آپ بیتی چوری اور اس کا کفارہ،سوالات و جوابات

0
  • سبق نمبر06:آپ بیتی
  • مصنف کانام: سید عابد حسین
  • سبق کا نام: چوری اور اس کا کفارہ

خلاصہ:

چوری اور اس کا کفارہ مہاتما گاندھی کی آپ بیتی ہے۔جسے سید عابد حسین نے اردو ترجمہ کیا ہے۔ان کے اس ترجمے کی یہ خوبی ہے کہ اس پر ترجمہ ہونے کا گمان بہت کم ہوتا ہے۔آپ بیتی کا یہ حصہ مہاتما گاندھی کے جوانی کے ادوار کو بیان کرتا ہے۔

یہ وہ دور تھا جب میں اندھیرے سے خوب خوفزدہ ہوا کرتا تھا۔ ہر وقت چوروں،بھوتوں اور سانپوں کا کھٹکا رہتا تھا۔ جب میں نے اپنے منجھلے بھائی کے ایک دوست سے اپنے گہرے دوستی کے رشتے کو استوار کیا۔ اس کے لیے انھیں اپنے ایک اور دوست کو قربان بھی کرنا پڑا۔

نئے دوست میں بہت سی خامیاں تھیں مگر اس کی وفاداری اس کی سب سے بڑی خوبی تھی۔بڑے بھائی،ماں باپ اور بیوی وغیرہ نے اکثر مجھے اس سے دور رہنے کے کیے متنبہ کیا۔مگر میں نے سب کو یہ کہا کہ اس کے ساتھ رہنے کا مقصد یہ ہے کہ میں اس کے کردار کی خامیوں کو اپنی اچھائی سے بدل سکوں ناکہ میں خود کو اس کے رنگ میں رنگنے جارہا ہوں۔میں اس کے اطوار درست کرواؤں گا کہ وہ ایک اچھا آدمی بن سکے۔اس سے دوستی کے بعد میں تو اس میں بدلاؤ نہ لا پایا بلکہ خود مجھے سگریٹ پینے کا چسکا پڑ گیا۔

اول تو ادھ پی سگریٹ سے یہ شوق پوراکرتے تھے بعد میں باقاعدہ خرید کر پینے لگے۔جب چوری چھپے یہ کام کر کر کے تنگ آگئے تو مناسب آزادی نہ ہونے کی وجہ سے دل برداشتہ ہو کر نوبت خودکشی تک جا پہنچی۔آخر زہر لا کر جب خودکشی کی کوشش کی تو معلوم ہوا کہ جتنا خودکشی کا ارادہ کرنا آسان ہے اتنا ہی خودکشی کرنا مشکل کام ہے۔

اس کے بعد نوکروں کے پیسے چرانا ،سیگرٹ پینا جیسے معاملات سے تو توبہ کر لی لیکن ایک دن اس سے بڑی غلطی یہ ہو گئی کہ اپنے گوشت کھانے والے بھائی کے بازو بند سے سونے کا ایک ٹکڑا چرا لیا۔چوری کایہ جرم اتنا سنگین تھا کہ ضمیر اس کے بوجھ تلے دبنے لگا۔والد کے سامنے اس جرم کا اعتراف کرنے کی کوشش کی مگر ہمت نہ پڑتی تھی۔آخر اپنی غلطیوں کے کفارہ کے لیے معافی طلب کرنے اور اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنے کی ٹھانی۔

اپنی ان غلطیوں کا اعتراف میں نے خط کے ذریعے اپنے والد سے کیا۔میرے جرم کا اعتراف پڑھنے کے بعد والد آنکھوں سے آنسوؤں کی برسات جاری ہوگئ۔کچھ دیر وہ آنکھیں بند کیے سوچتے رہے اس کے بعد انھوں نے رقعہ پھاڑ کر پھینک دیا۔اس کو پڑھنے سے قبل وہ بیٹھے تھے مگر اس کے بعد وہ لیٹ گئے۔والد کی گہری خاموشی اور ان کے آنکھوں کے آنسو ہی تب میرے گناہوں کے لیے سب سے بڑی سزا تھے۔والد کا یہ طرز عمل خالصتاً اہمسا کی مثال تھی۔والد کی طبیعت سے جو ردعمل متوقع تھا انھوں نے بالکل اس کے برعکس برتاؤ کیا۔ان کے اس عمل سے ان کی میرے لیے محبت اور بڑھ گئی تھی۔انھوں نے آئندہ ایسے کاموں سے باز رہنے کا بولا تھا۔

