مہنگائی اور اس سے بچنے کے طریقے

0

آج ہر شخص مہنگائی سے پریشان ہے۔ ملک کے بدلتے حالات پر چاروں طرف تبصرے سنائی دیتے ہیں۔ حکمرانوں کے لتے لیے جاتے ہیں۔ مگر ہم میں سے بہت ہی کم لوگ ہیں جو خود اپنے گریبان میں جھانکنے کی زحمت کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں ارشاد فرماتا ہے؛ ”بندے پر کوئی مصیبت نہیں آتی مگر وہ اس کے اپنے ہی اعمال کا نتیجہ ہوتی ہے۔“

اب اپنی بداعمالیوں کی کیا فہرست گنوائی جائے کہ سارا وقت ہی اس میں صرف ہوجائے گا۔ سو ہم سیدھا سیدھا اس مسئلے کے حل کی طرف آتے ہیں۔

آج ہر کوئی مہنگائی پر قابو پانے کے لئے نئی نئی ٹپس بتاتا ہے یقیناً وہ بھی کارآمد ہیں مگر جب تک بیماری کی جڑ کو نہ پکڑا جائے علاج ممکن نہیں۔ بس وقتی افاقہ اور پھر وہی حال۔۔۔ بلکہ حال سے بے حال…!!

  • ہمیں یہ جاننا ہوگا کہ
  • 🔅معیشت کیوں کمزور ہوتی ہے❓
  • 🔅فقر و فاقہ اور تنگ دستی کے اسباب کیا ہیں‼️
  • 🔅رزق میں برکت کیسے ہوگی❓
  • 🔅اور اپنی آ مدن کو کیسے بڑھائیں❓

⭕ایسے میں حکومت کے جو فرائض بنتے ہیں وہ یقیناً اسے پورےکرنے چاہئیں۔ لیکن بحیثیت قوم اور امتِ مسلمہ ہم ان حالات سے نمٹنے کے لیے کیا کر سکتے ہیں! یہ جاننا انتہائی ضروری ہے۔

سب سے پہلے ہم یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ مہنگائی اور فقر و فاقہ جو ہم پر مسلط کر دیا گیا ہے اس کے اسباب کیا ہیں؟
کیا ہم خود ہی تو ان حالات کے ذمے دار نہیں؟ بحیثیت مسلمان ہم اپنے فرائض منصبی کو کس حد تک صحیح انجام دے رہے ہیں۔؟ ہماری عبادات، معاشرت، دوسروں کے حقوق، اخلاقیات، کاروبار اور گھریلو زندگی قرآن و سنت کی روشنی میں صحیح سمت میں چل رہی ہے یا ہم سرتاپا نافرمانیوں اور گناہوں میں ڈوبے ہوئے ہیں۔؟

1️⃣حدیث میں ہے بندہ بوجہ گناہ کے اللہ کی روزی سے محروم ہو جاتا ہے۔
 [سنن ابن ماجه]

گناہوں کی کثرت سے رزق تنگ کر دیا جاتا ہے، یا تو وہ مفلس و بدحال ہوجاتا ہے یا پھر بظاہر تجوریاں بھری ہوں مگر حقیقتاً رزق کی برکت اٹھا لی جاتی ہے۔ دولت کے انبار سامنے لگے ہوں تو بھی دل سیر نہیں ہوتا۔

”ھل من مزید“ کی صدائیں لگاتا رہتا ہے۔ ہر وقت ننانوے کے پھیر میں پڑا بے چین و بے قرار رہتا ہے۔

سب سے پہلے ہمیں اپنے گناہوں سے سچی توبہ کرنے کی ضرورت ہے۔ رو دھو کے اپنے رب کو منانا چاہیے. اپنی غلطیوں، کمیوں، کوتاہیوں کی صدقِ دل سے معافی مانگنی چاہیے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جب کوئی سخت امر پیش آتا تھا تو فوراً نماز کی طرف متوجہ ہوتے تھے۔ ہمیں بھی اس وقت رجوع الی اللہ کی سخت ضرورت ہے، سجدوں میں پڑ کے اپنے روٹھے رب کو منانے کی ضرورت ہے۔

آج ہماری اکثریت نماز سے بے بہرہ ہے۔ پھر رزق کی تنگی کیوں نہ ہو۔ حدیث شریف میں ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والوں پر تنگی ہوتی تو آپ ان کو نماز کا حکم فرماتے اور یہ آیت تلاوت فرماتے۔

*”وَأْمُرْ أَھْلَکَ بِالصَّلَاةِ وَاصْطَبِرْ عَلَیْھَا لَا نَسْأَلُکَ رِزْقًا نَحْنُ نَرْزُقُکَ وَالْعَاقِبَةُ لِلتَّقْوَی“*

_”اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم کیجیے اور خود بھی اس کا اہتمام کرتے رہیے۔ ہم آپ سے روزی نہیں چاہتے۔ روزی تو ہم دیں گے اور بہترین انجام پر ہیزگاری ہی کا ہے“۔_

