مستقبل کی جھلک

0
  • نظم : مستقبل کی جھلک
  • شاعر : مولانا ظفر علی خان

تعارفِ نظم

یہ شعر ہماری درسی کتاب کی نظم ”مستقبل کی جھلک“ سے لیا گیا ہے۔ اس نظم کے شاعر کا نام مولانا ظفر علی خان ہے۔

تعارفِ شاعر

ظفر علی خان شاعر بھی تھے ، مدیر بھی اور آزادی کی جدوجہد میں حصہ لینے والے ایک سرگرم سیاسی کارکن بھی۔ مولانا ظفر علی خاں اس وقت کے مشہور روزنامے ’’ زمیندار‘‘ کے مدیر رہے ، مولانا کا سیاسی مسلک گاندھی جی کی عدم تشدد کی حکمت عملی سے بہت مختلف تھا ، وہ برطانوی حکمرانوں سے براہ راست ٹکراؤ میں یقین رکھتے تھے۔

کوئی دن جاتا ہے پیدا ہو گی اک دنیا نئی
خون مسلم صرف تعمیر جہاں ہو جائے گا

تشریح

اس نظم میں شاعر نے مسلمانوں کو ان کے اسلاف کی جرآت مندی اور جہاد سے محبت کا درس دیا ہے تاکہ آنے والے وقت میں یہ نوجوان اپنے ان اجداد کے راستے پر چل کر اسلام کو پھر سے وہ کھویا ہوا مقام دلوائیں جو تاریخ کا سنہری باب ہے۔ اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ وہ دن بہت جلد آنے والا ہے جب ایک نئی دنیا پیدا ہوگی۔ شاعر کہتے ہیں کہ اس دنیا کے وجود میں آنے کے لیے مسلمان کا خون صرف ہوگا یعنی کہ مسلمانوں کو اسلام کی سربلندی کے لیے جنگ پڑے گی اور پھر جو دنیا پیدا ہوگی اس میں اسلام کا بول بالا ہوگا۔

بجلیاں غیرت کی تڑپیں گی فضائے قدس میں
حق عیاں ہو جائے گا، باطل نہاں ہو جائے گا

تشریح

اس نظم میں شاعر نے مسلمانوں کو ان کے اسلاف کی جرآت مندی اور جہاد سے محبت کا درس دیا ہے تاکہ آنے والے وقت میں یہ نوجوان اپنے ان اجداد کے راستے پر چل کر اسلام کو پھر سے وہ کھویا ہوا مقام دلوائیں جو تاریخ کا سنہری باب ہے۔ اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ جب دنیا میں اسلام کا بول بولا ہوگا تو پھر قدس کی فضا میں سب کی غیرت بجلی بن کر تڑپنے لگے گی۔ شاعر کہتے ہیں کہ جب مسلمانوں میں جوش پیدا ہوگا تو حق عیاں ہوجائے گا جب کہ باطل پھر ڈر کر چھپ جائے گا اور ختم ہوجائے گا۔

ان کواکب کے عوض ہوں گے نئے انجم طلوع
ان دنوں رخشندہ تر، یہ آسماں ہو جائے گا

تشریح

اس نظم میں شاعر نے مسلمانوں کو ان کے اسلاف کی جرآت مندی اور جہاد سے محبت کا درس دیا ہے تاکہ آنے والے وقت میں یہ نوجوان اپنے ان اجداد کے راستے پر چل کر اسلام کو پھر سے وہ کھویا ہوا مقام دلوائیں جو تاریخ کا سنہری باب ہے۔ اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ اس وقت جو ستارے اس دنیا میں چمک رہے ہیں پھر ان ستاروں کا نام و نشان بھی نہیں بچے گا بلکہ پھر اس دنیا میں نئے ستارے پیدا ہوں گے۔ شاعر کہتے ہیں ان نئے ستاروں کی چمک سے یعنی اس وقت جب دنیا پر مسلمانوں کی حکمرانی ہوگی تو آسمان کی چمک بھی بڑھ جائے گی۔

پھر نئے محمود ہوں گے حامی دین متین
بچہ بچہ ، غیرت الپ ارسلاں ہو جائے گا

تشریح

اس شعر میں شاعر نے مسلمانوں کے سنہری ماضی کا رُخ دکھایا ہے۔ شاعر نے یہاں مسلمانوں کے عظیم مجاہدوں کا تذکرہ کیا ہے۔ اس شعر میں محمود سے مراد سلطان محمود غزنوی ہیں ، جنھوں نے اسلام کی شمع روشن کی اور بت کدے کو توڑ ڈالا۔ بت پرستوں پر خدا کا عذاب بن کر نازل ہونے والا یہ عظیم جنگجو ہی تھا جس نے دولت کے انبار کو ٹھکرا کر بت کدے کے جھوٹے خدا کے مجسمہ کو توڑ ڈالا۔ اس شعر میں مسلمان نوجوانوں کو یہ بات باور کروائی جا رہی ہے کہ مال و ثروت توحید کی راہ میں عام سی شے ہے۔

میرے جیسے ہوں گے پیدا، سیکڑوں اہل سخن
نکتہ نکتہ جن کا، آزادی کی جاں ہو جائے گا

تشریح

اس نظم میں شاعر نے مسلمانوں کو ان کے اسلاف کی جرآت مندی اور جہاد سے محبت کا درس دیا ہے تاکہ آنے والے وقت میں یہ نوجوان اپنے ان اجداد کے راستے پر چل کر اسلام کو پھر سے وہ کھویا ہوا مقام دلوائیں جو تاریخ کا سنہری باب ہے۔ اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ اس وقت تو یہ میرا خواب ہے کہ دنیا پر مسلمانوں کی حکومت ہو لیکن بہت جلد مجھ جیسے سیکڑوں اہلِ سخن پیدا ہوں گے جو اپنی پوری زندگی ہی آزادی کے خلاف جنگ کرنے میں گزار دیں گے۔ شاعر کہتے ہیں کہ وہ تمام لوگ میری جسی سوچ کے مالک ہوں گے جن کی وجہ سے اسلام کا سر بلند ہوگا۔

ڈھائی جائے گی بنا، یورپ کے استعمار کی
ایشیا، آپ اپنے حق کا پاسباں ہو جائے گا

تشریح

اس نظم میں شاعر نے مسلمانوں کو ان کے اسلاف کی جرآت مندی اور جہاد سے محبت کا درس دیا ہے تاکہ آنے والے وقت میں یہ نوجوان اپنے ان اجداد کے راستے پر چل کر اسلام کو پھر سے وہ کھویا ہوا مقام دلوائیں جو تاریخ کا سنہری باب ہے۔ اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ اب یورپ کی مدد کے بغیر، یورپ کی غلامی کیے بغیر ایشیا اب ترقی کرے گا اور اپنے حق کی پاسبانی بھی کرے گا۔ یعنی اس شعر میں شاعر یورپ والوں کو للکار رہے ہیں کہ اب وہ وقت دور نہیں کہ ہم تم سے آزادی حاصل کر کے خود مختار ہوجائیں گے۔

نغمہ آزادی کا گونجے کا حرم اور دیر میں
وہ جو دارالحرب ہے ، دارالاماں ہو جائے گا

تشریح

اس نظم میں شاعر نے مسلمانوں کو ان کے اسلاف کی جرآت مندی اور جہاد سے محبت کا درس دیا ہے تاکہ آنے والے وقت میں یہ نوجوان اپنے ان اجداد کے راستے پر چل کر اسلام کو پھر سے وہ کھویا ہوا مقام دلوائیں جو تاریخ کا سنہری باب ہے۔ اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ اب ہر جگہ آزادی کا نغمہ گونجے گا اور بہت جلد اب مسلمان کافروں کی غلامی سے آزاد ہوجائیں گے۔ شاعر کہتے ہیں کہ ابھی جس ملک میں ہر وقت قتل و غارت ہوتی ہے اور مسلمانوں کو اسلام پر عمل کرنے سے روکا جاتا ہے وہی ملک بہت جلد امن کا گہوارہ بن جائے گا کیونکہ وہاں مسلمانوں کی حکومت آجائے گی۔

ہم کو سودا ہے غلامی کا، کہ آزادی کی دھن
چند ہی دن میں، ہمارا امتحاں ہو جائے گا

تشریح

اس نظم میں شاعر نے مسلمانوں کو ان کے اسلاف کی جرآت مندی اور جہاد سے محبت کا درس دیا ہے تاکہ آنے والے وقت میں یہ نوجوان اپنے ان اجداد کے راستے پر چل کر اسلام کو پھر سے وہ کھویا ہوا مقام دلوائیں جو تاریخ کا سنہری باب ہے۔ اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ بہت جلد پتہ چل جائے گا کہ کتنے لوگ غلامی کی زندگی سے آزاد ہونا چاہتے ہیں اور کتنے لوگ اپنی زندگی کافروں کی غلامی کرتے ہوئے گزارنے کے خواہشمند ہیں۔ شاعر کہتے ہیں کہ اگر ہمیں آزادی حاصل کرنے کی دھن ہے تو بہت جلد ہمارا امتحان ہونے والا ہے۔

اس بشارت کو نہ سمجھو ، ایک دل خوش کن قیاس
جس کو سن کر ہر مسلماں، شادماں ہو جائے گا

تشریح

اس نظم میں شاعر نے مسلمانوں کو ان کے اسلاف کی جرآت مندی اور جہاد سے محبت کا درس دیا ہے تاکہ آنے والے وقت میں یہ نوجوان اپنے ان اجداد کے راستے پر چل کر اسلام کو پھر سے وہ کھویا ہوا مقام دلوائیں جو تاریخ کا سنہری باب ہے۔ اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ میری اس پیشن گوئی کو کوئی خوش کن قیاس مت سمجھو بلکہ اسے حقیقت میں تبدیل کرنے کے لیے محنت کرو۔ شاعر کہتے ہیں کہ میری اس بات ایسا قیاس نہ سمجھو کہ بس ہر مسلمان اس قیاس کو سن کو خوش ہوجائے بلکہ اس قیاس کو حقیقت میں بدلو تاکہ تمام مسلمان آزادی کی زندگی گزار سکیں۔

سچ ہے میرا حرف حرف اور جس کو اس میں شک ہے آج
دیکھ لینا کل میرا، ہم داستاں ہو جائے گا

تشریح

اس نظم میں شاعر نے مسلمانوں کو ان کے اسلاف کی جرآت مندی اور جہاد سے محبت کا درس دیا ہے تاکہ آنے والے وقت میں یہ نوجوان اپنے ان اجداد کے راستے پر چل کر اسلام کو پھر سے وہ کھویا ہوا مقام دلوائیں جو تاریخ کا سنہری باب ہے۔ اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ میں جو بھی کہہ رہا ہوں یہ سب کچھ بالکل سچ ہے اور اگر تمھیں لگتا ہے کہ میں پاگل ہوگیا ہوں اور اپنی طرف سے قیاس آرائیاں کررہا ہوں تو تم انتظار کرو اور بلآخر تم دیکھ لو گے کہ آنے والے کل میں وہی سب کچھ ہوگا جو میں تم سے کہہ رہا ہوں۔

سوال 1 : نظم کا متن پیش نظر رکھتے ہوئے درج ذیل سوالات کے درست جواب کے شروع میں (✓) کا نشان لگائیں۔

۱ : ‘ہو جائے گا’ اس نظم میں کیا ہے؟

  • ٭تشبیہ
  • ٭استعارہ
  • ٭قافیہ
  • ٭ردیف (✓)

۲ : کواکب کے عوض کیا طلوع ہوں گے؟

  • ٭نئے خورشید
  • ٭نئے ماہتاب
  • ٭نئے انجم (✓)
  • ٭نئے اجرام

۳ : کن کا نکتہ نکتہ آزادی کی جاں ہوگا؟

  • ٭اہل قلم کا
  • ٭اہل سخن کا (✓)
  • ٭اہل وفا کا
  • ٭اہل ہنر کا

۴ : دینِ متیں کے حامی کون ہوں گے؟

  • ٭نئے محمود (✓)
  • ٭نئے ایاز
  • ٭نئے طارق
  • ٭نئے ایوبی

سوال 2 : رخشندہ تر، محمود، دین متیں، یورپی استعمار، خوش کن قیاس، کے مفہوم کی وضاحت کریں۔

  • رخشندہ تر : رخشندہ تر سے مراد یہ ہے کہ مسلمانوں کے نوجوان علم و ادب اور اسلامی طرز کی زندگی اختیار کرکے پھر سے ابھریں گے اور مسلمانوں کو ترقی حاصل ہوگی جس سے مسلمان خوشحال ہو جائے گا۔
  • محمود : محمود یہاں پر سلطان محمود غزنوی سے مراد لیا گیا ہے۔ محمود غزنوی نے ہندوستان پر متعدد بار حملے کرکے ہندوؤں کی اسلام مخالف طاقت کو پاش پاش کر دیا اور برصغیر پاک و ہند کو بت پرستی سے پاک کر کے اسلام کا جھنڈا بلند کردیا۔
  • دینِ متین : دین متین سے مراد کامل دین ہے جو کہ اسلام ہے۔
  • یورپی استعمار : اس سے مراد یورپی دنیا کا دوسری اقوام پر جبراً قبضہ کرنا ہے جو ظلم کے ذریعہ سے برقرار ہے۔
  • خوش کن قیاس : ایسا خیال جو تصورات میں تو انسان کو مسرور کرے مگر اس کی عملِ حقیقت کچھ نہ ہو۔

سوال 3 : تلمیح کی تعریف لکھیں اور اس نظم کے اس شعر کی تشریح کریں جس میں تلمیح استعمال ہوئی ہے۔

جواب : ایک یا ایک سے زائد الفاظ میں کسی مذہبی، تاریخی، سیاسی یا افسانوی واقعہ کی طرف اشارہ کرنے کو تلمیح کہتے ہیں۔

پھر نئے محمود ہوں گے حامی دین متین
بچہ بچہ ، غیرتِ الپ ارسلاں ہو جائے گا

تشریح : اس شعر میں شاعر نے مسلمانوں کے سنہری ماضی کا رُخ دکھایا ہے۔ شاعر نے یہاں مسلمانوں کے عظیم مجاہدوں کا تذکرہ کیا ہے۔ اس شعر میں محمود سے مراد سلطان محمود غزنوی ہیں ، جنھوں نے اسلام کی شمع روشن کی اور بت کدے کو توڑ ڈالا۔ بت پرستوں پر خدا کا عذاب بن کر نازل ہونے والا یہ عظیم جنگجو ہی تھا جس نے دولت کے انبار کو ٹھکرا کر بت کدے کے جھوٹے خدا کے مجسمہ کو توڑ ڈالا۔ اس شعر میں مسلمان نوجوانوں کو یہ بات باور کروائی جا رہی ہے کہ مال و ثروت توحید کی راہ میں عام سی شے ہے۔

