Advertisement
Advertisement

ساحر لدھیانوی کی نظم “گریز” 20 اشعار پر مشتمل نظم ہے۔جس میں زوال کی ایک داستان کو بیان کیا گیا ہے۔

Advertisement
مرا جنون وفا ہے زوال آمادہ
شکست ہو گیا تیرا فسون زیبائی
ان آرزوؤں پہ چھائی ہے گرد مایوسی
جنہوں نے تیرے تبسم میں پرورش پائی
فریب شوق کے رنگیں طلسم ٹوٹ گئے
حقیقتوں نے حوادث سے پھر جلا پائی

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ میری وفا کا جنون اب زوال کی جانب مائل ہو چکا ہے۔جس کی وجہ سے تمھاری شکست میں ایک آب و تاب آ چکی ہے۔میری تمام خواہشات اور آرزوؤں پہ مایوسی چھائی ہوئی ہے۔وہ آرزوئیں جنھوں نے تمھاری مسکراہٹ کے زیر اثر پرورش پائی تھی۔شوق سے کھائے جانے والے دھوکے کا تمام تر رنگین جادو ختم ہو چکا ہے۔ جبکہ اصل حقائق نے انھی حادثات سے پھر سے ایک روشنی اور امید کی کرن حاصل کی ہے۔

سکون و خواب کے پردے سرکتے جاتے ہیں
دماغ و دل میں ہیں وحشت کی کار فرمائی
وہ تارے جن میں محبت کا نور تاباں تھا
وہ تارے ڈوب گئے لے کے رنگ و رعنائی
سلا گئی تھیں جنہیں تیری ملتفت نظریں
وہ درد جاگ اٹھے پھر سے لے کے انگڑائی

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ سکون اور خواب کے تمام پردے آہستہ آہستہ ہٹ رہے ہیں کیونکہ دل و دماغ میں وحشت نے جگہ پا لی ہے۔وہ تارے جن میں محبت کی روشنی کی چمک موجود تھی۔وہ تمام تارے روشنیوں اور رعنائیوں کے رنگ لے کر ڈوب چکے ہیں۔ میرے وہ تمام درد اور تکالیف جنھیں تمھاری توجہ اور محبت نے سلا دیا تھا اب وہ تمام درد دوبارہ اے انگڑائی لے کر جاگ اٹھے ہیں۔

Advertisement
عجیب عالم افسردگی ہے رو بہ فروغ
نہ جب نظر کو تقاضا نہ دل تمنائی
تری نظر ترے گیسو تری جبیں ترے لب
مری اداس طبیعت ہے سب سے اکتائی
میں زندگی کے حقائق سے بھاگ آیا تھا
کہ مجھ کو خود میں چھپائے تری فسوں زائی

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ ایک عجیب قسم کی افسردگی بھری دنیا پر چھا رہی ہے۔جب نظر کو تقاضا اور دل کو کسی بات کی خواہش ہی نہ ہو۔اے محبوب اس وقت میری اداس طبیعت تیری نظر، گیسو ، چہرے اور لبوں سب ہی سے اکتا چکی ہے۔میں نے زندگی کے کڑے حقائق سے فرار اختیار کر لیا ہے۔ کیوں کہ تمھارے سحر نے مجھے خود میں چھپا لیا ہے۔

Advertisement
مگر یہاں بھی تعاقب کیا حقائق نے
یہاں بھی مل نہ سکی جنت شکیبائی
ہر ایک ہاتھ میں لے کر ہزار آئینے
حیات بند دریچوں سے بھی گزر آئی
مرے ہر ایک طرف ایک شور گونج اٹھا
اور اس میں ڈوب گئی عشرتوں کی شہنائی

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ اس جگہ پہ حقائق میرا تعاقب کرتے ہوئے آ پہنچے ہیں۔ یہاں بھی مجھے جنت کا سکھ نہیں مل سکا ہے۔یہاں ہر کوئی ہاتھ میں ہزار آئینے لیے ہوئے ہے یہیں وجہ ہے کہ زندگی بند دریچوں میں سے بھی نکل آئی ہے۔ میری تمام اطراف میں ایک شور گونج اٹھا اور اس شور میں کئی طرح کی خوشیوں اور خواہشات کی شہنائیاں ڈوب کر رہ گئیں۔

کہاں تلک کرے چھپ چھپ کے نغمہ پیرائی
وہ دیکھ سامنے کے پر شکوہ ایواں سے
کسی کرائے کی لڑکی کی چیخ ٹکرائی
وہ پھر سماج نے دو پیار کرنے والوں کو
سزا کے طور پر بخشی طویل تنہائی

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ ہم کب تک چھپ کر نغمہ گاتے رہیں جبکہ ہمارے سامنے بلند و بالا اور پر شکوہ ایوان موجود ہوں۔ جن ایوانوں سے کسی کرائے کی لڑکی کی چیخیں ٹکرا رہی ہوں (اس بند میں شاعر اپنی نظم چکلے جیسے حقائق کی ترجمانی کررہا ہے) جبکہ معاشرے نے ایک دفعہ پھر سے دو پیار کرنے والے لوگوں کو سزا کے طور پر تنہائی ان کا مقدر ٹھہرا دیا ہے۔

Advertisement
پھر ایک تیرہ و تاریک جھونپڑی کے تلے
سسکتے بچے پہ بیوہ کی آنکھ بھر آئی
وہ پھر بکی کسی مجبور کی جواں بیٹی
وہ پھر جھکا کسی در پر غرور برنائی
وہ پھر کسانوں کے مجمع پہ گن مشینوں سے
حقوق یافتہ طبقے نے آگ برسائی

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ پھر سے ایک تاریک چھونپڑی کے نیچے ایک سسکتے ہوئے بچے کو ایک بیوہ عورت نے دیکھا۔ کیوں کہ پھر سے کسی مجبور انسان کی جوان بیٹی بکی تھی۔کوئی شخص اپنی جوانی کا غرور لے کر پھر سے کسی در پہ جھکا تھا۔کسی طاقت ور شخص نے پھر سے کسانوں کے مجمے پر گن مشینوں سے چڑھائی کی تھی۔جبکہ حقوق کے لیے آواز اٹھانے والے طبقے نے بھی جوابا ایک آگ سی برسائی تھی۔

سکوت حلقۂ زنداں سے ایک گونج اٹھی
اور اس کے ساتھ مرے ساتھیوں کی یاد آئی
نہیں نہیں مجھے یوں ملتفت نظر سے نہ دیکھ
نہیں نہیں مجھے اب تاب نغمہ پیرائی
مرا جنون وفا ہے زوال آمادہ
شکست ہو گیا تیرا فسون زیبائی

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ خاموشی کے حلقے سے ایک آواز کی گونج اٹھی اور گونج کے ساتھ ہی مجھے میرے بچھڑے ہوئے ساتھیوں کی یاد آئی۔اس لیے مجھے ایسے محبت بھری نظر سے ہر گز مت دیکھو۔کیوں کہ میرا جنون زوال پذیر ہو رہا ہے اور اب تک تمھارا جنون بھی شکستکی اختیار کر گیا ہے۔

Advertisement

Advertisement