ناول خدا کی بستی کا خلاصہ | Khuda Ki Basti Novel Summary

0

شوکت صدیقی منجھے ہوئے قلم کاروں میں سے تھے۔ انہوں نے کئی ناول اور کہانیاں لکھیں مگر “خدا کی بستی” ناول نے انہیں شہرت کے عروج کی تمام تر بلندیوں کی سیر کرائی ہے۔ خدا کی بستی کا 26 سے زائد زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے، 47 سے زائد ایڈیشن شائع ہوچکے، جبکہ یہ ناول آدم جی ایوارڈ بھی لے چکا ہے۔

خلاصہ خدا کی بستی

یہ کہانی غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی گزارنے والوں کی ہے، جہاں معمول کی زندگی میں معمولی سی بھی سہولت دستیاب نہیں۔ کہانی کا بنیادی کردار نوشا ہے، اس کے دو ساتھی راجہ اور شامی ہیں، راجہ ایک گداگر ہے، شامی ایک بساطی(پرچون والا) کا بیٹا ہے، جب کہ نوشا خود ایک یتیم لڑکا ہے جس کی والدہ 38 سال کی عمر میں بیوہ ہو گئی اس کے بے یارومددگار بچوں میں نوشا، انو اور سلطانہ شامل ہیں۔ نوشا اور راجہ کی خوب گاڑھی دوستی ہے، شامی بھی اس یاری میں شامل ہو جاتا ہے کبھی کبھار مگر اس کو اپنے جلاد والد سے بہت ڈر بھی لگتا ہے۔ وہیں اسی علاقے میں نیاز نامی ایک معمولی سا کباڑیہ رہتا ہے جس کی عمر 35 سال ہے، وہ نئے پرانے سامان بیچنے کے پس پشت میں چوری چکاری کا مال ٹھکانے لگاتا ہے۔

نوشا عبداللہ مستری جیسے جلاد صفت مستری کے یہاں ورکشاپ پر کام کرتا ہے، نیاز کے ورغلانے پہ وہاں سے آئے روز کوئی نہ کوئی پرزہ اڑا لے آتا اور عوض میں ڈیڑھ روپیہ انعام پاتا۔ ان روپوں کو وہ سینما جاکر شہزادے کی طرح تمام رات راجہ گداگر کے ساتھ مل کر فلمیں دیکھنے میں گذارتا اور صبح کو گھر کا رخ کرتا۔

نیاز نوشا کے ماموں کا داماد ہے ، اس کی ماموں زاد بہن تو کب کی مر گئی تھی، مگر نیاز نے تعلق نہ توڑا، دس روپے ماہانہ کے عوض پر انہیں کرائے کا مکان دے رکھا تھا جس کا مکمل کرایہ وہ ادا نہ کر پاتے تھے اور قرض پہ قرض چڑھتا گیا۔ نیاز کے دیکھتے ہی دیکھتے سلطانہ پل بڑھ کر جوان ہوگئی تھی، اب وہ اس پہ بری نظر رکھے ہوئے تھا، اس لیے اب بار بار ان سے کرایے کا مطالبہ نہ کرتا، رات گئے ان کے گھر رہتا اور سلطانہ کی ماں سے باتیں کیے جاتا۔

نوشا نے ایک دن نیاز کو موٹر سائیکل کا تگڑا پرزہ لا دیا، جس کے عوض اس نے اس کو دس روپے دیے اور پھر راجہ کے ساتھ جا کر اس نے پہلی بار تھرے کی شراب نوشی کا مزہ لیا، جب نشہ چڑھ گیا تو بنا سوچے سمجھے سڑکوں پر اکیلا نکل گیا، وہ قے پر قے کر رہا تھا ، ڈگمگاتے قدموں کے ساتھ چلنے لگا، اچانک ایک کار آکر اس سے ٹکراتی ہے اس کا سر پھٹ جاتا ہے، وہ نیچے گرتا ہے اور بے ہوش ہو جاتا ہے، گاڑی والے فرار ہو جاتے ہیں اور سلمان نامی لڑکا اسے گھر پہنچا آتا ہے، وہ بھی سلطانہ کا حسن دیکھ دم بخود رہ جاتا ہے۔

