نظم “مفلسی” کی تشریح

1
جب آدمی کے حال پہ آتی ہے مفلسی
کس کس طرح سے اس کو ستاتی ہے مفلسی
پیاسا تمام روز بٹھاتی ہے مفلسی
بھوکا تمام رات سلاتی ہے مفلسی
یہ دکھ وہ جانے جس پہ کہ آتی ہے مفلسی

یہ اشعار نظیر اکبر آبادی کی نظم مفلسی سے لیے گئے ہیں۔ اس بند میں شاعر مفلسی پر بات کرتے ہوئے کہتا ہے کہ مفلسی یعنی غربت ایسی بری چیز ہے کہ جب کبھی کسی انسان پر مفلسی طاری ہو جائے تو یہ غربت اس کو کہیں طرح سے ستاتی ہے۔ غریب یا مفلس انسان کو کئی کئی روز تک بھوکا رہنا پڑتا ہے۔ محض دن کو ہی نہیں ایسے انسان کو اکثر اوقات رات کا کھانا بھی نصیب نہیں ہوتا ہے اور پھر ایسے لوگوں کو یہ غربت راتوں کو بھی بھوکا سونے پر مجبور کرتی ہے۔ غربت یا بھوک کا دکھ کیا دکھ ہوتا ہے اس تکلیف کو وہی شخص سمجھ سکتا ہے کہ جو اس غربت کے کرب سے دو چار ہوتا ہے۔

کہیے تو اب حکیم کی سب سے بڑی ہے شاں
تعظیم جس کی کرتے ہیں تو اب اور خاں
مفلس ہوئے تو حضرت لقماں کیا ہے یاں
عیسیٰ بھی ہو تو کوئی نہیں پوچھتا میاں
حکمت حکیم کی بھی ڈوباتی ہے مفلسی

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ اگر کسی حکیم کی بات کی جائے تو کہنے کو بظاہر حکیم ایک شان اور مرتبے والا شخص ہے جس کی عزت تمام امیر اور مرتبے والے لوگ بھی کرتے ہیں اور غریب غربا بھی اس سے عزت و احترام سے پیش آتے ہیں۔لیکن اگر مفکسی کی بات کی جائے تو وہ تو حکیم لقمان کو بھی نہیں پہچانتی ہے۔اگر حضرت عیسیٰ جیسی شخصیت بھی موجود ہو جو معجزات رکھنے والی ہے وہ بھی اس غربت کا توڑ نہیں کر سکتی ہے۔اگر مفلسی آ جائے تو حکیم کی حکمت کو بھی ڈوبنے میں دیر نہیں لگتی ہے۔

جو اہل فضل عالم و فاضل کہلاتے ہیں
مفلس ہوئے تو کلمہ تلک بھول جاتے ہیں
وہ جو غریب غربا کے لڑکے پڑھاتے ہیں
ان کی تو عمر بھر نہیں جاتی ہے مفلسی

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ وہ لوگ جو علم و دانش رکھتے ہیں اور بڑے بڑے عالم اور فاضل کہلاتے ہیں ایسے لوگوں جو جب مفلسی ا کر گھیرتی ہے تو حالات اتنے گھمبیر ہو جاتے ہیں کہ ایسے لوگ کلمہ تک پڑھنا بھول جاتے ہیں۔ ایسے لوگ جو غریبوں کے لڑکوں کو پڑھاتے ہیں تو اگر وہ ہیں ہی مفلس تو ایسے لوگوں کو اتنا پڑھانے کے بعد بھی ایک طویل عمر تک ان لوگوں کی غربت دور نہیں ہو پاتی ہے۔

مفلس کرے جو آن کے محفل کے بیچ حال
سب جانیں روٹیوں کا یہ ڈالا ہے اس نے جال
گر گر پڑے تو کوئی نہ لیے اسے سنبھال
مفلس میں ہوویں لاکھ اگر علم اور کمال
سب خاک بیچ آ کے ملاتی ہے مفلسی

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ مفلس شخص اگر کسی محفل میں یا لوگوں کے سامنے آ کر اپنا حال بیان کرتا ہے تو سب کو یہیں محسوس ہوتا ہے وہ ایسا صرف مدد مانگنے کے لیے کر رہا ہے یعنی ایک طرح روٹی مانگنے کے لیے جال ڈال رہا ہے۔ایسا شخص جو مفلسی کا شکار ہوتا ہے اگر وہ گرے بھی تو کوئی اسے آگے بڑھ کر سنبھالنے والا نہیں ہوتا ہے۔ اور اگر مفلس شخص کوئی بہت زیادہ علم رکھنے والا عالم شخص ہو تو بھی مفلسی اس کے ساتھ یہی سلوک روا رکھتی ہے۔ یعنی آخر میں غربت سب کو مٹی میں ملا دیتی ہے۔