یعنی اللہ تعالیٰ ہم سے چاہتا ہے کہ ہم گناہوں کو چھوڑ کر تقویٰ و پرہیزگاری کی روش اختیار کریں۔اسی میں ہماری کامیابی ہے۔ یہ نہیں کہ فجر کے وقت پڑے سوتے رہیں اور دن کی نمازیں کام کاج میں ضائع کر دیں۔ جب فلاح و کامیابی حاصل کرنے کے لیے موذن پکارے تو ہمارے دنیا کے کام ہی اجازت نہیں دیتے اور اللہ تعالیٰ کی ناراضی و غضب کے مستحق بنتے ہیں❗

اسی طرح دوسری آیت میں ہے:
*”وَمَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِکْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِیشَةً ضَنْکًا“*
_”جو ہمارے ذکر سے منہ موڑے گا تو ہم اس کی معیشت تنگ کر دیں گے (یعنی اس کو بڑی تنگ دستی میں مبتلا کر دیں گے)”_

اس سے پتہ چلا کہ *جو لوگ ذکر کریں گے یعنی ہر طرح سے عبادات و احکام کو بجا لائیں گے، ان سے رزق کی تنگی دور ہوجائے گی۔ (بندہ اگر غریب بھی ہوگا تو اس کا دل غنا سے بھرا ہوگا۔ کیوں کہ غنا کا مطلب فقط مال داری نہیں)*

ان حالات میں ہمیں اپنے آپ سے یہ عہد کرنا ہوگا کہ
*فرض نمازوں کی جی جان سے پابندی کریں گے. اور اپنے متعلقین یعنی بچوں، گھر والوں، دوست، رشتے دار اور آس پاس کے لوگوں کو بھی حتی المقدور متوجہ کریں گے۔*

2️⃣ معیشت ڈوبنے کی دوسری وجہ

قرآن پاک میں ناشکری بتائی گئی۔ ایک بستی تھی جس پر اللہ تعالیٰ کی ہر طرح کی نعمتیں برستی تھیں وہ بڑی خوش حال قوم تھی لیکن ان نعمتوں پر شکر گزار ہونے کی بجائے انھوں نے ناشکری کرنا شروع کر دی اور طرح طرح کی شکایتیں کرنے لگے تو اللہ تعالیٰ نے انھیں تمام نعمتوں سے محروم کر کے فقر و فاقہ اور تنگ دستی میں مبتلا کر دیا۔

ایک جگہ ارشاد فرمایا
*وَاِذْ تَاَذَّنَ رَبُّكُمْ لَئِنْ شَكَـرْتُـمْ لَاَزِيْدَنَّكُمْ ۖ وَلَئِنْ كَفَرْتُـمْ اِنَّ عَذَابِىْ لَشَدِيْدٌ* 
(7) سورہ ابراہیم ۔

📜 _”اور جب تمہارے رب نے سنا دیا تھا کہ البتہ اگر تم شکر گزاری کرو گے تو اور زیادہ دوں گا اور اگر ناشکری کرو گے تو میرا عذاب بھی سخت ہے۔“_

یہاں بھی ہمیں اپنا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ
*رب کی نعمتوں کا کتنا استحضار ہے! ہماری زبانیں اور دل کس قدر ناشکری سے بھرے ہوئے ہیں۔ سب کچھ حاصل ہوتے ہوئے بھی تنگ دستی کا رونا روتے ہیں۔*
*یہاں ہمیں اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا بھرپور شکر ادا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ نعمتوں کے زوال سے محفوظ رہیں!*

3️⃣تیسری چیز صبر و قناعت سے کام لینا.

اللہ تعالیٰ کی تقسیم پر راضی رہنا جو کچھ اس نے دیا اور جس حال میں بھی رکھا ہمیشہ اس سے راضی رہنا، دل میں شکوے شکایتوں کو نہ پنپنے دینا۔ ہر وقت اس کی شکر گزاری کے احساس سے دل معمور رکھنا۔*

_جو کچھ تمہارے ہاتھ میں ہے اگر اسے کافی سمجھو تو سب سے زیادہ امیر ہو جاؤ گے۔_

*رزق میں برکت لانے والی ایک چیز آپس میں سلام کرنا، صلہ رحمی کرنا اورانفاق فی سبیل اللہ کرنا ہے۔ یعنی اللہ کی راہ میں خرچ کرنا، محتاجوں اور غریبوں کی مدد کرنا۔*
_رشتہ داروں کے حقوق ادا کرنا، ان پر خرچ کرنا، حالات کی تنگی میں غریب رشتہ داروں کی مدد کرنا۔ یہ سب اعمال اللہ کی رحمت کو متوجہ کرنے والے، رزق اور عمر کو بڑھانے والے ہیں۔_

