مثنوی اپنے گھر کا حال کی تشریح،سوالات و جوابات

0

مثنوی اپنے گھر کا حال کی تشریح

کیا لکھوں میرؔ اپنے گھر کا حال
اس خرابے میں میں ہوا پامال

اس نظم میں شاعر میر تقی میر نے اپنے گھر کی بدحالی کوبیان کیا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ میں اپنے گھر کی بدحالی کا کیا حال بیان کروں کہ اس بدحالی اور خرابی کی وجہ سے تو میں روندا گیا ہوں۔

چار دیواری سو جگہ سے خم
تر تنک ہو تو سوکھتے ہیں ہم

شاعر کہتا ہے کہ گھر کی چار دیواری کے یہ حالات ہیں کہ وہ کئی جگہ سے جھکی ہوئی ہے۔کبھی یہ بھیگ جائے تو میرا جینا مشکل ہو جاتا ہے۔

لونی لگ لگ کے جھڑتی ہے ماٹی
آہ کیا عمر بے مزہ کاٹی

شاعر کہتا ہے کہ گھر کی دیواریں ایسی خستہ حال ہو چکی ہیں کہ جیسے نمکین مٹی جھڑتی ہے ایسے نمکین مٹی کی طرح یہ دیواریں جھڑ کے گر رہی ہیں۔ افسوس کہ میں کیا بدمزہ زندگی کاٹ رہا ہوں۔

بان جھینگر تمام چاٹ گئے
بھیگ کر بانس پھاٹ پھاٹ گئے

شاعر گھر کی خستہ حالی بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ میرے گھر کی چارپایوں کا یہ حال ہے کہ اس کی چارپائیوں کا بان جھینکر چاٹ کر کھا گئے ہیں۔جبکہ اس کے بانس مسلسل بھیگنے کی وجہ سے پھٹ کر خراب ہوگئے ہیں۔

تنکے جاں دار ہیں جو بیش و کم
تن پہ چڑیوں کی جنگ ہے باہم

شاعر کہتا ہے کہ جو کچھ تنکے باقی ہیں ان پر بھی پرندوں اور چڑیوں کی مسلسل جنگ جاری رہتی ہے کہ وہ اسے اپنا مسکن بنائے ہوئے ہیں۔

ایک کھینچے ہے چونچ سے کر زور
ایک مگری پہ کر رہی ہے شور

شاعر کہتا ہے کہ چڑیوں کی یہ آپسی جنگ ایسی جاری ہے کہ ایک چونچ سے زور لگا کر اپنی جانب کھینچتی ہے تو دوسری اس کے لیے شور مچانے لگ جاتی ہے۔

بوریا پھیل کر بچھا نہ کبھو
کونے ہی میں کھڑا رہا یکسو

شاعر کہتا ہے کہ میرے گھر کی یہ حالت ہے کہ میری حسرت ہی رہی ہے کہ میں کبھی یہاں پر اپنا بستر پھیلا کر لیٹ سکوں۔میں ہمیشہ یہاں ایک کونے میں ہی لگ کر کھڑا رہتا ہوں کہ یہاں کوئی لیٹنے کی صورتحال ہی نہیں ہے۔

ڈیوڑھی کی ہے یہ خوبی در ایسا
چھپر اس چونچلے کا گھر ایسا

شاعر کہتا ہے کہ گھر کی ڈیوڑھی کہنے کو بس ڈیوڑھی ہے۔ اس ڈیوڑھی کی یہ خاصیت ہے کہ اس کے تمام تر چونچلے ایک چھپر والے ہیں۔ یعنی یہ ڈیوڑھی کسی چھپر سے کم نہیں ہے۔

جنس اعلیٰ کوئی کھٹولا کھاٹ
پائے پٹی رہے ہیں جن کے پھاٹ

یہ اتنی اعلیٰ نسل ہے کہ جیسے کوئی کھٹولا یا جھولا ہوتا ہے۔جبکہ اس کے پائے پٹیاں اور دیگر سب کچھ بھی ہلا ہوا ہے۔

کھٹملوں سے سیاہ ہے سو بھی
چین پڑتا نہیں ہے شب کو بھی

شاعر کہتا ہے کہ میرے گھر اور چارپائی کی حالت ایسی ہے کہ اس میں بہت زیادہ کھٹمل پڑے ہوئے ہیں۔ایک طرح سے یہ کھٹملوں سے بالکل سیاہ ہے۔ یہاں سو بھی جاؤں تو ان کھٹملوں کی وجہ سے نہ دن کا سکون ہے اور نہ رات کا سکون ہے۔

