Khwaja Ahmad Abbas | خواجہ احمد عباس ناول نگاری

تعارف

ایک ہمہ گیر شخصیت جو بیک وقت اردو ادب کی بہت سی اصناف پر گرفت جمائے رہے۔ خواجہ احمد عباس ۷ جون ۱۹۱۴ کو پانی پت میں پیدا ہوئے۔ خواجہ احمد عباس نے ابتدائی تعلیم ‘حالی مسلم ہائی اسکول’ میں حاصل کی ، جو ان کے عظیم پرنانا حالیؔ نے قائم کیا تھا۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم ساتویں جماعت تک پانی پت میں حاصل کی۔ انہیں قرآن کا عربی متن پڑھنے کی ہدایت کی گئی اور ان کے والد کے مجبورانہ حکم پر ان کے بچپن کے خواب تیر ہوگئے۔ عباس نے پندرہ سال کی عمر میں میٹرک مکمل کیا۔ پھر انہوں نے بی اے کیا۔ انگریزی ادب کے ساتھ ۱۹۳۵ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایل ایل بی کیا۔

ادبی سفر

خواجہ صاحب ایک عظیم ادیب تھے، ایک اہم صحافی تھے اور صف اول کے قلم کار تھے۔ مگر بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی۔ ارب میں انہوں نے افسانہ نگاری اور اردو فکشن کے دوو زریں کے ارباب خمسہ پانچ بڑوں میں شامل ہو کر منٹو، کرشن چندر، بیدی اور عصمت کے ہم دوش ہوئے۔اس کے علاوہ انھوں نے ناول نگاری کی۔ ان گنت ڈرامے تصنیف کیے۔ ریڈیو اور اسٹیج دونوں اصناف کو اپنی توجہ کا مرکز و محور بنایا۔صحافت کے میدان میں آئے تو ملک کے عظیم ترین کالم نگار شمار ہوئے۔

خواجہ احمد عباس صنف اول کے ناول نگار، دانشور، مفکر ، انگریزی اور اردو کے صحافی اور اعلیٰ درجےکے قلم ساز تھے۔ وہ اردو، ہندی اور انگریزی تینوں زبانوں پر پوری قدرت رکھتے تھے۔ ان کی چھوٹی بڑی ستر سے زیادہ کتابیں شائع ہوئیں۔

انگریزی ناول

خواجہ صاحب نے ۱۹۷۵ میں انگریزی میں “انقلاب” نام سے ایک ناول لکھا۔ خواجہ صاحب کا کہنا تھا کہ انہوں نے ۱۹۴۲ میں یہ ناول لکھنا شروع کیا تھا اور ۱۹۴۹ تک صرف تیرہ باب لکھ پائے تھے۔اس ناول کی طباعت کا معاملہ بہت دلچسپ ہے۔ناول بہت ضحیم تھا اس لیے کوئی ہندوستانی پبلشر اسے چھاپنے پر تیار نہیں تھا۔

۱۹۵۴ کو جب خواجہ صاحب روس گئے تو ناول کا مسودہ اپنے ساتھ لیتے گئے۔ وہاں ناول بہت پسند کیا گیا اور ‘سپن اندی’ یعنی ‘ہندوستان کا بیٹا’ کے نام سے روسی زبان میں شائع ہوا۔ اس کا پہلا ایڈیشن نوے ہزار کی تعداد میں چھاپا گیا۔ بعد ازیں اس ناول کے اردو اور ہندی ترجمے ساتھ شائع ہوئے۔

خواجہ صاحب قصّہ پن کے قائل تھے اور چونکہ وہ فلمی دُنیا سے بھی وابستہ تھے اس لیے فلموں کی طرح ان کی بعض تحریروں میں بھی برسوں کی روداد سنائی دیتی ہے۔ خواجہ صاحب کی کہانیوں کا آغاز ایسے ہوتا ہے کہ قاری فوراً اس طرف متوجہ ہوجاتا ہے اور جلد تجسس کی فضا قائم ہوجاتی ہے۔ خاتمے پر یہ کہانیاں ہمارے ذہن پر گہرے نقوش چھوڑ جاتی ہیں اور کچھ ایسے سوالیہ نشان اُبھار دیتی ہیں جن کے جوابات ہم آئندہ زندگی میں تلاش کرتے رہتے ہیں جو ان کے فن کا کمال ہے۔

خواجہ احمد عباس کی کہانیوں کا پلاٹ سادہ اور غیر پیچیدہ ہے۔ اندازِ بیان بے حد آسان اور مؤثر ہے جس سے قاری کا ذہن الجھنے سے بچا رہتا ہے اور آسانی سے فن کار کا ہمسفر بنا رہتا ہے۔ ان کی کہانیوں کی مقبولیت میں اسلوب یا اسٹائل کا بھی بڑی حد تک ہاتھ ہے۔

تصانیف

خواجہ احمد عباس کی مشہور تصانیف میں:

  • اگر مجھ سے ملنا ہے،
  • دریافت،
  • دیا جلے ساری رات،
  • ایک لڑکی اور دوسری کہانیاں،
  • انقلاب،
  • کہتے ہیں جس کو عشق،
  • میں کون ہوں،
  • محمد علی،
  • مسافر کی ڈائری،
  • نئی دھرتی نئے انسان،
  • نیلی ساری،
  • سات ہندوستان،
  • سونے چاندی کے بت اور
  • زعفران کے پھول قابل ذکر ہیں۔

آخری ایام

خواجہ عباس ۱ جون  ۱۹۸۷ کو ۷۲ برس کی عمر پاکر بمبئی میں خالق حقیقی سے جا ملے۔ انھیں بمبئی میں ہی سپرد خاک کیا گیا۔