لہو اور قالین

0
  • سبق : لہو اور قالین
  • مصنف : میرزا ادیب
  • ماخوذ از : ”لہو اور قالین“

سوال ۳ : ڈراما “لہو اور قالین” کا خلاصہ تحریر کریں۔

تعارفِ سبق :

سبق ”لہو اور قالین“ کے مصنف کا نام ”میرزا ادیب“ ہے۔ یہ سبق کتاب ”لہو اور قالین“ سے ماخوذ کیا گیا ہے۔

تعارفِ مصنف :

میرزا ادیب کا اصل نام مرزا دلاور حسین علی اور قلمی نام میرزا ادیب ہے۔ آپ کی ولادت ۱۹۱۶ء میں ہوئی۔ آپ کے والد کا نام میرزا بشیر علی تھا۔ اسلامیہ کالج لاہور سے آپ نے بی اے آنرز کا امتحان پاس کیا۔ طالب علمی کے زمانے ہی سے آپ کو لکھنے لکھانے کا بہت شوق تھا۔ اس لیے مختلف رسائل میں مضامین بھی لکھے۔ رسالہ ”ساقی“ میں افسانہ نگاری شروع کی۔ مشہور رسالے ”ادبی دنیا“ میں بھی آپ کے مضامین اور افسانے شائع ہوئے۔ آپ ”ادبِ لطیف“ کے مدیر بھی رہے۔ اس دوران آپ ریڈیو کے اسکرپٹ بھی لکھنے لگے۔ ایک ایکٹ ڈرامہ لکھنے میں انھیں بڑی مہارت حاصل تھی۔ آپ کی شہرت کی ایک وجہ آپ کی کتاب ”صحرا نورد کے خطوط“ بھی ہے۔

”جنگل ، کمبل ، خاک نشین ، مٹی کا قرض ، مٹی کا دیا، آنسو اور ستارے، شیشہ میرے سنگ، خوابوں کے مسافر اور پس پردہ فصیل شب، شیشے کی دیوار اور ماموں جان“ آپ کی مشہور تصنیفات ہیں۔

خلاصہ :

اس سبق میں مصنف دو لوگوں کو تجمل اور اختر کی کہانی بیان کر رہے ہیں۔ اختر غریب طبقے سے تعلق رکھنے والا فنکار ہے، اور تجمل ایک امیر شخص ہے۔ مصنف کہانی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اختر غربت کی چکی میں پس رہا تھا اور اس کی بنائی گئی تصویریں کوڑیوں کے دام بکتی تھی۔ پھر ایک جگہ پر تجمل کی نگاہ اختر پر پڑی تو اس نے اختر کو اپنے گھر آنے کی دعوت دی۔ وہاں تجمل نے اسے یہ کہا کہ تم میرے گھر رہ کر اپنے فن کو پورا کرو، اور اسے ایک شاندار اسٹوڈیو بنا کر دیا۔ لیکن کچھ عرصے بعد ہی اختر پر ایک ایسی حقیقت کھلی جس کے بعد وہ مصوری کا فن بھولنے لگا۔

ہوا کچھ یوں کے اختر پر یہ انکشاف ہوا کہ تجمل نے ایک رحم دل شخص کی حیثیت سے اسے پناہ نہیں دی بلکہ وہ اختر کے فن مصوری کا فائدہ اٹھانا چاہتا ہے اور اس کے فن سے اپنی مشہوری کرنا چاہتا ہے۔ اس انکشاف کے ہوتے ہیں اختر کے اندر کا مصور مر گیا اور وہ تجمل کو دھوکہ دینے لگا۔

کچھ عرصے بعد اختر کی بنائی گئی تصویر ایک بہت بڑا مقابلہ جیتی اور ملک بھر کے مصورین کی تصویروں میں سے اس کی تصویر کو چنا گیا۔ جس دن مقابلے کے نتیجے کا اعلان ہوا اس دن اختر کچھ پریشان سا معلوم ہوتا تھا۔ تجمل نے اسے بتایا کہ آج شام کو شہر کے کچھ معززین اسے مبارک باد دینے کے لیے آئیں گے۔ لیکن اب اختر اس محل سے جانا چاہتا تھا اور وہ اسی بات کی اجازت لینے کا تجمل کے پاس آیا تھا۔

تجمل اس کی وہاں سے جانے کی وجہ دریافت کرتا ہے تو وہ اسے بتاتا ہے کہ دراصل یہ ساری تصویریں میری بنائی گئی نہیں ہیں بلکہ یہ ساری تصاویر تو میرے ایک ہم پیشہ دوست نیازی کی بنائی گئی ہیں۔ وہ مزید کہتا ہے کہ جس دن مجھ پر یہ انکشاف ہوا کہ تم میرا استعمال اپنی شہرت بڑھانے کے لئے کر رہے ہو اس دن میرے اندر کا مصور مر گیا اور میں کچھ بھی تخلیق کرنے سے عاری ہو گیا۔ میں اسی وقت یہ گھر چھوڑ کر جانا چاہتا تھا اور اسی سلسلے میں میں نے اپنے دوست نیازی سے بات کی تو اس نے مجھ سے اصرار کیا کہ وہ مجھے تصویر بنا کر دے گا اور اس کے بدلے میں اسے پیسے دوں۔ میں ایسا نہیں کرنا چاہتا تھا لیکن نیازی نے مجھ پر بہت زور دیا اس وجہ سے میں یہ کرنے کے لئے مان گیا۔ لیکن اب نیازی کے حالات بھی بہتر ہیں اور اس نے اپنی بہن کی شادی بھی کر دی ہے اس لئے اب میں دھوکے میں مزید نہیں رہنا چاہتا اور اس گھر سے جانا چاہتا ہوں۔

