اردو میں متنی تنقید

0

متن کی تعریف

”جس مطبوعہ یا غیر مطبوعہ تحریر کو متنی نقاد مرتب کرنا چاہتا ہے اسے متن کہتے ہیں۔“
متن کے لیے یہ تعریف مکمل طور پردرست نہیں کیونکہ متنی نقاد کسی تحریر کو مرتب کرنے کے لیے منتخب کرے یا نہ کرے، ہر قدیم یا جدید منظوم یا منشور تحریر بہرحال متن ہوگی۔

بابائے اردو مولوی عبدالحق اپنی مرتبہ اسٹینڈرڈ اردو انگلش ڈکشنری میں متن یعنی Text کے معنی بتاتے ہوئے لکھتے ہیں کہ :
” مصنف کے اصل الفاظ، کتاب کی اصل عبارت کو متن کہتے ہیں “

انگریزی کی The concise Oxford dictionary میں بھی متن کی تقریباً یہی تعریف کی گئی ہے۔ اس ڈکشنری میں لفظ متن یعنی Text کا مطلب بیان کرتے ہوئے لکھا گیا ہے:
” کتاب کا اصل مضمون، جس میں حواشی، ضمیمے اور تصویریں وغیرہ شامل نہ ہوں۔“

مندرجہ بالا ان تمام تعریفوں سے متن کی جو تعریف سامنے آتی ہے وہ یہ ہے: ”متن سے مراد وہ دستاویز ہے جو کسی بھی زبان میں لکھی گئی ہو اور جس سے متنی نقاد واقف ہو یا نہ ہو، ہر صورت میں لکھی ہوئی عبارت متن کہلائے گی۔“

متن کے متعلق چند ضروری باتیں

متن کے لیے ضروری ہے کہ وہ تحریر ہو۔ متن نظم بھی ہوسکتا ہے اور نثر بھی ، متن قدیم بھی ہوسکتا ہے اور عہد حاضر کے مصنف کی تصنیف بھی۔

’’ ہزاروں صفحوں پر پھیلی ہوئی ہو یا ایک صفحہ کی مختصر سی تحریر دونوں متن ہوسکتے ہیں۔ جو متنی نقاد قلی قطب شاہ کا کلام مرتب کرنا چاہتا ہے اس کے لیے پورا کلیاتِ قلی قطب شاہ متن ہوگا۔ اس کے برعکس غالب کا ایک خط مرتب کرنے والے کے لیے چند سطروں کا خط بھی متن ہوگا۔

متن ایسی تحریر جو کاغذ پر مطبوعہ و غیر مطبوعہ مختلف دھات کے ٹکڑوں، مٹی یا لکڑی کی بنائی ہوئی لوحوں، پتوں، پتھروں یا چمڑوں اور چٹانوں وغیرہ کسی بھی چیز پر ہو سکتی ہے۔

متنی تنقید کی تعریف

انسائیکلو پیڈیا ’ امریکانا ‘ نے متنی تنقید کی تعریف کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’متن کے اصل الفاظ کے تعین، اسے مکمل کرنے اور واقفیت و اصلیت تلاش کرنے کی غرض سے پرانی تحریروں کے سائینٹفک مطالعے کو متنی تنقید کہتے ہیں۔ ‘‘

متنی تنقید کی تاریخ

متنی تنقید ایک سائنس ہے جس کا بنیادی مقصد متن کی تصحیح ہوتا ہے۔جس کے تحت اس متن کی بازیافت منظور ہوتی ہے جو مصنف نے لکھا تھا۔متنی تنقید کا فن مغرب کا مرہون منت ہے۔اس فن کا باقاعدہ آغاز انیسویں صدی کے آغاز میں ہوا۔یونانی اور لاطینی زبانوں کے متنوں اور بائبل کے تنقیدی اڈیشن کی تیاری کرنے کے لئے اس فن کی ضرورت پڑی تھی۔بہت عرصے تک تنقیدی اڈیشن تو تیار کئے جاتے رہے لیکن متنی تنقید کے فن پر انیسویں صدی کے اواخر ہی میں مضامین اور کتابیں لکھی جانی شروع ہوئیں۔ یہ تحریریں عام طور سے یونانی اور لاطینی زبانوں کے کلاسیکی متون کے تنقیدی اڈیشن تیار کرنے کے سلسلے میں پیدا ہونے والی دشواریوں کے بارے میں تھیں۔بیسویں صدی کے آغاز میں متنی تنقید کے موضوع پر کتابیں لکھی جانے لگیں۔

