Advertisement
Advertisement

شفیق فاطمہ شعری عہدِ جدید سے تعلق رکھنے والی شاعرہ ہیں۔ ان کی نظم “بازگشت” آزاد نظم کی ہیت میں لکھی گئی ہے۔جس میں شاعرہ نے زندگی کا درد بھرا نغمہ پیش کیا ہے۔

Advertisement
نغمہ زار درد کی جانب چلے ہم
ایک بھی ذرہ نہ کچلا جائے اس رفتار سے
نغمہ زار درد کی جانب چلے ہم
کنج میں پیڑوں کے سورج جھانکتا تھا
کوہساروں سبزہ زاروں میں جھمکتی روشنی کا جشن تھا
جشن جاری ہی رہے گا تا ابد
جاری رہے
نغمہ زار درد کی جانب چلے ہم
لعل و مرمر سے گندھا قالب
اور اس کے ماورا اس کے قریب
بجلیوں جیسا مصفا اک وجود
چار سو بکھرے ہوئے خاموش سونے آسماں
ہم کہاں ہیں ہم کہاں نغمہ زار درد ہے یہ ہم کہاں

اس بند میں شاعرہ کہتی ہیں کہ ہم درد بھرے نغمے کی جانب اس رفتار سے چلے کہ ہمارا ایک لفظ تک نہ کچلا۔ جا سکے۔پیڑوں کی تنہائی میں سورج جھانک رہا تھا۔جبکہ پہاڑوں اور کہساروں میں اس جھکتی روشنی کا جشن جھلملا رہا تھا۔یوں ہی یہ جشن جاری و ساری ہے اور تا قیامت جاری رہے گا۔موتیوں اور سنگِ مرمر سے بھرا ہوا ہمارا دل اس کے قریب ہے اور اس کے علاوہ وہاں ایک روشن وجود بھی موجود ہے۔جہاں ہر طرف روشن اور سونے آسمان بکھرے ہوئے ہیں۔ اے نغمہ زاد ہم کہاں ہیں۔

اتنا بے آواز جیسے
آتما اپنی شعاعیں
ریشے ریشے سے بدن کے کھینچ لے
آہستگی سے بے گزند
اور دوری بے فغاں ہو جسم کی اور روح کی
کیا سبک رفتار کر دیتی ہے ہم کو بے دلی بے حاصلی
جیسے اک بادل کا ٹکڑا
اپنی چھاگل پھینک دے اونچی فضا میں
پیاسے ذروں کی طرف
پھر ہلکے پھلکے پنکھ پھیلائے اڑے
ہلکورے لے
اک مٹتی بنتی رنگ کی تحریر سی
سیراب ذرے اس کو دیکھیں
اور پکار اٹھیں
وہ کافوری سا شعلہ عظمت نا رس

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ یہ نغمہ اتنا بے آواز ہے کہ جیسے روح اپنی صدائیں بہت آہستگی سے اور کوئی تکلیف دیے بغیر جسم کے ریشے ریشے سے کھینچ لے۔اس دوران جسم اور روح کی بہت دوری ہو۔ ہم کو بے دلی اور لا حاصلی بہت سست رفتار کر دیتی ہے۔جیسے بادل کا کوئی ٹکڑا اپنی چھاگل پیاسے ذروں کی طرف پھینکتا ہے ایسے ہی یہ ہلکے ہلکے اور آہستگی سے اپنے پھنگ اڑائے پھرتی ہے۔رنگ کی ایک تحریر مٹتی اور بنتی ہے اور ایک ذرے کی سیر سے سب یہ پکار اٹھتے ہیں کہ وہ بلندیوں کا نا تجربہ کار اور ہلکا زرذ شعلہ کہاں ہے۔

Advertisement
دوام درد ہے وہ سرخ نرمل روشنی
لو سانس کے سرچشمے سوکھے ہر شکایت مٹ گئی
کیا شکایت سانس کے سر چشمہ سے ان کو رہی
جو سانس لیتے ہیں یہاں
موج بے ہنگام خندہ
کیسے پھوٹی میرے لب سے
کوئی شکتی ہم میں ہے
جو یوں ہمیں پامال کر ہنس سکے
یہ ہمیں آغاز ہی سے ختم کرنے پر تلی تھی
چاہے پھر خود ہی مجاور بن سکے انجام کار
احتجاج اس کا جو اک شکتی ہے مجھ میں
کس قدر پر شور ہے
کس قدر پر زور ہے

اس بند میں شاعرہ کہتی ہے کہ ہمیشہ رہنا ایک درد ہے اور اس کی سرخ نرمل روشنی اگرچہ سانس رک چکی ہے مگر ہر شکایت مٹ گئی ہے۔اس بے آرام مسکراتی موج میں جو سانس لیتے ہیں۔یہ بات میرے لبوں سے کیسے آزاد ہوئی کہ ہم میں کوئی طاقت موجود ہے۔اگر ہمیں یوں کوئی شرمندہ کرکے ہنس سکے تو زندگی ہمیں آغاز سے ہی ختم کرنے پہ تلی ہوئی تھی۔چاہے پھر اس کا انجام کرنے والا خود ہی مجاور کیوں نہ بن جائے۔اس کا احتجاج مجھ میں ایک طاقت کی طرح موجود ہے۔کس قدر پر شور اور پرزور انداز میں۔

Advertisement
نغمہ زار درد سے آگے لئے جاتا مجھ کو
ان فضاؤں میں جہاں
بازگشت اک گیت بن جاتی ہے اس کی
جیسے سب ٹیلے چٹانیں اور کہستاں
سانس کے چشمے میں شامل ہیں
دھڑکتے ذی نفس اور ہم نوا

اس بند میں شاعرہ کہتی ہے کہ زندگی کا یہ نغمہ مجھے درد سے آگے لے کر جاتا ہے۔ایسی فضاؤں میں جہاں پہ آواز ایک گیت بن جاتی ہے۔ جس طرح کہ سب ٹیلے اور چٹانیں ایک کہستاں کی طرح سے سانس کے چشمے میں شامل ہیں یہ سانس لیتے اور دھڑکتے ذی نفس ہیں جو کہ میرے ساتھی ہیں۔

Advertisement

Advertisement