Mysticism And Indian Thought | تصوف اور ہندوستانی فلاسفی

0

تصوف اور ہندوستانی فلاسفی

  • 2.1 تمہید
  • 2.2 مقاصد
  • 2.3 تصوف اور ہندوستانی فلاسفی
  • 2.4 عمومی جائزہ
  • 2.5 سوالات
  • 2.6 امدادی کتب

2.1 تمہید

تصوف جب اپنے اصل وطن یعنی جائے مولد سے نکل کر دنیا کے اطراف و اکناف کی طرف پھیلا تو ان دنیا کے اہم خطوں میں ایک بہت ہی اہم خطہ ملک ہندوستان بھی ہے۔ جب صوفی ہندوستان میں داخل ہوئے، اپنے اخلاق حسنہ کو پیش کیا، مساوی پیمانے یہاں کے لوگوں کے سامنے رکھے، وحدانیت کا تصور ہندوستان کے باشندوں کے سامنے پیش کیے تو یہاں کے لوگوں کو یہ تعلیمات ایک طاقت کو ماننا اس کے سامنے جھکنا اور مساوی اصول و ضوابط اور طریقہ کار بہت بھائے، تو لوگ صوفیاء کے حلقوں میں جوق در جوق حاضر ہونے لگے۔ اس صورتحال نے یہاں کے جوگیوں، سنتوں اور اہل علم میں بھی پیدا کیا۔ بعضوں کو تو یہ بھی لگنے لگا کہ ہندوستانی باشندے کہیں سارے کے سارے صوفیا کے زیر اثر نہ آجائیں اس لیے انہوں نے ویدک تعلیمات اور تصوف کے بنیادی اصولوں کے مابین ایک درمیانی راہ نکالی۔ اس طرح یہاں دھارمک فلاسفی میں بھی تحرک پیدا ہوا۔

2.2 مقاصد

اس سبق میں ہم تصوف کے زیر اثر ہندوستانی یا بھارتی اور ویدک دھرم کے ماننے والوں نے کس طرح ذہنی بالیدگی اور وحدانیت کے تصور کو قبول کیا، اس پر سیرحاصل بحث کریں گے تاکہ طلباء اس کے پڑھنے کے بعد اس لائق ہو جائیں کہ وہ یہ شناخت کر سکیں کہ اصل تصوف کیا ہے، اس کے اثرات ہندوستانی ذہن و سماج پر کیا پڑے جس کے سبب ویدک اور تصوف کے مابین ایک درمیانی شعور پیدا ہوا اور وہ نظریات پھر ہندوستانی فلاسفی کے نام سے جانے اور پہچانے جانے لگے۔ مختصراً یہ کہ طلبا یہ جان لیں گے تصوف کے حوالے سے ہندوستانی نظریات کیا ہیں۔

2.3 تصوف اور ہندوستانی فلاسفی/ خیالات

مسلم صوفیاء نے ہندوستانی طرز فکر و خیال اور زندگی کے طریقے اور سنتوں نے اسلام کے توانا عقیدۂ توحید یا وحدانیت اور مساوی اصولوں سے لین دین کیا۔ دونوں ہی خدا کی مخلوق کی دلجوئی میں مذہبی بنیاد پر بھید بھاؤ کیے جانے کے خلاف تھے۔ دونوں ہی سورج، دریا اور پیڑوں کی طرح مذہب اور ذات پوچھے بنا تمام کو روشنی، پانی اور چھاؤں دیے جانے کے آرزو مند تھے۔ اس کے باوجود اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ تصوف اور بھگتی یا ویدک کے مابعد کی دھارمک فکر کا پس منظر الگ الگ ہے۔

بھگتی ایک شخصی خدا کی عبادت کی طرف متوجہ ہے، اس میں جن سنتوں نے شخصی خدا کی پرستش سے انکار کیا ہے انہیں ہندوستانی فلاسفی میں نرگن وادی کہا جاتا ہے، ہندوستانی فکر و خیال کے مطابق بعض نے گرو میں الوہی صفات تلاش کر لی ہیں جبکہ اسلامی تصوف میں شخصی خدا کے لئے اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ لہذا تصوف اور بھگتی یا مابعد ویدک فلسفۂ الہ کو ایک نہیں کہا جاسکتا ہاں فلسفہ الہ یا روحانی فکر اور اسلامی تصوف میں بعض خارجی اوصاف میں کسی حد تک مماثلت ضرور ہے۔ دونوں کو ایک سمجھنے یا ان دونوں لفظوں کے اعتقادی اور مذہبی یا دھارمک پس منظر کو نظر انداز کرنے کے سبب ڈاکٹر رادھا کرشن جیسے عالم فاضل شخص کو بھی مغالطہ ہوا ہے۔