شب بچھونا جو میں بچھاتا ہوں
سر پہ روز سیاہ لاتا ہوں

شاعر کہتا ہے کہ رات کو میں سونے کے لیے جو اپنا بچھونا بچھاتا ہوں تو یہ گھڑی میرے لیے ایسی ہی ہوتی ہے کہ جیسے میں خود اپنے لیے ایک تاریخ رات کا انتخاب کر رہا ہوں۔

کیڑا ایک ایک پھر مکوڑا ہے
کھانے کو شام ہی سے دوڑا ہے

شاعر کہتا ہے کہ یہاں اتنے کیڑے مکوڑے ہیں کہ سر شام ہی یہ مجھے کاٹ کھانے کو دوڑتے ہیں۔

ایک چٹکی میں ایک چھنگلی پر
ایک انگوٹھا دکھاوے انگلی پر

ان کیڑوں نے کوئی جسم کا حصہ نہیں چھوڑا کہ جہاں انھوں نے مجھے نہ کاٹا ہو۔ایک اگر چھنگلی پر چٹکی بھر رہا ہے تو دوسرا اپنا اثر انگلی پر دکھا جاتا ہے۔ ان مکوڑوں نے جینا پوری طرح حرام کر کے رکھا ہے۔

گرچہ بہتوں کو میں مسل مارا
پر مجھے کھٹملوں نے مل مارا

شاعر کہتا ہے کہ اگرچہ ان کیڑوں مکوڑوں میں سے بہت سے مکوڑوں کو میں نے اپنے ہاتھوں سے مسل کر مار کے پھینک دیا ہے مگر کھٹمل تو ابھی بھی باقی ہیں۔اس لیے میں جب مکوڑوں کو مارتا ہوں تو وہ مجھے مارتے ہیں۔

ملتے راتوں کو گھس گئیں پوریں
ناخنوں کی ہیں لال سب کوریں

شاعر کہتا ہے کہ رات رات بھر ان کے کاٹنے کی وجہ سے میں اپنا جسم ملتا رہتا ہوں۔جس کی وجہ سے میری انگلیوں کی پوریں تک گھس چکی ہیں۔دوسری جانب میرے ناخنوں کے سب سرے لال ہوچکے ہیں۔

ہاتھ تکیے پہ گہ بچھونے پر
کبھو چادر کے کونے کونے پر

شاعر رات کی نیند کی بے چینی کو بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ حالت ایسی ہوتی کہ کبھی ہاتھ تکیے پر پٹکے جاتے کہ وہاں کھٹملوں کا راج ہوتا ہے تو کبھی یہی ہاتھ بچھونے پر ہوتے ہیں۔کبھی کبھی تو چادروں کے کونوں پر موجود ہوتے ہیں۔

جھاڑتے جھاڑتے گیا سب بان
ساری کھاٹوں کی چولیں نکلیں ندان

شاعر کہتا ہے کہ ان کھٹملوں سے جان چھڑانے کے لیے ان کو اتنا جھاڑ چکا ہو ں کہ چارپائیوں کا بان تو جھڑ چکا ہے مگر یہ جان نہیں چھوڑتے۔ یہاں تک کہ سب چارپائیوں کی چولیں تک ہل کے رہ گئی ہیں۔

نہ کھٹولا نہ کھاٹ سونے کو
پائے پٹی لگائے کونے کو

شاعر کہتا ہے کہ اب تو کوئی چارپائی تک سونے کو نہیں بچی ہے یہاں تک کہ بچوں کا کوئی کھٹولا ہو وہ بھی نہیں ہے۔ اس کے پائے اور پٹیاں گھر کے ایک کونے میں لگے کھڑے ہیں۔

سوتے تنہا نہ بان میں کھٹمل
آنکھ منھ ناک کان میں کھٹمل

شاعر کہتا ہے کہ ان کھٹملوں کو سکون نہیں ہے کہ یہ کبھی بان میں تنہا سکون سے نہیں رہتے ہیں۔بلکہ یہ میرے اوپر چڑھ دوڑتے ہیں کہ کبھی میری آنکھ میں گھس رہے ہیں تو کبھی منھ ناک اور کان وغیرہ میں۔