جب روٹیوں کے بٹنے کا آ کر پڑے شمار
مفلس کو دیویں ایک تونگر کو چار چار
گر اور مانگے وہ تو اسے جھڑکیں بار بار
مفلس کا حال آہ بیاں کیا کروں میں یار
مفلس کو اس جگہ بھی چباتی ہے مفلسی

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ اگر رزق یا روٹی گن کر تقسیم کی جارہی ہو تو ایسی صورت میں بھی غریب کو ایک تو امیر کو چار چار روٹیاں بانٹی جاتی ہیں۔ غریب شخص اگر دوبارہ دست سوال دراز کرتا ہے تو سس پر اسے ڈانٹ پھٹکار کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ یہی نہیں بلکہ میں کسی مفلس کا کیا حال بیان کروں کہ ایسے مقام پر بھی مفلس کے ساتھ ہی نا انصافی ہوتی ہے یعنی اسے اس کی ضرورت کے مطابق مدد بھی فراہم نہیں کی جاتی ہے اور دوسری طرف پہلے سے امیر لوگ امیر سے امیر تر کر دیے جاتے ہیں۔

مفلس کی کچھ نظر نہیں رہتی ہے آن پر
دیتا ہے اپنی جان وہ ایک ایک نان پر
ہر آن ٹوٹ پڑتا ہے روٹی کے خوان پر
جس طرح کتے لڑتے ہیں اک استخوان پر
ویسا ہی مفلسوں کو لڑاتی ہے مفلسی

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ مفلس انسان کبھی بھی بہت اونچی آن ،بان ،شان کے بارے میں نہیں سوچتا ہے بلکہ اس کے لیے سب سے قیمتی شے یا احساس اس کی بھوک ہوتی ہے اور ایسی صورت میں تو وہ ایک ایک نان کے ٹکڑے پر بھی اپنی جان چھڑکتا ہے۔جب اور جیسے ہی اسے کوئی موقع میسر آئے وہ روٹی پر ٹوٹ پڑتا ہے۔ جیسے کتے ایک ہڈی کے پیچھے لڑ رہے ہوتے ہیں بھوک اور مفلسی بھی مفلس شخص کو کچھ ایسے ہی مقام تک پہنچاتی ہے کہ وہ ایک ایک ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے بھی لڑ رہا ہوتا ہے۔

کرتا نہیں حیا سے جو کوئی وہ کام آہ
مفلس کرے ہے اس کے تئیں انصرام آہ
سمجھے نہ کچھ حلال نہ جانے حرام آہ
کہتے ہیں جس کو شرم و حیا ننگ و نام آہ
وہ سب حیا و شرم اڑاتی ہے مفلسی

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ تونگر لوگ کچھ کام حیا اور شرم میں آ کر نہیں کرتے ہیں یا پھر سر عام نہیں کرتے ہیں۔مفلس لوگ ایسے کام کرنے کے لیے بھی باقاعدہ بندوبست کرتے ہیں۔اس دوران وہ حلال اور حرام کا فرق بھی بھول جاتا ہے۔افسوس کہ جسے ہم شرم و حیا یا عزت ، بے عزتی کہتے ہیں۔ یہ مفلسی یا غربت لوگوں کے اس شرم و حیا کو بھی ختم کر دیتی ہے۔

یہ مفلسی وہ شے ہے کہ جس گھر میں بھر گئی
پھر جتنے گھر تھے سب میں اسی گھر کے در گئی
زن بچے روتے ہیں گویا نانی گزر گئی
ہم سایہ پوچھتے ہیں کہ کیا دادی مر گئی
بن مردے گھر میں شور مچاتی ہے مفلسی

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ مفلسی ایک ایسا زہر ہے کہ یہ جس بھی گھر میں بھر جائے تو اردگرد کے جتنے لوگ یا گھر ہوتے ہیں وہ سب اس ایک گھر کے در پے ہو جاتے ہیں۔ اس گھر کی عورتیں اور بچے یوں رو رہے ہوتے ہیں کہ گویا ان کی نانی مر گئی ہوں دوسری طرف ان کے حالات سے بے خبر ہمسائے ان سے سوال کر رہے ہوتے ہیں کہ کیا ان کی دادی مر گئی ہے۔ در حقیقت ان کی بھوک ان کو رلا رہی ہوتی ہے۔ شاعر اس بند میں کہنا چاہا رہا ہے کہ مفلسی لوگوں کو ایسی تکلیف سے دو چار کرتی ہے کہ ان کے گھر سے رونے اور آہ و بقا کی آوازیں بغیر مردے کے ہی بلند ہوتی ہیں۔ یعنی وہ کسی کے مرنے پہ نہیں بلکہ اپنی بھوک کے ہاتھوں مجبور ہو کر روتے ہیں۔

