ماحولیاتی آلودگی

0

ماحولیاتی آلودگی کی کئی ایک وجوہات ہیں، دھواں چھوڑنے والی گاڑیاں، اینٹوں کے بھٹوں سے نکلنے والا دھواں، کوڑا کرکٹ کے ڈھیر، زہریلی گیس اور دھواں چھوڑنے والی فیکٹریوں، فصلوں کی باقیات کو جلانے سے نکلنے والا دھواں اور اس طرح کی چیزیں ماحولیاتی آلودگی کا باعث بن رہی ہیں۔ ماحولیاتی آلودگی ایک عالمی مسئلہ بن کر ابھر رہا ہے۔لیکن ترقی یافتہ ممالک بہتر حکمت عملی، بہتر وسائل کے استعمال سے اور مجموعی شعور سے اس مسئلے پر قابو پانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، اس کے برعکس ترقی پذیر ممالک مثلا پاکستان اور بھارت وغیرہ ابھی تک اس سنجیدہ مسئلہ پر قابو پانے سے قاصر ہیں۔

اس ماحولیاتی آلودگی کے سبب پوری دنیا کے درجہ حرارت میں مجموعی طور پر 0.6 سینٹی گریڈ تک اضافہ ہوا ہے جو کہ عالمی سطح پر بہت تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔ ایک سروے کے مطابق جہاں اس ماحولیاتی آلودگی کے سبب بیماریوں کی تعداد میں حیران کن اضافہ ہو رہا ہے وہاں ہر شہری اوسطاََ اپنی مجموعی عمر کے تین سال بھی اس آلودگی کی وجہ سے کم کر رہا ہے۔

پاکستان میں خاص طور پر لاہور کے حوالے سے بات کی جائے تو پچھلے چند سالوں سے لاہور میں ایک پانچواں موسم”سموگ” متعارف  ہو چکا ہے جو کہ ہر سال اکتوبر کے اینڈ پر یا نومبر کے آغاز میں سر اٹھاتا ہے۔ لاہور چونکہ ایک بہت بڑا شہر ہے اور لاہور کی سڑکوں پر ٹریفک کا ایک ہجوم نظر آتا ہے، اس کے علاوہ پورے لاہور میں جابجا گندگی کے ڈھیر نظر آتے ہیں، ان وجوہات کی بنا پر لاہور کو ایک نئے موسم کا سامنا ہے جسے “سموگ” کہتے ہیں جس کی وجہ سے کئی ایک بیماریاں بھی سر اٹھاتی ہیں، مثلا آنکھوں کی جلن، گلے کی خرابی، نزلہ، فلو، زکام اور بخار وغیرہ۔ انفرادی طور پر پورا معاشرہ اس کا ذمہ دار ہے، اگر ہم بحیثیت فرد کچھ احتیاطی تدابیر پر عمل کریں تو فضائی آلودگی کو کم کیا جا سکتا ہے۔ ٹریفک کے دھوئیں سے بچنے کے لیے ہائبرڈ گاڑیاں استعمال کی جا سکتی ہیں، اس کے علاوہ سرکاری اور نجی سطح پر سائیکل کلچر کو فروغ دینا چاہئے اوراس کے ساتھ ساتھ سائیکل چلانے والے کو حقارت کی نظر سے نہیں دیکھنا چاہیے۔ فصلوں کی باقیات کو جلانے پر حکومتی فیصلے کی پابندی کرنی چاہیے، باقیات کو جلانے سے پرہیز کرنا چاہیے، فیکٹریوں اور کارخانوں کی زہریلی گیس اور دھویں کا کوئی موثر انتظام اور سدباب کیا جانا چاہئے۔ گلی محلوں، گلیوں، بازاروں اور سڑکوں پر کوڑے کرکٹ کے ڈھیر نہ ہی جمع کریں اور نہ ہی ان کو آگ لگائیں۔

