لاہور کا جغرافیہ

تعارفِ سبق

سبق ”لاہور کا جغرافیہ“ کے مصنف کا نام ”احمد شاہ بخاری پطرس“ ہے۔ یہ سبق کتاب ”پطرس کے مضامین“ سے ماخوذ کیا گیا ہے۔

تعارفِ مصنف

پطرس بخاری کا اصل نام پیر سید احمد شاہ تھا۔ آپ پشاور میں پیدا ہوئے ، لاہور سے ایم اے کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد اعلی تعلیم حاصل کرنے کے لیے انگلستان چلے گئے۔ پطرس بخاری کا شمار نامور مزاح نگاروں میں ہوتا ہے۔

خلاصہ

اس سبق میں مصنف لاہور کا نقشتہ بیان کرنے سے پہلے کہتے ہیں کہ ہم یہاں ایک عرصہ گزار چکے ہیں اس لیے ہمیں اپنی بات کو ثابت کرنے کے لیے کسی قسم کی دلیل کی ضرورت نہیں ہے، مصنف مزید کہتے ہیں کہ ہمارے بزرگ لاہور کا پتہ بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ لاہور تو لاہور ہی ہے اور اگر کوئی شخص اس طریقے سے بتائے گئے پتے کو نہ سمجھ سکے تو اس شخص کی عقل فاتر ہے۔

مصنف مزید بتاتے ہیں کہ میونسپلٹی نے ہوا کی قلت دور کرنے کے لیے لوگوں کو ہدایات جاری کیں کہ مفادِ عامہ کے پیشِ نظر اہلِ شہر ہوا کا بےجا استعمال نہ کریں بلکہ جہاں تک ہوسکے کفایت شعاری سے کام لیں۔ چناچہ اب لاہور میں عام ضروریات کے لیے ہوا کے بجائے گرد اور خاص حالات میں دھواں استعمال کیا جاتا ہے۔ کمیٹی نے جابجا دھوئیں اور گرد مہیا کرنے کے لیے مرکز کھول دیے ہیں، جہاں یہ مرکبات مفت میں تقسیم کیے جاتے ہیں۔

مصنف مزید لکھتے ہیں کہ لاہور میں بہم رسانی آب کے منصوبے کے لیے ایک اسکیم عرصے سے کمیٹی کے زیرِ غور ہے، لیکن اس کی تکمیل میں تاخیر کی وجہ یہ ہے کہ سقے کے ہاتھ کے لکھے ہوئے اہم مسودات میں سے بعض تو تلف ہوچکے ہیں اور جو بچے ہیں انھیں پڑھنے میں بھی کافی دشواری کا سامنا ہے۔ میونسپلٹی نے جابجا نل لگا کر اہل لاہور کو ہدایت کی ہے کہ اپنے اپنے گھڑے نلکے کے نیچے رکھ دیں تاکہ عین وقت پر تاخیر کی وجہ سے کسی کی دل شکنی نہ ہو۔

مصنف لاہور کے بازار کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ لاہور کے بازاروں میں سے گزرنے والی تاریخی اعتبار سے اہم ترین سڑک شیر ساہ سوری نے بنوائی تھی۔ تانگے کی ساخت مصنف کے مطابق کچھ ایسی تھی کہ لوگوں نے تختوں کے نیچے دو دو پہیے لگا لئیے تھے اور سامنے دو ہک لگا کر ان میں ایک گھوڑا ٹانگ دیا تھا۔ مصنف کہتے ہیں کہ اصطلاح میں اس کا تانگا کہتے ہیں۔

مصنف کہتے ہیں کہ لاہور کی ہر عمارت کی بیرونی دیواریں دہری بنائی جاتی ہیں یعنی پہلے تو اینٹوں اور چونے کی دیوار کھڑی کی جاتی ہے اور پھر رفتہ رفتہ اس دیوار پر اشتہارات چپکا کر اشتہارات کی بھی ایک دیوار بنا دی جاتی ہے۔مصنف کہتے ہیں کہ پختہ سیاہی کے اشتہارات کا فوری فائدہ یہ ہوتا ہے کہ وہ تادیر تک اپنی جگہ پر رہتے ہیں اور کوئی شخص اپنا یا اپنے احباب کا گھر اس لیے نہیں بھول سکتا کیونکہ اس گھر کے ساتھ والی دیوار پر لکھا گیا یہ اشتہار بہت جلدی تبدیل نہیں ہوتا ہے۔

مصنف کہتے ہیں لاہور کی مشہور ترین پیداوار یہاں کے طلبہ ہیں، جو یہاں بہت کثرت سے پائے جاتے ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں دساور کو بھیجے جاتے ہیں۔ طلبہ کی کئی قسمیں ہوتی ہیں۔ ان میں سے چند قسمیں جو مشہور ہیں وہ یہ ہیں :