لازم ہے گر غمی میں کوئی شور غل مچائے
مفلس بغیر غم کے ہی کرتا ہے ہائے ہائے
مر جاوے گر کوئی تو کہاں سے اسے اٹھائے
اس مفلسی کی خواریاں کیا کیا کہوں میں ہائے
مردے کو بے کفن کے گڑاتی ہے مفلسی

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ یہ بات تو ایک حقیقت ہے کہ لوگوں کو جب تکلیف یا کوئی غم پہنچتا ہے یا ان کس کوئی پیارا ان سے بچھڑتا ہے تو ایسے لوگ اس تکلیف میں روتے دھوتے ہیں مگر غریب انسان کو اس کی غربت بغیر کسی غم میں دو چار کیے بھی مسلسل رلاتی ہے۔ ان کے لیے بڑی تکلیف ان کی غربت ہی ہوتی ہے۔ ایسے میں اگران کے ہاں کوئی موت بھی واقع ہو جائے تو اسے اٹھانے یا اس کے کفن دفن کے انتظام کی بھی سکت ان میں نہیں ہوتی ہے۔ اس غربت کی کیا کیا خواریاں بیان کی جائیں کہ ایسے لوگ اپنے مردوں کو بھی بنا کفن کے دفنانے پر مجور ہو جاتے ہیں۔(اس بند میں پریم چند کے افسانے “کفن” کی جھلک پیش کی گئی ہے)

کیا کیا مفلسی کی کہوں خواری پھکڑیاں
جھاڑو بغیر گھر میں بکھرتی ہیں جھکڑیاں
کونے میں جالے لپٹے ہیں چھپر میں مکڑیاں
پیسا نہ ہووے جن کے جلانے کو لکڑیاں
دریا میں ان کے مردے بہاتی ہے مفلسی

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ میں غربت یا مفلسی کی اور کیا بد اخلاقیاں پیش کروں کہ اس کی وجہ سے بغیر جھاڑو ہی گھر میں گالیوں اور بد مزاجیوں کی بر سات ہو جاتی ہے۔گھر کا ںقشہ بھی کچھ یوں ہو جاتا ہے ہر طرف جالے اور مکڑیاں دکھائی دینے لگتے ہیں۔غریب لوگوں میں سے جس کے پاس لکڑیاں خریدنے اور آگ جلانے کے لیے بھی پیسے موجود نہ ہوں تو ایسے لوگ مجبوراً اپنے مردوں کو دریا میں بہانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔(یہاں پر ہندوؤں کے میت کو جلانے کی رسم کے ذیل میں بات کی جا رہی ہے کہ جیسے مسلمان غریب کو میت کے دفن کے لیے کفن میسر نہیں ہو پاتا اسی طرح ہندو غریب میت کے کریا کرم کے لیے آگ یا لکڑیوں کاانتظام بھی نہیں کر پاتا ہے)

بی بی کی نتھ نہ لڑکوں کے ہاتھوں کڑے رہے
کپڑے میاں کے بنیے کے گھر میں پڑے رہے
جب کڑیاں بک گئیں تو کھنڈر میں پڑے رہے
زنجیر نے کواڑ نہ پتھر گڑے رہے
آخر کو اینٹ اینٹ کھداتی ہے مفلسی

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ غریب آدمی کی بیوی کے ناک میں ایک نتھ تک موجود نہیں رہتی ہے کہ وہ اسے بھی بیچنے پر مجبورہو جاتا ہے دوسری طرف اس کے لڑکوں کے ہاتھوں میں موجود چھوٹے موٹے کڑے تک اتر جاتے ہیں۔ مفلس کے کپڑے تک اکثر بنیے کے ہاں گروی رکھوا دیے جاتے ہیں۔ایسے غریب شخص کے چھت کو آسرا دینے والی کڑیاں تک بک جائیں تو وہ شخص ایک کھنڈر میں پڑے رہنے کو مجبور ہو جاتا ہے۔ ایسا شخص محض زیوارات ہی نہیں بلکہ گھر کی کڑیاں ، زنجیر ، کواڑ تک فروخت کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے اور پیچھے محض پتھر باقی رہ جاتے ہیں۔ یوں ایک مفلس شخص ایک ایک اینٹ کھودنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔

نقاش پر بھی زور جب آ مفلسی کرے
سب رنگ دم میں کر دے مصور کے کرکرے
صورت بھی اس کی دیکھ کے منہ کھنچ رہے پرے
تصویر اور نقش میں کیا رنگ وہ بھرے
اس کے تو منہ کا رنگ اڑاتی ہے مفلسی