اسلامی تصوف توحید کا علمبردار ہے۔ ہندو دھرم بھی اگرچہ اصلاً توحید ہی کا علمبردار ہے لیکن اس کی فلسفیانہ تعبیرات میں اسلامی تصوف کے برعکس بڑا تنوع ہے۔اس میں دھرم بھی ایک ایسی جامع اصطلاح قرار دی گئی ہے جو انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے تمام شعبوں پر پھیلی ہوئی ہے اور مجموعی حیثیت سے انسانی زندگی کے تقریباً ہر شعبے میں اچھے سے اچھے طریقۂ عمل کا معیار مقرر کرتی ہے۔اس میں کسی جاندار کی تمام تر فطری وصفیں، مذہبی عقائد و اعمال، ویدک رسومات، اخلاقی قدریں، ذات پات، شخصی و عائلی زندگی کے اصول و ضوابط، رفاہ عام، عدم تشدد، نیکی اور فرائض منصبی کے تمام تصورات نیز دیوانی و فوجداری کے قوانین شامل ہیں۔ ”دھرم“ کے معنی و مفہوم اور دائرہ کار کے تعین میں انفرادیت پسندی اور اجتماعیت کے رجحانات میں کشمکش رہی ہے۔ اس تصادم یا کشمکش کو دور کرنے کے لئے زندگی کے چار بڑے اہم مقاصد قرار دیے گئے ہیں۔

“دھرم یعنی اصولوں پر مبنی انفرادی اور اجتماعی زندگی، ارتھ یعنی دولت و طاقت کا حصول، کام یعنی زندگی کی نعمتوں سے تلذذ اور موکش یعنی آواگون اور کرم کے چکر سے نجات، موکش کو زندگی کا اعلی ترین مقصد تسلیم کیا گیا ہے جو اصل ہستی میں خود کو فنا کرکے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔اس مذہب میں یہ اصل ہستی حقیقت مطلقہ ہے، جس کو کائنات میں جاری و ساری مانا گیا ہے۔ اس کے کثرت آرائی عالم کی حقیقت، فریب ادراک (مایا) کے سوا کچھ نہیں ہے اشکال و اسماء بھی اس کے نزدیک اعتبار ہیں، حقیقی نہیں ہیں اور حقیقی وجود کا اطلاق صرف حقیقت حق پر ہوتا ہے جو ہر جگہ اور ہر شے میں ہے“ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ نے ہندو دھرم کی فلسفیانہ اساس کو عام فہم لفظوں میں کچھ اس طرح واضح کیا ہے:

” اپنشدوں نے اصل ہستی حقیقت مطلقہ کو قرار دیا ہے اور اسے برہمہ کیا ہے جس تک عقل و ادراک اور خیال و گمان کی رسائی نہیں۔ اس کا عرفان محدود ذہنی قوت سے نہیں بلکہ مذہبی وجدانی سطح پر ہو سکتا ہے۔ برہمہ ہر قسم کی صفات اور تعینات سے وراء الورا ہے۔وہ موضوع کلی ہے۔ اس کے دو پہلو ہیں۔ موضوع اور معروض۔ ایک روح انسانی اور دوسرا روح کائنات ہے۔پہلے کو آتما اور دوسرے کو برہما کہا گیا ہے۔آتما نہ خواص میں ہے نہ شعور میں بلکہ یہ وہ شعور کلی ہے جو ہر فرد کے شعور میں کار فرما ہے۔ایسے ہی برہما (روح کائنات) کی نوعیت مادی یا وجودی نہیں۔ آتما اور برہما دونوں کا منبع و ماخذ موضوع کلی یعنی برہما ہے۔

چنانچہ عالم صور و ظواہر میں ہر طرف برہما یعنی حقیقت کلی جاری و ساری ہے جسے اپنشدوں نے ان دو مثالوں کی مدد سے سمجھایا ہے۔ ” آہم برہمہ اسمی“ (Ahma) (میں برہمہ ہوں) اور تت توم اسی۔۔۔۔ یعنی ہستی مطلق اور انسان اور کائنات کے درمیان ایک ہی بنیادی رشتہ ہے۔ ان تینوں کا فرق جو ہمیں عالم رنگ و بو میں نظر آتا ہے مخص اعتباری ہے حقیقی نہیں۔ حقیقت ایک ہی ہے جو ہر جگہ اور ہر کہیں موجود ہے۔ سوائے اس کے سب فریب ادراک ہے۔“

