افسانہ گاؤں کی لاج کا خلاصہ، سوالات و جوابات

0

افسانہ گاؤں کی لاج کا خلاصہ:

گاؤں کی لاج علی عباس حسینی کا افسانہ ہے۔جس کی کہانی ایک گاؤں میں رہنے والے دو راجاؤں خان صاحب اور رائے صاحب کے گرد گھومتی ہے۔لکھن پور کے ایک گاؤں میں یہ دونوں نواب رہتے ہیں مگر دونوں کے ایک دوسرے سے اختلافات بہت زیادہ ہیں۔ان کے درمیان آئے روز زمین کے کسی معاملے کو لے کر کوئی نہ کوئی جھگڑا جاری رہتا تھا۔

دونوں کے درمیان رنجش کی ایک وجہ ایک مہتو گڑھیا بھی تھی جو بہت فائدہ مند تھی۔ دونوں کے درمیان اس کی وجہ سے اختلاف بڑھے اور بات مقدمہ تک جا پہنچی۔ چونکہ اس کے اصل مالک خان صاحب تھے اور رائے صاحب اس پر قابض تھے اس لیے مقدمے کا فیصلہ خان صاحب کے حق میں ہوگیا۔یوں رائے صاحب اب اس موقع کی تلاش میں رہتے کہ وہ خان صاحب کو نیچا دکھا سکیں۔

خان صاحب کی بیٹی کی شادی تھی جس پر رائے صاحب کو چھوڑ کر پورا گاؤں مدعو تھا۔مگر عین موقع پر ان کی بیٹی کی بارات دروازے سے پلٹ گئی بارات واپس جانے کی وجہ حق مہر کی رقم تھی۔خان صاحب کے ہاں ہمیشہ سے حق مہر کی رقم پچپن ہزار کا دستور تھا جبکہ باراتیوں کی ضد تھی کہ وہ پانچ سو ایک روپیہ سے زاہد رقم نہیں دیں گے۔یہی بات بارات کی واپسی کا سبب بنی۔

رائے صاحب کو جب یہ بات پتا چلی تو وہ خان صاحب کی اس بے عزتی پر خوش ہونے کی بجائے پریشان ہوگئے کیونکہ یہ معاملہ گاؤں کی لاج کا تھا ان کے لئے گاؤں کی سب بیٹیاں برابر تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ رائے صاحب فوراً باراتیوں کے پاس پہنچے اور انھیں مجبور کیا کہ وہ واپس پلٹیں اور نکاح کریں۔ ان کا ایسا کرنا خان صاحب کے لئے بہت بڑی بات ثابت ہوئی اور دونوں کے درمیان اتنے عرصے کی لڑائی ختم ہوگئی اور دونوں میں صلح ہوگئی۔یوں رائے صاحب نے نہ صرف گاؤں کی لاج رکھ لی بلکہ دوستی کے ایک نئے باب کی بھی بنیاد بھی ڈالی۔

سوالات:

سوال نمبر 01: بدیسی راج نے امراؤ سنگھ اور خان صاحب کو کس خطاب سے نوازا تھا؟

امراؤ سنگھ کو انگریزوں نے رائے صاحب جبکہ دلدار خان کو خان صاحب کے خطاب سے نوازا۔

سوال نمبر 02: رائے صاحب اور خان صاحب میں رنجش کیوں تھی؟

ان دونوں کی رنجش کی وجہ ایک مہتوگڑھیا تھی جس پر ان کا جھگڑا ہوگیا۔

سوال نمبر 03: رائے صاحب مہتو گڑھیا کا مقدمہ کیوں ہار گئے؟

کیونکہ اس مہتو گڑھیا کے اصل مالک خان صاحب تھے جبکہ اس پر رائے صاحب قابض تھے۔کیونکہ کاغذات کے مطابق یہ خان صاحب کی ملکیت تھی اسی وجہ سے رائے صاحب مقدمہ ہار گئے۔

سوال نمبر 04: ہمت رائے نے رائے صاحب کو کیا خبر سنائی؟

ہمت نے رائے صاحب کو خبر سنائی کہ خان صاحب کے دروازے سے ان کی بیٹی کی بارات واپس پلٹ گئی ہے۔

سوال نمبر 05: بارات کیوں واپس جا رہی تھی؟

بارات واپس جانے کی وجہ حق مہر کی رقم تھی۔خان صاحب کے ہاں ہمیشہ سے حق مہر کی رقم پچپن ہزار کا دستور تھا جبکہ باراتیوں کی ضد تھی کہ وہ پانچ سو ایک روپیہ سے زاہد رقم نہیں دیں گے۔یہی بات بارات کی واپسی کا سبب بنی۔