سوالوں کے جواب لکھیے:

سوال نمبر01:”انسان پر بہ نسبت نیکی کے بدی کا اثرجلد پڑتا ہے” ایسا کیوں؟ واضح کیجیے۔

انسان کو اللّٰہ نے ایک طرح سے کشش کے اصول پر تخلیق کیا ہے کہ جس شے،بات یا معاملے میں وہ اپنے لیے زیادہ کشش محسوس کرتا ہے اس کی جانب زیادہ تیزی سے راغب ہوتا ہے۔ جبکہ انسانی فطرت کا یہ خاصا ہے کہ شیطان اس کو بدی کی چیزوں کو زیادہ پر کشش بنا کر پیش کرتا ہے تو وہ ان کی جانب زیادہ شدومد سے راغب ہونے لگتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ انسان کو اکثر بدی زیادہ پر کشش محسوس ہوتی ہے تو نیکی کی نسبت وہ بدی کی جانب زیادہ جلدی متوجہ ہو جاتا ہے۔

سوال نمبر02:مہاتما گاندھی نے اپنی غلطیوں کے کفارے کےلیے کیا طریقہ اختیار کیا؟

مہاتما گاندھی نے اپنی غلطیوں کے کفارہ کے لیے معافی طلب کرنے اور اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنے کی ٹھانی۔ اپنی ان غلطیوں کا اعتراف انھوں نے خط کے ذریعے اپنے والد سے کیا۔والد کی گہری خاموشی اور ان کے آنکھوں کے آنسو ہی تب مہاتما گاندھی کے لیے سب سے بڑی سزا تھے۔

سوال نمبر03:گاندھی جی کا اعتراف نامہ پڑھ کر ان کے والد پر کیا اثر ہوا؟

گاندھی جی کا اعتراف پڑھنے کے بعد ان کے والد آنکھوں سے آنسوؤں کی برسات جاری ہوگئ۔کچھ دیر وہ آنکھیں بند کیے سوچتے رہے اس کے بعد انھوں نے رقعہ پھاڑ کر پھینک دیا۔اس کو پڑھنے سے قبل وہ بیٹھے تھے مگر اس کے بعد وہ لیٹ گئے۔

عملی کام:

ایک مضمون لکھیے۔ “چوری ایک بری عادت ہے”

کسی شخص کا مال اس کی مرضی یا اجازت کے بغیر غیر قانونی طور پر لے لینے کو چوری کہتے ہیں اور یہ عمل کرنے والے شخص کو چور کہا جاتا ہے۔ چوری کرنا دنیا کے ہر ملک اور ہر مذہب میں تقریباً ایک ناپسندیدہ عمل قرار دیا گیا ہے۔دیگر مذاہب کی طرح اسلام میں بھی چوری کے خلاف سخت سزائیں مقرر کی گئی ہیں۔ان سزاؤں کا نفاذ خود حضرت محمد صلی و علیہ وسلم نے اپنی عملی زندگی میں کیا۔

چوری گناہِ کبیرہ ہے اور چور کے لیے شریعت میں سخت وعیدیں ہیں، چنانچہ ابو ہریرہ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ’’چور چوری کرتے وقت مؤمن نہیں رہتا۔
انہی سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :’’اگر اس نے ایسا کیا (یعنی چوری کی) تو بے شک اس نے اسلام کا پٹہ اپنی گردن سے اُتار دیا پھر اگر اس نے تو بہ کی تو اللہ عَزَّوَجَلَّ اس کی تو بہ قبول فرما لے گا۔
اسلامی اصولوں کے مطابق چور کے کیے بطور سزا اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔
(مائدہ۔ع:6
مسلمانو! مرد چوری کرے یا عورت چوری کرے تو ان دونوں کے ہاتھ کاٹ ڈالو یہ حد اللہ کی جانب سے مقرر ہے اور اللہ زبردست واقف ہے تو جو اپنے قصور کے بعد توبہ کر لے اور اپنے آپ کو سنوار لے تو اللہ اس کی توبہ قبول کرلیتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔
چوری ایک انتہائی ناپسندیدہ عمل اور کبیرہ گناہ ہے اسی کیے اسلام میں اس کی ممانعت ہے۔