متنی تنقید باقاعدہ فن کی حیثیت سے انیسویں صدی کے آغاز میں وجود میں آئی جو بعض مغربی ممالک کا مرہون منت ہے جہاں بائبل کے تنقیدی اڈیشن تیار کرنے کے لئے اس فن کا استعمال کیا گیا۔بیسویں صدی کے نصف اول تک اس فن پر انگریزی اور بعض دوسری مغربی زبانوں میں خاصی تعداد میں کتابیں اور مضامین لکھے جا چکے تھے۔فارسی زبان میں غالباً سرسید پہلے متنی نقاد ہیں جنہوں نے سائنٹیفک انداز میں ”آئین اکبری “ ”تاریخ فیروزشاہی“ اور ”توزک جہانگیری“ جیسی اہم فارسی تاریخوں کے تنقیدی اڈیشن تیار کیے۔انہوں نے متعدد نسخوں کی مدد سے آئین اکبری کا تنقیدی اڈیشن کیا تھا۔

متنی تنقید کا اصل مقصد حتیٰ الامکان متن کو اصل روپ میں دوبارہ حاصل کرنا ہوتا ہے۔ اس روپ سے مراد وہ شکل و صورت ہے جو متن کا مصنف اپنی تحریر کو دینا چاہتا تھا۔ یعنی اگر متنی نقاد کو مصنف کے ہاتھ کا لکھا ہوا نسخہ ملا ہے تو اسے متنی نقاد ’من وعن‘ ہی شائع نہیں کرسکتا کیونکہ ممکن ہے مصنف سے کچھ الفاظ چھوٹ گئے ہوں یا کچھ الفاظ دوبارہ لکھ دیے گئے ہوں یا اس قسم کی کوئی اور غلطی ہوئی ہو۔ ایسی صورت میں متنی نقاد کا فرض ہے کہ متن کو ان غلطیوں سے پاک کرے۔ ادب میں جو سرقے جعلسازیاں اور الحاق ہوئے ہیں ان کی بھی نشاندہی کرے۔ متن کے لیے ضروری ہے کہ بامعنی ہو، اگر سینکڑوں برس کے عرصے میں نقل در نقل کی وجہ سے متن مسخ ہوگیا ہے تو اس کے اصل معنی کا تعین کیا جاسکے۔

متنی تنقید کے مدارج

  • ۱۔ تیاری
  • ۲۔ مواد کی فراہمی
  • ۳۔ متن کی تصحیح
  • ۴۔ قیاسی تصحیح
  • ۵۔ اعلیٰ تنقید

1. تیاری

متنی نقاد کا فرض ہے کہ مختلف عہد کی تحریروں پر عبور حاصل کرنے کے لیے ان عہدوں کے نسخے پڑھے تاکہ تحریر کی شناخت کے ساتھ ساتھ اس عہد کے الفاظ وتحریر پر اسے عبور حاصل ہوسکے۔ متنی نقاد کو اس عہد سے قبل کے کچھ نسخے بھی پڑھنے چاہئیں۔ اس انتخاب کے باقاعدہ اصول تو نہیں ہیں لیکن اس عہد میں جو لوگ ادب پر چھائے ہوں ان میں سے نمایاں لوگوں کو منتخب کرلیا جائے۔ جن شعراء کے دیوان ملتے ہوں ان کے دیوان حاصل کرلیے جائیں اور باقی شعراء کا مطالعہ تذکروں کی مدد سے کیا جائے۔ اس عہد کے جتنے نسخوں کا مطالعہ کیا جائے گا اتنا ہی مفید ہے۔ اس عہد کے باقی شاعروں کا ایک انتخاب ہی کافی ہے۔ ایک نسخہ پڑھنے میں باقی نسخوں سے مدد ملتی ہے جب تک ایک ایک لفظ کی سمجھ نہ آجائے ان نسخوں کا مطالعہ جاری رکھنا چاہیے۔

مختلف عہد کی زبان پر عبور

متنی نقاد کو جس تحریر پر کام کرنا ہو اس عہد کی زبان پر مکمل عبور حاصل ہونا چاہیے۔ جب وہ مختلف نسخے پڑھنے کی مشق کرے گا تو یقیناً ایسے الفاظ ملیں گے جن کا وہ مطلب نہیں جانتا تھا یا جو اب متروک ہوگئے ہیں اور ایسے الفاظ بھی ملیں گے جو اُردو میں اب تک مستعمل ہیں لیکن جن کا مفہوم بدل گیا ہے۔ ایسے الفاظ کی بھی کمی نہ ہوگی جن کا تلفظ اس عہد میں کچھ اور تھا اور جدید اُردو عہد میں کچھ اور ہے۔ ان تمام الفاظ کے لیے ہندی ، اُردو اور فارسی ، عربی کی لغتوں کا استعمال ضروری ہے۔

