Mysticism And Science | تصوف اور سائنس

0

تصوف اور سائنس

  • 3.1 تمہید
  • 3.2مقاصد
  • 3.3 تصوف اور سائنس
  • 3.4 عمومی جائزہ
  • 3.5 سوالات
  • 3.6 امدادی کتب

3.1 تمہید

آج سائنس اور ٹیکنالوجی نے اس قدر ترقی کر لی ہے کہ انسان کا مزاج یہ بن چکا ہے کہ ہر چیز کا جب تک مشاہدہ نہ کیا جائے یا ہر چیز کو جب تک اطلاقی اصول و ضوابط کے تحت دیکھ نہ لیا جائے تب تک اس کو ماننا یا اس پر بھروسہ کرنا غیر عقلی سمجھا جاتا ہے۔ایسے دور میں تصوف جو یا تو صرف خالق کی بات کرتا ہے یا جب خلق کی بات کرتا ہے تو بھی فلسفیانہ یا تصوراتی اور خیالات خیالی پیرائے میں، اس صورت میں زمانہ تصوف کو کیوں کر قبول کرسکتا ہے۔

لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ تصوف اور سائنس کے مشترکات پر بات کی جائے کہ آخر وہ کون کون سے عناصر ہیں جو تصوف اور سائنس میں مشترک ہو سکتے ہیں، دونوں کی ہم آہنگی کو اہل علم و ادب تک لایا جائے تاکہ تصوف کی باتوں کو سائنس کی تائید بھی حاصل رہے۔یا ان باتوں کو بھی واضح کیا جائے جو تصوف اور سائنس میں مغائرت رکھتی ہیں۔ اس طرح تصوف اور سائنس کے امتیازات واضح ہو سکیں۔ صوفیانہ تعلیمات اور طریقۂ کار پر بہت سارے لوگ ایمان نہیں رکھتے اگر ان کو سائنسی پیمانے پر سمجھانے کی کوشش کی جائے تو تصوف کے بعض عناصر سمجھ میں آسکتے ہیں۔ جس طرح ذکر اذکار کا باب، اچھی اور بری نظر کی خصوصیات، خالق اور خلق یعنی مخلوق کا روحانی رشتہ۔ جب یہ عناصر سائنسی نقطۂ نظر سے سمجھیں تو تصوف کے عناصر سمجھ میں آ سکتے ہیں۔ اس اکائی میں اسی حوالے سے بات ہوگی۔

3.2 مقاصد

اس سبق کے پڑھنے اور پڑھانے کا مقصد یہ ہے کہ طلبا یہ جان لیں کہ تصوف اور سائنس میں قرب کیا اور اس کے تصورات میں بعد کیا ہے، یا تصوف کے اندر جو بہت سارے ایسے عناصر ہیں جن پر صوفیا یقین رکھتے ہیں کیا وہ عقلی اور سائنسی طور پر بھی مانے جاسکتے ہیں۔ انہیں کے حوالے سے یہاں گفتگو ہوگی تاکہ طلبا اس ساری بحث کو سمجھ سکیں۔

3.3 تصوف اور سائنس

دراصل تصوف کی بنیاد اسلامی عقائد ہیں۔ یعنی یہ ماننا کہ خالق ایک ہے، اس کی عبادت تمام مخلوقات پر واجب ہے، وہی رب ہے اور وہی سزا و جزا کے دن کا مالک ہے۔ اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے، دین فطرت ہے، جو ان تمام احوال و تغیرات پر نظر رکھتا ہے جن مسائل کا تعلق انسان اور کائنات کے باطنی اور خارجی وُجود کے ظہور سے ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ اسلام نے یونانی فلسفے کے گرداب میں انسانوں کو نور علم سے روشن کرتے ہوئے جدید سائنس کی بنیادیں فراہم کی ہیں۔ قرآن کا بنیادی موضوع ”انسان“ ہے، جسے سینکڑوں بار اس امر کی دعوت کی گئی ہے کہ وہ اپنے آس پاس ہونے والے واقعات و حادثات سے باخبر رہنے کے لئے غور و فکر اور تدبر و تفکر سے کام لے اور اپنے خالق کی دی گئی اور عقل و شعور کو بروئے کار لائے تاکہ کائنات کے پوشیدہ راز اس پر آشکار ہوسکیں۔تصوف کی بنیادی تعلیم بھی اسی پر اصرار کرتی ہے۔اہل تصوف اس بات پر زور دیتے ہیں کہ وہ یعنی بندہ اپنے خالق کی معرفت حاصل کرئے اور یہ معرفت ان کو اپنے باطن کو جاننے اور کائنات میں بکھری ہوئی اس مخلوقات پر غور و فکر کرنے سے حاصل ہو گی۔یہ تعلیم انسان کو قرآن نے بھی دی ہے۔ دراصل حقیقی تصوف کا ماخذ و منبع بھی قرآن ہی ہے۔ قرآن میں بندۂ مومن (صوفی) کی بنیادی صفات وشرائط کے ضمن میں جو وصفیں ذکر کی ہیں ان میں آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں تفکر (علم تخلیقات- Cosmology) کو بنیادی اہمیت دی گئی ہے۔