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ ایک تصویریں بنانے والے اپنے فن کے ماہر نقاش یعنی مصور کو جب مفلسی آ گھیرتی ہے تو اس مصور کے تمام ایک لمحے میں یہ مفلسی بے مزا کر دیتی ہے۔ ایسے ماہر نقاش کی بنائی تصاویر یا اس نقاش کو دیکھ کر ہی منھ دوسری جانب پھیر لیا جاتا ہے۔ ایسا نقاش پھر تصویروں میں کیا رنگ بھرے گا کہ مفلسی یعنی غربت تو اس کے اپنے منھ کے تمام رنگ اڑا کر رکھ دیتی ہے۔

جب خوب رو پہ آن کے پڑتا ہے دن سیاہ
پھرتا ہے بوسے دیتا ہے ہر اک کو خواہ مخواہ
ہرگز کسی کے دل کو نہیں ہوتی اس کی چاہ
گر حسن ہو ہزار روپے کا تو اس کو آہ
کیا کوڑیوں کے مول بکاتی ہے مفلسی

اس بند میں شاعر کہتا ہے مفلسی انسان کو اس حال پہ لے آتی ہے کہ جب ایک خوبصورت چہرے والے شخص پر سیاہ بختی کا سایہ پڑتا ہے تو ایسا شخص ہر ایک کو خواہ مخواہ بوسے دینے یعنی اس کی خوشامد پر مجبور ہو جاتا ہے۔مگر اس کے باوجود کوئی بھی اسے نہیں چاہتا ہے۔افسوس کہ اگر اس شخص کے حسن کی قیمت اس وقت ایک ہزار ہی کیوں نہ ہو مفلسی میں یہ قیمتی حسن بھی کوڑیوں کے دام بکنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔

اس خوب رو کو کون دے اب دام اور درم
جو کوڑی کوڑی بوسہ کو راضی ہو دم بہ دم
ٹوپی پرانی دو تو وہ جانے کلاہ جسم
کیوں کر نہ جی کو اس چمن حسن کے ہو غم
جس کی بہار مفت لٹاتی ہے مفلسی

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ اس خوبصورت چہرے والے کو بھلا کوئی دام اور درہم یعنی بہت زیادہ رقم کوئی کیوں دے گا جو مفلسی کے ہاتھوں مجبور ہو کر چند کوڑیوں کے مول ہی کسی کوبوسہ دینے کو رازی ہو جائے۔ایسے شخص کو اگر کوئی پرانی ٹوپی بھی دے دی جائے تو وہ اسے ایک قیمتی کلاہ کی حیثیت سے رکھتا ہے۔ اس باغ کے حسن کس غم اس دل کو کیوں نہیں ہو گا کہ جس کا قیمتی حسن کوڑیوں کے داموں بکتا ہو گا۔ یا جو اپنی مفلسی سے مجبور ہو کر اپنی بہاروں کو مفت لٹاتا ہو گا۔

عاشق کے حال پر بھی جب آ مفلسی پڑے
معشوق اپنے پاس نہ دے اس کو بیٹھنے
آوے جو رات کو تو نکالے وہیں اسے
اس ڈر سے یعنی رات و دھنا کہیں نہ دے
تہمت یہ عاشقوں کو لگاتی ہے مفلسی

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ جب مفلسی کسی عاشق کو آ گھیرتی ہے تو وہ ایسے حالات سے دو چار ہو جاتا ہے کہ اس کا محبوب اسے پاس بیٹھنے کی اجازت بھی نہیں دیتا ہے۔ اگر وہ رات کو اس سے ملنے کی غرض سے آئے تو وہ اس کو وہیں سے لوٹا دیتا ہے۔ اس ڈر سے کہ رات وہ عاشق کہیں گریہ و زاری نہ کرنے لگ جائے۔ یوں یہ مفلسی عاشقوں کو تہمت و بدنامی کے دلدل میں دکھیل دیتی ہے۔

کیسے ہی دھوم دھام کی رنڈی ہو خوش جمال
جب مفلسی ہو کان پڑے سر پہ اس کے جال
دیتے ہیں اس کے ناچ کو ٹھٹھے کے بیچ ڈال
ناچے ہے وہ تو فرش کے اوپر قدم سنبھال
اور اس کو انگلیوں پہ نچاتی ہے مفلسی

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ اگر ایک پیشہ ور عورت کی بات کی جائے تو وہ کتنی ہی خوبصورت اور دھوم مچانے والی کیوں نہ ہو۔ جب مفلسی اس کو ا گھیرتی ہے تو لوگ اس کے ناچ کو بھی ہنسی مذاق میں بدل دیتے ہیں حالانکہ کہ اس کا یہی ناچ اس کا فن ہوتا ہے۔ اگرچہ وہ فرش پہ ایک ایک قدم سنبھل کر ناچ رہی ہوتی ہے مگر ایسی صورت میں دراصل اس کی غربت اسے اپنی انگلیوں پہ نچا رہی ہوتی ہے۔

