Khawaab e Azaadi Nazm Tashreeh | NCERT 8th | نظم خواب آزادی کی تشریح

0
  • کتاب”اپنی زبان”برائے آٹھویں جماعت
  • سبق نمبر13:نظم
  • شاعر کا نام: شوکت تھانوی
  • نظم کا نام: خواب آزادی

نظم خواب آزادی کی تشریح

اپنی آزادی کا دیکھا خواب میں نے رات کو
یاد کرتا ہوں میں اپنے خواب کی ہر بات کو

یہ شعر شوکت تھانوی کی نظم خواب آزادی سے لیا گیا ہے۔ شاعر نے اس نظم میں مزاح کے انداز میں معاشرتی ناہمواریوں کو بے نقاب کیا ہے۔ شاعر اس شعر میں کہتا ہے کہ ایک روز رات میں نے خواب دیکھا جو کہ معمول کے خوابوں سے مختلف تھا۔ یہ خواب میری آزادی کا خواب تھا۔ جاگنے کے بعد اس خواب کی ہر ہر بات کو یاد کیا وہ خواب کیا تھا اس کی وضاحت شاعر نے آنے والے اشعار میں کچھ یوں کی ہے۔

میں نے یہ دیکھا کہ میں ہر قید سے آزاد ہوں
یہ ہوا محسوس جیسے خود میں ” زندہ باد ہوں

شاعر اس شعر میں اپنے خواب کو بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میں ایک آزاد شہری ہوں ۔آزاد ملک کا باشندہ ہوں اور میری آزادی اس حد تک بڑھی ہوئی ہے کہ میں خود کو ایک زندہ باد قوم محسوس کرتا ہوں جس کے پاس تمام قوتیں آگئی ہوں۔

اب مجھے قانون کا ڈر گیا، مرا قانون ہے
خود ہی کوزہ، خود ہی کوزہ گر وہی مضمون ہے

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ میں نے اپنی آزادی کو یوں دیکھا کہ میں جس ملک میں رہ رہا ہوں وہاں کسی قانون کی نہ کوئی عملداری ہے اور نہ پاسداری ہے۔ قانون بنانے والا میں خود ہوں۔ اس کی مثال شاعر نے یوں دی ہے کہ میں خود ہی کوزہ بنانے والا ہوں اور خود ہی کوزہ بھی ہوں۔

جتنی تھیں پابندیاں، وہ خود مری پابند ہیں
وہ جو مائی باپ تھے حاکم وہ سب فرزند ہیں

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میں ایک ایسے معاشرے میں جی رہا ہوں جہاں مجھ پر کسی طرح کی کوئی پابندی عائد نہیں ہے۔ بلکہ یہاں کا ہر حکم میرا پابند ہے۔ میں جس معاشرے میں ہوں وہ ایسا معاشرہ ہے کہ جہاں ماں باپ اولاد کے سربراہ یا حاکم کے رتبہ پر تھے اب وہ بچے جبکہ ان کی اولاد ان کی حاکم بنی ہوئی ہے۔ شاعر نے اس شعر میں موجودہ معاشرتی کیفیت پر چوٹ کی ہے۔

ملک اپنا قوم اپنی اور سب اپنے غلام
آج کرنا ہے مجھے آزادیوں کو احترام

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ خواب میں خود کو ایسے معاشرے کا باشندہ پایا کہ جہاں ملک و قوم میرے غلام ہیں۔مجھے اس آزادی کا ہر طرح سے احترام کرنا ہے۔

جس جگہ لکھا ہے مت تھوکو! میں تھوکوں گا ضرور
اب سزاوار سزا ہوگا نہ کوئی بھی قصور

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ خواب میں جس ملک میں خود کو میں نے آزاد پایا اس ملک میں آزادی کا جو مفہوم میں نے نکالا وہ یہ ہے کہ جس جگہ تھوکنے سے منع کیا گیا ہے میں وہیں تھوکوں کا اور مجھے کسی چیز کی سزا نہیں دی جائے گی نہ میرا قصور ٹھہرایا جائے کہ میں ایک آزاد باشندہ ہوں۔ شاعر نے موجودہ حالات پر چوٹ کی ہے کہ جہاں لوگوں کو کوڑا پھینکنے کی ممانعت ہو وہ وہیں وہ کام سر انجام دیتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس شعر سے عوامی بد حسی کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔

اک ٹریک کے پولیس والے کی کب ہے یہ مجال
وہ مجھے روکے میں رک جاؤں یہ ہے خواب و خیال

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ میں ایک آزاد ملک میں ہوں اور اس قدر آزاد ہوں کہ یہاں کے ٹریفک پولیس والوں کی بھی مجال نہیں ہے کہ وہ مجھے روک پائیں۔ اگر میں کوئی خلاف ورزی کرتا پکڑا بھی جاؤں تو وہ مجھے روکیں اور میں ان کی بات مان کر رک جاؤں یہ بھی ایک خواب کی بات ہے۔ اس شعر میں شاعر نے موجودہ معاشرے کی قانونی خلاف ورزیوں پر چوٹ کی ہے۔

