسرے مصرعے میں وہ کہتے ہیں کہ آپ ﷺ اتنے حسین و جمیل تھے لیکن عام لوگوں کی طرح مغرور نہیں بلکہ سراپاِ رحمت ہیں۔ شاعر کہتے ہیں کہ آپ ﷺ کا یہ رحمت بھرا سراپا صرف مسلمانوں کے لیے ہی بلکہ پوری دنیا کے تمام انسانوں کے لیے یکساں مفید تھا اور آپﷺ پوری دنیا کے لیے رحمت و شفقت رکھتے ہیں۔ اس شعر میں شاعر یہ بھی کہتے ہیں کہ جب ہمارے نبیﷺ اس زمین پر بھیجے گئے تو زمین آپ ﷺ کی آمد کی وجہ سے خود کو عرشِ بریں سے معتبر سمجھنے لگی۔

پیام آشتی کا ہے قرآن تیرا
ہوا جاگزین دِل میں فرمان تیرا
کرم ہر کسی پر پے یکساں تیرا
ہے دھرتی کے کندھوں پر احسان تیرا
جو شفقت مسلمان کے حال پر ہے
وہی غیر مسلم پر تیری نظر ہے

تشریح :

اس شعر میں شاعر یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی علیہ وآلہ وسلم اس دنیا میں جو پیغام لے کر آئے ہیں وہ پیغام دراصل وہی ہے جو اللہ تعالیٰ نے قرآن کے ذریعے ہمیں بتایا ہے۔ یعنی ہمارے نبی ﷺ کا دیا ہوا پیغام قرآنِ کریم میں موجود ہے جو اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے اور ہمارے نبی نے ﷺ اللہ کا پیغام ہی انسانوں تک پہنچایا ہے۔ شاعر مزید کہتے ہیں کہ ہمارے نبی ﷺ کا پیغام اتنا پیارا اور دل کو چھو لینے والا ہے کہ وہ پیغام ہر انسان کے دل میں پیوست ہوگیا ہے اور ہمیشہ وہاں نقش رہےگا۔

شاعر ہمارے نبی ﷺ سے مخاطب ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ ہمارے نبی ﷺ کے احسانات صرف مسلمانوں کے لیے نہیں ہیں بلکہ تمام انسانوں کے لیے ہیں۔ شاعر کہتے ہیں کہ یہ ہمارے نبی  ﷺ کا ہم سب انسانوں پر اور اس زمین پر احسان ہے کہ انھوں نے تمام انسانوں پر رحمت کا مظاہرہ کیا اور وہ سب کے لیے سراپا رحمت ہیں۔ کیونکہ ہمارے نبیﷺ نے تمام مذاہب کے انسانوں پر رحم و کرم کیا اور ان کی رحمت فقط مسلمانوں تک محدود نہیں تھی۔

شاعر کہتے ہیں کہ ہمارے پیارے نبیﷺ  کی جو شفقت مسلمانوں کے لیے تھی وہی شفقت غیر مسلم لوگوں کے لیے بھی تھی کیونکہ وہ اس دنیا میں صرف ایک قوم کے لیے نہیں بلکہ پوری انسانیت  کی تربیت کے لیے بھیجے گئے تھے اور انھوں نے صرف ایک قوم کے لوگوں سے نہیں بلکہ تمام انسانوں سے محبت کی اور تمام انسانوں کے لیے سراپا رحمت بنے۔

یہ کردار تیرا نہ کیوں دل کو بھائے
تو دل میں بسے کیوں نہ من میں سمائے
تری راہ میں جس نے کانٹے بچھائے
رہے تیری شفقت کے اس پر بھی سائے
کدورت سے ہستی رہی پاک تیری
جچی آنکھ میں  شانِ لولاک تیری

تشریح :

اس نعت کے آخری شعر میں شاعر ہمارے نبی ﷺ سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ آپ ﷺ کا کردار کیوں نہ ہم سب کے دل کو بھائے اور آپ کیوں نہ ہمارے دل اور من میں سمائیں۔ آپ ﷺ اتنے شفیق اور رحیم ہیں کہ وہ ہر دل میں سما جاتے ہیں۔ شاعر یہاں اس بات کا ذکر بھی کرتے ہیں کہ جتنے بھی لوگوں نے آپ ﷺ کو تکلیفیں دی اور آپ ﷺ کی راہ میں کانٹے بچھائے آپ ﷺ نے ان پر بھی شفقت کا سایہ رکھا اور ان کے لیے ہمیشہ دعا کی انھیں کبھی کوئی بددعا نہیں دی۔ شاعر مزید کہتے ہیں کہ آپ ﷺ کی ہستی ہر طرح کے حسد اور کدورت سے پاک تھی اور آپ کی شان ہر آنکھ میں جچتی تھی کیونکہ آپ ﷺ سراپا رحمت تھے اور ہمیشہ سب پر شفقت کا سایہ رکھتے تھے۔