سلمان گاؤں کا رہنے والا لڑکا ہے، شہر آ کر اس کو پنکھ لگ گئے، عام طلباء کی طرح وہ نہ تھا، چند ہی مہینوں میں وہ برائی کے تمام مراحل طئے کر لیتا ہے جو ایک مرد 55سال کے بعد طئے کرتا ہے، لیکن برائی کے لیے بھی پیسہ چاہیے ہوتا ہے جو منی آرڈر کی صورت گھر سے ملتا تھا لیکن جب اس کی پڑھائی میں کارکردگی صفر ہوئی تو گھر سے آمدنی بھی آنا بند ہو گئی۔ اب اس کے پاس جتنی بھی قیمتی اشیاء تھیں نیاز کباڑیے کو بیچ چکا تھا،اب مزید رقم نہ تھی کہ اس کو استعمال کرتا، اکثر سلطانہ سے ملنے چلا جاتا کھانا بھی وہیں کھا لیتا تھا۔

نوشا ایک دن تانبے کی تار چراتے پکڑا گیا، جلاد صفت مستری نے ایسی سزا دی کہ کئی ہفتے اپنے زخموں سینکتا رہا، راجہ جس کوڑھ زدہ گداگر کے ساتھ گداگری کرتا تھا اس کو پولیس لے گئی، جبکہ شامی کو اس کے باپ نے پانچ روپے چرانے پہ کتوں کی مار ماری، اب تینوں یار ویلے راجہ کی کھولی میں پڑے ہوئے تھے، انہوں نے کراچی جانے کا فیصلہ کیا، راستے ہی میں شامی رونے لگا اور گھر لوٹ گیا۔راجہ اور نوشا کسی شاہ جی نامی ڈکیٹ کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں اور وہ انہیں گھر گھر ملازم رکھا کر ڈکیتیاں کراتا ہے۔ انجینئر کے گھر ڈکیتی کرنے پر راجہ بہت اداس تھا کیونکہ وہ اس فیملی سے مانوس ہو چکا تھا، بعد میں وہ شاہ جی کی مخبری کر دیتا ہے، راجہ اور نوشا کو ایک ایک سال جبکہ شاہ جی اور اس کے گینگ کو چار چار سال سزا دی جاتی ہے۔

نیاز نوشا کی ماں کو شادی کا پیغام دیتا ہے کہ مجھ سے شادی کر لو، لیکن وہ جانتی ہے کہ سلطانہ پر اس کی بری نظر ہے، اس لیے وہ سلمان کو سلطانہ سے شادی کرنے کا کہتی ہے مگر نیاز سے چوری ، سلمان ایک رات کا وعدہ کر جاتا ہے مگر وہ آتا نہیں اور تمام تر رات انتظار میں گزر جاتی ہے۔

نیاز کالے خان کے ذریعے نوشا کی ماں کی موت کی بیمہ پالیسی بنواتا ہے، نوشا کی ماں اب اس کی بیوی ہوتی ہے، ڈاکٹر موٹو کے ذریعے نوشا کی ماں کو وقتاً فوقتاً ایسے ٹیکے لگواتا ہے جس سے اس کا دل کمزور ہو کر بند ہو جاتا ہے ، کچھ ہی عرصے کے بعد نوشا کی ماں مر جاتی ہے، اس کے بیمہ کے پیسوں سے وہ ایک عالیشان بنگلہ لیتا ہے اور کباڑیے سے امپورٹ ایکسپورٹ کے کاروبار کا مالک بن جاتاہے۔ سلطانہ اور انو اب اس کے شکنجے میں ہوتے ہیں، سلطانہ تک پہنچنے کے لیے اس کو انو کا پتہ صاف کرنا ہوتا ہے، آئے روز انو کی ایسی ٹھکائی کرتا ہے کہ ایک دن وہ گھر ہی سے بھاگ جاتا ہے، اب وہ سلطانہ کا اکلوتا مالک ہے، وہ سلطانہ سے بنا شادی کیے تعلقات بناتا ہے۔

