مناسک حج کا بیان، سوالات و جوابات

0
  • سبق نمبر 13:

سوال۱:حج کے اجر کے متعلق بیان کریں۔

جواب: ارسول اللہﷺ کے ارشاد گرامی کے مطابق یہ عبادت افضل اور برتر ہے کیونکہ ہر عبادت کا اجر ہے مگر اس عبادت کی حد تک لیکن حج کے لئے ارشاد رسول اللہﷺ کے مطابق مسلمانوں کے تمام گناہ صاف کر دیئے جاتے ہیں اور حض مبرور یعنی صحیح ارکار کے ساتھ ادا کرنےکے بعد حاجی گناہوں سے ایسا پاک ہو جاتا ہے جیسے ماں کے پیٹ سے پیدا ہونے والا بچہ ہوتا ہے یہی فضیلت ایسی ہے جو کسی دوسری عبادت کو حاصل نہیں۔ اس کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ حج میں تمام عبادات ایک جگہ جمع ہو جاتی ہے۔

سوال۲: مناسک حج کو تفصلی بیان کریں۔

جواب: جو فرائض حج کے لئے مقرر کئے گئے ہیں انہیں”مناسک“ کہا جاتا ہے اب ان کی حکمتوں پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگاکہ:
تمام مناسک سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ہر عمل سے بندگی کا تصور نمایاں ہے ”احرام“ میں صرف لباس کی تفریق نہیں بنتی بلکہ اللہ کے سامنے اپنی فقیری کا احساس ہے جیسے کوئی فقیراپنی جھولی پھیلائے مانگ رہا ہویا ایک جان نثار سرفروشی کے لئے میدان جنگ میں سر سے کفن باندھے آمادہ ہو۔ احرام مختلف قوموں کے لباس کی تفریق ختم کرکے انہیں یکساں کپڑے پہننے پر مجبور کرتا ہے جو اسلامی قومیت کا نشان ہے۔

جب ہر طرف سے حاضر باشی کا نعرہ لبیک بلند ہوتا ہے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سب نے خود کو اللہ کے حوالے کر دیا۔
کعبہ پر نظر پڑتے ہی اس کا تاریخی پس منظر اور اس کی تعمیر کا جذبہ آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے اور اسے یاد آجاتا ہے کہ وہ بھی اسی امت کا ایک فرد ہے جس کے لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس کی تعمیر جدید کے وقت دعا کی تھی۔

جب حجر اسود پر ہاتھ رکھتا ہے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ اس نے اللہ کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے دیا اور رسول اللہﷺ کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے دیا۔

طواف صرف اللہ کی رضا کے لئے خود کو قربان کر دینے کا والہانہ جذبہ ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جان نثار پر وانے شمع کے گرداس کی محبت میں قربان ہونے کیلئے چکر لگا رہے ہوں۔ یا لاکھوں انسان میدان حشر میں کفن پہنے اپنے رب کے حضور حاضر ہوں۔

صفا اور مروہ کے درمیان سعی یعنی بھاگنا اس عظیم واقعہ کو یاددلاتا ہے کہ مقدس ماں بی بی حاجرہ رضی اللہ عنہ اپنے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کی پیاس سے بے تاب ہو کر پانی کی تلاش میں بھاگی پھر رہی تھی جس کے بدلہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے چشمہ زم زم جاری فرمادیا تھا جسے”آب زم زم“ کہا جاتا ہے۔

جمرات یعنی مخصوص ستونوں پر کنکریاں مارنا ایک جانب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بہکانے کے لئے آنے والے شیطان پر لعنت بھیجنا یاد دلاتا ہے اور دوسری طرف اصحاب فیل پر اللہ تعالیٰ نے ہابیلوں کے ذریعہ جو تباہی نازل کی تھی اس کی یادتازہ ہو جاتی ہے۔

