”بنجارہ نامہ“ نظیر اکبر آبادی کی پیش کردہ نظم ہے۔ اس نظم میں شاعر نے انتہائی مؤثر انداز میں انسان کے طمع و لالچ اور دولت کے حصول کی خواہش کو بیان کیا ہے۔ نظم میں شاعر نظیر اکبر آبادی اس عارضی دنیا میں انسان کی زندگی کی بات کرتے ہوئے کہتا ہے کہ یہ دنیا جس کی لالچ اور آگے بڑھنے کی حرص انسان کے دل میں گھر کیے ہوئے ہے۔ وہ محض دولت کی لالچ اور اس کے حصول میں اپنی زندگی صرف کر دیتا ہے جس کی صورت میں وہ موت کی جانب سے غافل ہو جاتا ہے لیکن یہ سب یہیں دھرے کا دھرا رہ جائے گا۔

انسان کو بس اپنا آپ لے کر یہاں اس دنیا سے جانا ہو گا اور باقی سب ادھر رہ جائے گا۔اس کی موت کے بعد لوگ اس کی دولت سمیٹنے کی طرف آجائیں گے اور اسے ایک مٹی کی قبر میں اتار دیا جائے گا جہاں وہ محض مٹی ہی پھانکے گا۔اس کے ساتھ اس کے اعمال ہی صرف اس کے کام آئیں گے باقی دنیاوی دولت،مال،جاہ و جلال سب کچھ دنیا میں رہے گا اور اس میں سے کچھ بھی اس کے کام نہیں آئے گا۔

دنیا میں یہ انسان ایک بہتر اور پکا مکان بنوانے کے چکر میں رہتا ہے۔ مگر اس انسان کا اپنا جسم بہت جلد ڈھل جانے والا ہے۔یہاں وہ اونچے اونچے محل نما بنگلے بناتا ہے وہاں اس کی قبر منھ کھولے اس کی منتظر ہے۔جس کے آگے بڑی خندقیں،قلعے،شیشہ کی دیواریں گڑھ کوٹ وغیرہ سب غیر اہم اور بے معنی ہیں۔یہ سب مال دولت ساز و سامان دنیا میں رہیں گے۔وہ اس دنیا میں ایک مسافر کی طرح سے آیا اور وہ سب کچھ یہیں چھوڑ کر خالی ہاتھ اس دنیا سے رخصت بھی ہو جائے گا۔اس نظم میں شاعر نے دنیا کی بے ثباتی اور انسان کی بے سرو سامانی کے فلسفے کو بیان کیا ہے اور مرنے کے بعد والی دنیا کو ہی اصل اور حقیقی دنیا قرار دیا ہے۔