Back to: ادبی اصطلاحات کے نوٹس
Advertisement
محاکات کے معانی پر اگر غور کیا جائے تو اس کے معانی :آپس میں بات چیت کرنا، باہم حکایت کرنا، کسی کے قول و فعل کی نقل کرنا، نقالی، باہم داستان گو۔ لیکن اگر اس کی تعریف کی طرف جائے کہ محاکات کیا ہے؟ اس کا استعمال کہاں ہوتا ہے تو سمجھنے اور آسانی کے لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ جو کام نثر میں خاکہ نگار کرتا ہے وہی کام شاعری میں شاعر محاکات کے ذریعے سر انجام دیتا ہے۔ یعنی شاعری میں کسی واقعے، منظر یا امر کی تصویر کشی یا منظر کشی کرنا محاکات کہلاتا ہے۔
Advertisement
شاعری میں ایسے الفاظ کا استعمال کرنا کہ تصویر یا وہ منظر آنکھوں کے سامنے آئے جیسے عابد صاحب کا یہ شعر ملاحظہ ہو کہ
دم رخصت وہ چپ رہے عابد آنکھ میں پھیلتا گیا کاجل |
شعر سے آنکھوں سے بہنے والے آنسو اور چہرے پر ان آنسوؤں کے نقش قاری کے ذہن میں آجاتے ہیں جسے کوئی اس کے سامنے ہو۔
مزید شعری مثالیں
احمد فراز کی پوری غزل محاکات کی بہترین مثال ہے۔
سُنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں سُنا ہے ربط ہے اُس کو خراب حالوں سے سو اپنے آپ کو برباد کر کے دیکھتے ہیں سُنا ہے دن میں اُسے تتلیاں ستاتی ہیں سُنا ہے رات کو جگنو ٹھہر کے دیکھتے ہیں سُنا ہے اُس کے بدن کی تراش ایسی ہے کہ پھول اپنی قبائیں کتر کے دیکھتے ہیں سُنا ہے اُسے بھی ہے شعر و شاعری سے شغف سو ہم بھی معجزے اپنے ھُنر کے دیکھتے ہیں سُنا ہے درد کی گاہگ ہے چشمِ ناز اُس کی سو ہم بھی اُس کی گلی سے گزر کے دیکھتے ہیں سُنا ہے حشر ہیں اُس کی غزال سی آنکھیں سُنا ہے اُس کو ہرن دشت بھر کے دیکھتے ہیں سُنا ہے اُس کی سیاہ چشمگیں قیامت ہے سو اُس کو سُرمہ فروش آہ بھر کے دیکھتے ہیں سُنا ہے رات اُسے چاند تکتا رہتا ہے ستارے بامِ فلک سے اُتر کے دیکھتے ہیں سُنا ہے رات سے بڑھ کر ہیں کاکلیں اُس کی سُنا ہے شام کو سائے گزر کے دیکھتے ہیں سُنا ہے اُس کے لبوں سے گلاب جلتے ہیں سو ہم بہار پر الزام دھر کے دیکھتے ہیں سُنا ہے اُس کے شبستاں سے مُتصل ہے بہشت مکیں اُدھر کے بھی جلوے اِدھر کے دیکھتے ہیں سُنا ہے آئینہ تمثال ہے جبیں اُس کی جو سادہ دل ہیں اُسے بن سنور کے دیکھتے ہیں سُنا ہے چشمِ تصور سے دشتِ اِمکاں میں پلنگ زاویے اُس کی کمر کے دیکھتے ہیں رُکے تو گردشیں اُس کا طواف کرتی ہیں چلے تو اُس کو زمانے ٹھہر کے دیکھتے ہیں بس اِک نگاہ سے لُٹتا ہے قافلہ دل کا سو راہروانِ تمنّا بھی ڈر کے دیکھتے ہیں |
تحریر | محمد ذیشان اکرم |
Advertisement