ادبی تاریخ پر عبور

اس عہد کی پوری ادبی تاریخ پر عبور حاصل ہونا چاہیے۔ اس لیے کہ کہیں ایک شاعر یا مصنف کا کلام یا تحریر دوسرے میں شامل نہ ہوجائے۔

نسخہ نقل کرتے ہوئے کاتب جو تحریر کرتا ہے اسے سمجھنے کے لیے اس عہد کی ادبی اور لسانی تحریکوں کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ مثلاً خان آرزو کے شاگرد اور ان کے بعض ہم عصر شعراء ایہام گو تھے اسی لیے ان کے عہد کو’’ دورۂ ایہام گویان‘‘ کہا جاتا ہے ، کچھ تو برج بھاشا کے اثر سے اور کچھ ایہام پیدا کرنے کے لیے انھوں نے ایسے الفاظ استعمال کیے جو اُردو زبان کے مزاج کے مطابق نہ تھے اور جنھیں بعد میں متروک قرار دیا گیا۔

سماجی ، سیاسی اور مذہبی تاریخ کا مطالعہ

اس عہد کی سیاسی ، سماجی اور مذہبی تاریخ کا مطالعہ بھی ضروری ہے، ورنہ متنی نقاد صحیح تنقید کا حق ادا نہیں کرسکتا۔ مثال کے طور پر :
’’ خالق باری“ ایک طویل زمانے تک امیر خسرو سے منسوب رہی ہے۔ امیر خسرو کا انتقال ۷۲۵ ھ میں ہوا جبکہ محمود شیرانی کی تحقیق ہے کہ خالق باری ۱۰۳۱ھ میں عہد جہانگیری میں لکھی گئی اور اس کے اصل مصنف ضیاء الدین خسرو ہیں ، شیرانی مرحوم نے اپنے دعوے کے ثبوت میں بہت سی شہادتیں پیش کی ہیں ان میں خالق باری کا ایک شعر بھی ہے۔
؂
دانگ فلوس جو آہے پیکا جتیل دمڑا جان
دام واخچہ کیسہ کھیسہ جان میکش تان

یہاں دام اور دمڑا جان کا رواج اکبری عہد میں ہوتا ہے۔ یہ بات قابل غور ہے کہ اکبر کے ہاں مالیہ کی وصولی چاندی کے روپے کی بجائے تانبے کے جدید الرائج سکے ’’ دام ‘‘ کے ذریعے ہوتی تھی۔ آدھے کو نصفی ادھیلہ یا نیم دام۔ چوتھائی کو دمڑا یا پاؤلہ اور آٹھویں حصے کو دمڑی کہتے ہیں۔

اسی طرح ایک اور مثال دیکھیں (مظہر العجائب کا مصنف ) کوئی بہروپیا ہے جس نے خاص مقاصد کو مد نظر رکھ کر شیخ عطار کا سوانگ بھر لیا ہے۔ وہ شیخ نوری کو عطار کو ہم عصر خیال کر کے ایک حکایت تراشتا ہے۔ حالانکہ شیخ نوری جنید کے ہم عصر ہیں اور سنہ ۲۹۴ ہجری یا ۲۹۵ ہجری میں وفات پاتے ہیں۔ یہ شخص اس اقرار سے کہ’ سنّی ہے شروع کرتا ہے لیکن ایسے جذبات اور معتقدات کا اظہار کرتا ہے جو شیعہ جماعت سے بالخصوص ہیں۔

محمود شیرانی لکھتے ہیں :
’’ الغرض شاہ اسماعیل صفوی سنہ ۹۰۷ھ سنہ ۹۳۰ ہجری کا عہد اس تصنیف کے لیے موزوں معلوم ہوتا ہے جبکہ مذہبی لحاظ سے ایران نئی کروٹ لے رہا تھا۔ جدیدسیاسی انقلاب نے مذہبی اثنا عشری کو صدر میں جگہ دے دی تھی۔سُنی بزورِ شمشیر شیعی بنایا جارہا تھا ، ان کے علماء قتل کیے جارہے تھے۔ کوئی تعجب نہیں اگر مردہ سنی مشاہیر کو بزور قلم ذاتی یا مذہبی اغرض کی بناء پر اسی مذہب کے دائر میں لانے کی کوشش کی گئی ہو چنانچہ مظہر العجائب اور للسان الغیب اسی قسموں کی کوشش کا نتیجہ ہیں۔ ‘‘