اک ہتھیلی پہ ایک گھائی میں
سیکڑوں ایک چارپائی میں

شاعر کہتا ہے کہ ان کھٹملوں کی تعداد بہت زیادہ ہے کہ ایک اگر میری ہتھیلی پر ہے تو سینکڑوں چارپائی میں موجود ہیں۔

ہاتھ کو چین ہو تو کچھ کہیے
کب تلک یوں ٹٹولتے رہیے

شاعر کہتا ہے کہ میں ان کے سامنے بہت بے بس ہوں کہ خود کو کجھانے یا ان کو مارنے میں میرے ہاتھ ہر لمحہ مصروف ہیں۔ہاتھ کو اگر کسی گھڑی سکون ملے تو ہی ان کے سدباب کا کوئی حل نکال سکوں۔

یہ جو بارش ہوئی تو آخرکار
اس میں سی سالہ وہ گری دیوار

شاعر کہتا ہے کہ اب جو بارش ہوئی تو اس نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی ہے اور اس میں وہ خستہ حال کئی سالہ پرانی دیوار بھی آج گر گئی ہے۔

ایسے ہوتے ہیں گھر میں تو بیٹھے
جیسے رستے میں کوئی ہو بیٹھے

شاعر کہتا ہے کہ اس دیوار کے گرنے سے اب جس گھر میں بیٹھا ہوں اس کی حالت ایسی ہوگئی ہے کہ جیسے میں کہیں راستے میں بیٹھا ہوا ہوں۔

دو طرف سے تھا کتوں کا رستہ
کاش جنگل میں جاکے میں بستا

شاعر کہتا ہے کہ گھر کی دیوار بھی ڈھے چکی ہے تو کتوں کو اب گھر میں گھسنے اور دندنانے کا ایک باقاعدہ راستہ مل چکا ہے۔ اس سے بہتر تھا کہ کاش میں جاکر کسی جنگل میں بس جاتا۔

ہو گھڑی دو گھڑی تو دتکاروں
ایک دو کتے ہوں تو میں ماروں

شاعر کہتا ہے کہ ان کتوں کو میں کتنا دھتکار سکتا ہوں ۔اگر ایک گھڑی یا دو گھڑی دھتکارنا بھی ہو تو میں انھیں دھتکار لوں گا۔اگر ایک یا دو کتے ہوتے تو میں ان کو مار بھی سکتا تھا۔

چار جاتے ہیں چار آتے ہیں
چار عف عف سے مغز کھاتے ہیں

مگر یہاں ان کتوں کی تعداد بہت زیادہ ہے کہ دو چار آرہے ہیں تو دو چار جارہے ہیں۔ اور دو چار مسلسل غرا غرا کر میرا دماغ چاٹ رہے ہیں۔

دن کو ہے دھوپ رات کو ہے اوس
خواب راحت ہے یاں سے سو سو کوس

شاعر کہتا ہے کہ گھر کی دیوار تو ڈھ چکی ہے اب دن بھر خوب دھوپ ہوتی ہے اور رات بھر اوس پڑتی ہے۔سکون ،خواب سب کچھ مجھ سے کوسوں دور جا چکا ہے۔

قصہ کوتہ دن اپنے کھوتا ہوں
رات کے وقت گھر میں ہوتا ہوں

شاعر کہتا ہے کہ قصہ مختصر یہ ہے کہ میں اپنے دن خراب کرہا ہوں اور رات بھر بھی گھر میں ہی پڑا ہوا ہوں۔

نہ اثر بام کا نہ کچھ در کا
گھر ہے کاہے کا نام ہے گھر کا

شاعر کہتا ہے کہ گھر کی حالت ایسی ہوچکی ہے کہ اس کے درو دیوار اور چھت وغیرہ کا ہونا نہ ہونا اب برابر ہوچکا ہے۔یہ کیسا گھر ہے۔گھر تو بس اس کا نام ہے مگر اس میں گھر سا کچھ بھی موجود نہیں ہے۔

سوالات:

سوال نمبر01:’اس خرابی میں ہوا پامال ‘ سے شاعر کی کیا مراد ہے؟

اس سے شاعر کی مراد ہے کہ گھر کی اس خستہ حالی کی وجہ سے میں روندا گیا ہوں اور رل کر رہ گیا ہوں۔

