Majnoon Gorakhpuri In Urdu | مجنوں گورکھپوری کی افسانہ نگاری

0

مجنوں گورکھپوری کی افسانہ نگاری

ادب لطیف میں مجنوں گورکھپوری نمائندہ افسانہ نگاروں میں شامل ہیں۔یلدرم اور نیاز سے ان کا انداز مختلف ہے۔ بےشک انہوں نے اپنا طویل افسانہ“زیدی کا حشر” نیاز کے ناولٹ”شہاب کی سرگزشت”کی طرز پر لکھا ہے لیکن انہوں نے اپنا ایک الگ انفرادی رنگ بھی قائم رکھا ہے۔ان کی رومانیت، ان کے تصورات اور احساسات اور ان کا اسلوب نیاز اور ان سے متاثر دوسرے اہل قلم سے بالکل مختلف ہے۔مجنوں کے افسانوں کا تعلق نہ تو ترکی ادب سے ہے نہ یونانی ادب سے۔ان کے افسانے ہمیں اپنے ہی وطن کی سیر کرواتے ہیں اور اپنی ہی کی سرزمین سے متعلق انہوں نے کہانیاں تخلیق کی ہیں۔ان کے کردار ہمارے معاشرے کے کردار ہیں۔ان کے افسانے حزنیہ ہیں اور ان کا اختتام عموما ٹریجڈی پر ہوتا ہے۔مجنون نیاز کی طرح لمس و لزدیت اور جنس کو موضوع نہیں بنایا۔ان کے کردار بے غرض محبت کرتے ہیں۔

مجنوں نے اپنی ابتدائی تخلیقات جو انہوں نے ١٩٢٥ء  سے ١٩٣١ء کے عرصے میں لکھی تھیں مثلا “زیدی کا حشر” صید زبوں” اور “خواب و خیال” ،ان میں انہوں نے عشق و محبت اور اس کی ناکامیوں کا ذکر کیا ہے۔اس زمانے میں مجنوں تقدیر کے قائل تھے۔ ١٩٣٢ء میں ان کے خیالات میں تبدیلی آئی تب وہ ناکامیوں کو تقدیر کی کرشمہ سازی نہ کہہ کر سماجی نظام کی خرابی ٹھہرانے لگے۔اس نظریے کی نمائندگی” سراب” سرنوشت” اور “گردش” افسانے کرتے ہیں۔

مجنوں کی افسانہ نگاری کی ابتدا اس وقت ہوئی جب ادب لطیف کا عہد شباب پر تھا۔وہ بھی اس عہد سے متاثر ہوکر نہ رہ سکے۔ ان کے افسانوں کا اسلوب ادب لطیف کے افسانوں کا سلوک کہا جا سکتا ہے۔وہ یاس اور الم کے باوجود افسانوں میں طرح طرح سے لطافت پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔مجنوں کا اسلوب ادب لطیف کا ایک منفرد نمونہ ہے جو ان کے پیشرؤں اور ہم عصروں سے منفرد ہے۔وہ تخیلاتی اور تصوراتی فضا کی سیر نہیں کرواتے ان کے افسانوں میں ہندوستانی ماحول اور معاشرے کی فضا ہے۔ابتدائی افسانے اعلی طبقے سے متعلق ہیں اور بعد کے افسانوں میں عوام اور ان کے مسائل کا دخل زیادہ ہے۔لیکن اس طرح کہ نہ تو لطافت مجروح ہوتی ہے اور نہ ہی رومانیت پر کوئی اثر پڑتا ہے۔

مجنوں ابتدا میں شاعری کرتے تھے اور شاعری کی نثر پر زیادہ توجہ دیتے تھے۔وہ افسانہ نگار کیسے بنے اس کا ذکر کرتے ہوئے وہ خود لکھتے ہیں کہ جب نیاز کا طویل افسانہ“شہاب کی سرگزشت” شائع ہوا اس میں انہیں فن کے نقطۂ نظر سے کوئی خوبی نظر نہ آئی لیکن وہ اس کے اسلوب سے ضرور متاثر ہوئے اور اس سے متاثر ہو کر انہوں نے اپنا افسانہ“زیدی کا حشر” لکھا لیکن جلد ہی انہوں نے ایک انفرادی رند بھی قائم کیا۔مجنوں کا خیال ہے کہ اردو میں مغربی طرز کے زیادہ سے زیادہ افسانے لکھے جائیں اور بہترین افسانے اردو میں منتقل کیے جائیں۔“صید زبوں” بھی ان ہی اثرات کا نتیجہ ہے یہ ہاڈی کے ناول”woodland”پڑھنے کے بعد لکھا گیا۔یہ ترجمہ یا ماخذ نہیں ہے۔مجنوں نے خود لکھا ہے کہ” ہاڈی کا ناول پڑھ کر میرا افسانہ پڑھیے تو آپ کو زیادہ سے زیادہ یہ احساس ہوگا کہ ہاڈی کے ناول کی یاد باقی ہے اور افسانے میں کام کر رہی ہے”