غیرضروری سفر سے بھی گریز کیا جائے اور اگر ضروری طور پر باہر نکلنا پڑے تو ماسک اور عینک کا استعمال ضرور کیا جائے۔ حکومتی سطح پر اس کے لیے موثر اقدام کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، اس حوالے سے کمیٹیاں تشکیل دی جانی چاہیئں، تیل کے معیار کو چیک کرنا چاہیے۔ اس مسئلے کی ساری ذمہ داری حکومت پر ڈالنے سے بھی کچھ حاصل نہ ہوگا۔ بلکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم انفرادی طور پر سارے اس میں اپنا اپنا حصہ ڈالیں۔

کیونکہ منظم قومیں ایسے ہی اس طرح کے مسائل پر قابو پاتی ہیں۔ 50 کی دہائی میں امریکہ اور یورپ میں صنعتی انقلاب کے باعث فضائی آلودگی نے سر اٹھایا تھا، اور غالباً پہلی دفعہ اس کے لئے لفظ “سموگ” استعمال کیا گیا، اور انہوں نے انفرادی طور  پر اپنا اپنا حصہ ڈالتے ہوئے “سموگ” کو کنٹرول کیا تھا۔ اس کے برعکس پاکستان میں فضائی آلودگی کی اس قسم “سموگ” نے 2015ءمیں سر اٹھایا اور ہم بحیثیت قوم اس مسئلہ کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے۔

“سموگ” پر قابو پانے کے لیے حکومت کو مضبوط اور پائیدار پالیسیاں مرتب کرنے کی ضرورت ہے، تیل  کے معیار پر سمجھوتہ نہیں ہونا چاہیئے ، زیادہ سے زیادہ درخت اور جنگلات لگائے جائیں تاکہ ماحولیاتی آلودگی پر کنٹرول کیا جاسکے۔ دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کے خلاف سخت آپریشن کیےجائیں، دھواں اور زہریلی گیسیں چھوڑنے والی فیکٹریوں کی سخت نگرانی کی جائے،کوڑے کرکٹ کے لیے مناسب اور مستقل انتظامات کیے جائیں۔

اس کے علاوہ ہمارا بھی انفرادی طور پر فرض بنتا ہے کہ حکومتی اعلانات اور ہدایات پر سختی سے عمل کریں، اگر حکومت فصلوں کی باقیات کو جلانے پر دفعہ 144 لگاتی ہے تو اس پر عمل کیا جائے، اپنے  اردگرد ماحول کو خوشگوار اور صاف رکھنے کی کوشش کی جائے، زیادہ سے زیادہ درخت اور جنگلات لگائے جائیں کیونکہ یہ ماحولیاتی آلودگی کو کنٹرول کرنے کا سب سے موثر ذریعہ ہیں۔ اس کے علاوہ گلی، محلے اور سڑکوں پر گندگی کے ڈھیر جمع نہ ہونے دیں کیونکہ منظم قومیں ایسے کام نہیں کرتیں۔

اپنی گاڑیوں کا بروقت کام کروانا چاہیے تاکہ دھوئیں جیسی مصیبت سے جان چھڑائی جا سکے۔ اس کے علاوہ ہمیں سائیکل کلچر کو فروغ دینا چاہیے، ہمیں اپنی مجموعی ذمہ داریوں کا احساس ہونا چاہیے اور ان تمام ذمہ داریوں کو فرض سمجھتے ہوئے ان پر عمل پیرا ہونا چاہیے۔ کیونکہ منظم قومیں ہمیشہ اس طرح کے مسائل پر مناسب پلانگ، حکمت عملی اور ایک مجموعی سوچ کے تحت کنٹرول کرتی ہیں ورنہ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھنے سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا۔ ہر طرح کے مسائل پر قابو پانے کے لیے ہمیشہ مناسب پلاننگ، حکمت عملی، تدابیر، جذبے اور مجموعی سوچ کی ضرورت ہوتی ہے۔

تحریر امتیاز احمد کالم نویس افسانہ نگار 
ماحولیاتی آلودگی 1