Advertisement
Advertisement

علامہ محمد اقبال کی نظم “لالہ صحرائی” ان کی شاعری کے مجموعے بال جبریل سے لی گئی ہے۔ اس نظم میں کل 8 آٹھ اشعار ہیں۔اس نظم کے ذریعے شاعر نے صحرا میں اگنے والے پھول اور اپنی ذات کی مشابہت کو بیان کیا گیا۔

Advertisement

اس نظم میں شاعر کہتا ہے کہ صحرا جہاں تنہائی کا عالم ہے اور اس پہ محض نیلے آسمان کا سایہ ہے مجھے ایسی تنہائی خوفزدہ کرتی ہے لیکن اس صحرا اور تنہائی میں لالہ صحرائی یعنی صحرا کا پھول کھلا ہے مجھے اس میں اور اپنی ذات میں یہ مشترک خوبی دکھائی دیتی ہے کہ ہم دونوں بھٹکے مسافر کی طرح اس دنیا میں آئے ہیں جنھیں اپنی منزل معلوم نہیں۔یہ ایک افسوس ناک حقیقت ہے کہ دنیا کے پہاڑ اور اس کے دامن اب پیغمبر خدا حضرت موسیٰ کلیم اللہ جیسی بلند پایہ ہستیوں کی آماجگاہ نہیں رہے ورنہ میرے سینے میں بھی وہی شعلہ موجود ہے اور تیرے سینے میں جو حضرت موسیٰ کو کوہ طور پر نظر آیا تھا۔

شاعر اپنی ذات اور لالہ صحرائی کے وجود میں آنے کے فلسفے پر غور کرتے ہوئے کہتا ہے کہ دونوں کا یہ سوال ہے کہ ہم وجود میں کیوں آئے لیکن دونوں کا مقصد اس دنیا میں وھود میں آ کر اپنے جواہر کی نمود تھا۔دریا کا ایک قطرہ بھی اپنے اندر دریا جیسی گہرائی رکھتا ہے اور کچھی بھی بے معنی نہیں ہے۔اس لیے عشق و محبت کے راہیوں کا اللہ نگہباں ہے۔جیسے دریا کی موج کا اصل مقصد اس کا ساحل سے ٹکرانا ہوتا ہے لیکن وہ موج جو اٹھے لیکن بیچ راستے سے ہی واپس پلٹ جائے اس کی ناکامی پر بھنور کی آنکھ بھی اس موج کے ناکام ہونے کے ماتم میں روتی دکھائی دیتی ہے۔ جیسے کہ عملی جدوجہد کے ذریعے بے شک ہر شخص اپنی منزل پا لیتا ہے لیکن کچھ بدقسمت افراد ایسے بھی ہوتے ہیں جو تمام تر عملی جدوجہد کے باوجود اپنے مقصد کے حصول میں ناکام رہتے ہیں۔

Advertisement

اس کائنات میں اگر کوئی فرد سرگرم عمل ہے تو وہ محض انسان ہے۔ جبکہ دیگر چاند ،سورج محض تماشائی ہیں۔آخر میں شاعر کہتا ہے کہ اے کاش مجھے بھی رب ذوالجلال ان کیفیتوں سے نواز دے جو اس نے صحرا کی ہواؤں کو بخشی ہیں کہ تنہائی کے سناٹے میں جاری و ساری رہتی ہیں ۔ یہ ہوائیں ایک طرف سکون اور دوسری جانب سرمستی اور رعنائی لیے ہوتی ہیں۔

Advertisement

Advertisement

Advertisement