سبق ماحول بچائیے، خلاصہ ، سوالات و جوابات

0
  • سبق نمبر11: مضمون
  • مصنف کا نام:محمد اسلم پرویز
  • سبق کا نام:ماحول بچائیے

سبق کا خلاصہ:

اسلم پرویز کا مضمون “ماحول بچائیے” ماحولیاتی آلودگی جیسے اہم مسئلے کی جانب توجہ مبذول کرواتا ہے۔اس مضمون میں اسلم پرویز لکھتے ہیں کہ ماحولیاتی آلودگی ایک ایسا سائنسی مسئلہ ہے جس پر طویل عرصے سے بحث جاری ہے۔

اس بڑھتی آلودگی کی وجہ سے کینسر اور دیگر امراض کی تعداد میں نہ صرف اضافہ دیکھنے میں آیا ہے بلکہ یہ امراض عام ہوتے جا رہے ہیں۔موسموں کا چلن بگڑ چکا ہے۔صاف شفاف پانی کے وسائل زہریلے اور آلودہ ہو گئے ہیں۔ قدرتی ماحول اور انسانی وسائل کے درمیان کے آپسی تعلق کو “ماحولیاتی سائنس” کے ذریعے سمجھا جاسکتا ہے۔

قدیم زمانے میں انسان کی زندگی کا دارومدار قدرتی وسائل تھے۔انسانی آبادی میں اضافے کے ساتھ ہی وسائل کی طلب میں اضافہ ہوا۔جس سے بڑا مسئلہ زمین کی طلب کا پیدا ہوا تو اس سے قدرتی چراگاہوں میں کمی واقع ہونے لگی۔ اس ماحول پر دوسرا حملہ صنعتی انقلاب کی آمد سے ہوا۔صنعتی انقلاب کے آنے سے انسان مشینوں سے روشناس ہوا۔جس نے آبادی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے خام مال کی کھپت کو بڑھا دیا۔جس کی وجہ سے جنگلات کے کٹاؤ میں اضافہ ہوا۔

دھات سازی کے سلسلے میں زیادہ کھدائی سے زمین بنجر ہونے لگی۔کارخانوں کی تعدادمیں اضافے سے ماحول کی آلودگی بڑھنے لگی یوں اس صنعتی انقلاب نے انسان اور ماحول کے درمیان کے توازن کو بگاڑ دیا۔ آبادی اور فیکٹریوں کی تعداد زیادہ ہونے سے آب و ہوا آلودہ ہونے لگی۔کارخانوں کی چمنیوں،موٹرگاڑیوں سے نکلنے والے دھویں اور مختلف گیسوں سے فضا کی آلودگی میں اضافہ ہوا۔فضا میں کاربن مونو آکسائیڈ، نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ،سلفر اور کاربن ڈائی آکسائڈ جیسی زہریلی گیسوں کی زیادتی تیزاب کی شکل میں زمین پر آنے لگی۔اسے “تیزابی بارش” کہتے ہیں۔

تیزابی بارش کی بڑی وجہ فضا میں سلفر ڈائی آکسائیڈ کی زیادتی ہے۔ یہ بارش جانوروں،انسانوں اور پیڑ پودوں وغیرہ کے لیے یکساں نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔اس کے علاوہ کارخانوں کے فضلے سے آب و ہوا کے ساتھ زمین اور پانی کے ذخائر بھی آلودہ ہونے لگے۔جو آب حیات کی تباہ کاری کا سبب بنا۔

قدرت نے ہوا اور پانی کی کثافت کی دوری کے لیے درخت بنائے جسے انسان زیادہ سے زیادہ کاٹنے لگا۔جس کا نتیجہ زمین کی الودگی میں اضافے کی صورت میں سامنے آیا۔مگر اب ہم سب کا فرض ہے کہ ماحولیاتی آلودگی میں کمی کے لیے ایسے اقدامات کریں کہ ہماری آنے والی نسلیں اس آلودگی سے محفوظ رہ سکیں۔ہم انھیں زہریلی فضا اور آلودہ ماحول وراثت میں نہ دیں۔ یوں مصنف نے اس مضمون کے ذریعے ماحول کے بگاڑ میں درپیش عوامل کو اجاگر کرنے کے ساتھ ان کے تدارک کا حل بھی پیش کیا۔

