مجاز مرسل کی تعریف اور اقسام

0

عمومی قاعدہ یہ ہے کہ لفظ کو اسی معنی کے لیے استعمال کیا جائے جس کے لیے اسے وضع کیا گیا ہو۔ لیکن ادیب اور شاعر بعض اوقات لفظ کو اس کے حقیقی معنی کے بجائے کسی اور معنی میں بھی استعمال کر لیتے ہیں۔ اس کا مقصد کلام یا تحریر میں خوب صورتی پیدا کرنا ہوتا ہے۔ لفظ کے اس استعمال کو مجاز کہتے ہیں۔

اصطلاح میں مجاز وہ لفظ ہے جو اپنے حقیقی معنوں کی بجائے مجازی معنوں میں استعمال ہو اور حقیقی و مجازی معنوں میں تشبیہ کا تعلق نہ ہو بلکہ اس کے علاوہ کوئی اور تعلق ہو۔ مثلاً:’’خاتون آٹا گوندھ رہی ہے۔ ‘‘ یہاں آٹا اپنے حقیقی معنوں میں ‌استعمال ہوا ہے۔ یعنی آٹا سے مراد آٹا ہی ہے۔ اسی طرح اگر یہ کہا جائے کہ ’’اس کے ہاتھ پر زخم ہے۔ ‘‘ اس میں زخم انگلی، انگوٹھے، ہتھیلی یا ہاتھ کی پشت پر ہو گا، لیکن انگلی، انگوٹھے یا ہتھیلی کی جگہ ہاتھ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔

اسی طرح یہ کہنا کہ’’ فاتحہ پڑھیے۔ ‘‘ اس سے مراد یہ ہے کہ پوری سورہ فاتحہ پڑھیے، نہ کہ صرف لفظ فاتحہ۔ اسی طرح اگر یہ کہا جائے کہ’’ احمد چکی سے آٹا پسوا لایا ہے۔ ‘‘ یہاں آٹا، گندم کے معنوں میں استعمال ہوا ہے جو اس کی ماضی کی حالت ہے۔ یعنی آٹا تو نہیں پسوایا گیا بلکہ گندم پسوائی گئی تھی اور آٹا بنا۔ لیکن آٹا پسوانے کا ذکر ہے۔

قرآن مجید میں مجاز مرسل کا استعمال

اللہ تعالی نے قرآن مجید میں بھی ادب کی اس صنف کا کثرت سے استعمال کیا ہے۔ مثال کے طور پر قرآن مجید کی درج ذیل تین آیات کو ملاحظہ کریں :

يَخْلُقُكُمْ فِي بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ خَلْقًا مِّن بَعْدِ خَلْقٍ فِي ظُلُمَاتٍ ثَلَاثٍ۔ (الزمر39:7)۔ ( وہ تمہاری ماؤں کے پیٹوں میں تین تین تاریک پردوں کے اندر تمہیں ایک کے بعد ایک شکل دیتا چلا جاتا ہے۔ )

اور
كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ إِلَيْكَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ۔ (ابراھیم14:1)( یہ ایک کتاب ہے جس کو ہم نے تمہاری طرف نازل کیا ہے تاکہ تم لوگوں کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لاؤ۔ )

اور
وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ النُّجُومَ لِتَهْتَدُوا بِهَا فِي ظُلُمَاتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ۔ (الانعام6:97)(اور وہی ہے جس نے تمہارے لیے تاروں کو صحرا اور سمندر کی تاریکیوں میں راستہ معلوم کرنے کا ذریعہ بنایا۔ )