*اور اب جب کہ ان حالات میں مزدوری پیشہ اور معمولی تنخواہ دار ملازم انتہائی کونسپریسی کا شکار ہیں تو ان پر کھلے دل سے خرچ کرنا چاہیے۔*

_حدیث میں آتا ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:_
*”ہر دن جس میں بندے صبح خرچ کرتے ہیں، دو فرشتے نازل ہوتے ہیں، ان میں سے ایک فرشتہ [دعا دیتے ہوئے] کہتا ہے اے اللہ ! خرچ کرنے والے کو اس کا [بہترین] بدلہ عطا فرما اور دوسرا فرشتہ [بد دعا دیتے ہوئے کہتا ہے] اے اللہ ! روک کر رکھنے والے [کے مال] کو ضائع کردے۔”* { صحیح بخاری وصحیح مسلم } ۔
_یعنی خرچ کرنے والے کو مزید عطا فرما اور روک کر رکھنے والے کا مال برباد کر دے۔

اور مال خرچ کرنے سے مراد شرعاً پسندیدہ جگہوں پر خرچ کرنا! یہ نہیں کہ اسراف کرنے لگیں اور ناحق مال کو لٹائیں۔* _فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی اور اللہ تعالیٰ کو سخت ناپسند ہیں!!_

*اور پھر ان حالات سے پریشان ہو کر اللہ تعالیٰ سے بدظن نہیں ہونا چاہیے بلکہ بھرپور حسن ظن رکھنا چاہیے۔ جب سے دنیا بنی ہے وہ اپنی مخلوق کو پال رہا ہے، کھلا رہا ہے اس کی ضرورتیں پوری کر رہا ہے تو اب یہ نہیں سوچنا کہ اتنی مہنگائی ہو گئی تو ہم کہاں سے کھائیں گے؟*
_جو اللہ آسائشوں میں کھلاتا ہے وہی تنگی میں بھی کھلانے پر قادر ہے۔ اللہ کے خزانے بہت وسیع ہیں ان میں کوئی کمی نہیں آتی۔_

حدیث قدسی ہے:

*”اے میرے بندو! اگر تمہارے اگلے پچھلے انسان، جن سب ایک میدان میں کھڑے ہو جائیں اور مجھ سے مانگیں اور میں ہر ایک کا سوال پورا کر دوں تو بھی میرے پاس کے خزانوں میں اتنی ہی کمی آئے گی جتنی کمی سمندر میں سوئی ڈالنے سے ہوگی“۔* (صحیح مسلم)

*پس ہمارا رب پاک ہے، بلند ہے، غنی ہے اور حمید ہے۔ ہمیں اپنے رب پر کامل بھروسا رکھنا چاہیے۔*
اس کے ساتھ ہی مہنگائی سے بچنے کے لیے چند احتیاطی تدابیر بھی اختیار کرنی چاہئیں۔

🔘اپنے *اخراجات کا جائزہ* لیں،
🔘 *جہاں جہاں کمی ممکن ہے، کمی کی جائے۔*
🔘 *بجلی کی بچت* کی جائے خاص طور پر *شام چھے سے رات گیارہ، بارہ بجے تک برقی آلات کم سے کم استعمال* کیے جائیں۔
🔘پٹرول کی بچت کے لیے *پیدل چلنے کا معمول* بنایا جائے۔

🔘 *بار بار گاڑیوں اور بائیکوں کے چکروں سے بچنے کے لیے ایک ہی بار میں سودا سلف وغیرہ منگوا لیا جائے۔*
🔘بازار جاتے وقت *صرف ضرورت کی چیزیں خریدی* جائیں۔ بلاوجہ برتن، جوتے، کپڑے اور اسی طرح کی دیگر چیزوں میں پیسہ ضائع نہ کیا جائے۔

🔘 *آمدن بڑھانے کے ممکنہ حلال ذرائع* اختیار کیے جائیں۔

🔘 *زیادہ سے زیادہ صدقہ* کیا جائے کیوں کہ صدقے سے مال بڑھتا ہے!
🔘 *صبح شام کے اذکار، تسبیحات، درود شریف اور استغفار کا معمول* رکھا جائے۔

🔘 *اللہ تعالیٰ کو محبت سے یاد کیا اور پکارا جائے۔*

🔘اس کے ساتھ ہی *دعاؤں کا خصوصی اہتمام* کرنا چاہیے۔

🔘 *اپنے ملک اور تمام عالم اسلام کی سلامتی کے لیے گڑگڑا کر رب کریم سے دعائیں* مانگی جائیں۔

🔘 اللہ تعالیٰ ہمیں *دشمن کے تسلط* سے بچائے۔ *بد خواہوں کی بد اعمالیوں سے محفوظ رکھے۔*
🔘 *لوگوں اور شیطان کے شر سے بچائے* اور ہمیں عزت و افتخار والی زندگی نصیب فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔

از تحریر ام محمد سلمان