یہ سب باتیں سن کر تجمل کے ہوش اڑ جاتے ہیں اور وہ اختر کو چور ، لالچی اور دھوکے باز کہنے لگتا ہے کہ اتنے میں تجمل کا سیکریٹری رؤف آتا ہے اور بتاتا ہے کے اختر ہی فن مصوری کا مقابلہ جیتا ہے اور وہ مزید بتاتا ہے کہ اختر کے ایک جاننے والے نے اس کے لئے یہ پیغام بھیجا ہے کہ اس کے دوست نیازی نے خودکشی کرلی ہے اور ہسپتال جانے سے پہلے ہی وہ مر گیا تھا۔ یہ سن کر اختر تجمل کو کہتا ہے کہ میں تو لالچی اور دھوکے باز ہو لیکن تم قاتل ہو۔ تم نے ایک مصور کے فن کا قتل کیا ہے اور دوسرے مصور کو موت کے گھاٹ اتار دیا ہے۔
یہ سب سن کر تجمل رؤف کو حکم دیتا ہے کہ اس کو پاگل خانے چھوڑ دو اور پولیس کو کال کرو اور بتاؤ کہ یہ پاگل ہو گیا ہے۔ اختر چیخ چیخ کر کہتا ہے کہ میں سب کو بتاتا رہوں گا کہ تم قاتل ہوں اور تم نے مجھے اپنی شہرت کے لئے استعمال کیا ہے۔ اس سبق کا اختتام تب ہوتا ہے جب اختر تجمل کو کہتا ہے کہ قانون تمھیں کوئی سزا نہیں دے گا لیکن انسانیت کی نظر میں تم قاتل ہو۔

سوال ۱ : مختصر جواب دیں۔

(الف) تجمل نے اختر کے بارے میں کس قسم کے خیالات کا اظہار کیا ؟

جواب : تجمل نے اختر کے بارے میں کہا کے فن کاروں کی عادت ایسی ہوتی ہے۔ ہر وقت سوچ میں ڈوبے رہنا اور سب سے الگ تھلگ رہنا۔

(ب) اختر کا حلیہ بیان کیجیے۔

جواب : اختر ادھیڑ عمر کا شخص تھا، جس کے سر کے بال بکھرے ہوئے تھے۔ اس کی آنکھیں شب بیداری کی وجہ سے سرخ ہورہی تھی۔ اختر نے قمیض شلوار پہن رکھا تھا اور قمیض کی آستین چڑھی ہوئیں تھی۔ آنکھوں کے گرد نمایاں سیاہ حلقے تھے۔

(ج) اختر کو کون تصویریں بنا کر دیتا تھا؟

جواب : اختر کو تصویریں اس کا ایک مصور دوست نیازی بنا کر دیتا تھا۔

(د) نیازی نے اپنی تصویریں اختر کے حوالے کیوں کیں؟

جواب : نیازی نے اپنی تصویریں اختر کے حوالے اس لیے کردیں کیونکہ نیازی کو اپنے خاندان کی قفالت کے لیے پیسوں کی ضرورت تھی۔

(ہ) تصویریں اختر کی نہیں ہیں۔ اس انکشاف پر تجمل کا ردعمل کیا تھا؟

جواب : تصویریں اختر کی نہیں ہیں۔ اس انکشاف پر تجمل کو بہت بڑا دھچکا لگا اور وہ اختر پر غصہ کرنا لگا کہ اس نے تجمل کو دھوکا دیا ہے۔ وہ دھوکے باز، چور اور احسان فراموش ہے۔

(و) سردار تجمل حسین کی کوٹھی کا نام کیا تھا؟

جواب : سردار تجمل حسین کی کوٹھی کا نام ”النشاط“ تھا۔

(ز) تجمل کی عمر کتنی تھی؟

جواب : تجمل کی عمر چالیس سے پنتالیس کے درمیان تھی۔

(ح) تجمل نے اختر کو کون سی خوشخبری سنائی؟

جواب : تجمل نے اختر کو خوشخبری سنائی کہ ججّوں نے اس کی تصویر کو اوّل انعام کا مستحق قرار دیا ہے۔

(ط) اختر دو سال قبل کہاں رہتا تھا؟

جواب : اختر دوسال قبل ایک تنگ و تاریک گلی کے ایک خستہ اور بد نما مکان میں رہتا تھا۔