سوال نمبر02: میر نے اپنے گھر میں کھٹملوں کا ذکر کس طرح کیا ہے؟

میر نے کھٹملوں کا ذکر یوں کیا ہے کہ یہ بستر چارپائیوں ہر جگہ پر موجود ہیں۔ان کو جھاڑنے کے چکر میں چارپائیوں کا بان تک چھڑ چکا ہے۔رات بھر یہ کھٹمل سونے بھی نہیں دیتے ہیں۔

سوال نمبر03:شاعر نے گھر کو راستہ کیوں کہاہے؟

گھر کی دیوار گر جانے کی وجہ سے گھر کی حالت ایسی ہوگئی تھی کہ جیسے کوئی راستے میں بیٹھا ہوا ہو۔اس لیے شاعر نے اسے راستہ کہا کہ کتوں نے بھی اسے آمدورفت کے کیے برتنا شروع کردیا تھا۔

سوال نمبر04:عف عف سے مغز کھانے کا کیا مطلب ہے؟

عف عف سے مغز کھانے سے مراد ہے کہ کتوں کے مسلسل غرانے کی آواز سے سر میں جو درد ہورہا ہے۔

سوال نمبر05:میر نے یہ کیوں کہاہے’گھر ہے کاہے کا نام ہے گھر کا’؟

شاعر نے یہ بات اس لیے کہی ہے کہ اوپر بیان کی کئی گھر کی تمام حالت کو اگر دیکھا جائے تو اس گھر میں گھر کی سی کوئی خوبی موجود نہیں ہے بلکہ یہ بس نام کا گھر ہے۔

زبان وقواعد:

نیچے لکھے مصرعوں کو مکلمل کیجیے۔

کیا لکھوں میرؔ اپنے گھر کا حال
اس خرابے میں میں ہوا پامال
لونی لگ لگ کے جھڑتی ہے ماٹی
آہ کیا عمر بے مزہ کاٹی
شب بچھونا جو میں بچھاتا ہوں
سر پہ روز سیاہ لاتا ہوں
یہ جو بارش ہوئی تو آخرکار
اس میں سی سالہ وہ گری دیوار
ایسے ہوتے ہیں گھر میں تو بیٹھے
جیسے رستے میں کوئی ہو بیٹھے
قصہ کوتہ دن اپنے کھوتا ہوں
رات کے وقت گھر میں ہوتا ہوں
نہ اثر بام کا نہ کچھ در کا
گھر ہے کاہے کا نام ہے گھر کا

عملی کام:

اس مثنوی کا خلاصہ لکھیے۔

شاعر میر تقی میر نے اس مثنوی میں اپنے گھر کی بدحالی کو منفرد انداز میں نظم کیا ہے۔ یہ گھر کسی چجپڑ سے کم نہیں ہے۔اس کی خستہ حالی کا یہ عالم ہے کہ اس کی دیواریں لونی کی طرح جھڑ جھڑ کر گر رہی ہیں۔ یہاں کھٹملوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ دن رات کا سکون غارت ہے۔میں ان کے سامنے بہت بے بس ہوں کہ خود کو کجھانے یا ان کو مارنے میں میرے ہاتھ ہر لمحہ مصروف ہیں۔

ہاتھ کو اگر کسی گھڑی سکون ملے تو ہی ان کے سدباب کا کوئی حل نکال سکوں۔ انتہائی خستہ حال ہیں اور ٹوٹ چکی ہیں۔گھر کی دیوار بھی بارش کی وجہ سے گر گئی ۔اب گھر کی حالت ایسی ہے کہ جیسے کوئی سڑک پر بیٹھا ہو۔رات بھر یہاں کتے گھس کر غراتے ہیں۔رات بھر سونا مشکل ہے۔اس سے بہتر ہے کہ میں جنگل میں جا بستا۔گھر کی دیوار تو ڈھ چکی ہے اب دن بھر خوب دھوپ ہوتی ہے اور رات بھر اوس پڑتی ہے۔سکون ،خواب سب کچھ مجھ سے کوسوں دور جا چکا ہے۔گھر کی حالت ایسی ہوچکی ہے کہ اس کے درو دیوار اور چھت وغیرہ کا ہونا نہ ہونا اب برابر ہوچکا ہے۔یہ کیسا گھر ہے۔گھر تو بس اس کا نام ہے مگر اس میں گھر سا کچھ بھی موجود نہیں ہے۔