انسان پر معاشرتی ذمہ داریاں، سوالات و جوابات

0
  • سبق نمبر 17:

سوال ۱: انسان پر کون کون سی معاشرتی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔

جواب: انسان پر مندرجہ ذیل معاشرتی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں:
دیانت داری۔
احترام قانون
عدل و انصاف
صدق
ایفائے عہد

سوال۲: دیانت داری پر مفصل نوٹ لکھیں۔

جواب:جب انسان کاروبار میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے دوسروں کے حق کو پوری طرح ادا کرے تو اسے”دیانت“کہاجاتا ہے جیسے کوئی شخص کسی کے پاس کوئی چیز رکھوا دے تو اسے جوں کا توں مالک کے حوالے کر دینا ”امانت“ہے۔ اس کا دائرہ مالی معاملات اور اخلاقی قانونی طور پر وسیع ہے۔

  • دیانت کے مختل پہلو ہیں مثال کے طور پر۔
  • اگر کسی کی کوئی چیز آپ کے پاس رکھی ہو تو اس کی واپسی کے مطالبہ پر اصل حالت میں واپس کر دینا۔
  • اگر آپ پر کسی کا کوئی حق ہے تو بخوشدلی اس کی ادائیگی کی جائے۔
  • اگر کسی کا کوئی راز معلوم ہو تو اس کو پوشیدہ رکھنا اور ظاہر نہ کرنا بھی دیانت و امانت داری ہے۔
  • اگر کسی مجلس میں آپ کو کچھ باتیں دوسروں کے بارے میں معلوم ہوجائیں تو اس کو وہیں تک محدود کردیں اور دوسروں تک پہنچا کر کسی طرح فتنہ و فساد کا سبب نہ بنیں تو یہ بھی دیانت و امانت ہے۔
  • اگر کوئی کسی معاملہ میں آپ سے مشورہ کرے تو اسے بے لوث طریقہ پر بہتر رائے دینا اور اپنے تک محدود رکھنا بھی دیانت میں شامل ہے۔
  • اگر کسی کی ملازمت میں منسلک ہوں تو اس کی شرائط کے مطابق
  • اپنے فرائض ادا کرنا بھی ایک طرح دیانتداری ہے۔
  • شوہر اور بیوی کے درمیان راز کچھ باتیں ہوتی ہیں ان کا اظہار نہ کرنا بھی دیانت و امانت ہے۔

سوال۳: احترام قانون کو بیان کریں۔

جواب: اسلام نے قانون کا احترام ہر مسلمان پر فرض کیا ہے اور ہر شہری پر یہ ذمہ داری عائد کی ہے کہ وہ حاکم اور خلیفہ کا حکم مانیں۔ قرآن حکیم نے جس طرح اپنی اطاعت کے ساتھ رسولﷺ کی اطاعت کو لازم کیا ہے اسی طرح ”اولا اولامر“یعنی ریاست کے حکمرانوں کی بھی اطاعت کے لئے حکم صادر فرمایا ہے اور اس کا ثبوت قرآن حکیم کی سورۃ النساء آیت نمبر ۵۹ میں ملتا ہے۔

رسول اور حاکم وقت کی اطاعت اللہ کے حکم کی اطاعت ہی ہے کیونکہ اسلامی ریاست کا حاکم جو بھی کچھ حکم دیتا ہے وہ اللہ اور رسول اللہق کے فرمان کے مطابق دیتا ہے۔
اسی کے ساتھ حاکم وقت کے لئے جو شرط رکھی گئی کہ وہ تم میں سے ہی ہوں لیکن اطاعت اس شرط کے ساتھ وابستہ ہے کہ حاکم کوئی حکم اسلام کی معینہ احکام کے خلاف نہ دے۔

حضور نبی اکرمﷺ نے فرمایا:
”مسلمانوں پر لازم ہے کہ اپنے ”اولاالامر“کی بات سنیں اور اسے مانیں خواہ انہیں پسند ہو یا نا پسند ہو۔ تاوقتکہ اسے معصیت (اللہ اوررسولﷺ کے حکم سے سرکشی) کے لئے نہ کہا جائے اور جب معصیت کا حکم دیا جائے تو پھر نہ سننا چاہئے اور نہ ماننا چاہئے۔“

سوال۴: عدل و انصاف کے معنی و مفہوم بیان کریں؟

جواب:عربی زبان میں عدل برابر تقسیم کرنے، سیدھا کرنے اور دو چیزوں میں برابر قائم کرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ اردو میں تقریباً اسی معنی میں ”انصاف“ کا تلفظ بھی استعمال ہوتا ہے۔
اسلام نے عدل کو عدوان، زیادتی اور ظلم ضد اور اس کے مخالف معنی میں استعمال کیا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں کئی مقام پر عدل اختیار کرنے کی تاکید فرمائی ہے۔ مثلاً:
ان اللہ یامروبالعدل والاحسان
ترجمہ: بے شک اللہ عدل و احسان اختیار کرنے کا حکم دیتا ہے۔ (سورۃ نحل:۹۰)

دوسرے مقام پر ذکر ہے کہ:
وامرت لاعدل بینکم
ترجمہ: (اے نبیﷺ کہہ دیجئے) کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ تمہارے ساتھ عدل کروں۔(سورۃ شورۃ:۱۵)
اسی طرح احادیث نبوی ﷺ میں بہت مقامات پر ”عدل“ اختیار کرنے کی تاکید ملتی ہے مثلاً
”مجھے حکم دیا گیا ہے کہ خوشی اور ناراضگی دونوں حالتوں میں انصاف سے بات کروں۔“
”قیامت کے دن جب اللہ کے سایہ کے سواکوئی سایہ نہ ہوگا تو سات شخصوں کو اللہ اپنے سایہ رحمت میں لے گا۔ ان میں ایک امام عادل بھی ہوگا۔“ علماء کرام نے عدل کو انفرادی اور اجتماعی دو حصوں میں تقسیم کیا ہے۔