پہلی قسم جمالی کہلاتی ہے۔
دوسری قسم جلالی طلبہ کی ہوتی ہے۔
تیسری قسم خیالی طلبہ کی ہوتی ہے۔
چوتھی قسم خالی طلبہ کی ہوتی ہے۔

مصنف آخر میں کہتے ہیں کہ طبعی حالات کے عنوان کے تحت اہل لاہور کی اس صفت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ لاہور کے لوگ بہت ”خوش طبع“ ہوتے ہیں۔

سوال 1 : مندرجہ ذیل سوالات کے مختصر جواب لکھیں :

۱ : میونسپلٹی نے ہوا کی قلت دور کرنے کے لیے کیا اقدامات کیے ہیں؟َ

جواب : میونسپلٹی نے ہوا کی قلت دور کرنے کے لیے لوگوں کو ہدایات جاری کیں کہ مفادِ عامہ کے پیشِ نظر اہلِ شہر ہوا کا بےجا استعمال نہ کریں بلکہ جہاں تک ہوسکے کفایت شعاری سے کام لیں۔ چناچہ اب لاہور میں عام ضروریات کے لیے ہوا کے بجائے گرد اور خاص حالات میں دھواں استعمال کیا جاتا ہے۔ کمیٹی نے جابجا دھوئیں اور گرد مہیا کرنے کے لیے مرکز کھول دیے ہیں، جہاں یہ مرکبات مفت میں تقسیم کیے جاتے ہیں۔

۲ : لاہور میں بہم رسانی آب کے منصوبے کی تکمیل میں تاخیر کیوں ہو رہی ہے؟

جواب : لاہور میں بہم رسانی آب کے منصوبے کے لیے ایک اسکیم عرصے سے کمیٹی کے زیرِ غور ہے، لیکن اس کی تکمیل میں تاخیر کی وجہ یہ ہے کہ سقے کے ہاتھ کے لکھے ہوئے اہم مسودات میں سے بعض تو تلف ہوچکے ہیں اور جو بچے ہیں انھیں پڑھنے میں بھی کافی دشواری کا سامنا ہے۔

۳ : میونسپلٹی نے جابجا نل لگا کر اہل لاہور کو کیا ہدایت کی ہے؟

جواب : میونسپلٹی نے جابجا نل لگا کر اہل لاہور کو ہدایت کی ہے کہ اپنے اپنے گھڑے نلکے کے نیچے رکھ دیں تاکہ عین وقت پر تاخیر کی وجہ سے کسی کی دل شکنی نہ ہو۔

۴ : لاہور کے بازاروں میں سے گزرنے والی سڑک کس نے بنوائی تھی؟

جواب : لاہور کے بازاروں میں سے گزرنے والی تاریخی اعتبار سے اہم ترین سڑک شیر ساہ سوری نے بنوائی تھی۔

۵ : تانگے کی ساخت مصنف کے الفاظ میں بیان کریں۔

جواب : تانگے کی ساخت مصنف کے مطابق کچھ ایسی تھی کہ لوگوں نے تختوں کے نیچے دو دو پہیے لگا لئیے تھے اور سامنے دو ہک لگا کر ان میں ایک گھوڑا ٹانگ دیا تھا۔ مصنف کہتے ہیں کہ اصطلاح میں اس کا تانگا کہتے ہیں۔

٦ : “لاہور کی ہر عمارت کی بیرونی دیواریں دہری بنائی جاتی ہیں۔” وضاحت کریں۔

جواب : مصنف کہتے ہیں کہ لاہور کی ہر عمارت کی بیرونی دیواریں دہری بنائی جاتی ہیں یعنی پہلے تو اینٹوں اور چونے کی دیوار کھڑی کی جاتی ہے اور پھر رفتہ رفتہ اس دیوار پر اشتہارات چپکا کر اشتہارات کی بھی ایک دیوار بنا دی جاتی ہے۔

۷ : پختہ سیاہی کے اشتہارات کا فوری فائدہ کیا ہوا ہے؟

جواب : مصنف کہتے ہیں کہ پختہ سیاہی کے اشتہارات کا فوری فائدہ یہ ہوتا ہے کہ وہ تادیر تک اپنی جگہ پر رہتے ہیں اور کوئی شخص اپنا یا اپنے احباب کا گھر اس لیے نہیں بھول سکتا کیونکہ اس گھر کے ساتھ والی دیوار پر لکھا گیا یہ اشتہار بہت جلدی تبدیل نہیں ہوتا ہے۔

۸ : لاہور کی مشہور ترین پیداوار کیا ہے؟

جواب : لاہور کی مشہور ترین پیداوار یہاں کے طلبہ ہیں، جو یہاں بہت کثرت سے پائے جاتے ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں دساور کو بھیجے جاتے ہیں۔