قرآن نے روحانی مومن یا آئیڈیل مسلمان کے اوصاف بیان کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ:
” بے شک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور شب و روز کی گردش میں عقل سلیم والوں کے لئے نشانیاں ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو کھڑے اور بیٹھے اور اپنی کروٹوں پر اللہ کو یاد کرتے رہتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں غور و فکر کرتے رہتے ہیں۔ اے ہمارے رب تو نے یہ (سب کچھ) بے حکمت اور بے تدبیر نہیں بنایا۔ تو سب کو تاہیوں اور مجبوریوں سے پاک ہے ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے۔“

سورۃ بقرہ دوسرے پارے کی ان آیات میں بندۂ مومن (صاحب روحانیت ) کی جو وصفیں بیان کی گئی ہیں، ان میں جہاں کھڑے بیٹھے اور لیٹے ہوئے زندگی کے ہر حال میں اپنے خالق کی یاد اور اس کے حضور حاضری کے تصور کو اجاگر کرنا مطلوب ہے۔ وہیں اس برابر کی دوسری وصفیں بھی بیان کی ہیں کہ بندۂ مومن آسمانوں اور زمین کی خلقت کے باب میں غور و فکر کرے اور یہ جاننے کی کوشش کرے کہ اس وسعت افلاک کا نظام کن اصول و ضوابط کے تحت رواں دواں ہے اور پھر پلٹ کر اپنی بے وقعتی کا جائزہ لے کہ جب وہ اس وسیع کائنات میں اپنے مقام و مرتبہ کا تعین کر لے گا تو خود ہی پکار اٹھے گا:
” اے میرے رب تو ہی میرا مولا ہے اور تو بے عیب ہے۔ حق یہی ہے کہ اس وسعت کائنات کو تیری ہی قوت وُجود بخشے ہوئے ہے اور تو نے یہ جہان بے تدبیر نہیں بنایا۔“

مذکورہ بالا قرآن کی آیت کے پہلے حصہ میں ’خالق‘ اور دوسرے حصے میں ’خلق‘ کی بات کی گئی ہے۔ یعنی پہلے حصے کا تعلق مذہب، تصوف اور روحانی دنیا سے ہے اور دوسرے حصے کا براہ راست سائنس سے تعلق ہے، خاص طور پر علم تخلیقات (Cosmology) سے ہے۔

تصوف، مذہب اور سائنس میں تعلق:

عصر حاضر سائنسی علوم کی معراج کا دور ہے۔ سائنس کو بجا طور پر عصری علم سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ اس لیے دور حاضر میں تصوف اور دین کی صحیح اور نتیجہ خیز اشاعت کا کام جدید سائنسی بنیادوں پر ہی بہتر طور پر کی جا سکتی ہے۔مذہب اور تصوف ”خالق” (Creator) سے بحث کرتا ہے اور سائنس اللہ تعالی کی پیدا کی ہوئی ”خلق” (Creation) سے بحث کرتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ سائنس کا موضوع خلق اور تصوف کا موضوع خالق ہے۔ یہ ایک قرینِ فہم و دانش حقیقت ہے کہ اگر مخلوق پر تدبر و تفکر اور سوچ بچار مثبت اور درست انداز میں کیا جائے تو اس مثبت تحقیق کے کمال کو پہنچنے پر ضرور انسان کو خالق کی معرفت حاصل ہوگی اور وہ بے اختیار پکار اٹھے گا: ”ربنا ما خلقت هذا باطلا“ یعنی اے ہمارے رب تو نے یہ سب کچھ بے حکمت اور بے تدبر نہیں بنایا۔
بندہ مومن کو سائنسی علوم کی ترغیب کے ضمن میں خالق کائنات نے کلام مجید میں ایک اور مقام پر اس طرح ارشاد فرمایاہے:
” ہم عنقریب انہیں کائنات میں اور ان کے اپنے اندر اپنی نشانیاں دکھائیں گے یہاں تک کہ وہ جان لیں گے کہ وہی حق ہے۔“

