اور مزاج دار لٹ گئی

0

ناول کی تعریف اور آغاز و ارتقاء پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

مولوی نذیر احمد کی ناول نگاری پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

سوال: کہانی ”اور مزاج دار لٹ گئی “ کا خلاصہ

یہ کہانی مولوی نذیر احمد کے ناول ”مراۃ العروس“ سے لی گئی ہے۔ اس کہانی کا خلاصہ مختصراً اسطرح سے ہے۔ محمد عاقل اپنی بیوی مزاج دار کو کہتا ہے کہ شہر میں ایک دلالہ آئی ہے جو کئی گھروں کو لوٹ چکی ہے اس لیے کسی بھی اجنبی عورت کو گھر میں آنے نہیں دینا۔مزاج دار ایک بے وقوف عورت تھی۔ اسے معلوم ہوا کہ گلی میں حجن نام کی عورت آئی ہے اور اس نے اپنے ساتھ کئی تبرکات اور دوسری چیزیں لائی ہیں۔مزاج دار نے زلفن نام کی اپنی خدمت گار سے کہا کہ وہ جاکر حجن کو یہاں بلا لائے تاکہ وہ بھی تبرکات کی زیارت کر سکے۔

زلفن نے حجن کو بلایا۔ مزاج دار نے اس کی سب چیزیں دیکھیں جن میں تسبیح، خاک شفا، مدینہ منورہ کی کھجوریں، کوہ طور کا سرمہ، خانہ کعبہ کے غلاف کا ٹکڑا نادر علی اور دیگر کہیں چیزیں شامل تھیں اور دوسری عورتوں کو ٹھگتی تھی۔اس نے تاڑ لیا کہ مزاج دار کو آسانی سے بیوقوف بنایا جا سکتا ہے۔ اس نے مزاج دار کو ایک پیسے کا بہت سا سرما دے دیا اور دو آنے میں نادر علی دے دیا اور فیروزے کی ایک انگوٹھی مفت دے دی۔ مزاج دار خوش ہوگئی۔ اس کے بعد حجن نے ادھر ادھر کی باتیں کر کے مزاج دار کا اعتماد حاصل کرلیا۔ پھر اس نے اس کی اولاد کے بارے میں دریافت کیا، مزاج دار نے کہا کہ اس کی کوئی اولاد نہیں ہے۔ پھر اس نے اس کے خاوند کے بارے میں بھی پوچھا۔ مزاج دار نے کہا کہ وہ ہمیشہ مجھ سے ناخوش رہتے ہیں۔ حجن نے پہلی ہی ملاقات میں مزاج دار سے اس کے کئی راز معلوم کر لیے اور کہا کہ وہ اگلے روز اس کے پاس آئے گی۔

اگلے دن حجن ایک رسمی ازاربند لے کر آئی اور صرف چار آنے میں ہی مزاج دار کے حوالے کردیا۔مزاج دار اتنا سستا ازاربند خرید کر خوش ہو گئی۔ حجن نے اپنے بٹوے سے دو لونگیں نکالیں اور مزاج دار کو دیتے ہوئے کہا کہ ان میں سے ایک اپنی چوٹی میں باندھ لو اور دوسری اپنے خاوند کے تکیے میں رکھ دو اور مجھے اپنے قد کے برابر ایک کلاوہ کاٹ کر دو، میں تم کو ایک تعویز بنا دو کر دوں گی۔ مزاج دار نے نہایا کپڑے بدلے خوشبو لگائی اور ایک لونگ اپنی چوٹی میں باندھا اور اپنے خاوند کی پلنگ کی چادر اور تکیوں کے غلاف بدل دیے اور ایک لونگ اس کے تکیے میں رکھ دیں۔

جب اس کا خاوند محمد اقبال گھر آیا تو اس نے بیوی کو سجا سجایا دیکھا اور اپنے پلنگ کی چادر صاف ستھری دیکھی جو بغیر کہے بدل دی گئی تھی۔ وہ یہ دیکھ کر بہت خوش ہوا اور اپنی بیوی سے اچھی طرح باتیں کرنے لگا۔ مزاج دار نے اپنے خاوند کو ازاربند دکھاتے ہوئے کہا کہ اس نے یہ چار آنے میں خریدا ہے۔ محمد عاقل اتنا سستا ازاربند دیکھ کر خوش ہو گیا۔ مزاج دار نے دوسری چیزیں بھی دکھائیں، محمد عاقل اپنا فائدہ دے کر خوش ہوا۔