  • مشق

سوال نمبر ۱ : حضرت محمد ﷺ کیا پیغام لے کر آئے؟

جواب : حضرت محمد ﷺ اس دنیا میں انسانیت اور بھائی چارے کا پیغام لے کر آئے۔ آپ ﷺ قرآن میں موجود اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ تعلیمات کا پیغام لے کر آئے اور انھوں نے مسلمانوں اور تمام انسانوں کو جینے کا طریقہ اور مقصد عطا کیا۔ وہ یہ پیغام لے کر آئے کہ ہمیں ہر کسی کے ساتھ احسان والا معاملہ کرنا چاہیے۔

سوال نمبر ۲ : شاعر نے یہ کیوں کہا ہے :

تو وہ سروِ قامت نہیں جس کا سایہ
مگر بن کے رحمت تو عالم پر چھایا

شاعر نے یہ شعر اس لیے کہا ہے کہ ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفی ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے بہت خوبصورت اور بےپناہ حسین بنایا ہے۔ آپ ﷺ کے سائے کے برابر خوبصورتی بھی کسی اور انسان کو نصیب نہیں ہوئی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب ﷺ کو سب سے زیادہ خوبصورت تخلیق کیا ہے۔ اس شعر کے پہلے مصرعے میں شاعر کا اشارہ اسی بات کی طرف ہے اور دوسرے مصرعے میں وہ کہتے ہیں کہ آپ ﷺ اتنے حسین و جمیل تھے لیکن عام لوگوں کی طرح مغرور نہیں بلکہ سراپاِ رحمت ہیں۔ شاعر کہتے ہیں کہ آپ ﷺ کا یہ رحمت بھرا سراپا صرف مسلمانوں کے لیے ہی بلکہ پوری دنیا کے تمام انسانوں کے لیے یکساں مفید تھا اور آپﷺ پوری دنیا کے لیے رحمت و شفقت رکھتے ہیں۔

سوال نمبر ۳ : تشریح کیجیے۔

شعر :

پیام آشتی کا ہے قرآن تیرا
ہوا جاگزین دِل میں فرمان تیرا
کرم ہر کسی پر پے یکساں تیرا
ہے دھرتی کے کندھوں پر احسان تیرا
جو شفقت مسلمان کے حال پر ہے
وہی غیر مسلم پر تیری نظر ہے

تشریح : اس شعر میں شاعر یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی علیہ وآلہ وسلم اس دنیا میں جو پیغام لے کر آئے ہیں وہ پیغام دراصل وہی ہے جو اللہ تعالیٰ نے قرآن کے ذریعے ہمیں بتایا ہے۔ یعنی ہمارے نبی ﷺ کا دیا ہوا پیغام قرآنِ کریم میں موجود ہے جو اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے اور ہمارے نبی نے ﷺ اللہ کا پیغام ہی انسانوں تک پہنچایا ہے۔ شاعر مزید کہتے ہیں کہ ہمارے نبی ﷺ کا پیغام اتنا پیارا اور دل کو چھو لینے والا ہے کہ وہ پیغام ہر انسان کے دل میں پیوست ہوگیا ہے اور ہمیشہ وہاں نقش رہےگا۔

شاعر ہمارے نبی ﷺ سے مخاطب ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ ہمارے نبی ﷺ کے احسانات صرف مسلمانوں کے لیے نہیں ہیں بلکہ تمام انسانوں کے لیے ہیں۔ شاعر کہتے ہیں کہ یہ ہمارے نبی  ﷺ کا ہم سب انسانوں پر اور اس زمین پر احسان ہے کہ انھوں نے تمام انسانوں پر رحمت کا مظاہرہ کیا اور وہ سب کے لیے سراپا رحمت ہیں۔ کیونکہ ہمارے نبیﷺ نے تمام مذاہب کے انسانوں پر رحم و کرم کیا اور ان کی رحمت فقط مسلمانوں تک محدود نہیں تھی۔

شاعر کہتے ہیں کہ ہمارے پیارے نبیﷺ  کی جو شفقت مسلمانوں کے لیے تھی وہی شفقت غیر مسلم لوگوں کے لیے بھی تھی کیونکہ وہ اس دنیا میں صرف ایک قوم کے لیے نہیں بلکہ پوری انسانیت  کی تربیت کے لیے بھیجے گئے تھے اور انھوں نے صرف ایک قوم کے لوگوں سے نہیں بلکہ تمام انسانوں سے محبت کی اور تمام انسانوں کے لیے سراپا رحمت بنے۔

سوال نمبر ۴ : مختصر نوٹ لکھیے : ۱) مسّدس :