اس آیت کریمہ میں خالق کائنات فرما رہا ہے کہ ہم انسان کو اس کے وجود کے اندر موجود داخلی نشانیاں (internal signs) بھی دکھائیں گے اور کائنات میں جا بجا بکھری خارجی نشانیاں (external signs) بھی دکھا دیں گے جنہیں دیکھ لینے کے بعد بندہ خود بخود بے تاب ہو کر پکار اٹھے گا کہ حق صرف اللہ ہی ہے جو بہت سارے صوفیا کا یہی نعرہ رہا ہے۔ اب ہم بعض عناصر تصوف کو سائنسی نقطۂ نظر سے دیکھیں گے۔

تصوف میں نگاہوں کی حفاظت اور جدید سائنس

اللہ تعالی نے آنکھیں دی ہیں دیکھنے کے لیے۔ ان کے اندر بند کرنے اور کھولنے کی صلاحیت انسان کے اختیار میں ہے اور یہ اختیار اس لئے دیا کہ جب رب کاحکم ہو آنکھیں کھولو اور جب اس کا حکم ملے آنکھیں بند کرو تو بند کر دو۔میں جہاں چاہوں دیکھو اور جہاں دیکھنے سے روکوں نہ دیکھو۔
تصوف کا اصل ماخذ قرآن اور حدیث ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے ”جو نظروں کی حفاظت کرے گا اللہ تعالی اس کو ایسا ایمان عطا فرمائے گا جس کی حلاوت وہ دل میں محسوس کرے گا۔“ ( یعنی اللہ کے نور کا جلوہ دل میں محسوس کرے گا) تصوف کا یہی مآل ہے۔

ماہرین کی تحقیق کے مطابق نگاہوں کا اثر بالواسطہ دماغ اور ہارمونری سسٹم پر پڑتا ہے۔اس نظام کے متاثر ہونے کی وجہ سے جسم کا تمام نظام متاثر ہو جاتا ہے اور بے شمار بیماریوں اور علل انسان مبتلا ہو جاتا ہے۔ اہل تصوف کا ماننا ہے کہ جب نگاہ غیراللہ سے ہٹ کر صرف اور صرف اپنے معبود حقیقی کی طرف لگ جائے گی تو سالک تمام برائیوں سے محفوظ ہو جائے گا۔ سالک کے دل پر انوار الہی اترنے لگے گے۔

ڈاکٹر نکلسن ڈیوز کا تجربہ :

ڈیوز مشہور روحانیت کا ماہر ہے۔ اپنے تجربات بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ:
” نگاہیں جس جگہ جاتی ہیں وہیں جمتی ہیں پھر ان کا اچھا اور برا اثر اعصاب(Nerves) دماغ (Brain) اور ہارمونز (Harmones) پر پڑتا ہے۔بیوی، بہن اور ماں کے علاوہ کسی عورت کو دیکھنے سے اور خاص طور پر شہوت کی نگاہ سے دیکھنے سے ہارمونری سسٹم کے اندر خرابی میں نے دیکھی ہے۔شاید کوئی دیکھ سکے کیونکہ ان نگاہوں کا اثر زہریلی رطوبت کا باعث بن جاتا ہے اور ہارمونری کلینڈرز ایسی تیز، خلاف جسم زہریلی رطوبت خارج کرتے ہیں جس سے تمام جسم درہم برہم ہو جاتا ہے۔ کوئی انتہائی غریب شخص کسی انتہائی امیر آدمی کو دیکھتا ہے تو اس کے اندر حسد کی وجہ سے ہارمونز کی ایسی رطوبت پیدا ہوتی ہے جس سے اس کا دل اور اعصاب متاثر ہو جاتے ہیں۔ میرا تجربہ ہے کہ ایسی خطرناک پوزیشن سے بچنے کے لئے صرف اور صرف اسلامی تعلیمات کا سہارا لینا پڑے گا۔“