اگلے دن مزاج دار نے زلفن کو بھیج کر حجن کو گھر بلایا اور اسے اپنی منہ بولی ماں بنایا۔ رات کے وقت مزاج دار نے محمد عاقل سے ہیں حجن کا ذکر کیا تو محمد عاقل نے کہا کہ اس بھیس میں ٹھگنیاں بھی ہوتی ہیں اس لیے ہوشیار رہنا لیکن اصل میں محمد اقبال خود لالچ میں آیا تھا ورنہ چاہیے تو یہ تھا کہ محمد عاقل اپنی بیوی کو منع کرتا کہ وہ حجن کو اپنے گھر نہ بلائے اور اس کی سب چیزیں لوٹا دینے کو کہتا لیکن لالچ نے اسے اندھا بنا دیا۔

کچھ دنوں کے بعد حجن موتیوں کی ایک جوڑی لائی اور مزاج دار کو کہا کہ یہ ہزار یا پانچ سو کی جوڑی ہے تم یہ لے لو بعد میں ایسا مال نہیں ملے گا۔مزاج دار نے کہا میرے پاس پچاس روپے نقد نہیں ہیں حجن نے اسے بیٹی کہتے ہوئے کہا کہ تم پہنچاں بیچ کر یہ لے لو کیونکہ میں نے اسے آج بیچ ڈالنا ہے۔ حجن نے اس طریقے سے کہا کہ مزاج دار جلدی سے اپنا زیور کا ڈبہ لے کر آئی اور پہنچاں نکال کر اس کے حوالے کیا۔حج نے زیور دیکھ کر کہا کہ یہ تم نے اپنا زیور مولی گاجر کی طرح کیوں رکھا ہے۔کچھ زیور میلے ہو چکے ہیں ان کو اجلوا دو۔ مزاج دار نے کہا میرے خاوند کو فرصت نہیں ہے اس لیے کوں انہیں لے جا کر ڈورا ڈلوا دے گا یا اجلا کر لائے گا۔ حجن نے کہا کہ مجھے نکال کر دو میں ڈورا بھی ڈلوا دوں گی اور اجلوا کر بھی لاؤں گی۔ مزاج دار نے زیور اس کے حوالے کر دیے حجن نے کہا کہ زلفن کو بھی میرے ساتھ بھیج دو وہ سنار کے پاس بیٹھی رہے گی اور میں ڈورے ڈلوا کر لاؤں گی۔

بہر حال ہے حجن نے زیور اٹھایا اور زلفن کو اپنے ساتھ لے کر گلی سے باہر نکل آئی۔اس نے زلفن سے کہا کہ لاؤ اجلوانے کا زیور الگ کریں اور اور ڈورا ڈلوانے کا الگ۔ زیور کو الگ کرتے ہوئے ہیں حجن نے اچانک زلفن سے کہا کہ ناک کی کیل پاندان کے ڈھکنے پر رہ گئی ہے تم جلدی سے جاکر لے آؤ۔ زلفن دوڑ کر گئی اور مزاج دار سے ناک کی کیل مانگی۔ مزاج دار نے کہا کہ میرے زیور میں ناک کی کیل تھی ہی نہیں۔ اب اسے شک ہوا کہ کہیں حجن میرا زیور لے کر بھاگ نہ گئی ہو۔ اس نے زلفن سے کہا کہ جاؤ اور اسے دیکھ کر آؤ۔ زلفن دوڑ کر گئی لیکن اسے حجن نہیں ملی۔ وہ واپس مزاج دار کے پاس آئی اور اسے کہا کہ وہ فرار ہو چکی ہے۔ یہ سن کر مزاج دار سر پیٹنے لگی اور چیخنے لگی کہ میں لٹ گئی۔ لوگوں نے سنا تو وہ حجن کو ڈھونڈنے نکلے لیکن انہیں معلوم ہوا کہ وہ مہینے بھر سے یہاں کرائے پر رہتی تھی لیکن چار دن پہلے مکان چھوڑ کر چلی جا چکی ہے۔

