نظم مناجات بیوہ کا خلاصہ

0

نظم “مناجات بیوہ” میں شاعر نے ہمدردی نسواں کے ذیل میں ایک بیوہ عورت کی مناجات کو بیان کیا ہے۔ جس میں وہ بیوہ عورت اللہ کے حضور بہت بے کسی اور عاجزی سے اپنی التجا پیش کرتی ہے۔ نظم جس میں ایک بیوہ کی حقیقی زندگی کی تصویر کشی کی گئی ہے۔

اس نظم میں بیوہ اللہ تعالی سے مخاطب ہیں اور کہتی ہیں کہ اے خدا ! کائنات تیری ہی ذات سب کچھ ہے ، تو ہی اول و آخر ہے تو نے کسی کو خوشیوں سے بھر دیا اور کسی کی زندگی میں صرف دکھ ہی دکھ ہیں۔ اے اللہ تو بچھڑے ہوئے لوگوں کا ساتھی بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی ہم سب کی کشتی کو چپو کی مدد سے چلا کر پار لگا سکتا ہے یعنی اس دنیا میں ہم سب کچھ اسی ذات کی مدد سے کر سکتے ہیں۔اللہ کی ذات ہی ہمیں دکھ میں تسلی دیتی ہے۔

اس پاک ذات جیسا نہ کوئی اور ہے اور نہ کبھی ہو گا۔ بعض نیک انسانوں میں اللہ تعالیٰ کی ذات کی صفات کا ایک ذرہ حصہ تو پایا جاتا ہے لیکن اللہ کی ذات جیسا کوئی نہیں ہے۔ کسی کو امیر بناتا ہے اور کسی کو غریب۔ کسی کے لیے ساری محبتیں امڈی آتی ہیں اور کوئی اس دنیا میں غم خوار ہے۔ لیکن بیوہ کی زندگی میں دکھوں کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ شوہر کے مرنے کے بعد سسرال والے منحوس سمجھتے ہیں۔ میکے والے مجھے اپنے اوپر ایک مار خیال کرتے ہیں۔

سماج میں اب کسی کا طرح کوئی مقام حاصل نہیں کر سکتی۔ کیونکہ بیوہ کے لیے بھی سماج نے ہر خوشی اور بناؤ سنگھار چھین لیا ہے ۔ سماج کے کسی بھی نامحرم سے بات نہیں کر سکتی۔ کیونکہ ایسا کرنے پر میرے اوپر انگلیاں اٹھنے لگتے ہیں۔ سماج کی روایتیں کچھ ایسی ہیں کہ میں نکاح ثانی بھی نہیں کر سکتی۔ اور تنہا اس پہاڑ جیسی زندگی کو کاٹنےکے لیے مجبور ہوں۔

میرے کر دار پر لوگ اب شک کرتے ہیں حالانکہ میں نے سماج کی رسموں کو نبھاتے ہوئے سب کچھ چھوڑ کرخود کو ایک خول میں بند کر لیا ہے۔ میری ساری خوشیاں مجھ سے چھین لی گئی ہیں۔ دن و رات کا سکون لٹ گیا ہے۔ ہر پل ایک خوف دل پہ طاری رہتا ہے مگر پھر بھی مجھے طرح طرح کے طعن و طنز کا سامنا کر نا پڑا ہے۔

بیوہ عورت صرف اپنی ہی نہیں باقی عورتوں کی کیفیات کو بھی بیان کرتی ہے کہ اس دنیا میں محض میں اکیلی دکھی عورت نہیں ہوں بلکہ مجھ جیسی کئی عورتیں اسی کیفیت سے دو چار ہیں۔ اس میں کئی لا ابالی اور کئی ایک رات کی بیاہتا بھی شامل ہیں۔وہ اپنی زندگیاں اسی تکلیف میں کاٹ گئی ہیں کہ وہ معصوم اور نادان عورتیں منگنی اور بیاہ کے رواجوں سے ناواقف تھیں۔

کوشش کے باوجود بھی وہ یہ سب نہ جان سکیں اور دو دن کی سہاگن رہنے کے بعد وہ زندگی بھر کا روگ لے کر بیٹھ گئیں۔کسی کی کیفیت تو شرط سے پہلے ہی بازی ہار جانے والی جیسی ہے کہ شادی ہو جانے کے باوجود وہ کنواری بیٹھی ہے اور اس کی آہیں اور سسکیاں بلند ہوتی سنائی دیتی ہیں۔ اب بھی ایسا کوئی نہیں جو ان کی تکلیف پہ غور کرکے اس تکلیف کا مدوا کرے۔ جن کے دلوں میں ایسی چوٹ نہیں لگی ہے وہ ان کے کرب اور دکھ کو نہیں سمجھ سکتے ہیں۔

پوری کائنات کی پرورش کرنے والے ! تو کسی اورکو ایسا کوئی غم کبھی نہ دینا کیو نکہ بیوہ عورت کےدکھوں کی کوئی حد نہیں ہوتی۔ پوری دنیا میں وہ ہر ذی روح کی محبت سے محروم ہو جاتی ہے اور ہر وقت فتنہ ذہن والے سے لوٹ کا مال سمجھنے لگتا اے خدا میرے یہ سارے دکھ ایک پل میں دور کرسکتے ہیں۔اگر تو مجھے اپنے سینے سے لگالے۔اگر مجھےتیری محبت اور تیرا سہارا مل جاۓ تو یہ سارے دکھخود بخود بھول جاؤں۔

اے خدا میں دنیا میں تو ہمیشہ ذلیل ورسوا ہوتی رہی ہوں مگر آخرت میں تیری محبت مل جانے کے بعد میری سب خوشیاں لوٹ آئیں گی۔میرے بھی دن پھر یں گے۔اے اللہ تیری محبت کے سوا میری اور نہ تو کوئی حاجت ہے اور نہ ضرورت ہے۔ مجھے کوئی ایسا گھونٹ پلا دے کہ بس تیری ذات کی یاد باقی رہے اور اس کے سوا میں باقی سب کچھ بھول جاؤں۔میرے دل میں نہ تو تیرے سوا کوئی جگہ پا سکے اور نہ ہی بھولے سے مجھے کسی کی یاد آئے۔اے اللہ میرے دل میں بس اپنی پاک ذات کی لگن جگا دے اور میرے سارے غموں کو اپنی ذات اور محبت کے غم نیں گھپا کر ختم کر ڈال۔