نظر بد اور جدید سائنس:

تصوف میں خاص طور پر نظر کی حفاظت کی تعلیم دی جاتی ہے۔ اہل تصوف کا ماننا ہے کہ نور والی نظر بھی ہوتی ہے اور بری نظر بھی ہوتی ہے۔ جس نظر میں نور یا روشنی ہوتی ہے جس سے دوسرے انسان فیض یاب ہوتا ہے وہ نظر مرشد کی نظر ہوتی ہے۔ جس نظر سے نقصان ہوتا ہے وہ نظر حسد اور فحش کی نظر ہوتی ہے۔ تصوف کا اصل ماخذ حدیث و قرآن ہے لہذا نظر کے جمال و کراہت کو قرآن و حدیث میں بھی بیان کیا ہے۔
” حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھر میں ایک لڑکی دیکھی اس کے چہرے میں سفعہ یعنی زردی دیکھی۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کو دم کراؤ کیوں کہ اس کو نظر لگ گئی ہے۔“
(بخاری و مسلم)

حدیث پاک میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” العین حق“ یعنی بد نظر حق ہے۔
” حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جنوں کے شر اور انسانوں کی نظر لگ جانے سے اللہ تعالی کی پناہ مانگا کرتے تھے۔ یہاں تک معوذتین (سورہ فلق اور سورہ ناس) نازل ہوئی تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کو لے لیا اور ان دونوں کے ماسوا کو ترک کر دیا۔“
(ترمذی ، ابن ماجہ)

بد نظری اور اس کی کارفرمائی نفی الامر میں موجود ہے اور حق تعالی نے بعض آنکھوں میں ایسی خاصیت پیدا فرمائی ہے کہ جب وہ نظر بھر کر کسی چیز کی طرف دیکھتے ہیں تو اس چیز کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اگر کوئی چیز قضا و قدر سے سبقت لے جاتی تو نظر ہوتی۔

بعض انسانی ایسے افراد ہیں جن کی صرف ایک نگاہ انسان، جانور، حتی کہ بے جان چیز کو تباہ کرکے رکھ دیتی ہے اور بعض ایسی مومن و صوفیا کی نگاہیں ہوتی ہیں جو کہ برے سے برے انسان کو نیک اور صوفی بنا دیتی ہیں۔ایسی صورتحال میں اہل تصوف قرآن اور ان آیات کا پڑھنا نفع بخش بتاتے ہیں۔ کیا جدید سائنس نظربد کی قائل ہے؟ اور سائنس نے اس ضمن میں کیا انکشافات کیے ہیں؟
سٹیفن گولن کی تیز دھار آنکھیں:
فرینکفرٹ کا 21سالہ جوان عجیب و غریب صلاحیتوں کا مالک رہا ہے۔ اس کی آنکھوں میں پراسراریت پائی جاتی ہے۔سائنسدان اس تحقیق میں مشغول ہیں کہ اس کی ان صلاحیتوں کو مثبت انداز میں استعمال کیا جائے۔۔۔۔اسٹیفن کی آنکھ سے غیر مرئی لہریں نکل کر جس سے بھی ٹکراتی ہیں وہ چیز ختم ہو جاتی ہے۔

اسٹیفن نے ایک بند دروازے کو صرف کچھ دیر دیکھا اور پھر دروازہ ٹکڑے ٹکڑے ہو کر چور چور ہو گیا۔ اس طرح اس نے ایک مضبوط ستون کو کچھ دیر تیز نگاہوں سے دیکھا تو اس کے اندر دراڑیں پڑ گئیں۔کہا جاتا ہے کہ اگر وہ اس کو مزید دیکھتا تو ستون گر پڑتا۔
یہ تو تھا ایک نوجوان کی آنکھوں کا خاصہ جس کی آنکھیں کائنات کے تمام انسانوں کی آنکھوں سے پورے طور پر منفرد تھیں۔ ان آنکھوں کا کیا خاصہ تھا؟ یہ اتنی تیز اور گرم کیوں تھیں؟ پیرا سائیکالوجی کی رپورٹ ملاحظہ ہو:

پیراسائکالوجسٹ کی تحقیق (Research of parapsychology)