متن کے مصنف کے حالاتِ زندگی کا مطالعہ

متنی نقاد کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اصل کام شروع کرنے سے پہلے متن کے مصنف کے حالاتِ زندگی پر پورا پورا عبور حاصل کرے۔ اس سلسلے میں اس عہد کی کتابوں ، مصنف کے معاصرین کے بیانوں کا مطالعہ ضروری ہے۔ یہ مطالعہ کئی مقامات پر متنی نقاد کو گمراہ ہونے سے بچائے گا۔ مالک رام نے دیوانِ غالب میں ایک نئی غزل شامل کی ہے جس کا مقطع یہ ہے۔

؂ پیرانہ سال غالب مے کش کرے گا کیا
بھوپال میں مزید جو دو دن قیام ہو

اس غزل کے بارے میں ڈاکٹر گیان چند لکھتے ہیں :
’’ بھوپال میں غالب کی آمد کا کوئی ثبوت نہیں ۔ ‘‘

2. مواد کی فراہمی

متن کے جتنے نسخے دنیا میں موجود ہیں اور جن کا متنی نقاد کو علم ہے وہ نسخے، ان کی مائیکر فلم یا فوٹو سٹیٹ کاپی حاصل کرنا ضروری ہے۔ جب تک تمام ممکن نسخے فراہم نہ ہوجائیں متنی نقاد کو کام شروع کرنے کاحق نہیں کیونکہ ممکن ہے کہ :
’’ متنی نقاد نے بغیر مطالعہ کیے جو نسخہ صرف اس لیے نظر انداز کیا ہے کہ اس کا حاصل کرنا مشکل ہے وہ سب سے بہتر ہو یا کم از کم وہ متن کی کئی قرأتوں میں تصحیح میں ہماری مدد کرسکتا ہو۔ ‘‘ جن لائبریریوں کا کیٹلاگ چھپا ہوا ہے ان کے صرف کیٹلاگ کا مطالعہ کافی ہے۔

ذاتی کتب خانوں کا مطالعہ

پہلے زمانے میں بیشتر ریاستوں کے راجہ اور نواب اپنا ذاتی کتب خانے رکھتے تھے۔ ریاستی نظام ہونے کے بعد بعض نوابوں اور راجاؤں نے اپنی لائبریری کو پبلک لائبریری بنا دیا۔ جیسے رضا لائبریری رام پور ،آصفیہ لائبریری حیدر آباد نے اپنا ذخیرہ بڑی لائبریریوں کو دے دیا۔ اس بات کا پورا امکان ہے کہ ان کتب خانوں میں ایسے بیش بہا نسخے موجود ہوں جو ہماری ادبی تاریخ کو بدل دیں۔

اکثر مصنفوں کا بھی ذاتی کتب خانہ ہوتا ہے۔ اُردو کے بعض مشہور مصنفین کے کتب خانے آج بھی ہندوستان کی مختلف لائبریریوں میں موجود ہیں۔ مصنف کے رشتہ دار ، دوست، شاگرد، ان سب کی اولاد سے متنی نقاد کا ملنا بہت ضروری ہے۔ عام طور پر ان لوگوں کے پاس مصنف سے متعلق اہم دستاویز ہوتی ہیں اور ان معلومات سے مصنف کی زندگی اور ادب پر روشنی پڑتی ہے۔ بعض اوقات اہم معلومات کا ذریعہ ایسی ہی دستاویزات ہوتی ہیں۔

3. متن کی تصحیح

اگر دو نسخوں میں ایک ہی مقام پر دو مختلف قراتیں ہوں تو کس کو ترجیح دی جائے ؟ متنی نقاد کو ہر قرات کے بارے میں مثبت یا منفی رائے دیتے ہوئے بہت سوجھ بوجھ سے کام لینا چاہیے۔ دونوں صورتوں میں اس پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے :

۱۔ اگر ایک نسخے میں قرأت میں ایسا لفظ استعمال ہوا ہے جو مصنف کے عہد میں رائج نہیں تھا یا کم رائج تھا یا اس کا تلفظ مختلف تھا اور دوسرے نسخے کی قرأت اس عہد سے زیادہ قریب ہے تو دوسری قرأت کو ترجیح دی جائے گی۔

۲۔ ایک بامعنی قرأت کو بے معنی قرأت پر ترجیح دی جائے گی۔

۳۔ اگر کسی قرأت میں ایک یا ایک سے زیادہ الفاظ زائد ہیں تودوسری قرأت قابل ترجیح ہوگی۔

