انشائیہ دعوت کا خلاصہ، سوالات و جوابات

0

انشائیہ دعوت کا خلاصہ:

دعوت رشید احمد صدیقی کا انشائیہ ہے۔وہ لکھتے ہیں کہ جس طرح یہ کہاوت مشہور ہے کہ ” مجھے میرے دوستوں سے بچاؤ” اسی طرح ایک اور کہاوت ہونی چاہیے کہ “مجھے دعوتوں سے بچاؤ” یہ دعوت ایک ایسا عمل ہے کہ خواہ موقع کوئی بھی ہو آپ کو دعوت نامہ موصول ہو گا ہی۔ یہ دعوت نامہ آپ کو کسی تہوار کے لئے بھی آ جاتا ہے یا کسی تقریب کے لئے بھی۔ کوئی دنیا میں آ تا ہے تو بھی دعوت کا موقع پیدا ہو جاتا ہے اور اگر کوئی فوت ہوتا ہے تو بھی دعوت نامہ آ دھمکتا ہے۔

ان دعوتوں میں جانا بھی کسی مجبوری سے کم نہیں ہے کیونکہ اگر ہم نہیں جاتے تو ہمیں مغرور اور نہ جانے کن کن القابات سے نوازا جاتا ہے اور اگر چلے جائیں تو وہاں کی مرغن غذاؤں کو کھانے کی وجہ سے معدہ بہت متاثر ہوتا ہے اور انسان کی اپنی صحت بگڑتی ہے۔ ان غذاؤں کو کھانا بھی مجبوری ہوتی ہے کہ اکثر میزبان زبردستی آپ کو کھلاتے ہیں۔

مجھے بھی ایسی دعوتوں میں جانے کا اتفاق ہوا۔ پہلی دعوت ایک ایسے صاحب کے ہاں تھی جو کپڑے بنتے تھے۔ مئی کا مہینہ دوپہر کا وقت تھا اور ساری بستی ان کے ہاں مدعو تھی۔ مکان اور میدان کا کوئی ایسا حصہ نہ تھا جہاں کھانے والے موجود نہ ہوں۔ جس کو جہاں جگہ ملی وہیں بیٹھ گیا۔ میں ایک نیم کی جڑ پر بیٹھا تو ہاتھ میں گرم تندوری روٹی اور مٹی کے برتن میں سالن دے دیا گیا۔ سامنے ایک کتے صاحب بھی موجود تھے۔پاس سے گزرتے ایک بوڑھے کے ساتھ موجود بچوں نے اس کتے کو ہڈی ڈالی تو قریب میں موجود ایک اور کتا بھی نمودار ہوا اور دونوں ایک دوسرے کے مقابل آگئے۔

کتوں کی ان لڑائی میں بوڑھے کے ساتھ موجود اس کا پوتا اور نانی میری پلیٹ میں آ گرے۔یہاں موجود سارے کھانے والے بھاگ کھڑے ہوئے۔معزز اور دولت مند کے ہاں دعوت کا منظر یوں تھا کہ ڈرائنگ روم میں پہنچے تو دن کو تارے نظر آنے لگے۔ ایسی خوبصورت، قیمتی،پرتکلف اور نایاب چیزیں ایک ساتھ دیکھنی کب نصیب ہوتی ہیں۔البتہ ان کا تذکرہ میلاد میں سنا تھا یا طلسم ہوش ربا میں پڑھا تھا۔

مالک مکان سے زیادہ پر شوکت نوکر نوکرانیاں تھیں۔کس کی تعظیم کیجیئے اور کس کی تعظیم لیجئے۔ یہی نہیں کھانے میں اتنے زیادہ لوازمات موجود تھے کہ سمجھ نہ آئے کہ کیا کھایا جائے اور کیا نہیں اور اس کھانے کو لانے کا انداز ایسا تھا کہ اس کو کھانے کی بجائے اس کی تعظیم کرنے کو جی چاہنے لگا۔