درج بالا آیات میں سے پہلی آیت میں لفظ ’’ ظلمات‘‘ اپنے حقیقی معنی میں استعمال ہوا ہے۔ کیونکہ ماں کے پیٹ میں حقیقتاً اندھیرا ہی ہوتا ہے۔ دوسری آیت میں ’’ ظلمات و نور‘‘ کے الفاظ اپنے حقیقی معنی میں استعمال نہیں ہوئے۔ اس آیت میں قرآن مجید کے نزول کا مقصد یہ بیان کیا گیا ہے کہ اس کی مدد سے لوگوں کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی کی طرف لایا جائے۔ یہاں تاریکی سے مراد حقیقی تاریکی نہیں ہے بلکہ اس سے اخلاقی برائیاں اور راہ حق سے دوری مراد ہے۔

اسی طرح نور یا روشنی سے مراد حقیقی روشنی نہیں بلکہ سیدھا راستہ مراد ہے جو انسان کو اللہ کی طرف لے جائے۔ تیسری آیت میں لفظ ’’ ظلمات‘‘ کا استعمال حقیقی یا مجازی دونوں اعتبار سے ممکن ہے۔ کیونکہ سمندر یا خشکی میں سفر کرتے ہوئے مسافر کو حقیقت میں رات کا اندھیرا بھی پیش آ سکتا ہے اور راستوں کا علم نہ ہونا بھی گویا مجازی معنی میں اندھیرا ہے جو اسےصحیح راستے سے بھٹکا سکتا ہے۔

مجاز کے اجزا۔

مجاز کے پانچ اجزا ہیں :

1. لفظ مجاز

یہ وہ لفظ ہے جسے مجازی معنی میں استعمال کیا گیا ہو۔ جیسے لفظ ’’ ظلمات‘‘۔

2. مجازی معنی

یہ وہ معنی ہے، جسے اصل معنی کی جگہ اختیار کیا جا رہا ہو۔ مثلاً لفظ ’’ ظلمات‘‘ کے اصل معنی کی جگہ اسے ’’ گمراہی‘‘ یا ’’ لاعلمی ‘‘کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے۔

3. سبب

کسی لفظ کو مجازی معنی میں استعمال کرنے کی کوئی وجہ ضرور ہونی چاہیے۔ مثلاً گمراہ یا لاعلمی میں بھٹکنے والے شخص کی کیفیت اس شخص سے بہت ملتی ہے جو اندھیرے میں بھٹک رہا ہو۔ اس وجہ سے لفظ ’’ ظلمات‘‘ کا گمراہی یا لاعلمی کے معنی میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔

4. علاقہ یا تعلق

لفظ مجاز اور مجازی معنی میں کوئی تعلق ہو۔ یہی تعلق ہی لفظ کو مجازی معنی میں استعمال کرنے کا سبب بنتا ہے۔

5. قرینہ یا علامت

جملے میں کوئی ایسی علامت یا قرینہ موجود ہونا چاہیے جو یہ ظاہر کرے کہ لفظ کو اپنے حقیقی معنی کے بجائے مجازی معنی میں استعمال کیا گیا ہے۔ یہ علامت لفظ کی صورت میں بھی ہوسکتی ہے اور جملے کے معنی میں پوشیدہ بھی ہوسکتی ہے۔

مجاز مرسل کی اقسام

مجاز مرسل کی مشہور اقسام یہ ہیں :

1. جزو کہہ کر کل مراد لینا

مثلاً اگر یہ کہا جائے کہ’’ قل شریف پڑھیں ‘‘، تو اس سے مراد ان چاروں سورتوں کی تلاوت ہے جن کے آغاز میں لفظ ’’ قل‘‘ آتا ہے۔

2. کل بول کر جزو مراد لینا

یہ کہا جائے کہ’’ کرسی ٹوٹ گئی ہے۔ ‘‘ اگرچہ کرسی کا کوئی بازو یا ٹانگ ٹوٹی ہو گی تو یہ کل بول کر جزو مراد لیا جائے گا۔

3. ظرف بول کر مظروف مراد لینا

مثلاً اگر یہ کہا جائے کہ’’ بوتل پیجیے۔ ‘‘ تو اس سے مراد بوتل کے اندر موجود مشروب پینا ہے۔ یا یہ کہیں کہ اس نے محفل میں کئی جام چڑھائے، تو اس سے مراد جام میں موجود شراب ہے۔