سلمان سلطانہ کی ماں کی موت سے چند دن پہلے ملتا ہے، وہ اس سے بے رخی دکھاتی ہے، سلمان اسے اپنی مجبوریاں بتاتا ہے کہ کس طرح وہ ان دنوں ایک کنگلے کی حیثیت سے زندگی گزار رہا ہے، اس کے پاس رہنے کو جگہ بھی نہیں اور کھانے کو روٹی بھی نہیں۔ مگر سلطانہ اس سے کہتی ہے کہ اب دوبارہ مت آنا، نیاز میرے ابو ہیں اب وہ بہت ناراض ہوں گے، سلمان نیاز کا نام سنتے ہی دم دبا کر بھاگ جاتا ہے۔

سلمان کے حالات واقعتا بہت زیادہ خراب ہوتے ہیں۔ انہی دنوں اس کی ملاقات اپنے ایک حقیقت پسند پروفیسر علی احمد سے ہوتی ہے جو اسے فلک پیما تنظیم کا رکن بنوا دیتے ہیں۔ فلک پیما کے اراکین اسکائی لارک کہلاتے ہیں، ان کا کام غربت کی لکیر سے نیچے رہنے والوں کی فلاح وبہبود کے لیے کام کرنا ہے۔ سلمان بھی ذوق و شوق سے اس کام میں شامل ہو جاتا ہے، جس کے بدلے اسے روٹی کپڑا اور مکان سب دستیاب ہوتا ہے۔ فلک پیما کا روح رواں صفدر بشیر ہوتے ہیں جس کے بعد مضبوط حیثیت علی احمد کی ہوتی ہے۔

فلک پیما واقعتاً آسمانوں کی بلندی کو چھو رہی ہوتی ہے کہ مجبوراً انہیں سیاست میں حصہ لینا پڑتا ہے جس سے ان کو بہت ہی زیادہ نقصان پہنچتا ہے۔ ایک بار تو فلک پیما زمین بوس ہو جاتی ہے، صفدر بشیر کے بعد بہت کم وسائل اور اراکین کے ساتھ علی احمد بہ مشکل فلک پیما کو دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا کرتے ہیں۔ سلمان بھی اپنے گاؤں چلا جاتا ہے اور کسی پاکیزہ امیر زادی سے شادی کر لیتا ہے، اس کے سسرالی کراچی میں اس کو اعلیٰ پوسٹ پر نوکری دلا دیتے ہیں اور وہ کافی خوش باش ہوتا ہے کہ اپنے ایک بوس سے اس کے دیرینہ تعلقات ہو جاتے ہیں، اس کے بوس نے پہلے پہل اس کی بیوی سے چوری چھپے بعد میں کھلم کھلا تعلقات بنا لیے ہوتے ہیں، پہلے تو وہ بے غیرت بن کر دیکھتا رہا کہ اپنے بوس اور بیوی دونوں پہ ہاتھ نہیں ڈال سکتا تھا، پھر دونوں پہ لعنت بھیج کر فلک پیما واپس آجاتا ہے۔

جیل میں راجہ اور نوشا زیادہ عرصہ ساتھ ساتھ نہیں رہ پاتے اور جدا ہو جاتے ہیں۔ نوشا کی دوستی ایک پوکر نامی لڑکے سے ہوتی ہے جو کہ بدمعاشوں کا سرغنہ ہے۔ دونوں ایک ہی دن جیل سے رہا ہوتے ہیں، پوکر اسے اپنے استاد پیدرو سے ملاتا ہے، جو کہ چوری چکاری اور راہگیروں کی جیب کترنا سکھاتا ہے۔ جلد ہی نوشا اس کام میں ماہر ہو جاتا ہے، مگر مسئلہ یہ تھا کہ جس قدر بھی لوٹ لے آتے اس میں سے مخصوص حصہ رکھ کر باقی پیدرو کو دینا پڑتا۔ نوشا اس کام میں بہت آگے نکل گیا مگر وہ یہ رقم پیدرو کو نہیں دینا چاہتا تھا، رقم چھپانے کی سزا بھی پاتا ہے اور استاد پیدرو اپنے جھنڈ سے بھی نکال دیتا ہے۔ نوشا مارا مارا پھر رہا ہوتا ہے۔ پھر نوشا کی ملاقات ایک پروفیسر سے ہوتی ہے وہ اسے اپنے گھر لے جاتا ہے اس کی جوان بیٹی نادرہ ہوتی ہے مگر نوشا اس کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتا، وہ ان کے چھوٹے موٹے کام کرتا ہے بدلے میں روٹی کپڑا اور مکان پاتا ہے، وہ خوش ہوتا ہے کہ پروفیسر اس کو تعلیم کا ہنر بھی دے رہا ہوتا ہے۔

