جوتے کی آپ بیتی

0

زندگی کے ابتدائی حالات تو میرے لاشعور میں کہیں کھو گئے ہیں۔ البتہ میں نے کبھی یاد کرنے کی کوشش نہ کی کیونکہ یہ بھی اسی دور کا حصہ تھا جو میں نے زندگی اور دنیا کی حقیقت سے غافل رہ کر گزارا۔

ہوش سنبھالا تو خود کو ایک بڑی سی دکان میں نفاست سے سجا ہوا پایا۔ لوگ آتے تھے اور مجھے بڑے ہی اشتیاق سے دیکھتے تھے مگر میری قیمت ان کو مایوس ہو کر لوٹنے پر مجبور کر دیتی۔ میں یہ سوچ کر بڑا ہی لطف حاصل کرتا تھا کہ میں ہوں ہی اس قدر شاندار کہ ہر کسی کی دسترس میں نہیں ۔ آخر ایک دن ایک امیر زادہ اپنے والد کے ہمراہ آیا اور میرا انتخاب کیا۔ مجھے زندگی کے اس نئے مرحلے میں داخل ہوتے ہوئے تھوڑا بہت ڈر تو لگ رہا تھا لیکن دل ہی دل میں مجھے یقین تھا کہ میری یہ زندگی بھی ایسی ہی پر تعیش ہوگی کیوں کہ میرے جیسے شاہکار کی تقدیر میں مدح اور رشک بھری نگاہیں ہی ہونی چاہیے تھیں۔

چنانچہ ایک نرم مخملیں رومال میں لپیٹ کر ایک ڈبے میں ڈال دیا گیا۔ اب میں اپنے خریدار کے ہمراہ چل پڑا۔ میرا نیا ٹھکانہ ایسا ہی شاندار تھا جیسا میں نے سوچا تھا۔ میرا خریدار ایک زندگی سے بھرپور نوجوان تھا۔ اس کے ساتھ میں نے کئی رنگین محفلیں دیکھیں۔ خوب تفریح کی۔ جب لوگ مجھے رشک بھری نگاہوں سے دیکھتے تو میں خوشی سے نہال ہو جاتا۔ زندگی پوری آب و تاب کے ساتھ گزر رہی تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ یہی رنگارنگی ہمیشہ قائم رہےگی۔ لیکن پلک جھپکنے کی دیر تھی کہ میں آسمان سے زمین پر آگرا۔ گویا میں ایک حسین خواب دیکھ رہا تھا جو کہ نہایت دلکش تھا مگر جب *کھل گئی آنکھ تو تعبیر پہ رونا آیا*
جتنی جلدی میرے خریدار کا دل مجھ پہ آیا تھا اتنی ہی جلدی اس کا دل مجھ سے بھر بھی گیا۔
*جیسے دامن سے کوئی خاک جھٹک دے محسن*
**اس نے یوں توڑ دیا ربط شناسائی کا*

مجھے اب ایک تاریک کمرے میں دوسری متروکہ اشیاء کے ہمراہ رکھ دیا گیا۔ تاریکی میں لپٹی ہوئی یہ ہولناک خاموشی بہت ہی اذیت ناک معلوم ہوتی تھی۔ نہ جانے کتنی ہی گھڑیاں اس قفس میں اپنی تقدیر پر ماتم کرتے ہوئے گزری تھیں کہ ایک دن مجھے اٹھا کر کسی ڈبے میں ڈال دیا گیا۔ میں نے سوچا کہ اب اس قید حیات سے بھی آزاد ہونے کا وقت ہوا چاہتا ہے۔ *سفر تمام ہوا گرد جستجو بھی گئی*

ہم ایک انجان سفر میں تھے اور میں اپنے آخری سفر کے لیے خود کو تیار کررہا تھا۔ لیکن جب اس تاریک ڈبے سے مجھے نکالا گیا تو میری توقعات کے برعکس موت سے زیادہ زنگی کے آثار نظر آئے۔ ابھی میں اسی کشمکش میں تھا کہ دکان کی چہل پہل میں سے ایک آدمی میری طرف بڑھا۔ اس نے اس کے بعد کا کافی وقت میری صفائی ستھرائی میں لگا دیا۔ اتنے عرصے میں پہلی بار مجھے محسوس ہوا کہ ابھی میرے وجود میں زندگی باقی ہے۔

