خدا سر سبز رکھے اس چمن کو مہرباں ہو کر

0
  • نظم : خدا سر سبز رکھے اس چمن کو مہرباں ہو کر
  • شاعر : سید اکبر حسین الہ آبادی
  • ماخوذ از : کلیاتِ اکبر

تعارفِ نظم :

یہ شعر ہماری درسی کتاب کی نظم ”خدا سر سبز رکھے اس چمن کو مہرباں ہو کر“ سے لیا گیا ہے۔ اس نظم کے شاعر کا نام سید اکبر حسین الہ آبادی ہے۔ یہ نظم کتاب ”کلیاتِ اکبر“ سے ماخوذ کی گئی ہے۔

تعارفِ شاعر :

اکبر آلہ ابادی ہندوستانی زبان اور ہندوستانی تہذیب کے بڑے مظبوط اور دلیر شاعر تھے۔ ان کے کلام میں شمالی ہندوسان میں رہنے بسنے والوں کی تمام ذہنی و اخلاقی قدروں ، تہذیبی کارناموں ، سیاسی تحریکوں ،اور حکومتی کار روائیوں کے بھر پور سراغ ملتے ہیں۔ اکبر کی شاعری زمانہ اور زندگی کا آئینہ ہے۔ خواص اور عوام دونوں ان کو اپنا شاعر سمجھتے تھے۔ ان کی شاعری دونوں کے ذوق کو سیراب کرتی ہے۔ ان کا کلام مکمل اردو کا کلام ہے۔

شعر نمبر ۱ :

بہار آئی ، کھلے گُل، زیب صحن ِبوستاں ہوکر​
عنادل نے مچائی دھوم سرگرم فغاں ہوکر​

تشریح : اس شعر میں شاعر بہار کی آمد پر چمن کی صورت حال میں تبدیلی کا ذکر کر رہے ہیں کہ بہار کے آنے سے ہر طرف پھول ہی پھول نظر آ تے ہیں۔
بقول شاعر :

دعا بہار کی مانگی تو اتنے پھول کھلے
کہیں جگہ نہ رہی میرے آشیانے کو

شاعر کہتے پیں کہ اتنے پھول کھلے ہیں کہ صحنِ چمن بھر گیا اور پھولوں کی کثرت اور رنگینی صحن چمن کی خوب صورتی اور زیبائش کا سبب بن گئی ہے۔ اس دل ربا منظر کو دیکھ کر بلبلیں خوشی سے چہک رہی ہیں اور بآواز بلند اپنے محبوب ( پھول) سے گلے شکوے کر رہی ہیں۔ ان کی آواز نے ایک کورس ( مل کر گانا ) کی صورت پیدا کر دی ہے اور پورا باغ ان کی آوازوں سے گونج رہا ہے۔

شعر نمبر ۲ :

بچھا فرش زمرد اہتمام سبزہ تر میں
چلی مستانہ وش باد صبا غنبر فشاں ہوکر

تشریح : چمن میں بہار کے آنے سے جو رعنائی آئی ہے، شاعر اس کی مزید تصویر کشی کرتے ہوۓ کہہ رہے ہیں کہ چمن میں سر تا سر سبزہ ہی سبزہ ہے۔ سبزہ شبنم میں بھیگ کر زمرد کا فرش دکھائی دیتا ہے۔ ہوا مستی میں جھوم جھوم کر چل رہی ہے اور ہر طرف پھولوں کی خوشبو بکھیر رہی ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ چمن کے خوب صورت اور دل کش منظر کی وجہ سے ہوا پر بھی نشہ طاری ہے۔

شعر نمبر ۳ :

عروج نشہ نشوونما سے ڈالیاں جھومنیں
ترانے گائے مرغان چمن نے شادماں ہو کر

تشریح : موسم بہار میں پانی کی فراوانی اور ساز گار موسم سے زمین کی قوت نمو بھی بڑھ جاتی ہے، اس لیے مہینوں سے زمین میں موجود بیج بھی اُگنے لگتے ہیں۔ شاعر کہتے ہیں کہ ہر طرف پودوں اور درختوں کی نشو و نما میں وہ تیزی آتی ہے کہ چمن میں ہر چیز پر ایک نشہ سا طاری ہوجاتا ہے۔ درختوں کی شاخیں خوشی اور شاد مانی سے ہلنے لگتی ہیں۔ اور بہار کا موسم پرندوں کے لیے تو ’’ہر روز ، روز عید ہے، ہر شب ، شب برات‘‘ کی مانند ہے، اس لیے پنکھ پکھیرو ( بظاہر بلا وجہ بھی) چہکتے پھر رہے ہیں اور خوش ہو کر گیت گانے لگے ہیں۔ جس سے چمن کی پوری فضا پر ایک کیفیت طاری ہوگئی ہے ۔