(ی) اختر کے نزدیک نیازی کا قاتل کون تھا؟

جواب : اختر کے نزدیک نیازی کا قاتل تجمل تھا۔

سوال ۲ : میرزا ادیب نے اس ڈرامے میں کیا پیغام دیا ہے؟

جواب : میرزا ادیب نے اس ڈرامے میں یہ پیغام دیا ہے کہ ہمیں کسی کی مجبوری کو فائدہ نہیں اٹھانا چاہیے۔ ہمیں کسی کی مدد اپنے غرض کے خاطر نہیں کرنی چاہیے بلکہ دوسروں کی مدد بالکل بےغرض ہو کر کرنی چاہیے۔ اس کے علاوہ مصنف نے یہ بھی پیغام دیا ہے کہ ایک مصور کے لیے اس کا فن اس کی اولاد کی سی حیثیت رکھتا ہے، ہمیں کسی بھی مصور کی مجبوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسے اس کی اولاد سے دور نہیں کرنا چاہیے۔

سوال ۴ : اس ڈرامے کے کرداروں کے نام لکھیں۔

بابا نوکر
تجمل ایک سرمایہ دار
اختر مصور
رؤف تجمل کا پرائیوٹ سکرٹری
نیازی اختر کو تصویریں بنا کر دینے والا
دوست۔

سوال ۵ : مندرجہ ذیل الفاظ کی جمع لکھیں۔

منظر مناظر
تصویر تصاویر
باغ باغات
خبر اخبار
انعام انعامات
تکلیف تکاليف

سوال ٦ : متن کو پیش نظر رکھتے ہوئے خالی جگہ پر کریں۔

  • (الف) ججوں نے تمہاری تصویر کو (اول انعام) کا مستحق قرار دیا ہے۔
  • (ب) میں نے تفصیل معلوم کرنے کے لیے (رؤف) کو بھیج دیا ہے۔
  • (ج) تم نے ملک کے تمام (مصوروں) کے مقابلے میں یہ انعام جیتا ہے؟
  • (د) تمہیں مبارک باد دینے شہر کے (معززین) آرہے ہیں۔
  • (ہ) سنا ہے (آرٹسٹوں) پر کبھی کبھی (دورے) بھی پڑتے ہیں۔
  • (و) میرے (فن) کی بہتری اسی میں ہے کہ یہاں سے چلا جاؤں۔
  • (ز) آپ کے (تصورات) کا (شیش محل) ابھی زمین بوس ہو جائے گا۔
  • (ح) آپ سب کچھ سمجھ جائیں گے، یہ کوئی (معما) نہیں ہے۔
  • (ط) آج سے دو سال پہلے میں ایک (تنگ و تاریک) گلی کے ایک خستہ اور (بدنما) مکان میں رہتا تھا۔
  • (ی) قانون تمہیں کچھ نہیں کہے گا، مگر (انسانیت) کی نظروں میں تم (قاتل) ہو۔

سوال ۷ : اعراب کی مدد سے تلفظ واضح کریں۔

تَجمَل۔
مُعمّا۔
مُعاملہ۔
سنجِیدہ۔
اَہتمام۔
معزَزین۔
اعزاَز۔
مُستحِق۔
متعجَب۔
مصّور۔

سوال ۸ : مذکر اور مؤنث الگ الگ کریں۔

مذکر : سرکار
پاجامہ
اخبار
مصور
مہمان
مؤنث : قمیص
تصویر
جھونپڑی
توہین
نمائش

سوال ۹ : کالم (الف) میں دیے گئے الفاظ کو کالم (ب) کے متعلقہ الفاظ سے ملائیں۔

تجمل سرمایہ دار
بابا نوکر
میرزا ادیب ڈراما نگار
رؤف سیکرٹری
اختر مصور

سوال۱۰ : درج ذیل کے معانی لکھیں اور جملوں میں استعمال کریں۔

فن کار : آرٹسٹ ایک فن کار کا فن اس کی اولاد کی طرح ہوتا ہے۔
شبِ بیداری : رات بھر جاگنا شبِ بیداری کی وجہ سے میری آنکھیں لال ہوگئیں۔
خوش خبری : اچھی خبر گھر والوں نے گرمیوں میں مری جانے کی خوش خبری سنائی۔
اعزاز : عزت دینے کا عمل پاک ملٹری کا سب سے بڑا اعزاز نشانِ حیدر ہے ۔
کارنامہ : بہادری کا کام تاریخ میں مسلمانوں نے کئیں کارنامے انجام دیئے ہیں۔
شیش محل : وہ مکان جہاں چاروں طرف شیشے لگے ہوں سردار صاحب نے گاؤں کے بیچو و بیچ ایک شیش محل تعمیر کروایا۔
کش مکش : الجھن اختر کا دماغ نیازی کی محنت پہ انعام پانے پر کش مکش کا شکار تھا۔
نمائش گاہ : نمائش کی جگہ تصویروں کی نمائش گاہ میں ہر طرف رنگ ہی رنگ بکھرے ہوئے تھے۔
سرپرستی : خبرگیری یتیم کی سرپرستی کرنا بہت ثواب کا کام ہے۔