اس کا تو دل ٹھکانے نہیں بھاؤ کیا بتائے
جب ہو پھٹا دوپٹہ تو کاہے سے منہ چھپائے
لے شام سے وہ صبح تلک گو کہ ناچے گائے
اوروں کو آٹھ سات تو وہ دو ٹکے ہی پائے
اس لاج سے اسے بھی لجاتی ہے مفلسی

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ وہ عورت جو ایک پیشہ ور طوائف ہے اس کی غربت کا یہ عالم ہوتا ہے کہ اس کا دل اپنے قابو میں نہیں ہوتا ہے اس لیے وہ اپنے گاہک کے ساتھ بھاؤ تاؤ کرنے سے بھی قاصر ہوتی ہے۔ اس کا لباس یا دوپٹہ ہی اگر پھٹا ہوا ہے تو وہ بھلا کس شے سے اور کیوں کر اپنا منھ چھپائے گی۔ وہ صبح سے شام تک مسلسل ناچتی ہے۔ اس کا ناچ دیکھنے والے دوسرے لوگوں پر تو کتنے ہی پیسے لٹا دیں کہ مگر اس محض چند ٹکے ہی دیے جائیں گے۔ اس میں بھی اس کی مفلسی اسے شرمانے پر مجبور کرتی ہے۔

جس کسبی رنڈی کا ہو ہلاکت سے دل حزیں
رکھتا ہے اس کو جب کوئی آ کر تماش بیں
اک پون پیسے تک بھی وہ کرتی نہیں نہیں
یہ دکھ اسی سے پوچھئے اب آہ جس کے تئیں
صحبت میں ساری رات جگاتی ہے مفلسی

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ ہلاکت کی وجہ سے اگر کسی پیشہ ور عورت کا دل غمگیں ہو تو اس وقت بھی اگر کوئی تماش بین اس کے در پہ آ جائے تو چند پیسے پانے کے لیے بھی وہ اس کے سامنے انکار نہیں کرتی ہے ۔ افسوس اس تکلیف کا دکھ صرف اسی سے پوچھا جا سکتا ہے کہ جس کی غربت اسے ساری رات کسی اور کی صحبت میں جاگنے پر مجبور کر دیتی ہے۔

وہ تو یہ سمجھے دل میں کہ ڈھیلا جو پاؤں گی
دمڑی کے پان دمڑی کے مسی منگاؤں گی
باقی رہی چھدام سو پانی بھراؤں گی
پھر دل میں سوچتی ہے کہ کیا خاک کھاؤں گی
آخر چبینا اس کا بھناتی ہے مفلسی

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ وہ پیشہ ور عورت یہ سوچتی ہے کہ اسے پیسے دینے والا شخص شاید یہ سوچ رہا ہو گا کہ میں نے اس سے جو چند پیسے حاصل کیے ہیں ان پیسوں کے ایک چوتھائی سے میں پان جبکہ ایک چو تھائی سے میں میک اپ کا سامان خرید لوں گی۔ باقی جو پیسے کا چوتھا حصہ باقی رہ جائے گا اس سے میں پانی بھروا لوں گی مگر حقیقت اس کے برعکس ہے کہ اگر میں یہ تمام چیزیں خرید لوں تو میں اپنے پیٹ کا دوزخ کیوں کر اور کیسے بھروں گی۔آخر کار یہ مفلسی ایسے لوگوں کا جینا بھی دو بھر کر دیتی ہے۔

جب مفلسی سے ہووے کلاونت کا دل اداس
پھرتا ہے لے طنبورے کو ہر گھر کے آس پاس
اک پاؤ سیر آنے کی دل میں لگا کے آس
گوری کا وقت ہووے تو گاتا ہے وہ ببھاس
یاں تک حواس اس کے اڑاتی ہے مفلسی

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ اپنے فن کے ماہر شخص یا کلاوںت کو جب مفلسی ا گھیرتی ہے تو وہ طنبورے کو لے کر لوگوں کے گھروں کے اردگرد پھرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ وہ اس امید سے لوگوں کے گھروں کے گرد منڈلا رہا ہوتا ہے کہ شاید کوئی ایک پاؤ یا سیر بھر اناج سے اس کی مدد کرے گا۔اگر کسی گوری کے آنے کا وقت ہو تو یہ شخص ایک راگنی گاتا ہے۔ اس کے یہ غربت اس کو ان حالات کے دو راہے پر لے آتی ہے کہ اس شخص کے حواس جاتے رہتے ہیں اور وہ ایک دیوانے کے روپ میں پھرنے لگتا ہے۔