اس مشکل/ دھارمک بحث سے ذرا آسان بات کی طرف نکلتے ہیں۔ یہ بات صاف ہے کہ مذہب کی بنیاد اعمال، علم اور عقیدہ پر ہی قائم ہے۔ان تینوں میں سے اگر ایک عنصر کی بھی کمی ہو تو روحانی اور مذہبی فضا پورے طور پر قائم نہیں رہ سکتی۔مذہبی علم تو کچھ خاص دانشوروں اور عالموں کو ہی ملتا ہے ہاں اعمال اور عقیدت ہی مذہب کو رائج رکھتے ہیں۔ہندوستان میں بھگتی تحریک، نرگن واد، پریم مارگ، رام بگھتی، کرشن بھگتی وغیرہ کے سادھو سنتوں، صوفیوں سے قبل ہی بجریانی سدھو اور ناتھ پنتھی فقرا مذہبی رسومات و عبادات کی مخالفت میں آواز بلند کر رہے تھے اور ان کی اس تحریک کو کافی مقبولیت بھی مل چکی تھی۔وہ مذہب کی ظاہری شکل کے قائل نہیں تھے۔

تیرتھ یاترا، اشنان، بت پرستی، مندروں کی زیارت وغیرہ تمام رسومات کو انہوں نے فروعی اور غیر ضروری قرار دے دیا تھا۔صوفیوں کی طرح یہ لوگ بھی ظاہر پرستی کے مخالف تھے اور مذہب کو رسومات و عبادات سے بلند تر خیال کرتے تھے۔دراصل یہ اصل صوفیوں کا ماننا نہیں تھا بلکہ یہ وہ صوفی یا وہ بعد میں ایرانی پر اثر صوفیانہ عناصر کا اثر تھا۔ انہوں نے ویشنو دھرم کے بنائے ہوئے سارے اصول و رسوم ختم کرنے کا مشورہ دیا اس لیے کہ ان لوگوں کے نزدیک انسان کی روح کو صحیح خوشی یا نجات (نروان) مذہبی رسوم اور فرائض کی ظاہری ادائیگی سے حاصل نہیں ہو سکتی بلکہ اپنے باطن کی صفائی اور دل میں معبود حقیقی کو لگانے کے سبب ہی مل سکتی ہے اور اس باطنی صفائی اور لو لگانے کے کئی راستے ہو سکتے ہیں اور ہر کوئی آدمی اس پر چل بھی سکتا ہے۔

ویدک فلسفے کے بعد جس دور کا ذکر ہوا اس کے بعد بھگتی کا فلسفہ اول اول رامانج چاریہ (١٠٧٣) ہی کی تعلیمات سے شروع ہوتا ہے۔ لیکن گجرات کے سوامی مدھو آچاریہ(١٢٥٤-١٣٣٣) اور مشرقی ہند کے جے دیو کے بغیر یہ فلسفہ ہمہ گیر نہ ہو سکتا تھا۔ پندرہویں صدی میں رامانج چاریہ کے چیلوں میں سوامی رامانند ہوئے جنہوں نے ویشنو تعلیمات کے احیا نو کی تحریک نئے سرے کھڑے کردی۔ دوسری جانب ی بلبھ آچاریہ نے کرشن جی کو عوام کا نجات دینے والا قرار دیا اور ان کی تعلیمات اور شخصیت کو نیا روپ دیا۔ اس طرح ویشنوی احیاء کے ساتھ ساتھ کرشن بھگتی اور رام بھگتی کی دو شاخیں وجود میں آگئیں۔ ان شاخوں نے ایشور کی دو صفات ‘حق’ اور ‘انبساط مکمل’ کو ان دو شخصیتوں کے روپ میں ظاہر کیا۔

اس دور کی یہ تحریک ایسے خدا کا تصور پیش کرتی ہے جو انسان کے باوقار دوری اور فاصلہ قائم رکھنے کے بجائے ان میں ہی شامل ہوتا ہے، ان سے محبت کرتا ہے ان کی زندگی کا ایک جزو بن جاتا ہے۔ دراصل بھگتی تحریک مذہب میں زبان سے اقرار اور رسومات عبادت کی ادائیگی سے زیادہ عقیدت و عشق خداوندی پر زور دیتی ہے۔یہ اور بات ہے کہ اس کی شکلیں مختلف ہیں۔ اس طرح بنیادی طور پر بھگتی تحریک دھرم کو عوام سے قریب لانے کی تحریک ہے اس لیے اس کی زبان سنسکرت کے بجائے عام بول چال کی زبان ہے۔