شعر نمبر ۴ :

بلائیں شاخ گل کی لیں نسیم صبحگاہی نے​
ہوئیں کلیاں شگفتہ روئے رنگیں تپاں ہوکر​

تشریح : شاعر بہار کا ایک اور منظر پیش کر رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ بہار کے موسم کی وجہ سے ڈالیوں پر پھول کھلے ہیں۔ یہ رنگ و بو کے لحاظ سے اس قدر خوب صورت اور معطر ہیں کہ اس منظر سے ہر ناظر مسحور ہو جاتا ہے۔ پھولوں کی ڈالی ہوا میں جھومتی ہے تو باد صبح گاہی آگے بڑھ کر اس کی بلائیں لیتی ہے۔ یعنی گلاب کی ٹہنیاں بڑا خوب صورت نظارہ پیش کر رہی ہیں۔ اور گلاب کا پھول جو بہت سی کلیوں کا مجموعہ ہے رنگینی ، دل کشی اور رعنائی کے سبب یوں نظر آ رہا ہے گویا کسی حسین محبوب کا تر و تازہ ہنستا مسکراتا چہرہ ہے۔ شاعر مشرق کو ایسے فطری مناظر پر ٹوٹ کے پیار آتا تھا، چنانچہ وہ کثرت سے کھلے پھولوں کو دیکھ کر فرماتے ہیں :

پھول ہیں صحرا میں یا پریاں قطار اندر قطار
اودے اودے، نیلے نیلے، پیلے پیلے پیرہن

شعر نمبر ۵، ۶، ۷ :

کیا پھولوں نے شبنم سے وضو صحن ِگلستاں میں​
صدائے نغمہء بلبل اٹھی بانگِ اذاں ہوکر​
​ہوائے شوق میں شاخیں جھکیں خالق کے سجدے کو​
ہوئی تسبیح میں مصروف ہر پتی زباں ہوکر​
​زبانِ برگ ِ گُل نے کی دعا رنگیں عبارت میں​
خدا سرسبز رکھے اس چمن کو مہرباں ہوکر

تشریح : ان اشعار میں شاعر نے بہار کی حیات بخش صبح کو چمن کی ہر چیز کو محوِ عبادت دکھایا ہے۔ چوں کہ چمن کے سارے ارکان گہرے جذبہ شکر سے سرشار ہیں ، اس لیے شاعر نے دکھایا ہے کہ وہ اس تشکر کا اظہار ، عبادت الہی کی صورت میں کر رہے ہیں۔ عبادت میں پہلے وضو، پھر اذان ، پھر نماز ( سجدہ وغیرہ ) اور آخر میں دعا ہوتی ہے۔

شبنم صحن چمن میں رات بھر پھولوں اور سبزے پر گرتی رہتی ہے۔ صبح سویرے شبنم کے موتی چمکنے لگتے ہیں اور بلبل اس خوش کن منظر کو دیکھ کر خوشی سے گیت الاپنے لگتی ہے۔ پھولوں پر شبنم کے قطرے گرتے ہیں تو ایسے لگتا ہے کہ پھولوں نے وضو کیا ہے اور بلبل کی آواز گویا نماز کے لیے اذاں کی آواز ہے جو فضا میں بلند ہوئی ہے۔ پورا چمن عبادت الہی کے لیے تیار ہے۔

وضو اور اذان کے بعد نماز ادا کرنے کا مرحلہ آتا ہے۔ اب شاخوں کو جھولتا ہوا دیکھ کر شاعر کہتے ہیں کہ ان شاخوں کو عبادت الہی کا شوق ہے اور اسی شوق میں وہ اپنے خالق کے حضور سجدہ ریز ہورہی ہیں۔ ہوا کے چلنے سے پتوں اور پھول کی پتیوں میں حرکت سے جو آواز پیدا ہورہی ہے، شاعر اسے تسبیح سے مشابہ قرار دے رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہر پتی مجسم زباں بن کر خدا کی تسبیح میں مصروف ہے۔ شاعر نے پتی کو زبان سے تشبیہ دی ہے اس لیے کہ پتی کی شکل زباں کی طرح ہوتی ہے۔