مفلس بیاہ بیٹی کا کرتا ہے بول بول
پیسا کہاں جو جا کے وہ لاوے جہیز مول
جورو کا وہ گلا کہ پھوٹا ہو جیسے ڈھول
گھر کی حلال خوری تلک کرتی ہے ٹھٹھول
ہیبت تمام اس کی اٹھاتی ہے مفلسی

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ غریب شخص اپنی بیٹی کو بھی بہت محنت کے بعد بیاہتا ہے۔ اس کے پاس اتنی رقم میسر نہیں ہوتی ہے کہ وہ اس کے جہیز کا انتظام کرے۔جبکہ اس کی بیوی کا بھی بجتے ڈھول کی طرح اس سے ہمیشہ ایک ہی گلہ بر قرار رہتا ہے۔ وہ صرف گھر کی عیش و عشرت تک ہی ہنسی مذاق کر پاتی ہے اور آخر یہ مفلسی یا غربت اس کی تمام ہیبت ڈر خوف خطرہ ختم کر دیتی ہے۔

بیٹے کا بیاہ ہو تو نہ بیاہی نہ ساتھی ہے
نے روشنی نہ باجے کی آواز آتی ہے
ماں پیچھے ایک میلی چدر اوڑھے جاتی ہے
بیٹا بنا ہے دولہا تو باوا براتی ہے
مفلس کی یہ برات چڑھاتی ہے مفلسی

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ اگر مفکس شخص کو اپنء بیٹے کا بیاہ کرنا ہو تو اس کے لیے وہ ایسے برکی تلاش میں ہو کہ جو نہ بیاہی ہوئی ہو اور نہ وہ کوئی بیوہ ہو۔ نہ ہی مفلس کے بیاہ میں کسی باجے اور روشنیوں کی آواز آئے گی۔ بلکہ اس لڑکے کی ماں پیچھے ایک میلی کچیلی چادر اوڑھے چلی آ رہی ہو گی۔ اس جا بیٹا دولہا بنا ہوا ہو گا جبکہ براتیوں میں محض ایج باپ شامل ہو گا۔ یہ شاندار برات ایک مفلس کو اس کی مفلسی پر چڑھاتی ہے۔

گر بیاہ کر چلا ہے سحر کو تو یہ بلا
شہدار نانا ہیجڑا اور بھاٹ منڈ چڑھا
کھینچے ہوئے اسے چلے جاتے ہیں جا بہ جا
وہ آگے آگے لڑتا ہوا جاتا ہے چلا
اور پیچھے تھپڑیوں کو بجاتی ہے مفلسی

اس بند میں شاعر کہتا ہے اگرر مفلس کا یہ بیاہ صبح ہوا ہے تو اس کی بارات ہو ننگے سر اور پاؤں شہدار اٹھائے چلتے پھرتے ہیں اور ہیجڑے اوربھاٹ ساتھ اس کی شان میں شاعری کرتے جا رہے ہیں۔وہ لوگ اس کو کھینچے چلے جا رہے ہیں۔ جبکہ وہ شخص اپنی غربت سے لڑتے ہوئے آگے آگے رواں دواں ہے اور پیچھے اس کی مفلسی اس پر تالیاں بجاتی ہوئی آگے بڑھ رہی ہے۔

دروازے پر زنانے بجاتے ہیں تالیاں
اور گھر میں بیٹھی ڈومنی دیتی ہیں گالیاں
مالن گلے کی ہار ہو دوڑی لے ڈالیاں
سقا کھڑا سناتا ہے باتیں رزالیاں
یہ خواری یہ خرابی دکھاتی ہے مفلسی

اس بند میں شاعر کہتا ہے دروازے پر عورتیں اگر تالیاں بجا رہی ہیں تو اس گھر میں ناچنے والی یا ڈومنیاں بیٹھی اسے گالیاں دے رہی ہیں۔مالن گلے کے ہار بنانے کے لیے ڈالیاں توڑے دوڑی جا رہی ہے تو سقا بھی دروازے میں کھڑا کم ظرف عورتوں کی طرح باتیں سنائے جا رہا ہے۔ مفلسی انسان کو اس ذلالت و خواری اور مفلسی کے حالات سے دو چار کرتی ہے۔

کوئی شوم بے حیا کوئی بولا نکھٹو ہے
بیٹی نے جانا باپ تو میرا نکھٹو ہے
بیٹے پکارتے ہیں کہ بابا نکھٹو ہے
بی بی یہ دل میں کہتی ہے اچھا نکھٹو ہے
آخر نکھٹو نام دھراتی ہے مفلسی