  • اس بھگتی تحریک کی چار شاخیں قائم ہوئیں جن کے فلسفے میں جزوی انفرادیت ہے۔
  • (١) گیا ناشری سلسلہ (غیر مسلم رشی، صوفی نما سلسلہ ہے جیسے نرگن وادی)
  • (٢) پریم مارگی یا صوفیوں کا سلسلہ
  • (٣) رام بھگتی سلسلہ
  • (٤) کرشن بھگتی سلسلہ

ان کو بنیادی طور پر دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ایک وہ لوگ جو معبود حقیقی کا تصور کسی مادی شکل و صورت میں نہیں کرتے اور اسے ایک “نور” قرار دیتے ہیں جس کی کوئی شکل و صورت نہیں۔ ان کے ان نظریات کو ہندوستانی فکر میں نرگن واد کا فلسفہ قرار دیا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس فلسفہ پر اسلامی تعلیمات، صوفیوں اور بجریانی اور ناتھ پنتھیوں کا اثر کافی اہم ہے۔ گیانا شری اور پریم مارگی سلسلے اسی سے تعلق رکھتے ہیں اور کمیر جائسی اور گرو نانک کی تصانیف میں اسی تصور کی جھلکیاں ملتی ہیں۔

نرگن بھگتی کے پس منظر کی تفہیم کے لیے ضروری ہے کہ ویدانت تصوف اور اسلامی تصوف کے وحدت خداوندی کے تصور کو پوری طرح سمجھ لیا جائے۔ اس کے علاوہ بدھ سدھوں اور ہندوستانی پنتھیوں نے جس طرح وحدت الوجود اور تصوف کی ایک مخصوص روایت کو رواج دیا تھا اس کے خاص اثرات بھی یہاں صاف نظر آتے ہیں۔علاوہ ازیں رامانند کے وشنوی خیالات یہاں تک کہ اصطلاحات اور علائم بھی موجود ہیں۔ یہ ناترک یوگیوں سے بھی بہت کچھ میل کھاتی ہیں۔ اس طرح ویدانت، اسلامی اثرات، سدھ اور ناتھ پنتھ اور رامانند کی ویشنوی تعلیمات سے مل کر نرگن واد کا فلسفہ تیار ہوا ہے۔

دوسرا سلسلہ اس گروہ کا ہے جو معبود حقیقی کو کسی نہ کسی مادی پیکر و تجسیم میں دیکھتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ اس کی شکلیں اور نام الگ الگ ہوسکتے ہیں لیکن وہ دراصل اسی ” جلوہ ازل“ کے گوناگوں روپ ہیں۔ اس فلسفے کو ہندی ادب میں سگن واد کا نام دیا جاتا ہے اور ہندی شعراء میں ایشور کے جو روپ ہیں انہیں کا لحاظ کرتے ہوئے انہیں رام بھگتی اور کرشن بھگتی سے تعبیر کیا گیا ہے۔ جہاں تک رام بھگتی اور کرشن بھگتی کی فکری اساس کا سوال ہے تو انہیں جنوبی ہندوستان میں ویشنوی فلسفے کے احیا میں تلاش کیا جانا چاہیے۔ چودھویں صدی میں شمالی ہندوستان پر پوری طرح چھا جانے سے پہلے ویشنوی فلسفہ جنوبی ہندوستان میں مختلف بھگتوں کی مدد سے ترقی کرتا رہا تھا جن میں خاص طور پر رامانج کا نام قابل ذکر ہے۔

شنکراچاریہ نے دنیا کو مایا قرار دیا اور انفرادی روح کو کوئی خاص درجہ نہیں دیا۔ رامانج نے عالم ظاہری کو جسم اور ایشور کو روح قرار دیا۔ انہوں نے فرد کو بھی ایک درجہ دیا حالانکہ وہ اپنی تکمیلیت میں دیگر کئی عناصر کا مرہون منت ہے لیکن پھر بھی فرد بھگتی کے ذریعے حقیقت عظمی سے وصال حاصل کرسکتا ہے۔ دراصل رامانج کا موضوع ایشور اور افراد کا روحانی تعلق ہے اور وہ بھگتی کے راستے اور اس تک پہنچنے کے تمام وسائل کی پوری طرح ضابطہ بندی سے کام لیتے ہیں۔

