الحاد سے کیسے بچا جائے؟ اس حوالے سے چند تجاویز

0

عام حالات کے تناظر میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ پوری دنیا بے چین اور مضطرب ہے وہ سکون و اطمینان کی تلاش میں ہے اس لیے کہ مادہ پرست فتنے نے انسانی زندگی کو زخموں سے چور چور کر دیا ہے نہ لوگوں میں مذہب کی اہمیت ہے نہ اخلاق کی بل کہ مختصر یہ ہے کہ انسانیت کا دور دور تک کوئی اتا پتا نہیں: اؤلئک کَالأنعام بَلْ ہُمْ أضَل۔

یعنی جانوروں سے بھی بدترحالت ہوچکی ہے ایسے حالات میں ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم انسانیت کا ہاتھ تھامیں اور اسی کو صحیح سمت میں لے جائیں کیوںکہ ہمارا مقصد تخلیق ہی یہ بتایا گیا ۔ قرآن کریم نے صاف اور واضح لفظوں میں کہہ دیا:

کنتم خیر امۃ اخرجت للناس تأمرون بالمعروف و تنہون عن المنکر۔۔۔۔ و لتکن منکم امۃ یدعون الی الخیر یأمرون بالمعروف و ینہون عن المنکر۔ یعنی اسی ا مت کی تخلیق ہی اس لیے عمل میں آئی کہ وہ لوگوں کے لیے نفع بخش ہو، اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ارشاد فرمایا :خیر الناس من ینفع الناس تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو لوگوں کو نفع پہنچائے۔ معلوم ہوا کہ لوگوں کو بھلائی کی دعوت دینا برائی سے روکنا اور ہدایت کی راہ دکھانا ہمارا فریضہ ہے، لہٰذا غور کرنا چاہئے کہ عالم انسانیت کو ظلمات سے نور کی طرف کیسے لایا جاسکتا ہے تو سب سے پہلے ہمیں اپنی ہی خبر لینے کی ضرورت ہے کیوںکہ جب تک ہماری اپنی سیرت اسلامی اور ہماری صورت اسلامی صورت نہیں بن جاتی ، ہم دوسرے پراثرانداز نہیں ہوسکتے آج کا مسلمان اسباب زوال کے پیچھے لگا ہوا ہے میں کہتا ہوں کہ اسباب زوال نہیں سبب زوال یا ام الاسباب للزوال کو جاننے کی ضرورت ہے تو جان لو امت کی تنزلی کا سب سے بڑا اور اہم اگر کوئی سبب ہے تو وہ علما و عملا اسلام سے دوری ۔ اسی سبب کو جاننے اور اس کو حل کرنے کی کوشش کرنی ہوگی، اسی کواقبال نے کہا ۔

وہ زمانہ میں معزز تھے مسلمان ہو کر
ہم ذلیل و خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر

اکبر نے مسلمانوں کے گزرے ہوئے دور کو یاد کرکے کیاخوب کہا ہے ؎

وہ ہوا نہ رہی وہ چمن نہ رہا
وہ گلی نہ رہی وہ حسیں نہ رہے
وہ فلک نہ رہا وہ زمیں نہ رہی
وہ مکاں نہ رہا وہ مکیں نہ رہے

عارف باللہ اکبرالہ آبادی نے ایک موقعہ پر مسلمانوںکو حق پر قائم رکھنے اور دشمن سے مرعوب نہ ہونے کی نصیحت کرتے ہوئے کیا خوب کہا ؎

کہو کرے گا حفاظت مری خدا میرا …… رہوں جو حق پر مخالف کریں گے کیا میرا
خداکے درسے اگر میں نہیں بیگانہ …… تو ذرّہ ذرۂ عالم ہے آشنا میرا
مری حقیقت ہستی مشت خاک نہیں ……. بجا ہے مجھ سے جو پوچھے کوئی پتا میرا
غرور انہیں ہے تو مجھ کو بھی ناز ہے اکبر …… سوا خدا کے سب ان کا ہے اور خدا میرا

حقیقتاً تو ہونا یہ ہی چاہئے کہ انسان مقصدِ زندگی کو سمجھ کر اسی کے حصول میں تن من دھن کے ساتھ مشغول ہوجائے او رمقصد زندگی کیا ہے جیسا کہ ہمارے استاذ محترم حضرت مولانا طاہر صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے ؎

تیری بندگی میری زندگی
میری زندگی تیری بندگی

جس کو قرآن نے بیان کیا وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون کہ انسانوں اور جناتوں کو محض عبادت وبندگی ہی کی غرض سے پیدا کیا گیا ہے، اگرچہ زندگی میں کچھ ضروریات کچھ لوازمات انسان کے پیچھے لگے ہوئے ہیں مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ اصل مقصد کو چھوڑ کر (یعنی عبادت الہی )انہیں خالی ضروریات میں ہمہ تن مصروف ہوجائے بیت الخلا ایک ضرورت ہے استنجاء کرنے کی بقد ر ہی انسان اس میں ٹھہر تاہے پھر وہاں سے نکل آتاہے وہی پڑاؤ نہیں ڈـالدیتا ایسے ہی کھانا پینا رہنا سہنا کمانا فن سیکھنا سیر و تفریح کرنا سونا یہ سب بھی ضرورت ہے، لہٰذا بقدر ضرورت ان میں اپنا قیمتی وقت صرف کرے اور بقیہ وقت آخرت کا تصور مد نظر رکھتے ہوئے اس ابدی اورلافانی زندگی کی تیاری میں لگادے تاکہ او لئک ہم الفائزون اور او لئک ہم المفلحون کے زمرے میں داخل ہوجائے اور پر وانۂ رضاء الٰہی کو حاصل کر سکے، اللہ تعالیٰ ہمیں آخرت کی تیاری میں مشغول ہونے کی تو فیق عطا فرمائے۔ آ مین یارب العالمین !