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ مفلسی ایک کمانے والے انسان کو اس نوبت تک پہنچاتی ہے کوئی اسے منحوس و بے حیا تو کوئی ناکارہ و نکھٹو کے القابات سے نوازنے لگتا ہے۔ بیٹی اپنے باپ کو نکھٹو جانتی ہے تو بیٹے بھی باپ کو نکارہ خیال کرنے لگتے ہیں۔ بیوی بھی شوہر کو دل میں کام چور اور نکھٹو تسلیم کر لیتی ہے۔ یوں یہ غربت آ خر کار ایک شخص کو نکھٹو کے نام سے نواز دیتی ہے۔

مفلس کا درد دل میں کوئی ٹھانتا نہیں
مفلس کی بات کو بھی کوئی مانتا نہیں
ذات اور حسب نسب کو کوئی جانتا نہیں
صورت بھی اس کی پھر کوئی پہچانتا نہیں
یاں تک نظر سے اس کو گراتی ہے مفلسی

اس بند میں شاعر کہتا کہ ایک غریب اور مفلس شخص کے درد اور تکلیف کو کوئی بھی اپنے دل سے محسوس نہیں کرتا ہے۔ کوئی بھی غریب شخص کی بات سنتا یا مانتا نہیں ہے۔ کوئی اس کی ذات پات یا مرتںے کو اہم نکیں جانتا ہے۔ ایک بلند مرتبہ شخص اگر مفلس ہو جائے تو بعد میں لوگ اس کی شکل پہچاننے سے بھی انکاری ہو جاتے ہیں۔ یہ مفلسی اس قدر انسان کو دوسروں کی نظر میں گرا دیتی ہے۔

جس وقت مفلسی سے یہ آ کر ہوا تباہ
پھر کوئی اس کے حال پہ کرتا نہیں نگاہ
دالیدری کہے کوئی ٹھہرا دے رو سیاہ
جو باتیں عمر بھر نہ سنی ہوویں اس نے آہ
وہ باتیں اس کو آ کے سناتی ہیں مفلسی

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ وہ شخص جس کو مفلسی گھیر لیتی ہے اور جب وہ مفلسی یا غربت کے ہاتھوں تباہ ہو جائے تو ایسے شخص کے حال پہ کوئی نظر کرن نہیں کرتا ہے۔ کوئی ایسے شخص کوو منحوس اور کوئی بے عزت کرنے لگتا ہے۔ افسوس جو باتیں اس شخص نے زندگی بھر نہیں سنی ہوتی ہیں غربت آ کر اس کو وہ باتیں بھی سنا ڈالتی ہے۔

چولہا توانا پانی کے مٹکے میں آبی ہے
پینے کو کچھ نہ کھانے کو اور نے رکابی ہے
مفلس کے ساتھ سب کے تئیں بے حجابی ہے
مفلس کی جورو سچ ہے کہ یاں سب کی بھابی ہے
عزت سب اس کے دل کی گنواتی ہے مفلسی

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ مفلس شخص کے حالات ایسے ہوتے ہیں کہ اس کے پاس نہ تو چولہا اور توا ہوتا ہے اور نہ اس کے پانی کے برتن میں پانی میسر ہوتا ہے ۔ اس کے پاس نہ کچھ کھانے کو نہ پینے کو غرض کے برتن تک میسر نہیں ہوتا ہے۔مفلس سب کے سامنے بے پردہ ہو کر رہ جاتا ہے۔ مفلس کی بیوی بھی سب کی بھابی بن جاتی ہے۔ یہ غربت اس شخص کے دل سے سب کی عزت اور کی عزت سب کے دلوں سے ختم کروا دیتی ہے۔

کیسا ہی آدمی ہو پر افلاس کے طفیل
کوئی گدھا کہے اسے ٹھہرا دے کوئی بیل
کپڑے پھٹے تمام بڑھے بال پھیل پھیل
منہ خشک دانت زرد بدن پر جما ہے میل
سب شکل قیدیوں کی بناتی ہے مفلسی

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ انسان کیسا ہی کیوں نہ ہو مگر بھوک کی وجہ سے کوئی اس کو گدھا اور کوئی بیل کہہ کر جانوروں سے تشبیہ دے ڈالتا ہے۔ اس شخص کا لباس پھٹا ہوا ہو جاتا ہے اور بال بڑھ جاتے ہیں۔ منھ خشک ، دانت زرد اور اس کے بدن پر میک جم جاتا ہے۔یوں یہ مفلسی اچھے بھلے انسان کو ایک قیدی کے حلیے میں بدل ڈالتی ہے۔

ہر آن دوستوں کی محبت گھٹاتی ہے
جو آشنا ہیں ان کی تو الفت گھٹاتی ہے
اپنے کی مہر غیر کی چاہت گھٹاتی ہے
شرم و حیا و عزت و حرمت گھٹاتی ہے
ہاں ناخن اور بال بڑھاتی ہے مفلسی