نرگن واد کا سلسلہ کبیرؔ سے مانا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کبیر کو سوامی رامانند سے ‘رام رام’ کا وظیفہ ملا تھا۔ بعض کا کہنا یہ ہے کہ کبیر ایک صوفی بزرگ شیخ تقی کے مرید تھے۔ بہرحال جو بھی ہو کبیر پر دونوں کا اثر معلوم ہوتا ہے۔ راما نند جی نے خدا کو رام چندر جی کے پیکر میں مجسم کیا تھا یہاں تک کہ رام چندر جی کی پوری روایتی داستان کو ایک نئے رنگ میں اجاگر کیا تھا۔ جبکہ کبیر کے نزدیک رام بھی دوسرے ناموں کی طرح جلوۂ حقیقی کا ایک نام ہے اور یہ جلوۂ حقیقی اگرچہ مختلف نام رکھتا ہے لیکن کسی پیکر یا جسم میں حلول نہیں کرتا۔

اس لیے کبیر کے یہاں رام سے مراد رام چندر جی نہیں بلکہ وہ ایک نور بے نام ہے جس کو انہوں نے کہیں اللہ کہا ہے، کہیں رحمان، کہیں رحیم، کہیں ہری اور کہیں گوند۔ کبیر وحدت کے قائل رہے ہیں اور پیکر و تجسیم سے آزاد خدا کا تصور رکھتے ہیں۔ یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ ان کا یہ تصور اسلام اور ہندو مذہب دونوں سے جداگانہ ہے۔ ہندو مذہب کی بہت ساری تعلیمات پر ان کا ایمان نہیں۔ آواگون یا تناسخ کے وہ سخت مخالف رہے ہیں۔ ذات پات کو بیکار خیال کرتے رہے ہیں۔ تیرتھ یاترا، اشنان اور مورتی پوجا کو دھرم کے جزو نہیں مانتے۔ دوسری طرف ایرانی تصوف سے متاثر صوفیوں کی طرح اسلامی رسوم نماز، روزہ، حج، قربانی اور زکوۃ وغیرہ ان کے نزدیک ایمان کے اجزاء نہیں بلکہ خدا تک وصول کا ذریعہ اور محض عرفان نفس ہیں۔

کبیر کی طرح گرونانک(وفات: ١٥٩٦) بھی نرگن وادی تھے۔ بنیادی طور پر نانک کا پیغام بھی انسانوں کو ایک برادری سمجھنے کا پیغام ہے اور اس کے لیے وہ روحانی یا مذہبی ہم آہنگی کے بہت بڑے علمبردار ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ روحانی ہم آہنگی ایک خدا کی پرستش اور محبت سے حاصل ہو سکتی ہے۔ اس کے نام اور روپ مختلف ہو سکتے ہیں مگر اس کا جلوہ صرف اور صرف ایک ہی ہے اور اس کا پیکر کوئی بھی نہیں ہے۔ گرونانک کی تعلیمات آدی گرنتھ یا گرنتھ صاحب میں ہیں جو سکھوں کی مذہبی کتاب کا درجہ رکھتی ہے۔

تصوف اور ہندوستانی فلاسفی کے متعلق آخر میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ ویدک تو وحدانیت میں اسلامی تصوف سے ملتا جلتا ہے لیکن بعد کی جو تحریکیں وجود میں آئی ہیں ان پر بھی صوفیوں کے اثرات ظاہر ہیں۔عشق و محبت کا جو تصور رشی منیوں، سادھو سنتوں نے اختیار کیا وہ تمام تر تصوف کے زیر اثر تھا۔ خود کو تصویر خیالی کے سپرد کر دینا، میرا بائی کی طرح صرف کرشن جی سے متعلق کردینا۔ وصل و ہجر کے جو تصورات کرشن بھکتوں میں ملتے ہیں وہ ایرانی زیر اثر صوفیوں کے اثر کا نتیجہ ہیں۔