۴۔ اگر کسی قرأت میں ایک یا ایک سے زیادہ الفاظ حذف ہیں تو دوسری قرأت کو ترجیح دی جائے گی۔

۵۔ اگر ایک قرأت بامعنی ہے لیکن سیاق وسباق کے مطابق نہیں ہے تو دوسری کو ترجیح دی جائے گی۔

۶۔ اگر کوئی قرأت کاتب کی غلطی سے مکرر ہوگئی ہو تو دوسری قرأت کو ترجیح دی جائے گی۔

’’ یہ ناممکن ہے کہ دو نسخوں میں ایک مقام پر ایسی دو قرأتیں آجائیں جن میں ایک کو دوسرے پر ترجیح دینا مشکل ہو۔ مثلاً دیوانِ تاباں میں شعر ہے۔

؂ کس پر پرونے چرایا دل مرا معلوم نہیں
ڈھونڈتا ہوں کیا ہوا دل ہائے دل افسوس دل

دونوں قرأتیں ایسی ہیں کہ دونوں کو ایک دوسرے پر ترجیح دینا مشکل ہے ایسے موقع پر بنیادی نسخہ کی قرأت ہی کو ترجیح دی جائے گی۔ ‘‘
کبھی کوئی لفظ غلط پڑھنے سے نہ صرف متن غلط ہوجاتا ہے بلکہ ادبی تاریخ پر بھی اس کا اثر پڑتا ہے۔

4. قیاسی تصحیح

متنی نقاد کا اصل مقصد اس متن کی بازیافت ہے جو مصنف لکھنا چاہتا تھا۔ مصنف کا جو دستخطی نسخہ ملتا ہے، یہ عام طور پر پہلا مسودہ نہیں ہوتا۔ مصنف اپنا اصل مسودہ جو غیر مرتب ، خام حالت میں ہوتا ہے اور جس میں ترمیم ، کاٹ چھانٹ اور حذف و اضافے ہوتے ہیں ضائع کردیتا ہے۔ گویا متنی نقاد کو مصنف کا جو دستخطی نسخہ ملتا ہے وہ بھی نقل در نقل ہوتا ہے۔ اس لیے خود مصنف سے ان بیشتر غلطیوں کا احتمال ہوتا ہے جو کاتب سے سرزد ہوتیں۔

فرض کیجیے دیوانِ غالب کا صرف ایک ایسا نسخہ ملتا ہے جس کا غالب سے تعلق رہا ہے اور وہ نسخۂ لاہور ہے۔ ایسی صورت میں جو متن تیار ہوگا اس میں وہ تمام غلطیاں رہ جائیں گی جو نسخۂ لاہور میں ہے۔ اب ہمارے سامنے دو راستے ہیں، ایک تو یہ کہ جو متن تیار ہوا ہے اس کو آخری سمجھ کر بعض بے معنی شعروں میں مطلب ڈالنے کی کوشش کریں۔ جن مصرعوں میں الفاظ کا اضافہ یا حذف ہوا ہے ان کے آگے سوالیہ نشان لگا کر حاشیہ دے دیا جاتا ہے کہ مصنف نے یوں لکھا ہے :

دوسرا راستہ یہ ہے کہ ہم وہ متن حاصل کرنے کی کوشش کریں جو مصنف کے ذہن میں تھا اور جو وہ لکھنا چاہتا تھا۔ ہمیں یہ ہر گز نہیں بھولنا چاہیے کہ ہم جن لوگوں کے لیے یہ متن تیار کر رہے ہیں ان میں سے صرف ایک فی صدی لوگ ہمارے حاشیوں میں دلچسپی رکھتے ہیں اور باقی صرف اس مصنف کا مطالعہ کرنا چاہتے ہیں۔ اگر متن میں جگہ جگہ نقطے ہوں۔ یا کذا لکھا ہوگا یا سوالیہ نشان بنا ہوگا تو بوجھ سا بن جائے گا اور دوسرا وہ مطالعہ سے لطف اندوزنہیں ہوسکے گا۔ دوسرا طریقہ مشکل ہے لیکن وہ مفید ہے۔ اس سے متن اور قرأت دونوں با معنی ہوجاتے ہیں اور مطالعہ کی دلچسپی برقرار رہتی ہے۔

قیاسی تصحیح کے مدارج

قیاسی تصحیح کے پانچ مدارج ہیں :