نظر نہ آنے والے علوم کی تحقیق کا نام پیرا سائیکالوجی ہے۔ ماہرین کے مطابق دراصل ہر انسان کی آنکھ سے غیر مرئی لہریں نکلتی ہیں۔ جن میں ایموشنل انرجی(Emotional energy) کی بجلی بھری ہوئی ہوتی ہے۔ یہ بجلی جلدی مسامات کے ذریعے جسم میں جذب ہو کر جسم کی تعمیر یا تنزلی کا باعث بنتی ہے۔

اگر ایموشنل انرجی کی بجلی یا لہریں مثبت ہوں تو اس سے انسان کو نفع پہنچتا ہے اور اگر یہ لہریں منفی ہوں تو مسلسل نقصان ہوتا چلا جاتا ہے۔ دراصل بدنظر شخص کی آنکھوں سے نکلنے والی لہریں منفی ہوتی ہیں اور ان کے اندر اتنی قوت ہوتی ہے کہ وہ جسم کے نظام کو درہم برہم کر کے رکھ دیتی ہیں۔ایک بد نظر آدمی نے حسین چہرے کو دیکھ کر اپنی غیر مرئی لہریں چھوڑیں تو دوسرے شخص کا چہرہ سیاہ ہوگیا تو اس بدنظری کی لہروں نے اس کے خون میں میلانین (Melanin) کو زیادہ کر دیا جس سے جلد کی رنگت سیاہ ہوگئی۔ مختصراً نتیجہ یہ نکلا کہ صوفیا کے پاس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ تو فرمان پہنچا کہ نظر برحق ہے بالکل صحیح ہے اور اس نظر بد کا رد قرآن ہے۔ خاص طور پر معوذتین (سورہ فلق اور سورہ ناس) منفی لہروں کا رد ہیں۔ جو پیرا سائیکالوجی کے مطابق سائنسی اصولوں کی روشنی میں درست ثابت ہوا ہے۔

گالی اور جدید سائنس:

اہل تصوف اور اسلام اس بات کے سخت مخالف ہیں کہ کسی دوسرے شخص کو برا بھلا، گالی گلوچ یا برے ناموں سے پکارا جائے۔ بلکہ ہر ایک شخص کے لیے اچھے لفظ ، عزت اور احترام سے کام لینا اہل تصوف کا شیوہ ہے۔سالک کے لئے ضروری ہے کہ وہ مخلوق خدا کو کسی طرح حقیر یا برا نہ جانے۔اسلام نے بھی جگہ جگہ گالی اور دشنام سے منع فرمایا ہے جو درحقیقت حقیقی تصوف کی بنیاد ہے۔ ہم یہاں پر گالی کی سائنسی توجیہات پر غور کرتے ہیں۔

پیرا سائیکالوجی کی تحقیق (Research of parapsychology)

یورپ کا ایک مشہور دانشور لیڈ بیٹر اپنی کتاب “the master’s and Path ” میں لکھتا ہے کہ: ”ہر لفظ اتھپر (عالم مالکوت) میں ایک خاص شکل اختیار کر لیتا ہے۔ مثلاً لفظ نفرت اس قدر بھیانک تصور میں بدل جاتا ہے کہ ایک مرتبہ میں نے یہ صورت دیکھ لی اور اس کے بعد مجھے یہ لفظ استعمال کرنے کی کبھی جرأت نہ ہوئی۔ اس منظر سے مجھے انتہائی کوفت ہوئی تھی۔“

ہر لفظ ایک یونٹ یا ایٹم ہے جسے اندرونی جذبات کی بجلیاں برقاتی ہیں اور اس کے اثرات اس عالم خاکی اور عالمی لطیف (کاسمک یا آسٹرل ورلڈ) دونوں میں نمودار ہوتے ہیں۔

ایک ہلکی سی مثال گالی ہے۔ گالی کسی تلوار یا توپ کا نام نہیں بلکہ یہ چند الفاظ کا مجموعہ ہے لیکن منہ سے نکلتے ہی مخاطب کے تن بدن میں آگ لگا دیتی ہے۔ یہ آگ کہاں سے آتی ہے الفاظ سے مجموعہ سے اور یہ الفاظ میں آگ اس سینے اور دل میں ہوتی ہے جس سے گالی نکلتی ہے۔ یہ آگ گالی کے ذریعے دوسرے کے اندر منتقل ہو جاتی ہے۔
لیڈ بیٹر کہتا ہے کہ میں آپ کو کہوں گا کہ کبھی گالی نہ دیں۔ یہ آپ کی صورت کو مسخ کر دیتی ہے۔