۹ : طلبہ کی کتنی قسمیں ہوتی ہیں؟ صرف نام لکھیں۔

جواب : مصنف کہتے ہیں کہ طلبہ کی کئی قسمیں ہوتی ہیں۔ ان میں سے چند قسمیں جو مشہور ہیں وہ یہ ہیں :
پہلی قسم جمالی کہلاتی ہے۔
دوسری قسم جلالی طلبہ کی ہوتی ہے۔
تیسری قسم خیالی طلبہ کی ہوتی ہے۔
چوتھی قسم خالی طلبہ کی ہوتی ہے۔

۱۰ : طبعی حالات کے عنوان کے تحت اہل لاہور کی کس صفت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے؟

جواب : طبعی حالات کے عنوان کے تحت اہل لاہور کی اس صفت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ لاہور کے لوگ بہت ”خوش طبع“ ہوتے ہیں۔

سوال 2 : سبق کی مدد سے موزوں الفاظ کا انتخاب کر کے خالی جگہ پر کیجیے :

۱ : لاہور تک پہنچنے کے لیے (دو) راستے مشہور ہیں۔ (کئی۔ دو۔ تین)

۲ : پجناب اب (ساڑھے چار) دریاؤں کی سر زمین ہے۔(ساڑھےچار۔ پانچ۔ سات)

۳ : نصف دریا کو اصطلاح میں (راوی ضعیف) کہتے ہیں۔ (نہر۔ راوی۔ راوی ضعیف)

۴ : لاہور میں بہم رسانی آب کے لیے ابتدائی منصوبہ (سقا) نے بنایا۔ (شیر شاہ سوری۔ نظام سقا۔انگریزوں)

۵ : لاہور کے ہر مربع انچ میں ایک (ہوٹل) موجود ہے۔ (ہوٹل۔ انجمن۔ کالج)

سوال 3 : تلخیص کا اصول ہے کہ وہ اصل عبارت کی قریب قریب ایک تہائی ہو اور عبارت کے تمام اہم نکات تلخیص میں شامل ہوں۔ آپ مذکورہ بالا نمونے کی روشنی میں نیچے دی گئی سبقی عبارت کی تلخیص کریں اور موزوں عنوان تحریر کریں۔

لاہور میں قابلِ دید ۔۔۔۔۔۔ بیان کر دیے گئے ہیں۔

موزوں عنوان : قابلِ دید مقامات
تلخیص : لاہور میں قابلِ دید مقامات مشکل سے ملتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ لاہور کی ہر عمارت کی بیرونی دیواریں دہری بنائی جاتی ہیں یعنی پہلے تو اینٹوں اور چونے کی دیوار کھڑی کی جاتی ہے اور پھر رفتہ رفتہ اس دیوار پر اشتہارات چپکا کر اشتہارات کی بھی ایک دیوار بنا دی جاتی ہے۔

سوال 4 : مندرجہ ذیل الفاظ و تراکیب کی وضاحت کریں۔

قلت کمی
قابل دید دیکھنے کے قابل
خلل انداز خلل پیدا کرنا
اغراض و مقاصد مقصد
تعارف پہچان
رد و بدل تبدیلی
دائمی ہمیشہ کے لیے
دریافت ڈھونڈنا
جامع اچھا
منسوخ ختم

سوال 5 : متن اور سیاق و سباق کے حوالے سے مندرجہ ذیل پیراگراف کی تشریح کریں۔

تمہید کے طور پر صرف اتنا عرض کرنا چاہتا ہوں ۔۔۔۔۔۔ آپ کی ذہانت فاتر ہے۔

حوالہ متن

یہ اقتباس سبق ”لاہور کا جغرافیہ“ سے لیا گیا ہے۔ اس سبق کے مصنف کا نام ”احمد شاہ بخاری پطرس“ ہے۔ یہ سبق کتاب ”پطرس کے مضامین“ سے ماخوذ کیا گیا ہے۔

سیاق و سباق

اس سبق میں مصنف مزاحیہ انداز میں لاہور کا نقشہ قارئین کے سامنے پیش کررہے ہیں۔

تشریح

اس اقتباس میں مصنف لاہور کا نقشتہ بیان کرنے سے پہلے کہتے ہیں کہ ہم یہاں ایک عرصہ گزار چکے ہیں اس لیے ہمیں اپنی بات کو ثابت کرنے کے لیے کسی قسم کی دلیل کی ضرورت نہیں ہے، مصنف مزید کہتے ہیں کہ ہمارے بزرگ لاہور کا پتہ بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ لاہور تو لاہور ہی ہے اور اگر کوئی شخص اس طریقے سے بتائے گئے پتے کو نہ سمجھ سکے تو اس شخص کی عقل فاتر ہے۔