۱۔ تمام دستیاب نسخوں کی مدد سے جو نسخہ تیار ہوا ہے، متنی نقاد اس کے ایک ایک لفظ اور ایک ایک فقرے اور مصرعے پر شک کرے گا کہ یہ مصنف کا ہوسکتا ہے یا نہیں؟
۲۔ اس شک کے دو نتائج ہوں گے۔ یا تو وہ ایک قرأت کو قبول کرے گا۔
۳۔ یا پھر رد کردے گا۔ یعنی وہ یہ فیصلہ کرے گا کہ یہ قرأت اصل مصنف کی ہوسکتی ہے یا نہیں۔
۴۔ اگر نقاد فیصلہ کرتا ہے کہ یہ قرأت مصنف کی نہیں تو تصحیح کے دوران اس نے جتنے متن استعمال کیے تھے انھیں پھر دیکھے گا اور زیر بحث قرأت کی جتنی بدلی ہوئی شکلیں ملیں گی ایک ایک کر کے ان سب پر غور کرے گا۔

’’ فرض کیجیے تصحیح شدہ متن میں ایک قرأت ’’ طور ‘‘ ہے۔ جو بے معنی اور سیاق وسباق کے لحاظ سے غلط معلوم ہوتی ہے تو متنی نقاد ان تمام متنوں کو دیکھے گا جو اس نے تصحیح کے دوران استعمال کیے۔ ان میں دو قرأتیں اور ملتی ہیں ’’ نور‘‘ اور ’’ حور‘‘ اب گویا نقاد کو تین قرأتوں ، طور ، نور ، حور میں سے ایک ایسی قرأت انتخاب کرنی ہے جو تمام شرائط پر پورا اترتی ہو۔ فرض کیجیے نور قرأت ایسی ہے جو ہر لحاظ سے قابل ترجیح ہے تو نقاد یہ قرأت انتخاب کرے گا اور متن میں طور کی جگہ نور لکھ دے گا۔ حاشیہ میں اس انتخاب کی وجوہ بیان کرے گا۔‘‘
دیوانِ یقین کے ایک نسخے میں یہ شعر ہے۔

؂ اگر رستم ہو عاشق ، دم نہ مارے یا ر کے آگے
کہ اس کا جی نکل جاوے گا اس کی ایک تھنکن میں

فرض کرلیتے ہیں کہ یہ شعر ہمارے تصحیح شدہ متن میں ہے۔ اب اس کے قافیہ کے بارے میں مرزا فرحت اللہ بیگ کا بیان دیکھتے ہیں:
’’ دامن گلشن ، قافیہ ہے۔ اب ملاحظہ ہو کہ اس شعر کا قافیہ قلمی نسخوں میں اس طرح ہے۔ لنکن ، سنکن، لٹکن ، تھنکن ، ٹھن کن ، ٹھونکن ، پھیکن ، مجھے تو لنکن کا قافیہ سب سے بہتر معلوم ہوا کیونکہ زمانوں میں پہلوانوں کی اصطلاح میں لنکن مد مقابل کے جانگیہ میں ہاتھ ڈال کر پلٹ دیے کو کہتے ہیں۔ اب اس کو قلا جنگ کہتے ہیں ، پھنکین بھی آ سکتا ہے کیونکہ تلوار پھینکنے ، کوپھینکن کہتے ہیں ۔بقیہ الفاظ کے اگر کچھ معنی ہوں تو ہوں میں نے بہت سی لغت کی کتابیں دیکھ لیں مجھے تو کہیں نہیں ملے ۔ ‘‘

عام طور پر تنقیدی ایڈیشنوں کی مشکوک قرأت کا مسئلہ انتخاب کے ذریعے حل کیا جاتا ہے لیکن اصل مشکل اس وقت ہوتی ہے جب ہم ایک ایسا متن مرتب کر رہے ہوں جس کا دنیا میں صرف ایک ہی نسخہ ملتا ہے۔ ایسے نسخے میں قیاسی تصحیح کی تعداد اچھی خاصی ہوجاتی ہے لیکن خیال رکھنا چاہیے کہ تنقیدی ایڈیشن میں کوئی قرأت ایسی نہ آنے پائے جو مصنف کے اصل مفہوم کو دل بدے یا جو عبارت کو بے معنی کردے۔

5. اعلیٰ تنقید

  • اعلیٰ تنقید کے تحت مندرجہ ذیل موضوعات آتے ہیں :
  • ۱۔ متن مستند یا غیر مستند۔
  • ۲۔ متن کے سنہ تصنیف کا تعین۔
  • ۳۔ ان مآخذ کی نشاندہی جو مصنف نے استعمال کیے ہیں۔
  • ۴۔ متن کا مقدمہ۔

سرقہ :

اُردو میں اکثر ایسا ہوا ہے کہ ایک شاعر نے دوسرے پر مفہوم کے سرقے کا الزام لگایا۔ سرقہ دو طرح کا ہوتا ہے فارسی اشعار کا اردو ترجمہ اور اُردو کا مفہوم۔ یقین کا یہ شعر لفظاً لفظاً انھیں رائے انندرام کا ہے۔

؂کیا بدن ہوگا جس کے کھولتے جامہ کے بند
برگِ گل کی طرح ہر ناخن معطر ہوگیا

؂ ناخن تمام گشت معطر چوبرگ گل
بند قبائے کیست کر وامی کسینم ما

ڈاکٹر اسلم پرویز نے انشاء کی ایک باندی کا ذکرکیا ہے ،جو شاعرہ تھی۔ اس کے بارے میں لکھتے ہیں :
’’ یاسمین کی ایک زمین پر غالب نے بھی طبع آزمائی کی ہے بلکہ اس غزل کے بعض موضوعات کو محض ذرا سی تبدیلی کے ساتھ غالب نے اپنے ہاں نظم کرلیا ہے۔ مثلاً یہ دو شعر

یاد آیا مجھے گھر دیکھ کے دشت
دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا (یاسمین)

؂کوئی ویرانی سی ویرانی ہے
دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا (غالب)

مصنفین کے ناموں کی مماثلت

اگر ایک ہی نام کے دو مصنف ہوں تو اس کا امکان رہتا ہے کہ ایک مصنف کی کتاب دوسرے مصنف سے منسوب کردی جائے۔ عام طور پر اس مصنف سے زیادہ منسوب کیا جاتا ہے جو نسبتاً زیادہ مشہور ہو۔ فارسی اور اُردو میں ایسے قدیم دواوین کی کمی نہیں جن میں شاعر کا پورا نام نہیں ملتا اور صرف تخلص زیادہ غلط فہمی کا باعث بن جاتا ہے۔ غالب نے ’’اسد‘‘ تخلص ترک ہی اس لیے کیا تھا کہ اس کے ایک ہم عصر شاعر اسدؔ کی غزل ان سے منسوب کردی گئی تھی۔ ایسی ہی مثال حفظ اللسان (خالقِ باری) کی ہے۔
’’ یہ تصنیف ایک طویل عرصے تک امیر خسرو سے منسوب رہی۔ اس کے اصل مصنف عہد جہانگیر کے ایک شاعر ضیاء الدین خسرو ہیں اور یہ ۱۰۳۱ ھ میں تصنیف ہوئی تھی جبکہ امیر خسرو کا انتقال ۷۲۵ ھ میں ہوا تھا۔‘‘ ( ۱۲)

مذہبی اختلاف

مذہبی اختلاف کی وجہ سے بعض مشہور لوگوں کے نام کچھ کتابیں تصنیف کی گئی ہیں۔ اس کی سب سے اچھی مثال فرید الدین عطار سے منسوب مظہر العجائب ہے۔ اس کتاب کا اصل مصنف کوئی اور تھا جس کا مقصد عطار کو شیعہ ثابت کرنا اور شیعہ مذہب کو تقویت پہنچانا تھا۔

عوامی عقیدت

بعض بزرگوں سے اور خاص طور سے مذہبی رہنماؤں سے عوام کواتنی عقیدت ہوتی ہے کہ بعض اوقات وہ کم معروف یا غیر معروف مصنفین کی تصنیفات ان سے منسوب کردیتے ہیں۔ کبھی کبھی انتخاب کا یہ سلسلہ صدیوں تک چلتا ہے۔

مصنف کی شہرت کا ناجائز فائدہ

بعض لوگ خود کچھ نثر یا نظم تصنیف کر کے مشہور مصنفین کے نام سے شائع کر دیتے ہیں۔ ایسا کرنے سے ان کا مقصد بحیثیت محقق شہرت حاصل کرنا ہے۔ اس عہد میں ایسی ہی ایک تصنیف ’ ’ نادر خطوطِ غالب ‘‘ ہے جس کے مرتب اور ایک خط کے علاوعہ باقی تمام خطوط کے مصنف سید محمد اسماعیل رسا ہمدانی ہیں۔ کرامت ہمدانی کے نام جو خط ہیں ان کے متعلق رسا ہمدانی نے لکھا ہے :
’’ میرے دادا سید شاہ علی حسین ہمدانی المتخلص بہ عالی ہمدانی نے ۱۹۱۲ء میں غالب کے چند غیر مطبوعہ خطوط جوان کے والد سید شاہ کرامت حسین کرامت ہمدانی بہاری کے نام سے آئے تھے۔ ایک خوش خط کاتب سے صاف کروا کے کتابی صورت میں ایک جگہ جمع کیے تھے اور ان کا تاریخی نام ’’ نادر خطوطِ غالب‘‘ رکھا تھا۔ افسوس یہ ہے کہ چند مجبوریوں کی وجہ سے وہ خطوط کتابی صورت میں اب تک شائع نہ ہوسکے۔ ‘‘

