Advertisement
Advertisement

پہلا بند

نظیر اکبر آبادی کی اس نظم میں مفلسی اور غریبی کے نقصان اور خرابیوں کا ذکر کیا گیا ہے اور ایک مفلس انسان پر کیا کیا بیتتی ہے، اس کی منظر کشی بڑی خوبصورت طریقے سے کی گئی ہے۔جب انسان مفلسی میں مبتلا ہو جاتا ہے تو یہ مفلسی اس کو طرح طرح کے دکھ دیتی ہے۔ مفلس انسان کو دن رات بھوکا پیاسا رہنا پڑتا ہے، ہر وقت کھانے کے لالے پڑ تے ہیں۔ یہی فکر لاحق ہوتی ہے کہ کیسے پیٹ کی آگ کو بجھایا جائے۔ اس دکھ کو وہی جان سکتا ہے جو غریبی اور مفلسی میں مبتلا ہو گیا ہو۔

Advertisement

دوسرا بند

ایک غریب اور مفلس انسان کو اپنی عزت کی بھی کوئی پرواہ نہیں رہتی ہے۔ وہ تو روٹی کے ایک ایک ٹکڑے پر اپنی جان دینے لگتا ہے۔ وہ اس طرح روٹی والے برتن پر ٹوٹ پڑتا ہے کہ کسی طرح اپنا پیٹ بھر لوں۔ اس وقت کھانا مل رہا ہے کیا معلوم دوسرے وقت کی روٹی ملے یا نہیں۔ غریب انسان روٹی کے لئے ایسے لڑتے ہیں جیسے کتے ہڈی پر لڑتے ہیں۔

تیسرا بند

انسان کتنا ہی شریف ایماندار اور نیک ہو لیکن مفلسی کی وجہ سے اس کو کوئی گدھا کہتا ہے اور کوئی اسے بیل کہہ دیتا ہے۔ یعنی کوئی اس کی عزت اور احترام نہیں کرتا۔ مفلس کے کپڑے پھٹے ہوئے ہوتے ہیں اور بال کھلے ہوئے اور گرد و غبار میں اٹکے ہوئے ہوتے ہیں۔ اس کا منہ خشک ہوا ہوتا ہے، دانت پیلے ہوتے ہیں اور وہ میلا کچیلا ہوتا ہے۔اس کی شکل قیدیوں کی جیسی بن گئی ہوتی ہے۔ اور یہ سب کچھ اس کی مفلوک الحال کی وجہ سے ہوتا ہے۔

Advertisement

چوتھا بند

نظیر اکبر آبادی خدا سے دعا کرتے ہیں کہ دنیا میں بادشاہ سے لے کر فقیر تک کوئی مفلسی کا شکار نہ ہو۔ مفلسی تو ایسی لعنت ہے کہ یہ عزت دار لوگوں کو ایک لمحے میں بھکاری بنا دیتی ہے۔ خدا اس لعنت سے سب کو بچائے۔ میں اس مفلسی کی کون کون سی خرابیاں بیان کروں یہ تو وہی جانتا ہے جو اس مفلسی کی لعنت میں مبتلا ہو جاتا ہے۔

Advertisement

Advertisement

Advertisement