سوالوں کے جواب لکھیے:

سوال نمبر01:”صنعتی انقلاب” سے ہمارے قدرتی وسائل کس طرح متاثر ہوئے ہیں؟بیان کیجیے۔

صنعتی انقلاب کے آنے سے انسان مشینوں سے روشناس ہوا۔جس نے آبادی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے خام مال کی کھپت کو بڑھا دیا۔جس کی وجہ سے جنگلات کے کٹاؤ میں اضافہ ہوا۔دھات سازی کے سلسلے میں زیادہ کھدائی سے زمین بنجر ہونے لگی۔کارخانوں کی تعدادمیں اضافے سے ماحول کی آلودگی بڑھنے لگی یوں اس صنعتی انقلاب نے انسان اور ماحول کے درمیان کے توازن کو بگاڑ دیا۔

سوال نمبر02:’تیزابی بارش’ کسے کہتے ہیں؟اس کے اسباب پر روشنی ڈالیے۔

کارخانوں کی چمنیوں،موٹرگاڑیوں سے نکلنے والے دھویں اور مختلف گیسوں سے فضا کی آلودگی میں اضافہ ہوتا ہے۔فضا میں کاربن مونو آکسائیڈ،نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ،سلفر اور کاربن ڈائی آکسائڈ جیسی زہریلی گیسوں کی زیادتی تیزاب کی شکل میں زمین پر آتی ہے۔اسے “تیزابی بارش” کہتے ہیں۔ تیزابی بارش کی بڑی وجہ فضا میں سلفر ڈائی آکسائیڈ کی زیادتی ہے۔ یہ بارش جانوروں،انسانوں اور پیڑ پودوں وغیرہ کے لیے یکساں نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔

سوال نمبر03:ہمیں اپنے ماحول کو بچانے کے لیے کیا کیا اقدامات کرنے چاہیے؟

ہمیں اپنے ماحول کو آلودگی سے بچانے کے لیے فیکٹری ایریاز کو شہری آبادی سے دور منتقل کرنا چاہیے۔زیادہ سے زیادہ جنگلات اگائے جائیں۔درختوں کی کٹائی کو روکا جائے تاکہ ماحول کو مزید آلودہ ہونے سے بچایا جا سکے۔کیونکہ درخت ماحول میں موجود کثیف اور آلودہ فضا کو جذب کر کے اسے صاف بنانے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔

سوال نمبر04:ماحول بچانا کیا صرف سائنس دانوں ہی کا کام ہے یا ہر شہری کا؟ مختصراً لکھیے۔

ماحول کو بچانا محض سائنس دانوں کا کام نہیں ہے۔اپنے قدرتی ماحول کی حفاظت کرنا ہر شہری کا فریضہ ہے۔ہمارا ماحول محض انسانوں کا نہیں بلکہ دیگر جاندار حیات کی بقا کا بھی ضامن ہے۔جسے انسان کی بڑھتی ہوئی ترقی اور صنعتی انقلاب تباہ کیے جارہے ہیں۔اسے محض سائنس دان نہیں بچا سکتے ہیں۔اس لیے اس کو آلودگی سے پاک بنانے میں ہر شخص کو اپنا فریضہ ادا کرنا چاہیے۔سائنس دانوں کا کام ماحولیاتی تبدیلیوں اور آلودگی سے آگاہی دینا ہے۔ وہ اس آلودگی کی روک تھام کے لیے تجاویز پیش کرسکتے ہیں۔لیکن ان تجاویز کو عملی جامہ پہنانا ان شہریوں کا کام ہے جو فیکٹریوں اور دیگر ذرائع سے ماحول کو آلودہ بنا رہے ہیں۔