سوال نمبر 06: اس کہانی میں رائے صاحب نے کیا کردار ادا کیا؟

رائے صاحب ،خان صاحب کی بیٹی کی بارات کو واپس لے گئے اور انھیں نکاح کرنے پر مجبور کیا ایسا کر کے انھوں نے اپنے گاؤں کی لاج رکھی۔

زبان و قواعد:

نیچے لکھے ہوئے جملوں کی وضاحت کیجئے۔

کہتے ہیں ایک میان میں دو تلوار اور ایک مملکت میں دو سلطان نہیں رہتے لیکن لکھن پور میں رائے صاحب اور خان صاحب دونوں رہتے تھے۔

ایک میان کے اندر ہمیشہ سے ایک ہی تلوار سماتی ہے بلکہ اسی طرح ہر مملکت کا ایک ہی بادشاہ یا سلطان ہوا کرتا ہے مگر لکھن پور ایک ایسا گاؤں تھا جہاں کی سلطنت کا راجہ یا بادشاہ ایک نہیں بلکہ دو تھے۔ رائے صاحب اور خان صاحب دونوں مرتبے میں ایک برابر تھے مگر وہ سلطنت پر اکیلے راج نہ کر رہے تھے۔

وہ خان صاحب کی لڑکی ہوکہ میری یا غریب نتھو کی، وہ گاؤں بھر کی بیٹی ہے۔

گاؤں کی تمام لڑکیاں اور ہر امیر، غریب کی بیٹیاں برابر ہوتی ہیں۔خواہ وہ گاؤں کے خان صاحب کی بیٹی ہو یا وہاں کے ایک درمیانے طبقے کے انسان کی بیٹی ہو یا پھر ایک غریب انسان نتھو کی بیٹی ہو وہ گاؤں بھر کی بیٹی کھلائے گی۔

ہم سب چھوٹے آدمی ہیں۔ ہماری تحصیلیں چھوٹی ہیں اور ہمارا پیمانہ صبر بھی چھوٹا ہے۔

یہ سب چھوٹے آدمی ہیں یعنی اگر ان کی سلطنت وسیع کی بجائے چھوٹی ہے تو ان کا ظرف بھی چھوٹا ہی ہے یہی وجہ ہے کہ ان کے صبر کا پیمانہ جلد لبریز ہو جاتا ہے۔

عملی کام:

نیچے لکھے ہوئے محاوروں کو اپنے جملوں میں استعمال کیجیے۔

مونچھ اونچی رکھنا علی کو ہمیشہ یہ فکر دامن گیر رہتی ہے کہ محلے میں اس کی ناک اور مونچھ اونچی رہے۔
ناک کٹنا بیٹی کی بارات کی واپسی خان صاحب کے ناک کٹنے کا سبب بنی۔
فتنا کھڑا ہونا موجودہ دور میں آئے روز کوئی نیا فتنا کھڑا ہو جاتا ہے۔
آؤ بھگت کرنا راجہ صاحب نے اپنے مہمانوں کی خوب آؤ بھگت کی۔
آنتیں قل ھو اللہ پڑھنا مسلسل دو دن کی بھوک پیاس کے بعد دھرنا کے شرکا کی آنتیں قل ھو اللہ پڑھنے لگی۔
بغلیں بجانا اچھے نتائج کی خبر سن کر تمام طالب علم بغلیں بجانے لگے۔
سنا ٹے میں آنا قریبی دوست کی وفات کی خبر سن کر احمد سناٹے میں آگیا۔
خاک میں مل جانا فوج کی جوابی کارروائی سے دشمنوں کا غرور خاک میں مل گیا۔
مونچھوں پر تاؤ دینا راجہ صاحب نے مونچھوں پر تاؤ دیتے ہوئے مقدمے کا فیصلہ سنایا۔
چھٹی کا دودھ یادآنا پولیس نے ڈاکوؤں کی بھر پور مرمت کرکے انھیں چھٹی کا دودھ یاد دلایا۔
آگ بھڑکانا عالیہ ہمیشہ دو دوستوں کے درمیان آگ بھڑکانے کا کام کرتی ہے
حق نمک ادا کرنا اس نے اپنے مالک سے وفاداری کا ثبوت دے کر حق نمک ادا کر دیا۔