وہ نظم جس کے ہر شعر میں چھ مصرعے موجود ہوں مسّدس کہلاتی ہے۔ اس نعت کے اشعار کی ہئیت بھی مسدس ہی ہے۔ اس شعر میں دعائیہ یا التجائیہ اشعار کے بجائے ہر شعر میں ہمارے نبیﷺ کی خصوصیات کو بیان کیا گیا ہے۔

۲) نعت :

نعت کے معنی ثنا و تعریف کے ہیں۔ ایسے اشعار کا مجموعہ جو آپ ﷺ کی خوبیوں کو بیان کرے نعت کہلاتا ہے۔ نعت گوئی کا باقاعدہ آغاز دورِ رسالت میں ہوا۔ اردو میں نعت عربی اور فارسی سے آئی۔ میر تقی میر ، مولانا حالی ، علامہ اقبال ، رضا بریلوی ، مولانا شبلی کے علاوہ بہت سے شعراء کی نعتیں بہت مقبول ہیں۔

سوال نمبر ۵ : اس نعت کا خلاصہ اپنے الفاظ میں لکھیے :

اس نعت میں شاعر ہمارے پیارے نبی ﷺ کی آمد کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہمارے پیارے نبی ﷺ کی آمد دراصل انسانوں اور بنی نوع کے لیے ایک غم خوار کی آمد کے برابر تھی کیونکہ ہمارے نبی ﷺ تمام انسانوں کے غم خوار تھے۔ شاعر کہتے ہیں کہ ہمارے نبی ﷺ تمام نبیوں کے سردار ہیں اور آپ کے خوش انداز اور خوش اطوار ہیں یعنی آپ کے انداز و اطوار کسی کے لیے پریشانی کا باعث کبھی بھی نہیں بنے ہیں۔ شاعر کہتے ہیں کہ ہمارے نبی ﷺ کی آمد کے وقت نگاہوں کو انھی کی جستجو تھی کیونکہ اس وقت کسی ایسے انسان کی ضرورت تھی جو پوری دنیا کے انسانوں کی تربیت کرسکے۔

شاعر نے اس نعت میں ہمارے نبی حضرت محمد ﷺ کو ابرِ رحمت سے تشبیہ دی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمارے نبی ﷺ جب ابرِ رحمت بن کر اس دنیا میں آئے تو آدم اور آدمیت نے یہ شرف حاصل کیا کہ حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد میں سے ایک شخص نے تمام انسانیت کو اللہ کا پیغام پہنچایا۔ وہ کہتے ہیں کہ آپ ﷺ اتنے حسین و جمیل تھے لیکن عام لوگوں کی طرح مغرور نہیں بلکہ سراپاِ رحمت ہیں۔ شاعر کہتے ہیں کہ آپ ﷺ کا یہ رحمت بھرا سراپا صرف مسلمانوں کے لیے ہی بلکہ پوری دنیا کے تمام انسانوں کے لیے یکساں مفید تھا اور آپﷺ پوری دنیا کے لیے رحمت و شفقت رکھتے ہیں۔

شاعر یہ بھی کہتے ہیں کہ جب ہمارے نبیﷺ اس زمین پر بھیجے گئے تو زمین آپ ﷺ کی آمد کی وجہ سے خود کو عرشِ بریں سے معتبر سمجھنے لگی۔ شاعر مزید کہتے ہیں کہ ہمارے نبی ﷺ کا پیغام اتنا پیارا اور دل کو چھو لینے والا ہے کہ وہ پیغام ہر انسان کے دل میں پیوست ہوگیا ہے اور ہمیشہ وہاں نقش رہےگا۔ شاعر کہتے ہیں کہ یہ ہمارے نبی  ﷺ کا ہم سب انسانوں پر اور اس زمین پر احسان ہے کہ انھوں نے تمام انسانوں پر رحمت کا مظاہرہ کیا اور وہ سب کے لیے سراپا رحمت ہیں۔ کیونکہ ہمارے نبیﷺ نے تمام مذاہب کے انسانوں پر رحم و کرم کیا اور ان کی رحمت فقط مسلمانوں تک محدود نہیں تھی۔

شاعر کہتے ہیں کہ ہمارے پیارے نبیﷺ  کی جو شفقت مسلمانوں کے لیے تھی وہی شفقت غیر مسلم لوگوں کے لیے بھی تھی کیونکہ وہ اس دنیا میں صرف ایک قوم کے لیے نہیں بلکہ پوری انسانیت  کی تربیت کے لیے بھیجے گئے تھے اور انھوں نے صرف ایک قوم کے لوگوں سے نہیں بلکہ تمام انسانوں سے محبت کی اور تمام انسانوں کے لیے سراپا رحمت بنے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے نبی ﷺ کی سیرت پر عمل کرنے کی توفیق عطا کریں۔