2.4 عمومی جائزہ

تصوف اور ہندوستانی فلاسفی کے زیر اثر اگر ہندوستانی فلاسفی کا جائزہ لیا جائے تو اس طرح اس کا احاطہ کیا جا سکتا ہے کہ ہندو دھرم کی مقدس چار کتابیں یعنی چار وید ہیں۔رگ وید ،یجر وید ، سام وید اور اتھر وید۔ ان ویدوں کے چار اہم حصے ہیں۔ منتر ، براہمن، آرنیک اور اپنشد۔ خدا کی وحدانیت یا تصوف کے حوالے سے جس حصے میں بحث کی جاتی ہے وہ ہے آرنیک اور اپنشد۔ اپنشدوں کی تعلیمات کے مطابق اس کائنات کی تہہ میں ایک روحانی وجود ہے جس سے تمام کائنات پیدا ہوئی ہے۔ اس کو برہمہ کہتے ہیں۔ دنیا کی سب چیزیں اور روحیں اسی کا ظہور ہیں اور وہ سب کا حاکم اور پرورش کرنے والا ہے۔

اس تمام کائنات کو چلانے والا ایک خدا ہے جو خالق ہے اور جس نے بغیر کسی کی مدد کے اس کو پیدا کیا ہے اور چلا رہا ہے۔ اس میں لامحدود طاقتیں موجود ہیں۔ ان میں سے قوت تخلیق کو ” مایا” یا “پرکرتی” کہا گیا ہے۔ اس شکتی سے وہ اپنے آپ کو برہمہ یعنی خالق، وشنو یعنی پرورش اور قائم رکھنے والا اور شیو یعنی فنا کرنے والی کی شکلوں میں ظاہر کرتا ہے۔ اس لئے برہمہ، وشنو اور شیو یہ تین صفتیں برہمہ کی ہیں جو اس نے تین عظیم کام انجام دینے کے لئے اختیار کر رکھی ہیں۔ہندو مذہب کے پیرو برہمہ کو تو آخری اور سب جگہ موجود رہنے والی ہستی تسلیم کرتے ہیں لیکن تین بڑے دیوتا برہمہ، وشنو اور شیو کو بھی اسی طرح مانتے اور ان کی پوجا اور حمد و ثناء کرتے ہیں۔

زمانوں تک اسی فلسفے پر بحث ہوتی رہی پھر گیارہویں صدی سے سولہویں صدی کے درمیان مختلف ایسی تحریکیں وجود میں آئی ہیں جنہوں نے اس فلسفے پر بہت غور و فکر کیا ہے جن میں چند ایک خاص ہیں۔ بھگتی تحریک اور نرگن وادی، پریم وغیرہ۔ بھگتی تحریک میں دو گروہ گذرے ہیں جن کے نظریات ایک دوسرے سے الگ رہے ہیں۔ ایک شنکر اچاریہ کے نظریات کہ انہوں نے برہمہ یا ایشور کو کرشن چندر کے روپ میں دیکھا اور راما نند جی رام چندر جی کے روپ میں دیکھا ہے لیکن ان میں دوسرا گروہ جن میں کبیر، گرو نانک اور جائسی کے نام آتے ہیں انہوں نے معبود حقیقی کو کسی رو پ یا جسم میں نہیں دیکھا بلکہ وہ اس کو ایک “نور” مانتے ہیں اور تجسیم کے قائل نہیں۔ وہ روحانی ہم آہنگی کو ایک ہی خدا کی پرستش میں دیکھتے ہیں جس کے کئی نام ہیں لیکن اس کا وجود ایک نور ہے جو شکل و تجسیم سے پاک ہے۔ ان رشیوں، سنتوں کے اوپر اسلامی تصوف کے اثرات بھی نمایاں ہیں جن کو تفصیل کے ساتھ پڑھ کر جانا جا سکتا ہے۔

2.5 سوالات

  • 1. خدا کا تصور ویدک تعلیمات میں کیا ہے؟
  • 2. رامانند اچاریہ کے خیالات معبود حقیقی کے بارے میں کیا ہیں؟
  • 3. نرگن وادی سنتوں کا تصور معبود حقیقی کیا ہے؟
  • 4. گیارہویں صدی سے سولہویں صدی کے درمیان کے اہم سنتوں کی وضاحت کیجئے۔

2.6 امدادی کتب

  • 1. اردو انسائیکلوپیڈیا جلد سوم (فضل الرحمان)
  • 2. ہندی ادب کی تاریخ ۔۔۔۔محمد حسن
  • 3. اردو غزل اور ہندوستانی ذہن و تہذیب۔۔۔ پروفیسر گوپی چند نارنگ
  • 4. تصوف اور بھگتی۔۔۔۔۔شمیم طارق
ڈاکٹر محمد آصف ملک شعبہ اردو بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری