ہلال استقلال

0
  • نظم: ہلال استقلال
  • شاعر: حفیظ جالندھری

تعارفِ نظم:

یہ بند ہماری درسی کتاب کی نظم ”ہلال استقلال“ سے لیا گیا ہے۔ اس نظم کے شاعر کا نام حفیظ جالندھری ہے۔

تعارفِ شاعر:

ابو الاثر کا نام محمد حفیظ، حفیظ ہی تخلص اور ابوالاثر کنیت تھی۔ لاہور آ کر آپ نے “ہونہار بک ڈپو” قائم کیا اور علمی و ادبی کتابوں کی طباعت و اشاعت میں مصروف ہوگئے۔ آپ نے پہلے غزلیں کہیں پھر گیت لکھے۔ اس کے بعد “شاہ نامۂ اسلام” جیسی شاہ کار نظم لکھی۔ ان کی نظموں کے مجموعے”نغمہ زار، سوز و ساز، تلخابۂ شیریں” ہیں۔ ہمارا قومی ترانہ بھی آپ نے ہی لکھا۔

شعر نمبر ۱:

یہ استقلال کا پرچم ہے، استحکام کا پرچم
شہیدوں غازیوں کے ہاتھ سے انعام کا پرچم

تشریح:

اس نظم میں شاعر نے کچھ علامتوں کو عزم و حوصلہ سے تشبیہ دی ہے۔ شاعر نے اس نظم میں کچھ شخصیات کا ذکر کیا ہے جن کے ولولہ انگیز واقعات سے سیکھ کر ہم اسلام کی سربلندی کے لیے کوشش کر سکتے ہیں۔ اس نظم میں مسلمانوں کو اس پرچم کی اہمیت اور اس کا ماضی بتایا گیا ہے۔ اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ یہ پرچم استقلال اور استحکام کا ہے یعنی یہ پرچم ایک مضبوط پرچم ہے، جو ہمارے غازیوں اور ہمارے شہیدوں کی ہمارے پاس امانت اور انعام ہے۔ اس شعر میں شاعر دراصل مسلمانوں کا جذبہ بیدار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ہمارے شہیدوں نے اس پرچم کو حاصل کرنے کے لیے اپنی جانیں گنواٸی ہیں اس لئے یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم اس کی حفاظت کریں۔

شعر نمبر ۲:

ہلالی خنجر، انگشت شہادت کا اشارا ہے
یہ سیف اللہ کا پرتو، فلک پر آشکارا ہے

تشریح:

اس نظم میں شاعر نے کچھ علامتوں کو عزم و حوصلہ سے تشبیہ دی ہے۔ شاعر نے اس نظم میں کچھ شخصیات کا ذکر کیا ہے جن کے ولولہ انگیز واقعات سے سیکھ کر ہم اسلام کی سربلندی کے لیے کوشش کر سکتے ہیں۔ اس نظم میں مسلمانوں کو اس پرچم کی اہمیت اور اس کا ماضی بتایا گیا ہے۔ اس شعر میں شاعر دراصل سیف اللہ یعنی حضرت خالد ابن ولید کا ذکر کر رہے ہیں۔ انہوں نے مسلمانوں کے لئے بہت سے غزوے لڑے اور انہیں جیتا، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خالد کو سیف اللہ یعنی اللہ تعالی کی تلوار کا لقب دیا تھا۔ شاعر کہتے ہیں کہ ہمارے ملک کے نوجوان بھی صرف ایک اشارے کے منتظر ہیں کہ وہ اشارہ ملتے ہی اپنے ملک کے لیے اپنی جان تک گنوا سکتے ہیں۔

شعر نمبر ۳:

ہلال خنجر قومی عطیہ ہے شہیدوں کا
جو خود قربان ہوکر، بھر گٸے دامن نویدوں کا

تشریح:

اس نظم میں شاعر نے کچھ علامتوں کو عزم و حوصلہ سے تشبیہ دی ہے۔ شاعر نے اس نظم میں کچھ شخصیات کا ذکر کیا ہے جن کے ولولہ انگیز واقعات سے سیکھ کر ہم اسلام کی سربلندی کے لیے کوشش کر سکتے ہیں۔ اس نظم میں مسلمانوں کو اس پرچم کی اہمیت اور اس کا ماضی بتایا گیا ہے۔ اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ یہ جو ہمارا پرچم ہے یہ ہمارے شہیدوں کا عطا کردا ہے جو اس پرچم کے خاطر خود تو اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے لیکن انہوں نے اپنے پیچھے رہ جانے والے لوگوں کے دامن میں اس ملک کی صورت خوشیاں بھر دیں۔ اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ ہمارے شہیدوں نے اس پرچم کو حاصل کرنے کے لیے اپنی جانیں گنواٸی ہیں اس لئے یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم اس کی حفاظت کریں۔

شعر نمبر ۴:

حسین ابن علی کے اسوہ مردانہ کا پرچم
براۓ شمع ملت، سوزس پروانہ کا پرچم

تشریح:

اس نظم میں شاعر نے کچھ علامتوں کو عزم و حوصلہ سے تشبیہ دی ہے۔ شاعر نے اس نظم میں کچھ شخصیات کا ذکر کیا ہے جن کے ولولہ انگیز واقعات سے سیکھ کر ہم اسلام کی سربلندی کے لیے کوشش کر سکتے ہیں۔ اس نظم میں مسلمانوں کو اس پرچم کی اہمیت اور اس کا ماضی بتایا گیا ہے۔ اس شعر میں شاعر حضرت حسین کا ذکر کر رہے ہیں جنہوں نے باطل کے خلاف آواز اٹھا کر کربلا کے موقع پر اپنی جان گنوائی لیکن حق کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ شاعر کہتے ہیں کہ ہمارے ملک کا پرچم بھی بالکل اسی طرح حاصل کیا گیا ہے کہ ہم نے اسلام کے نام پر یہ ملک حاصل کیا اور اپنی جانیں گنوانا تو گوارا کیا لیکن ہم نے کبھی باطل کا ساتھ نہیں دیا۔

شعر نمبر ۵:

محمد بن قاسم کے سحاب وجود کا پرچم
یہ طارق کا، صلاح الدین کا، محمود کا پرچم

تشریح:

اس نظم میں شاعر نے کچھ علامتوں کو عزم و حوصلہ سے تشبیہ دی ہے۔ شاعر نے اس نظم میں کچھ شخصیات کا ذکر کیا ہے جن کے ولولہ انگیز واقعات سے سیکھ کر ہم اسلام کی سربلندی کے لیے کوشش کر سکتے ہیں۔ اس نظم میں مسلمانوں کو اس پرچم کی اہمیت اور اس کا ماضی بتایا گیا ہے۔ اس شعر میں شاعر محمد بن قاسم، طارق، صلاح الدین، محمود جیسے لوگوں کا ذکر کر رہے ہیں جنہوں نے مسلمانوں کے لئے بہت سی قربانیاں دیں۔ شاعر کہتے ہیں کہ ہمارے ملک کا یہ پرچم ان تمام لوگوں کا پرچم بھی ہے۔

شعر نمبر ۶:

یہ پرچم ہے نشاں، عالم میں فتح و کامرانی کا
زمیں پر ابر رحمت ہے، نوید آسمانی کا

تشریح:

اس نظم میں شاعر نے کچھ علامتوں کو عزم و حوصلہ سے تشبیہ دی ہے۔ شاعر نے اس نظم میں کچھ شخصیات کا ذکر کیا ہے جن کے ولولہ انگیز واقعات سے سیکھ کر ہم اسلام کی سربلندی کے لیے کوشش کر سکتے ہیں۔ اس نظم میں مسلمانوں کو اس پرچم کی اہمیت اور اس کا ماضی بتایا گیا ہے۔ اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ ہمارا یہ پرچم ہماری جیت کا نشان ہے۔ شاعر کہتے ہیں کہ مسلمانوں نے یہ ملک بہت مشکل سے حاصل کیا ہے اور یہ پرچم ہماری اس دنیا میں فتح و کامرانی کا نشان ہے کہ اب ہمارے پاس ہمارا یہ پرچم موجود ہے۔ شاعر کہتے ہیں کہ یہ پرچم ہمارے لیے زمین پر اللہ تعالی کی رحمت ہے اور اور اللہ تعالی کی طرف سے ایک تحفہ ہے۔

شعر نمبر ۷:

یہ پرچم ہے روایات عظیم الشان کا پرچم
یہی پرچم ہے استقلال پاکستان کا پرچم

تشریح:

اس نظم میں شاعر نے کچھ علامتوں کو عزم و حوصلہ سے تشبیہ دی ہے۔ شاعر نے اس نظم میں کچھ شخصیات کا ذکر کیا ہے جن کے ولولہ انگیز واقعات سے سیکھ کر ہم اسلام کی سربلندی کے لیے کوشش کر سکتے ہیں۔ اس نظم میں مسلمانوں کو اس پرچم کی اہمیت اور اس کا ماضی بتایا گیا ہے۔ اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ یہ پرچم ہماری روایتوں کا عظیم الشان پرچم ہے کہ اس پرچم تلے ہم اپنی تہذیب و تمدن اور روایتوں کو زندہ رکھ سکتے ہیں۔ شاعر کہتے ہیں کہ دراصل میں جس پرچم کی بات کر رہا ہوں وہ کوئی اور نہیں بلکہ ہمارے پیارے ملک پاکستان کا ہی پرچم ہے جو مجھے بے حد عزیز ہے

سوال 1: نظم “ہلال استقلال” کے متن کو مدِنظر رکھتے ہوئے ہر سوال کے درست جواب کے شروع میں (✓) کا نشان لگائیں۔

۱: شاعر نے کسے”زمین پر ابر رحمت” کہا ہے؟

  • ٭ہلال و پرچم کو (✓)
  • ٭مال و دولت دنیا کو
  • ٭اشاعت اسلام کو
  • ٭خوش حالی کو

۲: “سیف اللہ” سے شخصیت مراد ہیں۔

٭طارق بن زیاد

٭محمود غزنوی

٭خالد بن ولید (✓)

  • ٭صلاح الدین ایوبی

۳: “ہلال خنجر قومی” کن کا عطیہ ہے؟

  • ٭مجاہدوں کا
  • ٭شہیدوں کا(✓)
  • ٭سیاست دانوں کا
  • ٭فوجی جرنیلوں کا

سوال 2: اس نظم کے اشعار میں شامل تلمیحات کی الگ الگ وضاحت کریں۔

جواب:

1) حسین ابن عل: سیدنا حسین امام علی رضی اللہ عنہ اور سیدہ فاطمہ کے بیٹے اور حضورِ اطہرﷺ کے نواسے ہیں۔ کربلا کے مقام پر سیدنا حسین اور ان کے اہل خانہ کو ناحق قتل کر دیا گیا تھا۔ حضرت حسین حق پر ڈٹے رہے اور انھوں نے باطل کی قوتوں کے سامنے ہتھیار نہ ڈالا۔ ان کی شہادت سچائی کے لیے تھی۔
2) سیف اللہ: یہ لقب سیدنا خالد ابن ولید کا ہے، حضرت خالد بن ولید نے اسلام کی خاطر سینکڑوں جنگیں لڑیں اور فتوحات پائیں۔ آپ کو حضور اطہر ﷺ نے سیف اللہ یعنی اللہ کی تلوار کا لقب دیا۔ اس کے بعد اللہ کی تلوار نے کفار کا خاتمہ کیا اور اسلام کو پھیلایا۔
3) صلاح الدین: صلاح الدین ایوبی مسلمانوں کے ہیرو اور ایک عظیم سپاہ سالار تھے انھوں نے کفار کے خلاف جہاد کیا اور اسلام کو درپیش مشکلات سے نجات دی۔ آپ نے عیسائیوں سے بیت المقدس بازیاب کروایا اور ناقابل شکست زندگی گزاری۔ آپ کو فتح و کامیابی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔
مندرجہ ذیل الفاظ و تراکیب کی وضاحت کریں۔

انگشت شہادت: سیدھے ہاتھ کے انگوٹھے کے ساتھ پہلی انگلی۔
ہلال خنجر قومی: ہلال پہلی رات کا چاند جو خنجر کے مشابہ ہوتا ہے۔

سحاب وجود:
ابرِ رحمت: رحمت کا بادل
بہت زیادہ سخاوت
ملت اسلامیہ
خبری۔
نوید آسمانی: آسمان کی جانب سے ملنے والی خوش خبری۔
اسوہ مردانہ: بہادر انسان کا نمونہ عمل۔

سوال 4: اس نظم کا خلاصہ لکھیں جو دس سطور سے زیادہ نہ ہو۔

جواب: نظم”ہلال استقلال” حفیظ جالندھری نے لکھی ہے جس میں انھوں نے کچھ علامتوں کو عزم و حوصلہ سے تشبیہ دی ہے۔ اس میں ہمارے شاندار ماضی کو سامنے رکھا گیا ہے جو کہ خالد ابن ولید ایسے سیف اللہ سے منسوب ہے۔ خالد بن ولید نے اسلام کے لیے پرعزم فتوحات حاصل کی۔اس نظم میں حضرت حسین کی صداقت و شہادت کا بتایا گیا جس سے ہم اپنی سمت سنوار سکتے ہیں۔ شاعر کہتے ہیں کہ ہمیں چاہیے ہم کبھی بھی کمزور ہو کر ہار نہ مانیں بلکہ برائی کو برا کہیں۔اس نظم میں محمد بن قاسم ،طارق بن ذیاد، محمود غزنوی اور صلاح الدین ایوبی کا ذکر کیا گیا جو کہ مسلمانوں کے ہیرو ہیں اور ان کی زندگی ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے۔ ان کے ولولہ انگیز واقعات سے سیکھ کر ہم اسلام کی سربلندی کے لیے کوشش کر سکتے ہیں۔ اس نظم میں مسلمانوں کو اس پرچم کی اہمیت اور اس کا ماضی بتایا گیا ہے۔