اب میں نے جب اپنے اطراف کا معائنہ کیا تو دیکھا کہ یہ جھوٹی سی دکان ایک بازار میں واقع تھی جہاں ہمہ وقت شور اور لوگوں کا طوفان دکھائی دیتا تھا۔ مجھے کہیں خریدار کے انتظار میں رکھ دیا گیا۔ جتنے جوتے نمائش کے لیے رکھے گئے تھے وہ بھی کسی حد تک خستہ حال ہی تھے۔ چند دن ہی گزرے تھے کہ ایک دفعہ پھر سے مجھ پر بولی لگنے لگی۔

جس آدمی نے مجھے خریدنا تھا اس کے دریافت کرنے پر میری قیمت پانچ سو بتائی گئی۔ یہ سن کر مجھے بہت حقارت محسوس ہوئی۔ کیا میری ذات کا سودا چند سو میں ہونے جارہا تھا؟ لیکن مجھے خیال آیا کہ اب میرے عروج کے دن بھی تو گزر چکے ہیں میں کس بات کی اکڑ دکھاؤں؟ یہی سوچتے ہوئے میں اپنے نئے خریدار کے ساتھ ہو لیا۔ وہ مجھے ایک نچلے طبقے کی آبادی میں موجود ایک چھوٹی سی مکان میں لے آیا۔ اس نے جب اپنے بیٹے کو مجھے دکھایا تو وہ خوشی سے نہال ہوگیا اور اپنے والد کو گلے سے لگا کر شکریہ ادا کیا۔

جب وہ مجھے اٹھا کر پرکھنے لگا تو میں پل بھر کے لیے سہم سا گیا تھا کہ کیا معلوم یہ بھی مجھے ترک کردے۔ اب تو مجھ میں نہ وہ جمال رہا نہ ہی وہ تازگی۔ لیکن جب میں نے اسکی آنکھوں میں دیکھا تو ان میں ایک ایسی چمک تھی جسے میں کبھی سمجھ نہ سکا۔ وہ جب مجھے پہنے باہر جاتا تھا تو مجھے خوف ہوتا تھا کہ نہ جانے لوگ مجھے دیکھ کر کیا کہیں گے۔ لیکن مجھے جلد ہی اندازہ ہوگیا کہ باقی سب کے جوتے مجھ سے بھی خراب حال تھے۔ اور نہ جانے کیوں یہ معلوم ہونے پر مجھے اطمینان ہونے کی جگہ ایک دل کو کھا جانے والا دکھ ہوا تھا۔

وہ ہر روز بہت دور تک چل کے پڑھنے جاتا تھا۔ گھر آکر اسے کتنی خوشی ہوتی تھی کہ میں نے ساری راہ اس کا ساتھ دیا۔ پھر شام کو وہ اپنے والد کے ساتھ کام کرنے جاتا اور کتنے ہی گھنٹے پسینے میں شرابور ہو کر کام کرتا۔ میں اس کو دیکھ کر بہت حیران ہوتا تھا کہ اتنا چھوٹا سا تو ہے لیکن کتنی ہی تکلیفیں ہنس کر سہ جاتا ہے۔ اب میری زندگی پہلے کی طرح پر آسائش ہرگز نہ تھی مگر پر معنی ضرور تھی۔ مجھے اس سے کتنی انسیت ہوگئی تھی اس بات کا اندازہ مجھے اس دن ہوا تھا جب وہ چہکتا ہوا سٹیج پر کھڑا تھا اور اپنی اعلیٰ کارکردگی پر سکول کی طرف سے انعام وصول کر رہا تھا۔

اس کے انعام میں نئے جوتوں کا جوڑا بھی تھا۔ لیکن مجھے اس بات کا اندازہ پہلے سے ہی ہوگیا تھا کہ اب ہمارا ساتھ زیادہ عرصہ نہ چل سکے گا۔ میری حالت بہت ہی خستہ تھی لیکن مجھے اس بات کی خوشی تھی کہ میں نے آخر تک اس کا ساتھ دیا۔ اس کی جدائی پر میں رنجیدہ تو بہت تھا مگر وہ بھی تو اب کافی بڑا ہوگیا تھا۔ اتنی مشکل سے میں اسے پورا آتا تھا۔ شاید میرا مقصد حیات تمام ہوگیا تھا اسی لیے مجھے ملال نہیں اطمینان تھا۔ میری زندگی کے تمام واقعات کسی فلم کی طرح میرے دماغ میں چل رہے تھے اور دل میں اس کے لیے دعا اور لبوں پر مسکراہٹ سجائے میں نے اپنی آنکھیں بند کرلیں۔

خیالِ حسن میں یوں زندگی تمام ہوئی
حسین صبح ہوئی اور حسین شان ہوئی
تحریر قرۃ العین