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ غربت میں کوئی دوست بھی آپ کے کام نہیں آتا ہے تو ہر لمحے یہ غربت ان دوستوں کی محبت کو گھٹا دیتی ہے۔ جو آپ کے جاننے والے ہوں ان کی محبت جاتی رہتی ہے۔ اپنوں کی محبت اور غیر کی چاہت کو آپ کے دل سے ختم کر دیتی ہے۔یہ غربت آپ کی شرم و حیا اور عزت و تقدس کو ختم کر دیتی ہے۔ لیکن ایک چیز کو یہ مفلسی بڑھاتی ہے اور وہ آپ کے ناخن اور بال ہیں اس کے سوا کچھ نہیں ہے۔

جب مفلسی ہوئی تو شرافت کہاں رہی
وہ قدر ذات کی وہ نجابت کہاں رہی
کپڑے پھٹے تو لوگوں میں عزت کہاں رہی
تعظیم اور تواضع کی بابت کہاں رہی
مجلس کی جوتیوں پہ بٹھاتی ہے مفلسی

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ اگر مفلسی آ جائے تو شرافت باقی نہیں رہتی ہے۔ نہ آپ کی ذات کی قدع کی جاتی ہے اور نہ آپ کا عالی خاندان دیکھا جاتا ہے۔ اگر انسان کا لباس ہی پھٹا ہوا ہو تو کوئی اس کی عزت نہیں کرتا ہے۔ کیوں کہ عزت اور احترام کی وجہ ہی باقی نہیں رہتی ہے۔ یوں یہ غربت آپ کو انتہائی پیچھے دھکیلتے ہوئے مجلس کی جوتیوں پہ بیٹھنے پر مجبور کر۔ دیتی ہے۔

مفلس کسی کا لڑکا جو لے پیار سے اٹھا
باپ اس کا دیکھے ہاتھ کا اور پاؤں کا کڑا
کہتا ہے کوئی جوتی نہ لیوے کہیں چرا
نٹ کھٹ اچکا چور دغاباز گٹھ کٹا
سو سو طرح کے عیب لگاتی ہے مفلسی

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ اگر کوئی غریب شخص پیار آنے پہ کسی کے بچے کو بھی اٹھا لے تو اس بچے کے باپ کی نظر اس وقت اپنے بچے کے ہاتھ اور پاوں میں موجود کڑے پر لگی رہتی ہے کہ کہیں کوئی ا سکی جوتی یا اس کڑے کو چوری نہ کر لے۔ یوں یہ مفلسی آپ پر چور اچکے اور دغا باز جیسے کئی عیب بھی لگوا دیتی ہے۔

رکھتی نہیں کسی کی یہ غیرت کی آن کو
سب خاک میں ملاتی ہے حرمت کی شان کو
سو محنتوں میں اس کی کھپاتی ہے جان کو
چوری پہ آ کے ڈالے ہی مفلس کے دھیان کو
آخر ندان بھیک منگاتی ہے مفلسی

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ یہ غربت یا مفلسی کسی کی بھی غیرت کی آن سلامت نہیں رکھتی ہے۔یہ تمام عزت و مرتبے کو خاک میں ملا دیتی ہے۔مفلس شخص کو اپنی جان کئی طرح کی محنتوں میں کھپانی پڑتی ہے۔یہ ایک مفلس شخص کا دھیان چوری جیسے کاموں کی طرف بھٹکانے پر بھی مائل کرتی ہے اور یہی نہیں بلکہ اخر کار یہ مفلسی اس انسان کو بھیک مانگنے پر بھی مجبور کر ڈالتی ہے۔

دنیا میں لے کے شاہ سے اے یار تا فقیر
خالق نہ مفلسی میں کسی کو کرے اسیر
اشراف کو بناتی ہے اک آن میں فقیر
کیا کیا میں مفلسی کی خرابی کہوں نظیرؔ
وہ جانے جس کے دل کو جلاتی ہے مفلسی

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ اس دنیا میں چاہے کوئی امیر ہے یا غریب کوئی شاہ ہے یا فقیر اللہ کبھی کسی کو مفلسی جیسی لعنت سے دو چار نہ کرے۔ کیونکہ کہ یہ غربت و مفلسی پل بھر میں معزز لوگوں کو فقیر بنا ڈاکتی ہے۔ شاعر آخر میں اپنا تخلص استعمال کرتے ہوئے کہتا ہے کہ نظیر میں مفلسی کی کیا کیا خرابی بیان کروں اس کی تکلیف کو وہ شخص ہی سمجھ سکتا ہے جس نے اس تکلیف کو سہا ہے جو اس کرب سے دو چار ہوا ہو۔