(3) سوالات

١: لوگوں کو دھوکا دینے کے لیے حجن کون سی چیزیں اپنے پاس رکھتی تھی؟

جواب: لوگوں کو دھوکا دینے کے لیے حجن طرح طرح کے تبرکات اور سینکڑوں قسم کی چیزیں اپنے پاس رکھتی تھی جن میں تسبیح، خاک شفا، مدینہ منورہ کی کھجوریں، کوہ طور کا سرمہ، خانہ کعبہ کے غلاف کا ٹکڑا، نادر علی وغیرہ۔

٢: حجن نے مزاج دار سے قیمت لیے بغیر اس کو فروزے کی انگوٹھی کیوں دی؟

جواب: وہ اس کے سامنے اپنے آپ کو ایک فراخ دل اور ہمدرد عورت ظاہر کرنا چاہتی تھی اور مزاج دار کا اعتماد حاصل کرنا چاہتی تھی تاکہ بعد میں وہ اسے آسانی سے لوٹ سکے۔

٣: مزاج دار بہو کو بیوقوف بنانے کے لیے حجن نے کیا کیا؟

جواب: حجں ایک ریشمی ازاربند مزاج دار کو دکھانے کے لئے لائی اور صرف چار آنے میں ہی اس کے حوالے کردیا۔ اور کہا کہ یہ ایک بیگم کے ہیں جو غریب ہو گئی ہے اور اپنا سامان بیچ کر گزارہ کرتی ہے۔ مزاج دار اتنا سستا ازاربند لے کر خوش ہوگئی اور حجن کو کہا کہ آئندہ بھی اس کی چیزیں مجھے دکھایا کرنا۔ اس کے بعد اس نے اپنے پرس میں سے دو لونگ نے نکالے اور مزاج دار کو دیتے ہوئے کہا کہ ان میں سے ایک اپنی چوٹی میں باندھو اور دوسرا اپنے خاوند کے تکیے میں رکھ دو اور مجھے اپنے قد کے برابر ایک قلااوہ کاٹ کر دو، میں تم کو ایک تعویز دوں گی۔ اگلے دن مزاج دار نے زلفن کو بھیج کر حجن کو گھر میں بلایا اور اسے اپنی منہ بولی ماں بنایا اور خود کو اس کی بیٹی مان لیا۔ اس طرح حجن نے مزاج دار کو بیوقوف بنایا۔

٤: محمد عاقل حجن کی چال کیوں نہ سمجھ سکا؟

جواب: محمد عاقل لالچ میں آیا تھا اور اس کی سمجھ میں یہ بات بھی نہ آئی کہ دو روپے کا مال چار آنے میں کیوں کر مل سکتا ہے۔ چنانچہ لالچ میں آکر محمد عاقل کی عقل پر پردہ پڑ گیا اور وہ حجن کی چال کو نہ سمجھ سکا۔

٥: حجن مزاج دار کے زیورات لوٹ لینے میں کس طرح کامیاب ہوگئی؟

جواب: حجن موتیوں کے ایک جوڑی لائی اور مزاج دار کو اسے خریدنے کے لئے کہا۔ مزاج دار کے منع کرنے پر اس نے کہا کہ ایسا مال دوبارہ نہیں ملے گا۔ مزاج دار کے پاس نقد پیسے نہیں تھے۔ حجن نے اسے کہا کہ تم پہنچاں بیچ کر یہ لے لو۔ چنانچہ مزاج دار جلدی سے اپنا زیور کا ڈبہ لے کر آئی اور پہنچاں نکال کر اس کے حوالے کیا۔ جب حجن نے اس کے قیمتی زیور دیکھے تو وہ لالچ میں آ گئی اور زیورات کو سنار سے اجلوانے کے بہانے سے اس سے زیور کا ڈبہ لے لیا۔ یہ بات مزاج دار نے اس طریقے سے کہی جیسے وہ حجن کے زیورات کی پاسبان ہو۔ حجن نے بھی اس کی بات پر یقین کرلیا اور تمام زیورات نکال کر اس کے حوالے کر دیے۔ اس طرح مزاج دار حجن سے زیورات لوٹ لینے میں کامیاب ہوئی۔

درج ذیل بیانات صحیح ہیں یا غلط؟ اپنے جوابات کو صحیح ثابت کرنے کے لیے پانچ پانچ جملے لکھیے۔