شاعر کہتے ہیں کہ پھول کی پتی نے مجسم زبان بن کر بڑے بڑے مؤثر پیراۓ اور مناسب الفاظ میں دعا کی ہے کہ اے رب العلمین ساری کائنات تیری رحمت اور کرم سے آباد ہے، تو اس چمن پر بھی اپنا سایہ کرم برقرار رکھ، اپنے فضل وکرم سے اس چمن کو بھی نوازتا رہے کہ اس میں بہار کا موسم آتا رہے اور یہ چمن تاابدی سرسبز و شاداب رہے۔ تیری ذات پاک ہی اس کی تازگی کو برقرار رکھ سکتی ہے۔ بہار کی صبح کے دل کش مناظر میں شاعر کو چمن کی پتی پتی عبادت کرتی نظر آتی ہے اور انھوں نے مؤثر پیراۓ میں اپنی ذہنی کیفیات اور مناظر فطرت کو اس حمدیہ نظم میں پیش کیا ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

1) اکبر الہ آبادی نے اس نظم میں فصل بہار کے مختلف مناظر کی تصویر کشی کی ہے ان میں سے چند مناظر کی کیفیت کو اپنے الفاظ میں بیان کیجیے۔

2) جواب : بہار کے آتے ہی پھول کھل اٹھے اور صحنِ چمن پھولوں سے بھر گیا جس سے باغ کا منظر حسین ہو گیا۔ اس خوب صورت منظر کو دیکھ کر بلبلیں خوشی سے گیت گانے لگیں۔
بہار کا ایک اثر یہ ہوا کہ سبزے کا مخملیں فرش بچھ گیا اور ساتھ ہی خوشبوؤں سے لبریز ہوائیں چلنے لگیں۔ ڈالیاں خوشی سے سرشار ہوکر جھومنے لگیں اور ڈالیوں پہ بیٹھے پرندے چہچہانے لگے۔

2) درج ذیل تراکیب کے معنی لکھیے۔

سرگرم فغان : فریاد کرتے ہوئے۔
فرش زمرد : سبزہ مراد ہے۔ زمین پر کثرت سے بچھا ہوا سبزہ، جس کا رنگ زمرد کی طرح سبز ہے۔
مستانہ وش : مستی میں آ کر جھومتے ہوۓ
عنبرفشاں : خوشبو بکھیرتی ہوئی۔
مرغان چمن : باغ میں رہنے والے پرندے۔
بانگ اذاں : اذان کی صدا۔
برگ گل : پھول کی پتی۔
زیب صحن بوستاں: چمن کی زینت۔

3) مندرجہ ذیل میں سے ہر ایک کے چار چار ہم قافیہ الفاظ لکھیے۔

چمن : دمن – چلن – کفن – فن
گلستان : بوستاں – فغاں – فشاں – شادماں – زباں
صبا : ہوا – وفا – دغا – جفا – فنا
بہار : سوار – شرار – قرار – غبار

4) اس نظم کے آخری تین شعروں کی نثر بنائیے۔

جواب :۱) پھولوں نے باغ کے صحن میں وضو کیا اور بلبل کی خوش نوائی اذان بن کر گونجی۔

۲) خوشی اور محبت سے شاخوں نے جھک کر اپنے خالق کو سجدہ کیا اور ہر پتی نے زبان کا روپ دھار کر اپنے رب کی ثناخوانی کی۔

۳) پھول کی پتی نے زبان بن کر خوب صورت نگین عبارت کی شکل میں دعا کی اللہ تعالیٰ اس چمن کو آباد و شاداب رکھے۔

5 ) جز “الف” میں کچھ ایسے الفاظ دیے گئے ہیں جن کے متضاد جز “ب” میں موجود ہیں آپ ان کے جوڑے لکھیے۔

الف: بہار ،کھلنا، گل ،پھول ،دعا ۔
ب: خار، کانٹا، بددعا ،مرجھانا، خزاں۔

الف ب
بہار : خزاں
گل : خار
کھلنا : مرجھانا
پھول : کانٹا
دعا : بدعا

۶) نظم کے آخری شعر میں’’زبان برگ کل‘‘ نے کیا دعا کی ہے؟

جواب : ’’زبان برگ گل‘‘ ( یعنی پھول کی پتی نے یہ دعا کی ہے کہ اللہ تعالی اس چمن کو ، اسی طرح سرسبز و شاداب رکھے، چمن مہکتا رہے اور پرندے چہچہاتے ہوۓ مسرت و شادمانی بکھیرتے رہیں۔)