اہل تصوف و اسلام نے جس چیز سے منع کیا ہے ماڈرن سائنس نے اس کو تحقیق کے بعد منع کیا ہے۔اسی لئے کہا جاتا ہے کہ گالی سے نفرت پھیلتی ہے۔ دراصل گالی منفی شعاعوں کی طاقت ہے۔ ظاہر ہے وہ منفی اثرات ہی پیدا کرے گی۔ اسی طرح مثبت بات یا مثبت شعاعوں والے الفاظ کا بیان کرنا، نوری شعاعوں کے پھیلنے کا سبب ہے۔ اسی لیے اہل تصوف ذکر خدا کا ورد کرتے ہیں کیونکہ اس ذکر سے مثبت اور نوری شعاعیں نکلتی ہیں جس سے ماحول پرجمال اور صحت مند ہو جاتا ہے۔

مغربی ماہرین کی روحانی تحقیقات:

اورا (Aura)
مغربی صوفیوں کا ماننا ہے کہ انسان کے جسم سے مختلف رنگ کی غیر مرئی شعائیں نکلتی ہیں (جن کو مشرق اہل تصوف نور کہتے ہیں) جو جسم کے ارد گرد ایک ہالہ سا بنا دیتی ہیں۔ یہ شعاعیں ہر آدمی خارج کرتا ہے خواہ وہ نیک ہو یا بد۔ فرق یہ ہے کہ نیک وبد کی شعاعوں کا رنگ حسب کردار مختلف ہوا کرتا ہے۔ موت سے عین پہلے یہ اور نیلگوں مائل بہ سیاہی ہو جاتا ہے۔ ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ ہر انسان اپنے اعمال و کردار کے مطابق ایک ماحول یا Atmosphere اپنے اردگرد بنا لیتا ہے۔ بدکار کا ماحول دیوار کی طرح سخت ہو جاتا ہے جس سے نہ کوئی فریاد یا دعا باہر جاسکتی ہے اور نہ کاسمک ورلڈ کے عمدہ اثرات اندر آ سکتے ہیں۔ایسا آدمی پوشیدہ طاقتوں کی امداد سے محروم ہوجاتا ہے۔ ممکن ہے کہ قرآن حکیم کے ”’حجاب’ غشاوہ ( پردہ ) ستر (دیوار ) اور غلف (غلاف) سے مراد یہی ماحول ہو۔“ ڈاکٹر کرنگٹن کے خیال کے مطابق:
Aura is an invisible magnetic radiation from the human body which either attracts or repels”
یعنی اورا وہ غیر مرئی مقناطیسی روشنی ہے جو انسانی جسم سے خارج ہوتی ہے۔ یہ یا تو دوسروں کو اپنی طرف کھینچتی ہے اور یا پرے دھکیل دیتی ہے۔

اس قسم کی غیر معیاری شعاعوں سے انکار نہیں کیا جاسکتا کیونکہ بعض افراد کی طرف کھینچا اور بعض افراد سے دور بھاگنا ہمارا روزانہ کا تجربہ ہے۔ یہ شاید جسم خاکی اور جسم لطیف دونوں سے خارج ہوتی ہیں۔ لوگ پرسنلٹی یعنی جسم لطیف کی شعاعوں سے دنیا کو کھینچتے ہیں جیسے اھل ایمان و تصوف اور دنیا عقیدت، ایمان اور تنظیم کے تحائف لے کر ان کے یہاں جاتی ہے۔ دوسری طرف جسمانی شعاعیں بعض سفلی جذبات میں تو ہیجان پیدا کر سکتی ہیں (جیسے بد لوگ) لیکن اس سے زیادہ کچھ نہیں کر سکتی ہیں۔

اس طرح اس سبق میں ہم نے تصوف اور سائنسی مسائل کے مشترکات کا جائزہ لیا ہے اور یہ ثابت ہوا کہ اہل تصوف جن کو روحانیت کا نام دیتے ہیں سائنسی اصول وضوابط کے تحت انھیں کس طرح ثابت کیا جا سکتا ہے۔ لہذا سائنس اور تصوف کے تمام مسائل میں مغائرت نہیں ہے بلکہ بعض مسائل میں اتحاد بھی ہے۔