1. حجن مکارہ تھی۔کیونکہ

  • (١) وہ لوگوں کو بے وقوف بنا کر انہیں لوٹتی تھی۔
  • (٢) اس نے لوگوں کو احمق بنانے اور انھیں ٹھگنے کے لیے مختلف چیزیں اپنے پاس رکھیں تھیں۔
  • (٣) وہ ایک دلالہ تھی۔
  • (٤) اس نے لوگوں کو ٹھگنے کے لیے گلی میں ایک دکان کھولی تھی۔
  • (٥) وہ بہت چالاکی سے مزاج دار کا اعتماد حاصل کر لیتی ہے۔

2. مزاج دار بہو بے وقوف تھی کیونکہ:

  • (١) وہ حجن کی چیزوں کو سچ مچ تبرکات سمجھتی تھی۔
  • (٢) وہ آسانی سے حجن کے جال میں پھنس جاتی ہے۔
  • (٣) وہ پہلی ہی ملاقات میں اپنے سبھی راز حجن کو بتا دیتی ہے۔
  • (٤) مزاج دار حجن کو اپنا سارا زیور اس کے حوالے کرکے اپنی بے وقوفی کا ثبوت دیتی ہے۔
  • (٥) وہ حجن کے دھوکے اور فریب کو کسی بھی موقع پر پہچان نہیں سکتی۔

3. محمد عاقل کی عقل کام نہ کر سکی کیونکہ:

  • (١) وہ لالچ میں آ گیا تھا۔
  • (٢) وہ یہ بھی نہ سمجھ سکا کہ ایک روپے کا مال کوئی کیسے چار آنے میں دے سکتا ہے۔
  • (٣) وہ حجن کو گھر میں آنے سے منع نہ کر سکا۔
  • (٤) وہ اپنی بیوی کو سمجھا نہ سکا کہ وہ حجن کی تمام چیزیں اسے واپس کر دے۔
  • (٥) محمد عاقل اپنا فائدہ دیکھ کر اصل خطرے کو نظر انداز کر دیتا ہے۔

درج ذیل اقتباس کے آخر پر دیے گئے سوالات کے جوابات لکھیے۔

“اگلے دن زلفن کو بھیج کر حجن کو بلوایا۔ آج مزاج دار بیٹی بنیں اور حجن کو ماں بنایا۔ محمد عاقل نے کہا دیکھو ہوشیار رہنا۔ اس بھیس میں کٹنیاں اور ٹھگنیاں بہت ہوا کرتی ہیں۔لیکن طمع نے خود محمد عاقل کی عقل پر ایسا پردہ ڈال دیا کہ اتنی موٹی بات وہ نہ سمجھا کہ دو روپے کا مال چار آنے کو کوئی بے وجہ بھی دیتا ہے۔”