قربانی اس عظیم واقعہ کو یاد دلاتی ہےجب مشرق باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے پیارے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کو رضائے الہیٰ کے لئے قربان کر دیا تھا مگر اللہ تعالیٰ نے اس کے بجائے جانور(مینڈا)ذبح کرادیا اور اسی روز سے انسانوں کی قربانی کے بجائے جانوروں کی قربانی جاری ہوگئی۔

مراسم حج کے پیچھے کام کرنے والی تمام حقیقتیں بتا رہی ہیں کہ بندگی کا رب کون ہے۔

سوال۳:حج کی جامعیت کو بیان کریں۔

جواب: ۱) حج نماز بھی ہے اس طرح کہ جس سمت کی طرف رخ کرکے مسلمان نماز پڑھتا ہے وہ اس سمت کو مقرر کرنے والا خود سامنے ہوتا ہے۔
۲) حج زکوٰۃ بھی ہے کہ مسلمانوں اس کے لئے اپنا نام مال صرف کرتا ہے اور مالی قربانی دیتا ہے۔
۳) حج جہاد بھی ہے اور اس میں جہاد کی تمام قسمیں یک جائی جمع ہوگئی ہیں۔

عبادات کا اصل مقصد انسان میں انفرادی اور اجتماعی دونوں قسم کی پسندیدہ صفات پیدا کرنا ہے اور اخلاقی برائیوں سے پاک صاف کرکے اسے قرب الہیٰ کے قابل بنانا ہے اور اس کے لئے تیار کرنا ہے کہ اللہ کی محبت سب محبتوں پر غالب آجائے۔ حج سے یہ تمام صفات پوری طرح پیدا ہو جاتی ہیں اسی لئے اسے ”افضل العبادہ“ کہا گیا ہے۔

سوال۴:حجِ مقبول کیا ہے؟

جواب: حج کے مذکورہ بالا اجتماعی و انفرادی فوائد سے ہم اسی صورت میں فیضاب ہو سکتے ہیں۔ جب ہمارا مقصد رضائے الہیٰ ہو۔ ہمارے سرگرمیوں کا مرکز و محور دین حق کی سر بلندی ہو اور حج کی روحانی مقاصد پر نظر جمی رہے۔ تب ہی ہمارے حج، حج مقبول و مبرور ہوسکتا ہے۔

سوال۵: حج کے معنی و مفہوم بیان کریں۔

جواب: لفظ ”حج “ کے معنی لغت میں زیادہ کا ارادہ کرنے کے ہیں مگر شریعت کی اصطلاح میں خانہ کعبہ کی زیارت اور طواف کے ارادہ کو حج کہا جاتا ہے۔ حج ہر عاقل، بالگ اور صاحب استطاعت مسلمان پر زندگی میں ایک مرتبہ فرض ہے اس لئے جوان شرائط پر پورا اترے اور وہ حج نہ کرے تو گویا وہ اپنے مسلمان ہونے کے دعویٰ کو جھٹلاتا ہے۔رسول اللہﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
”جس شخص کو کسی قسم کی بیماری یا واقعی ضروریات یا ظالم حکمران نے روک نہ رکھا ہو استطاعت رکھنے کے باوجود حج نہ کرے تو چاہے وہ یہودی مرے یا نصرانی۔“

خانہ کعبہ کی زیادت کو بابرکت اور ضروری قرار دیاہے یہ دنیا کی سب سے پہلی عمارت ہے، جو حضرت آدم علیہ السلام نے عبادت کے لئے بنائی تھی جو طوفا نوح میں ڈوب کر نگاہوں سے اوجھل ہوگئی تھی اور جسے ریت نے ڈھانپ لیا تھا۔ پھر آج سے تقریباً ساڑھے چار ہزار سال پہلے اللہ کے حکم سے حضرت ابراہیم علیہ اسلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے اس کی دوبارہ تعمیر کی اور آج تک دنیا کے ہر گوشے سے مسلمان اس کی زیارت کے لئے حاضر ہوتے ہیں۔