ایسے میں اس راجہ سے بھی ملاقات ہوتی ہے جو کہ جیل سے ایک بیماری لیکر نکلتا ہے۔ پہلے اس کا پاؤں پھر آہستہ آہستہ ٹانگ گل سڑ رہی ہوتی ہے اور وہ بھیک مانگ کر گزارا کر رہا ہوتا ہے، نوشا اس کو دیکھ کر رو پڑتا ہے۔ ایک رات نوشا کو نادرہ اپنی طرف مائل کرنے کوشش کرتی ہے، پروفیسر دیکھ لیتا ہے اور نوشا کو گھر سے نکال دیتا ہے، نوشا راجہ کے پاس آجاتا ہے جو کہ سڑک پر ایک خارش زدہ کتے کے ساتھ پڑا ہوتا ہے وہ اس کو کہتا ہے کہ آؤ واپس گھر چلیں، مگر راجہ رو کر کہتا ہے کہ:
یہ چاقو رکھ لے۔
نوشا: مگر میں اب چاقو نہیں رکھتا۔
راجہ: روہانسا ہو کر میری یاد کے طور پہ رکھ لے۔

نوشا چاقو لے کر رخصت ہو جاتا ہے اور گھر کے شہر کے اسٹیشن پہ اس کو رکشہ والا ملتا ہے وہ کوئی اور نہیں شامی ہوتا ہے، شامی کے ذریعے سے اس کو اپنی اماں کی موت اور نیاز کی حرامذدگیوں کا پتہ چلتا ہے۔ وہ اسی رات راجہ کے دیے گئے چاقو سے نیاز کے جسم کے ہزار ٹکڑے کر ڈالتا ہے اور خود کو پولیس کے حوالے کر دیتا ہے۔

سلطانہ کا نیاز سے ایک ناجائز بچہ بھی ہوتا ہے۔ چونکہ ان کی شادی نہیں ہوئی ہوتی اس لیے ساری جائیداد ہتھیانے کے لیے خان بہادر ( نیاز کا کاروباری دوست) اوچھے ہتھکنڈے کراتا ہے، سلطانہ اول اول ڈٹی رہتی ہے پھر سب چھوڑ چھاڑ کر اپنے ننھے ایاز کو لیے باورچی کے گھر چلی جاتی ہے مگر وہاں بھی کوئی سکون نہیں ملتا۔ جلد ہی ایک کشیدہ کاری کے ادارے میں سلطانہ کو نوکری مل جاتی ہے، وہ ادارہ فلک پیما تنظیم کا ہوتا ہے جس کا اب سربراہ علی احمد تھا۔ علی احمد اور سلطانہ کے تعلقات بڑھ جاتے ہیں۔ علی احمد سلطانہ سے شادی کر لیتے ہیں، اور سلطانہ کے ناجائز بچے کو اپنا بچہ بنا لیتے ہیں۔

ایک شام کو سلمان بھی وہاں پہنچ جاتا ہے اور علی احمد اور سلطانہ کی خوشگوار زندگی کو دیکھ کر اس کے دل پر سانپ لوٹ جاتے ہیں۔ نوشا کو تمام ثبوت اور گواہوں کی موجودگی میں سزائے موت سنا دی جاتی ہے۔ یہیں پر اس طویل ترین ناول کا اختتام ہو جاتاہے۔

از تحریر

عائشہ اقبال