مجنوں نے اپنے افسانوں میں سادہ زبان استعمال کی ہے جس میں ادبیت اور شعریت ہے۔مجنوں غم و آداسی کی تصویر کشی کا ہنر رکھتے ہیں۔وہ صرف کردار کے غم کا اظہار نہیں کرتے بلکہ اس کے غم میں کائنات کے ہر ذرہ اور ہر ذی روح کو شامل کرکے مؤثر کیفیت پیدا کر دیتے ہیں۔مجنوں کردار کے مکالموں سے افسانوں کی ابتدا کرتے ہیں زیادہ تر افسانوں میں یہی انداز اختیار کیا گیا ہے۔افسانے کی ابتداء درمیانی واقعے سے ہوتی ہے بعد میں ابتدائی سلسلہ واضح ہوجاتا ہے۔ان کے افسانوں کے کردار زیادہ تر ادبی ذوق رکھتے ہیں وہ پڑھے لکھے ہی نہیں ہیں بلکہ انہیں شعر و شاعری ادب و فلسفہ سے بھی دلچسپی ہے۔

“زیدی کا حشر” صید زبوں” خواب و خیال” ہتیا”سوگوار شباب” اور “سمن پوش” مجنوں کی افسانہ نگاری کے پہلے دور کی نمائندگی کرتے ہیں۔ان میں عشق و محبت کی ناکامیوں کا ذکر ہے،ان افسانوں کے کردار اعلی طبقے کے افراد ہیں۔یہ غور و فکر کرتے ہیں اور انکی غوروفکر اور تمام مباحث کا مرکز محبت ہے۔لیکن محبت کے موضوع کے ارد گرد بہت سے مسائل ہیں۔


سراب”سرنوشت”اور “گردش” ان کے دوسرے دور کی تخلیق ہیں۔پہلے دور کے افسانوں میں بھی غور و فکر کا عنصر ہے لیکن “سراب” میں یہ عنصر زیادہ حاوی ہے۔مجنوں اپنے افسانے” سراب” پر اظہار خیال کرتے ہوئے یوں لکھتے ہیں” میرے بدلے ہوئے میلانات اور دہرائے ہوئے خیالات کی باقاعدہ ابتداء ١٩٢٢ء سے ہوئی اور ان کی پہلی جھلکیاں اس افسانے میں ملتی ہیں”

“سراب” ان کا ایک بہترین افسانہ ہے۔اس افسانے میں ایک خوبصورت اور رومان پرور فضا ہے۔اس کی ایک اہم خوبی یہ ہے کہ اس میں افسانہ نگار کا مقصد اور نصب العین نمایاں ہے۔انسانیت کا ذکر،عوامی خدمت کا جذبہ اور غریبوں کی بہبودی کی فکر میں اضافہ ہے۔اس کا اہم کردار یوسف ہے جو انسانیت اور حق پرستی کا علمبردار ہے۔اس افسانے میں واضح مقصدیت ہے۔اس کے ہیرو کے خیالات انقلابی ہیں لیکن تحریر کا حسن برقرار رہتا ہے اور ادبیت، شعریت اور لطافت چھائی رہتی ہے۔

اپنی تخلیق یعنی” سراب” میں مجنوں نے اپنے فن کے جوہر دکھائے ہیں۔مجنوں نے ہاڈی کے شہرہ آفاق ناول”the return of nature”سے متاثر ہوکر اور اس کے نمونے پر اپنا افسانہ” بازگشت”لکھا۔ یہ افسانہ١٩٢٩ء میں مسلسل شائع ہوا۔مجنوں نے مغربی ادب کا وسیع مطالعہ کیا تھا۔ان پر مغربی مصنفین اور خصوصاً ہاڈی کا بہت اثر ہے اس کے علاوہ ان پر برناڈشاہ اور مارس کے اثرات بھی ملتے ہیں۔انہوں نے اپنا افسانہ“سرنوشت”مغربی خاتون افسانہ نگار جارج ایلیٹ کے افسانے سے متاثر ہو کر لکھا۔اس طرح ادب لطیف کے زیادہ تر مصنفین کے یہاں جو لمس ولزدیت ہے وہ مجنوں کہ یہاں نہیں ہے ان کا انفرادی، رومانی تخیل انہیں دوسروں سےمختلف کر دیتا ہے۔