3.4 عمومی جائزہ

تصوف اور سائنس کا موضوع خاصا دلچسپ اور مشکل ہے۔ بعض لوگوں کے خیال میں یہ ہے کہ تصوف اور سائنس میں مغائرت ہے یا ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ تصوف اور سائنس کے مسائل میں نہ تو کلی طور پر اتحاد ہے اور نہ ہی کلی طور پر مغائرت ہے اس لیے کہ تصوف میں خالق کے وجود اور اس سے روحانی تعلق سے بحث کی جاتی ہے جبکہ سائنس میں خالق سے نہیں بلکہ اس کی ‘خلق’ یعنی مخلوق کے وجود اور اس کی خصوصیات سے بحث کی جاتی ہے۔

لیکن تصوف اور سائنس میں مشترک یہ ہے کہ ‘خلق’ سے سائنس بھی بحث کرتی ہے اور تصوف بھی۔ تصوف جہاں خالق کی معرفت کی بات کرتا ہے وہیں وہ خالق کی مخلوق یعنی خلق کے متعلق بھی بات کرتا ہے کہ خدا کی بنائی ہوئی چیزوں کی پہچان ضروری ہے کیونکہ اس نے دن رات، صبح و شام دنیا کی جو دیگر اشیا پیدا فرمائی ہیں ان میں جو تغیرات پیدا ہوتے ہیں یہ کسی کے وجود پر دلالت کرتے ہیں اور وہ وجود خدا تعالی کی ذات ہے جو ہر چیز کا خالق ہے۔یعنی تصوف انسان کی ذات سے لے کر تمام موجودات کی معرفت کی بھی بات کرتا ہے۔ اہل تصوف کا ماننا ہے کہ مخلوقات کی معرفت سے خالق کی معرفت حاصل ہوتی ہے۔

اس طرح تصوف اور سائنس کی تحقیق ‘خلق’ پر متفق ہو جاتی ہے۔ ان دونوں کا ‘خلق’ پر بحث کرنا بعض اتحادی عناصر کو جنم دیتا ہے۔جیسے نیک اور بد کردار اور اعمال کا مآل و انجام۔ پیرا سائیکالوجی جس طرح غیر مرئی شعاعوں پر بحث کرتی ہے تو تصوف نیک اور نیکوں کی محفل اور شخصیت سے نکلنے والی غیر مرئی شعاعوں کو نور یا شیطانی شعاعوں کا نام دیتا ہے۔اچھے اور برے ناموں سے نکلنے والی غیر مرئی شعاعوں پر دونوں متحد نظر آتے ہیں، اچھی اور بری نگاہ سے نکلنے والی غیر مرئی شعاعوں کے باب میں متفق نظر آتے ہیں، اچھے الفاظ کی غیر مرئی شعاعوں اور ذکراذکار کے وردوں کی مثبت شعاعوں میں متفق ہیں۔ اس طرح بہت سارے ایسے مسائل ہیں جن میں سائنس اور تصوف میں قرب نظر آتا ہے جن کی تفصیلی بحث ماسبق میں گزری ہے۔

3.5 سوالات

  • 1. تصوف اور سائنس میں مشترک کیا ہے؟
  • 2. الفاظ میں نکلنے والی غیر مرئی شعاعوں کے متعلق سائنس کا کیا خیال ہے؟
  • 3. تصوف کی اصطلاح میں غیر مرئی شعاعوں کے لئے کون سے الفاظ برتے جاتے ہیں؟
  • 4. اورا اور کاسمک ماحول کے بارے میں سائنس کا کیا تصور ہے؟

3.6 امدادی کتب

  • 1. تاریخ تصوف۔۔۔۔پروفیسر یوسف سلیم چشتی
  • 2. سنت نبوی اور جدید سائنس۔۔۔ حکیم محمد طارق محمود چغتائی
  • 3. اسلامی نظام طہارت اور جدید سائنس۔۔۔ اختر سعید احمد سعیدی
  • 4. اسلام اور جدید سائنس ۔۔۔۔ڈاکٹر محمد طاہرالقادری
  • 5. The master’s and the path ….Padri Laid Better
از تحریر ڈاکٹر محمد آصف ملک اسسٹنٹ پروفیسر بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری جموں و کشمیر