قورمہ ایسی ڈش ہے جو ہر دعوت میں پائی جاتی ہے اور ہر گھر میں بھی با آسانی پکتی ہے۔ مگر رئیسوں کے ہاں قورمے کو ایسی خاص شے بنا کر پیش کیا جاتا ہے کہ ان کا کہنا ہوتا ہے کہ ایسا حلوئی دہلی بھر میں نہ ملے گا بوٹی کی خستگی پر غور کیجئے وغیرہ اور قورمہ کھلا کھلا کر قورمے سے نفرت کروا دیتے ہیں۔ انہی دعوتوں میں کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں اس بد تمیزی سے کھانا کھاتے ہیں کہ گویا منھ میں جوتیاں چٹخا رہے ہوں۔ کچھ ساری انگلیاں سالن میں ڈبو دیتے ہیں جبکہ کچھ ڈونگے میں سے ہاتھ سے بوٹیاں نکالنے لگ جاتے ہیں۔ کچھ ایسے ہوتے ہیں جو بد حواس ہو کر بہت زیادہ کھانا پلیٹ میں نکال تو لیتے ہیں مگر پھر اس کا تھوڑا بھی نہیں کھا پاتے ہیں۔ یہ لوگ ڈکار ایسے لیتے ہیں کہ دستر خواں کی بجائے اپنے بستر پر موجود ہوں۔

سوالات:

سوال نمبر 01: دعوت میں جانے اور نہ جانے دونوں سے متعلق مصنف نے کیا خیال ظاہر کیا ہے؟

مصنف کا کہنا ہے کہ اگر دعوت میں جایا جائے تو معدہ اور عاقبت دونوں خراب ہوتے ہیں اور اگر نہ جایا جائے تو غرور یا بے توجہی کے طعنے ملتے ہیں۔

سوال نمبر 02:مصنف نے پہلی دعوت کا کیا نقشہ کھینچا ہے؟

پہلی دعوت ایک ایسے صاحب کے ہاں تھی جو کپڑے بنتے تھے۔ مئی کا مہینہ دوپہر کا وقت تھا اور ساری بستی ان کے ہاں مدعو تھی۔ مکان اور میدان کا کوئی ایسا حصہ نہ تھا جہاں کھانے والے موجود نہ ہوں۔ جس کو جہاں جگہ ملی وہیں بیٹھ گیا۔ میں ایک نیم کی جڑ پر بیٹھا تو ہاتھ میں گرم تندوری روٹی اور مٹی کے برتن میں سالن دے دیا گیا۔ سامنے ایک کتے صاحب بھی موجود تھے۔پاس سے گزرتے ایک بوڑھے کے ساتھ موجود بچوں نے اس کتے کو ہڈی دالی تو قریب میں موجود ایک اور کتا بھی نمودار ہوا اور دونوں ایک دوسرے کے مقابل آگئے۔ کتوں کی ان لڑائی میں بوڑھے کے ساتھ موجود اس کا پوتا اور ناتی میری پلیٹ میں آ گرے۔یہاں موجود سارے کھانے والے بھاگ کھڑے ہوئے۔

سوال نمبر 03:مصنف نے ایک معزز اور دولت مند ترین صاحب کی دعوت سے متعلق کن خیالات کا اظہار کیا ہے؟

معزز اور دولت مند کے ہاں دعوت کا منظر یوں تھا کہ ڈرائنگ روم میں پہنچے تو دن کو تارے نظر آنے لگے۔ ایسی خوبصورت، قیمتی،پرتکلف اور نایاب چیزیں ایک ساتھ دیکھنی کب نصیب ہوتی ہیں۔البتہ ان کا تذکرہ میلاد میں سنا تھا یا طلسم ہوش ربا میں پڑھا تھا۔مالک مکان سے زیادہ پر شوکت نوکر نوکرانیاں تھیں۔کس کی تعظیم کیجیئے اور کس کی تعظیم لیجئے یہی نہیں کھانے میں اتنے زیادہ لوازمات موجود تھے کہ سمجھ نہ آئے کہ کیا کھایا جائے اور کیا نہیں اور اس کھانے کو لانے کا انداز ایسا تھا کہ اس کو کھانے کی بجائے اس کی تعظیم کرنے کو جی چاہنے لگا۔

سوال نمبر 04:”قورمہ” سے متعلق مصنف نے کیا مزاح پیدا کیا ہے؟

مصنف نے لکھا ہے کہ قورمہ ایسی ڈش ہے جو ہر دعوت میں پائی جاتی ہے اور ہر گھر میں بھی باآسانی پکتی ہے مگر رئیسوں کے ہاں قورمے کو ایسی خاص شے بنا کر پیش کیا جاتا ہے کہ ان کا کہنا ہوتا ہے کہ ایسا حلوئی دہلی بھر میں نہ ملے گا بوٹی کی خستگی پر غور کیجئے وغیرہ اور قورمہ کھلا کھلا کر قورمے سے نفرت کروا دیتے ہیں۔

سوال نمبر 05:مصنف نے دعوت میں بدتمیزی کے ساتھ کھانا کھانے کی کیا تصویر پیش کی ہے؟

مصنف نے یہ منظر یوں بیان کیا ہے کہ کچھ لوگ اس بد تمیزی سے کھانا کھاتے ہیں کہ گویا منھ میں جوتیاں چٹخا رہے ہوں۔ کچھ ساری انگلیاں سالن میں ڈبو دیتے ہیں جبکہ کچھ ڈونگے میں سے ہاتھ سے بوٹیاں نکالنے لگ جاتے ہیں۔ کچھ ایسے ہوتے ہیں جو بد حواس ہو کر بہت زیادہ کھانا پلیٹ میں نکال تو لیتے ہیں مگر پھر اس کا تھوڑا بھی نہیں کھا پاتے ہیں۔

زبان و قواعد:

مندرجہ ذیل جملوں کی وضاحت کیجئے۔

کوئی تہوار ہو،تقریب ہو،کوئی مہمان آیا ہو، کوئی چل بسا ہو، رقعہ دعوت بحر حال موجود ہے۔دعوت میں نہ جائیے تو غروریا بے توجہی کی شکایت، جائیے تو معدہ اور عاقبت دونوں خراب۔

مصنف نے لکھا ہے کہ دعوت ایک ایسا عمل ہے کہ خواہ موقع کوئی بھی ہو آپ کو دعوت نامہ موصول ہو گا ہی۔ یہ دعوت نامہ آپ کو کسی تہوار کے لئے بھی آ جاتا ہے یا کسی تقریب کے لئے بھی کوئی دنیا میں آتا ہے تو بھی دعوت کا موقع پیدا ہو جاتا ہے اور اگر کوئی فوت ہوتا ہے تو بھی دعوت نامہ آ دھمکتا ہے۔ ان دعوتوں میں جانا بھی کسی مجبوری سے کم نہیں ہے کیونکہ اگر ہم نہیں جاتے تو ہمیں مغرور اور نجانے کن کن القابات سے نوازا جاتا ہے اور اگر چلے جائیں تو وہاں کی مرغن غذاؤں کو کھانے کی وجہ سے معدہ بہت متاثر ہوتا ہے اور انسان کی اپنی صحت بگڑتی ہے۔ ان غذاؤں کو کھانا بھی مجبوری ہوتی ہے کہ اکثر میزبان زبردستی آپ کو کھلاتے ہیں۔

ڈرائنگ روم میں پہنچے تو دن کو تارے نظر آنے لگے۔ ایسی خوبصورت، قیمتی،پرتکلف اور نایاب چیزیں ایک ساتھ دیکھنی کب نصیب ہوتی ہیں۔البتہ ان کا تذکرہ میلاد میں سنا تھا یا طلسم ہوش ربا میں پڑھا تھا۔مالک مکان سے زیادہ پر شوکت نوکر نوکرانیاں تھیں۔کس کی تعظیم کیجیئے اور کس کی تعظیم لیجئے۔

ان سطور میں بیان کیا گیا ہے کہ ایک رئیس کے ہاں جب دعوت میں جانے کا اتفاق ہوا تو ان کے گھر میں جاتے ہی یوں لگا کہ جیسے دن میں تارے نظر آگئے ہوں کیوں کہ وہاں پر انتہائی خوبصورت اور عجیب و غریب چیزیں موجود تھیں۔وہاں کا سامان بہت قیمتی اور پر تعیش تھا۔ایسی چیزیں کبھی حقیقت میں نہ دیکھی تھیں یا تو ان کا تذکرہ سنا تھا یا داستانوں میں ان کے بارے میں پڑھا تھا۔ مالک مکان اور مکان تو خوبصورت اور دیدہ زیب تھے ہی ان سے بڑھ کر یہاں کے نوکر نوکرانیاں تھے کہ انسان سمجھ نہ پا رہا تھا کہ کس کی زیادہ عزت کی جائے۔

عملی کام:

نیچے لکھی ہوئی عبارت کو پڑھیے اور اس صورت متعلق سوالات کے جواب لکھیے۔

کسے خبر تھی کہ غالب مرحوم کے بعد ہندوستان میں پھر کوئی ایسا شخص پیدا ہوگا جو اردو شاعری کے جسم میں ایک نئی روح پھونک دے گا۔ جس کی بدولت غالب کا بے نظیر تخیل اور نرالا انداز بیان پھر وجود میں آئے گا۔اور اردو ادب کے فروغ کا باعث ہوگا۔مگر زبان اردو کی خوش اقبالی دیکھیے کہ اس زمانے میں اقبال جیسا شاعر اسے نصیب ہوا۔ جس کے کلام کا سکہ ہندوستان بھرکی اردو داں دنیا کے دلوں پر بیٹھا ہوا ہےاور جس کی شہرت روم، ایران بلکہ فرنگستان تک پہنچ گئی ہے۔ابتدائی عمر میں مولوی سید میر حسن سا استاد ملا۔ طبیعت میں علم و ادب سے مناسبت قدرتی طور سے موجود تھی اور عربی کی تحصیل مولوی صاحب موصوف سے کی۔سونے پر سہاگا ہوگیا۔ ابھی سکول میں ہی پڑھتے تھے کہ کلام موزوں زبان سے نکلنے لگا۔ شعرائے اردو میں ان دنوں نواب مرزا خاں داغ دہلوی کا بہت شہرہ تھا۔ اقبال نے بھی انھیں خط لکھااور چند غزلیں اصلاح کے لیے بھیجیں۔ داغ نے جلد کہہ دیا کہ کلام میں اصلاح کی گنجائش بہت کم ہے۔ بے اے کے لئے لاہور کے اساتذہ میں ایک نہایت شفیق استاد ملا۔ پروفیسر آرنلڈ صاحب غیر معمولی قابلیت کے انسان تھے۔
اقبال طالب علمی سے فارغ ہوکر گورنمنٹ کالج میں پروفیسر ہوگئے تھے۔ طبیعت زوروں پر تھی۔شعر کہنے کی طرف جس وقت مائل ہوتے توغضب کی آمد ہوتی تھی۔ موزوں الفاظ کا ایک دریا بہتا چشمہ ابلتا معلوم ہوتا تھا۔ایک خاص کیفیت رقت کی ان پر طاری رہتی تھی۔اپنے اشعار سریلی آواز میں ترنم سے پڑھتے تھے۔ خود وجد کرتے اور دوسروں کو وجد میں لاتے تھے۔

اس عبارت میں اقبال کے تعلق سے غالب کا ذکر کیوں کیا گیا ہے؟

غالب نے جس طرح سے اردو شاعری کو ایک نئی راہ دی تھی غالب کے بعد اقبال نے غالب کے نرالے انداز اور بے نظیر تخیل کو دوبارہ سے اردو شاعری کی شان بنایا یہی وجہ ہے کہ اقبال اور غالب نیں میں ایک نسبت پیدا ہو جاتی ہے۔

اقبال نے کن اساتذہ سے بطور خاص استفادہ کیا؟

اقبال نے سید میر حسن، نواب مرزا داغ دہلوی اور پروفیسر آرنلڈ جیسے اساتذہ سے استفادہ کیا۔

اقبال کی شعر گوئی کی کیا خصوصیات بیان کی گئی ہیں؟

اقبال کی شاعری میں جذبہ ہمیت،جذبہ حریت،تخیل آفرینی،خودی،بے خودی، جذبہ قومیت جیسی خصوصیات موجود ہیں۔

‘خود وجد کرتے اور دوسروں کو وجد میں لاتے’ اس کا کیا مطلب ہے؟

اس سے مراد ہے کہ اقبال کی شاعری اتنی پر تاثیر تھی کہ وہ جب اپنے کلام کو پر ترنم انداز میں سامعین کے سامنے پڑھتے تو ان پر ایک خاص کیفیت طاری ہو جاتی تھی یعنی وہ حالت وجد میں چلے جاتے تھے اور یہی کیفیت اقبال پر خود بھی طاری ہوتی تھی۔
وجد ایک ایسی کیفیت کا نام ہے جب انسان اللہ کے بہت قریب محسوس کرتا ہے۔