سوال: درج بالا اقتباس کس سبق سے ماخوذ ہے؟

جواب: یہ اقتباس ”اور مزاج دار لٹ گئی“سے ماخوذ ہے۔

سوال: زلفن کون تھی؟

جواب: زلفن مزاج دار کی ایک خدمت گزار تھی۔

سوال: ان جمع اسموں کے واحد لکھیے: کٹنیاں، ٹھگنیاں

جواب: کٹنی، ٹھگنی

سوال: دو روپے کا کون سا مال چار آنے میں بک گیا؟

جواب: ریشمی ازاربند۔

سوال: محمد عاقل کی عقل پر پردہ کیوں پڑ گیا؟

جواب: محمد عاقل لالچ میں آ گیا اس لئے اس کی عقل پر پردہ پڑ گیا۔

سوال: درج بالا اقتباس کا ماحاصل اپنے الفاظ میں لکھیے۔

جواب: یہ اقتباس ڈپٹی نذیر احمد کے ناول ”مراۃ العروس“ کی ایک کہانی ”اور مزاج دار لٗٹ گئی“ سے ماخوذ ہے۔ اس میں حجن کے ہاتھوں مزاج دار کے بے وقوف بننے اور محمد عاقل کے لالچ میں آکر اپنی عقل کھو دینے کا ذکر کیا گیا ہے۔مزاج دار حجن کو گھر بلانے کے لیے اپنی خادمہ زلفن کو بیج دیتی ہے۔جب حجن آتی ہے تو مزاج دار اسے اپنی ماں بناتی ہے اور خود اس کی بیٹی بن جاتی ہے۔ محمد عاقل اپنی بیوی کو ہوشیار رہنے کے لئے کہتا ہے اور یہ بھی کہتا ہے کہ دلالہ اور ٹھگنیاں بھی اسی بھیس میں ہو سکتی ہیں لیکن بیوی کا حجن سے لیا ہوا سستا مال دیکھ کر لالچ کی وجہ سے اس کی عقل پر پردہ پڑ جاتا ہے اور وہ یہ بھی نہیں سمجھ سکا کہ دو روپے کی چیز کیسے چار آنے میں کوئی دے سکتا ہے۔

دیے گئے مونث اسموں کے مذکر بنائیے۔

حجن حاجی
عاقلہ عاقل
بیٹی بیٹا

مندرجہ ذیل جملوں کی وضاحت کیجئے:

(١) زلفن حجن کو لو الائی۔ زلفن حجن کو لے کر آئی۔

(٢) مزاج دار بہو کا ماتھا ٹھنکا۔ مزاج دار بہو کو شک ہوا۔

(٣) یہ عورت ڈھب پر جلد چڑھ جائے گی۔ اس عورت کو آسانی سے اپنی باتوں میں لایا جا سکتا ہے۔

(٤) روز تم کو دیکھ جایا کروں گی۔ روز تم کو دیکھ لیا کروں گی۔

ہر ایک کردار کے بارے میں تین تین جملے لکھیے۔

  • (١) (زلفن)
  • ١. محمد عاقل کے گھر میں رہتی ہے۔
  • ٢. وہ مزاج دار کی ہر بات مانتی ہے۔
  • ٣. حجن زلف کو سنار کی دکان پر جانے کے لیے اپنے ساتھ چلنے کو کہتی ہے۔
  • (٢) (حجن)
  • ١. وہ ایک دلالہ تھی۔
  • ٢. اس نے لوگوں کو ٹھگنے کے لیے گلی میں دکان کھولی تھی۔
  • ٣. وہ بہت چالاکی سے مزاج دار کا اعتماد حاصل کرتی ہے۔
  • (٣) (مزاج دار بہو)
  • ١. وہ ایک بے وقوف عورت ہے۔
  • ٢. وہ آسانی سے حجن کے جال میں پھنس جاتی ہے۔
  • ٣. وہ ناول کا مرکزی کردار ہے۔
  • (٤) (محمد عاقل)
  • ١. مزاج دار کا خاوند ہے۔
  • ٢. جلدی لالچ میں آ جاتا ہے۔
  • ٣. وہ یہ بھی نہ سمجھ سکا کہ روپے کا مال کوئی کیسے چار آنے دے سکتا ہے۔

گرامر

  • مرکب اضافی: اس کو کہتے ہیں جو مضاف، مضاف الیہ اور حرف اضافت سے مل کر بنتا ہے۔ جیسے مدینہ کی کھجوریں، مزاج دار کے زیور، حسین کا قلم وغیرہ۔
  • مندرجہ بالا مرکبات میں مدینہ، مزاج دار اور حسین مضاف الیہ ہیں، جبکہ کھجوریں، زیور اور قلم مضاف ہیں۔ اسی طرح ”کی، کے، اور کا“ حرف اضافت ہیں۔

ان مرکبات میں مضاف الیہ پہلے اور مضاف بعد میں آتا ہے لیکن فارسی میں مضاف پہلے اور مضاف الیہ بعد میں آتا ہے۔ مثلاً : خاک شفا، عشق نبی۔
حروف اضافت نو ہیں۔ حروف اضافت وہ ہیں جو دو اسموں کے باہمی تعلق کو ظاہر کریں۔

اب مثال دیکھ کر درج ذیل مرکبات میں سے مضاف الیہ اور مضاف اور حروف اضافت الگ کرکے لکھیے۔

مرکبات مضاف الیہ مضاف حروف اضافت
سونے کی انگوٹھی سونے انگوٹھی کی
خدا کا بندہ خدا بندہ کا
احمد کی ٹوپی احمد ٹوپی کی
کاغذ کے پھول کاغذ پھول کے
رشید کا بھائی رشید بھائی کا