میری سڑکیں ہیں تو میں جس طرح بھی چاہوں چلوں
جس جگہ چاہے رکوں اور جس جگہ چاہے مڑوں

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ میں جس ملک کا باشندہ ہوں وہاں کی سڑکیں میری ملکیت ہیں۔ میری مرضی ہے کہ میں جیسے چاہوں ان پر چلوں۔ جہاں دکنا چاہوں رکوں اور جہاں مڑنا چاہوں مڑوں۔کوئی مجھے روکنے کی جرات نہیں رکھتا ہے۔

سائیکل کی رات میں بتی جلاؤں کس لیے
ناز اس قانون کے آخر اٹھاؤں کس لیے

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ میں اس نئے ملک میں اتنا آزاد ہوں کہ رات میں،میں سائیکل کی بتی جلانا بھی مناسب خیال نہیں کرتا ہوں۔میری سمجھ سے باہر ہے کہ میں یہاں کے قانون کی ناز برداریاں کیوں کروں کیوں کہ میں ایک آزاد ملک میں ہوں۔

ریل اپنی ہے تو آخر کیوں ٹکٹ لیتا پھروں
کوئی تو سمجھاۓ مجھ کو یہ تکلف کیوں کروں!

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ میں چونکہ آزاد ملک میں ہوں اس لیے میں ریل کا سفر بھی ٹکٹ کے بغیر کروں گا۔ مجھے کوئی سمجھائے کہ آزاد ملک میں ریل کے ٹکٹ کی ضرورت کیوں ہے۔ شاعر نے اس شعر میں اصولوں کی خلاف ورزی کرنے والے رویوں پر چوٹ کی ہے۔

کیوں نہ رشوت لوں کہ جب حاکم ہوں میں سرکار ہوں
تھانوی ہرگز نہیں ہوں اب میں تھا نیدار ہوں

اس شعر میں شاعر نے معاشرے میں رشوت کے سرگرم بازار پر چوٹ کی ہے کہ وہ اس معاشرے میں خود کو رشوت لینے کا حقدار سمجھتا ہے۔ شاعر مزاح کی صورت پیدا کرتے ہوئے کہتا ہے کہ میں اب تھانوی نہیں رہا (شاعر نے یہاں اپنے تخلص کو خوبصورتی سے برتا ہے) بلکہ میں اس ملک میں تھانیدار ہوں اور جس طرح چاہوں رشوت لے سکتا ہوں۔ شاعر نے اس شعر میں موجودہ معاشرتی برائی رشوت اور پولیس والوں کی کرپشن کو بے نقاب کیا ہے

چور بازاری کروں یا شاہ بازاری کروں!
مجھ کون ہے جس طرح چاہوں میں اپنا گھربھروں

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ آزاد ملک اور آزادی سے مراد ہے کہ اس ملک میں چور بازاری یا شاہ بازاری کروں مجھے کوئی روکنے والا نہیں ہے میں ہر طرح سے اس ملک کو لوٹ کو اپنا گھر بھر سکتا ہوں۔

گھی میں چربی کے ملانے کی ہے آزادی مجھے
اب ڈرا سکتی نہیں گاہک کی بربادی مجھے

اس شعر میں شاعر نے معاشرے میں ہر سطح پر ہونے والی لوٹ بازاری کو بے نقاب کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اگر اس آزاد ملک میں۔ میں ایک گھی بنانے واکا ہوں تو میں جیسے بھی چاہے اس گھی میں چربی یا دیگر ملاوٹ کرکے اسے ناقص تیار کر سکتا ہوں میری وجہ سے اگر گاہک کی صحت کا نقصان ہو رہا ہے یا اس کی جان جا رہی ہے تو اس کی یہ بر بادی مجھے ہر گز خوف زدہ نہیں کر سکتی ہے۔

میں ستم گر ہوں ، ستم پیشہ، ستم ایجاد ہوں!
مجھ کو یہ حق پہنچتے ہیں سب کہ میں آزاد ہوں

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ اس ملک میں۔میں کار مختیار ہوں۔ میں ستم ڈھانے والا بھی اور ستم ایجاد کرنے والا۔بھی ہوں مجھے ہر طرح کے مظالم ڈھانے کا حق ہے کہ کیونکہ میں ایک آزادی انسان ہوں۔ شاعر نے اس نظم میں آزادی کے غلط استعمال کو بخوبی بیان کیا ہے اور معاشرے میں جرم کے بادشاہوں کو بے نقاب کیا ہے۔

یک بیک جب نیند سے چونکا تو دیکھا یہ حقیر
اپنی آزادی ہی کی پابندیوں کا ہے اسیر

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ اچانک سے جب میری آنکھ کھلی تو میں کیا دیکھتا ہوں کہ یہ سب تو ایک خواب تھا میں تو درحقیقت اب تک اپنی آزادی کی پابندیوں میں جکڑا ہوا ہوں۔

سوچیے اور بتایئے:

شاعر نے خواب میں کیا دیکھا؟

شاعر نے خواب میں ایسی آزادی دیکھی جہاں وہ ہر طرح کے ممنوع کام بھی اپنی مرضی سے کر سکتا ہے۔