سوال 4 : نظم “مستقبل کی جھلک” کا خلاصہ تحریر کریں جو دس جملوں سے زیادہ نہ ہو۔

جواب : اس نظم میں مولانا ظفر علی خاں نے عالمِ اسلام کو یہ پیغام دیا ہے کہ مستقبل میں پھر سے مسلمان سرخرو ہوں گے۔ مسلمان اپنے کھوئے ہوئے اقدار پھر سے پالیں گے۔ مسلمان ایک غیرت مند قوم ہے جو اللہ کے سوا کسی کی غلامی قبول نہیں کرے گی۔ جیسے الپ ارسلان نے مغربی شر پسندوں کو اور محمود غزنوی نے بت پرستوں کو شکست دے کر اسلام کا جھنڈا بلند کیا ہے ویسا ہی ایک دور واپس آرہا ہے۔ شاعر مسلمان بچوں کو یہ پُر جوش تاریخ بتا کر نوجوان مسلمانوں میں پھر سے الپ ارسلان اور محمود غزنوی کے جیسا جذبہ پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ شاعر چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کے دستے پھر باصف ہو کر اللہ اکبر کا نعرہ لگائیں اور کشمیر، فلسطین اور ان جیسے باقی مقبوضہ علاقوں کو فتح کرنے کی تگ و دو کریں۔ شاعر کو لگتا ہے کہ نوجوان اپنے اسلاف کی راہ پر چل کر دین کی سربلندی کر سکتے ہیں اور اسی سے ہمارا مستقبل روشن معلوم ہوتا ہے۔

سوال 5 : نظم “مستقبل کی جھلک” کا مرکزی خیال ایک دو جملوں میں تحریر کریں۔

جواب : اس نظم کا مرکزی خیال مسلمانوں کو ان کے اسلاف کی جرآت مندی اور جہاد سے محبت کا درس دینا تھا تاکہ آنے والے وقت میں یہ نوجوان اپنے ان اجداد کے راستے پر چل کر اسلام کو پھر سے وہ کھویا ہوا مقام دلوائیں جو تاریخ کا سنہری باب ہے۔ شاعر چاہتے ہیں کہ محمود غزنوی اور الپ ارسلان کے ایسے اور لوگ جنم لیں اور اسلام کی سربلندی کے لیے محنت کریں۔

سوال 6 : نظم “مستقبل کی جھلک” کے پہلے اور آٹھویں شعر کی تشریح کریں۔

شعر نمبر ۱

کوئی دن جاتا ہے پیدا ہو گی اک دنیا نئی
خون مسلم صرف تعمیر جہاں ہو جائے گا

تشریح

اس نظم میں شاعر نے مسلمانوں کو ان کے اسلاف کی جرآت مندی اور جہاد سے محبت کا درس دیا ہے تاکہ آنے والے وقت میں یہ نوجوان اپنے ان اجداد کے راستے پر چل کر اسلام کو پھر سے وہ کھویا ہوا مقام دلوائیں جو تاریخ کا سنہری باب ہے۔ اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ وہ دن بہت جلد آنے والا ہے جب ایک نئی دنیا پیدا ہوگی۔ شاعر کہتے ہیں کہ اس دنیا کے وجود میں آنے کے لیے مسلمان کا خون صرف ہوگا یعنی کہ مسلمانوں کو اسلام کی سربلندی کے لیے جنگ پڑے گی اور پھر جو دنیا پیدا ہوگی اس میں اسلام کا بول بالا ہوگا۔

شعر نمبر ۸

ہم کو سودا ہے غلامی کا، کہ آزادی کی دھن
چند ہی دن میں، ہمارا امتحاں ہو جائے گا

تشریح

اس نظم میں شاعر نے مسلمانوں کو ان کے اسلاف کی جرآت مندی اور جہاد سے محبت کا درس دیا ہے تاکہ آنے والے وقت میں یہ نوجوان اپنے ان اجداد کے راستے پر چل کر اسلام کو پھر سے وہ کھویا ہوا مقام دلوائیں جو تاریخ کا سنہری باب ہے۔ اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ بہت جلد پتہ چل جائے گا کہ کتنے لوگ غلامی کی زندگی سے آزاد ہونا چاہتے ہیں اور کتنے لوگ اپنی زندگی کافروں کی غلامی کرتے ہوئے گزارنے کے خواہشمند ہیں۔ شاعر کہتے ہیں کہ اگر ہمیں آزادی حاصل کرنے کی دھن ہے تو بہت جلد ہمارا امتحان ہونے والا ہے۔