4۔ مظروف بول کر ظرف مراد لینا

اس کی مثال یہ جملہ ہے: ’’ دودھ آگ پر رکھ دیجیے۔ ‘‘اس سے مراد دودھ کا برتن چولہے یا آگ پر رکھنا ہے۔

5. سبب کہہ کر مسبب یا نتیجہ مراد لینا

مثلاً یہ جملہ: ’’ بادل ایک گھنٹہ برسے تو چھت چار گھنٹے برستی ہے۔ ‘‘ بادل سبب ہے بارش کا اور بارش نتیجہ ہے۔ یہاں بادل برسنے سے بارش کا برسنا مراد ہے۔

6. مسبب یا نتیجہ بول کرسبب مراد لینا

مثلاً یہ جملہ: ’’ اس کے کمرے میں علم ہر طرف بکھرا پڑا تھا۔ ‘‘ یہاں علم سے مراد کتابیں ہیں۔ علم نتیجہ ہے کتاب خوانی کا۔ یہاں علم بول کر علم کا سبب یعنی کتاب مراد لی گئی ہے۔

7. ماضی بول کر حال مراد لینا

مثلاً یہ کہنا کہ’’ ریٹائرمنٹ کے بعد پروفیسر صاحب گھر پر ہی رہتے ہیں۔ ‘‘ اگرچہ ریٹائرمنٹ کے بعد آدمی پروفیسر نہیں رہتا، لیکن یہاں ماضی بول کر حال کی حالت مراد لی گئی ہے۔

8. مستقبل بول کر حال مراد لینا

مثلاً دوران تعلیم میں طب کے طالب علموں کو ڈاکٹر کہنا۔ اگرچہ وہ اس وقت تک ڈاکٹر نہیں بنے ہوتے، لیکن ان کی مستقبل کی حالت بول کر حال مراد لیا جاتا ہے۔

9. مضاف الیہ بول کر مضاف مراد لینا

مثلاً یہ کہنا کہ ’’ آج کل زمانہ بہت خراب ہے اس لیے احتیاط کی ضرورت ہے۔ ‘‘یہاں زمانہ سے مراد اہل زمانہ یا لوگ ہیں، جن کی خرابی کا ذکر کیا گیا ہے۔

10. مضاف الیہ حذف کر کے مضاف کا ذکر کرنا

یہ جملہ: ’’ بدکردار انسانوں سے سگ اصحاب بہتر ہیں۔ ‘‘یہاں اصل ترکیب ’’ سگ اصحاب کہف ‘‘ہے۔ کہف مضاف الیہ سگ مضاف ہے۔ یہاں کہف حذف کر کے سگ اصحاب کی ترکیب لائی گئی ہے اور کہف کو حذف کر دیا گیا ہے۔

11. آلہ بول کر صاحب آلہ مرا د لینا

مثلاً یہ جملہ: ’’ قلم کا درجہ تلوار سے زیادہ ہے۔ ‘‘یہاں قلم سے مراد اہل قلم اور تلوار سے مراد اہل سیف یا تلوار باز ہیں۔

12. صاحب آلہ بول کر آلہ مراد لینا

’’ اس کا پہلا وار ہی مخالف کی گردن کو تن سےجدا کر گیا۔ ‘‘یہاں صاحب تلوار بول کر آلہ یعنی تلوار مراد لی گئی ہے۔

13. لفظ بول کر متضاد مراد لینا

مثال کے طور پر کھیلتے ہوئے بچوں کو دیکھ کر یہ کہا جائے: ’’ کیا خوب پڑھائی ہو رہی ہے۔ ‘‘اگرچہ وہ پڑھائی نہیں ہو رہی لیکن پڑھائی بول کراس کا متضاد یعنی پڑھائی کا نہ ہونا مراد لیا گیا ہے۔

تحریر محمد ذیشان اکرم