حقیقت یہ ہے کہ ان ستائیس خطوں میں سے چھبیس جعلی ہیں۔ صرف صوفی منیر کے نام ایک خط اصلی ہے۔ رسا صاحب نے غالب کے اصل خطوط سامنے رکھ کر بہت سے خطوط سے مختلف عبارتیں نکال کر انھیں مرتب کیا ہے۔

بعض اوقات مصنف اپنا نام چھپا لیتا ہے

ایسا عام طور پر ادبی معرکوں میں ہوتا ہے اور اس کا مقصد دوسرے کی تضحیک یا بعض اوقات غیر مصدقہ تشہیر ہوتی ہے۔

جعلی نسخے

بعض لوگوں کے لیے نایاب کتابیں جمع کرنا ایک دلچسپ مشغلہ ہوتا ہے۔ اس لیے قلمی یا نایاب کتابوں کی مانگ ہمیشہ زیادہ رہی ہے۔ لوگوں کے اسی شوق سے فائدہ اٹھا کر پرانی کتابوں کے کاروبار کرنے والوں نے طرح طرح کی جعلسازیاں کی ہیں۔

متن کے سنہ تصنیف کا تعین

بہت کم متن ایسے ہوتے جن میں اس عہد کے اہم تاریخی اور ادبی واقعات کا ذکر نہ آئے۔ اگر نقاد ان تاریخی اور ادبی واقعات کے سنین معلوم کرے تو زمانہ تصنیف کا اندازہ ہوجاتا ہے۔ اکثر کتابوں کے آخر میں قطعہ تاریخ دیا جاتا ہے جس میں سے سنِ تصنیف نکلتا ہے۔

مآخذ

اگر مصنف نے کچھ کتابوں سے استفادہ کیا ہے تو متنی نقا د کو ان کی نشاندہی کرنی چاہیے۔ بعض اوقات مصنف خود بتاتا ہے کہ اس نے اپنی تصنیف میں کس کس سے استفادہ کیا ہے۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ مصنف نے جن کتابوں سے استفادہ کیا ہوتا ہے ان کا ذکر نہیں کرتا۔ متنی نقاد کو ان کتابوں تک پہنچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

مقدمہ

متن کے تنقیدی ایڈیشن کے تیار ہونے کے بعد اس کا مقدمہ لکھنا چاہیے جس میں مندرجہ ذیل پہلوؤں پر روشنی ڈالی جائے۔
۱۔ متن کا موضوع ، اس موضوع اور اس موضوع پر لکھی جانے والی کتابوں کا اجمالی جائزہ۔
۲۔ اگر متن سے مصنف یا کسی مشہور شخصیت کے سوانح پر روشنی پڑتی ہو تو اس کا ذکر۔
۳۔ تنقیدی ایڈیشن تیار کرنے میں جتنے متن استعمال ہوئے ان کا اجمالی ذکر۔
۴۔ ان متنوں کی املا کی خصوصیات۔
۵۔ وہ الفاظ جن کا مفہوم بدل گیا۔
۶۔ جن کا تلفظ بدل گیا ہو۔
۷۔ جن کا املا بدل گیا ہو۔

معاون کتابیات:

  • ۱۔ اسلم پرویز ، انشاء اللہ خاں انشاء ، دہلی ۱۹۶۱ء
  • ۲۔ خلیق انجم (ڈاکٹر) متنی تنقید ، سنگت پبلشرز ، لاہور، ۲۰۰۹ء
  • ۳۔ شیرانی محمود، تنقید شعر العجم ، دہلی ۱۹۴۳ء
  • ۴۔ شیرانی محمود ، مرتب خالقِ باری ، دہلی ۱۹۴۴ء
  • ۵۔ شیرانی محمود، مرتب حفظ اللسان ، دہلی ، ۱۹۴۴ء
  • ۶۔ گیان چند ، غالب اور پھوبال ، اردوئے معلی ، ۱۹۶۰ء
  • ۷۔ مرزا فرحت اللہ بیگ، مرتب دیوانِ یقین ، علی گڑھ ، ۱۹۳۰ء