چور بازاری اور شاہ بازاری سے کس طرح گھر بھرا جا سکتا ہے؟

چور بازاری یعنی اشیاء میں ملاوٹ کرکے اور چیزوں کے دگنے دام وصول کر کے یا کم معیار کی چیث مہنگے داموں بیچ کر جبکہ شاہ بازاری سے رشوت کا بازار گرم کرکے اپنا گھر بھرا جا سکتا ہے۔

گا ہک کی بربادی گھی میں چربی ملانے سے کیسے ہوسکتی ہے؟

چربی ملے گھی کے استعمال سے گاہک کی صحت متاثر ہو سکتی ہے اور اسے موت کے مجھ میں دکھیل سکتی ہے۔

نیند سے بیدار ہونے کے بعد شاعر اپنے آپ کو کن پابندیوں میں گھرا پاتا ہے؟

نیند سے بیدار ہونے کے بعد شاعر خود کو آزادی کی پابندیوں میں گھرا محسوس کرتا ہے۔

شاعر کے بے خوف ہونے کی کیا وجہ تھی؟

شاور اس لیے بے خوف تھا کہ وہ آزاد ملک کا باشندہ ہے یہاں قانون اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا ہے۔

خود ہی کوزہ ، خود ہی کوزہ گر وہی مضمون ہے‘ اس مصرعے میں شاعر کیا کہنا چاہتا ہے؟

خود ہی کوزہ اور کوز گر سے مراد ہے کہ خود ہی برتن اور خود ہی برتن بنانے والا ہوں تو خوف کیسا۔

شاعر نے اپنے آپ کو تھانے دار کیوں کہا ہے؟

شاعر نے خود کو آزاد ملک کا باشندہ تصور کرتے اور حاکم مانتے ہوئے خود کو تھانے دار کہا ہے۔

مصرعوں کو مکمل کیجیے:

ملک اپنا قوم اپنی اور سب اپنے غلام
آج کرنا ہے مجھے آزادیوں کو احترام

جس جگہ لکھا ہے مت تھوکو! میں تھوکوں گا ضرور
اب سزاوار سزا ہوگا نہ کوئی بھی قصور

میری سڑکیں ہیں تو میں جس طرح بھی چاہوں چلوں
جس جگہ چاہے رکوں اور جس جگہ چاہے مڑوں

کیوں نہ رشوت لوں کہ جب حاکم ہوں میں سرکار ہوں
تھانوی ہرگز نہیں ہوں اب میں تھا نیدار ہوں

نیچے لکھے لفظوں کو اپنے جملوں میں استعمال کیجیے۔

احترام ہمیشہ بڑوں سے احترام سے پیش آنا چاہیے ۔
سزاوار قانون کا کام سزا وار مجرم کی سزا پر عملدرآمد کروانا ہے۔
چور بازاری معاشرے میں ہر جانب رشوت ستانی اور چور بازاری ہو رہی ہے۔
رشوت رشوت لینا اور دینا جرم کے ساتھ گناہ بھی ہے۔
حقیر ہمیں کسی کو حقیر نہیں سمجھنا چاہیے۔

ان لفظوں کے متضاد لکھیے۔

آزادی قید
قید رہائی
زندہ باد مردہ باد
غلام آقا
اسیر رہا
بر بادی آبادی

دار لگا کر لفظ بنائیے

ایمان ایمان دار
عزت عزت دار
وفا وفا دار
تھانے تھانے دار
چوکی چوکی دار

عملی کام: نظم کا مرکزی خیال لکھیے۔

اس نظم میں شاعر شوکت تھانوی نے معاشرتی ناہمواریوں کو طنز اور مزاح کے لبادے میں بیان کیا ہے۔ شاعر ایک خواب سناتا ہے جس میں وہ ایک آزاد ملک کا باشندہ ہے جہاں وہ ہر طرح کی پابندی سے بھی خود کو آزاد پاتا ہے وہ جیسے چاہے وہاں قانون کی خلاف ورزی کرتا اور رشوت اور بد دیانتی سے خود کو فائدہ پہنچاتا ہے۔یہاں اس کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔کیوں کہ وہ خود کو تھانے دار سمجھتا ہے۔ مگر اس خواب کا انجام حقیقت کی دنیا میں آنکھ کھکنے سے ہوتا ہے جہاں شاعر معاشرے اور آزادی کی پابندیوں میں جکڑا ہوا ہے۔

پڑھیے،سمجھیے اور لکھیے۔

ہم نوالہ، ہم مشرب اور ہم خیال وغیرہ مرکب الفاظ ہیں ۔ ان میں’ ہم سابقہ کے طور پر استعمال ہوا ہے۔ اس طرح درج ذیل کے لیے مرکب لفظ لکھیے جن کے پہلے ہم استعمال ہو۔

ایک ہی نام کا = ہم نام
ایک ہی مذہب کا = ہم مذہب
ایک شکل کا = ہم شکل
برابر کی عمر کا = ہم عمر
ساتھ سفر کر نے والا = ہم سفر