روح ارضی آدم کا استقبال کرتی ہے

0

تعارفِ نظم

یہ شعر ہماری درسی کتاب کی نظم ”روح ارضی آدم کا استقبال کرتی ہے “ سے لیا گیا ہے۔ اس نظم کے شاعر کا نام علامہ اقبال ہے۔

تعارفِ شاعر

شیخ محمد اقبال سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ بانگِ درا ، ضربِ کلیم ، بالِ جبریل اور ارمغان حجاز ان کے اردو کلام پر مشتمل کتابیں ہیں۔ پہلے وطن دوستی پھر ملت دوستی اور پھر انسان دوستی ان کی شاعری کے اہم موضوعات ہیں۔ آپ نے مسلمانوں کے سیاسی شعور کو صحیح سمت عطا کی۔

نظم ( روح ارضی آدم کا استقبال کرتی ہے )

کھول آنکھ ! زمین دیکھ، فلک دیکھ، فضا دیکھ
مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ!
اس جلوۂ بے پردہ کو پردہ میں چھپا دیکھ!
ایام جدائی کے ستم دیکھ جفا دیکھ!
بےتاب نہ ہو معرکۂ بیم و رجا دیکھ!

اس بند میں شاعر کہتے ہیں کہ جب انسان دنیا میں آتا ہے تو اس کو ہر جاہ اللہ ﷻ کی بنائی اس خوبصورت کائنات کے مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ زمین ، آسمان ، ہوا ، اور مشرق سے سے نکلتا سورج غرض کے ہر چیز سے اللہ ﷻ کی قدرت کے راز نظر آتے ہیں۔ انسان کو اللہ سے دور اس زمین پر بھیجا گیا ہے لیکن اب صبر اور ہمت سے کام لینا اور زمین پر ہر جاہ پھیلی رب تعالی کی قدرت کے رازاوں کو کھوجنا انسان کا کام ہے۔

ہیں تیرے تصرف میں یہ بادل یہ گھٹائیں
یہ گنبد افلاک یہ خاموش فضائیں
یہ کوہ یہ صحرا یہ سمندر یہ ہوائیں
تھیں پیش نظر کل تو فرشتوں کی ادائیں
آئینۂ ایام میں آج اپنی ادا دیکھ!

اس بند میں شاعر نے زمین کی صدا انسان تک پہچائی ہے زمین کہتی ہے کے زمین پر موجود بادل ہوا پہاڑ صحرا دریا اور سمندر غرض ہر چیز اللہﷻ نے انسان کے لیے ہی بنائی ہے۔ ان سے فائدہ حاصل کرنا اور ان پر گرفت پانا اب انسان کے اپنے اوپر ہے ۔ زمین کہتی ہے وہاں عرش پر تو فرشتے ہوںگے تیری خدمت کو مگر زمین پر تو نے اپنی صلاحیتوں سے ہر میدان میں فتح پانی ہے۔

سمجھے گا زمانہ تری آنکھوں کے اشارے!
دیکھیں گے تجھے دور سے گردوں کے ستارے!
ناپید ترے بحر تخیل کے کنارے
پہنچیں گے فلک تک تری آہوں کے شرارے
تعمیر خودی کر اثر آہ رسا دیکھ

اس بند میں شاعر نے زمین کی زبانی کہا ہے اگر انسان اپنی حقیقت کو پا لے تو کائنات اس کو اپنے اشاروں پر چلتی ہوئی لگے گی۔ کائنات ہر ذرہ چاند تارے انسان کی ہمت پر اس کو داد پیش کریں گے۔ اور انسان کو ملنے والی عقل سمندروں کی گہرائی سے بھی زیادہ ہے بس اپنی سوچ کا صحیح استعمال سیکھ لے اور خود کو ایسا متقی بنالے کے اس آہیں عرش کی درودیوار تک میں گونجیں اور دعائیں پر اثر ہوجائیں۔

خورشید جہاں تاب کی ضو تیرے شرر میں
آباد ہے اک تازہ جہاں تیرے ہنر میں
جچتے نہیں بخشے ہوئے فردوس نظر میں
جنت تری پنہاں ہے ترے خون جگر میں
اے پیکر گل کوشش پیہم کی جزا دیکھ!

اس بند میں شاعر زمین کی زبانی کہتا ہے کہ اللہ نے انسان کو اللہ ﷻ نے سورج جیسی روشنی عطا فرمائی ہے یعنی علم کی روشنی اور اپنی اس روشنی سے سارا جہاں روشن کرسکتا ہے۔ اور اپنی صلاحیتوں کا استعمال کر کے وہ اپنی دنیا کو جنت بنا سکتا ہے۔ اللہ نے انسان کو ہر کام کی صلاحیت عطا کی ہے بس انسان مو صرف کوشش کرنی ہے اور آس کا صلہ اللہ ﷻ اس بھر پور صلہ عطا کریں گے۔

نالندہ ترے عود کا ہر تار ازل سے
تو جنس محبت کا خریدار ازل سے
تو پیر صنم خانۂ اسرار ازل سے
محنت کش و خوں ریز و کم آزار ازل سے
ہے راکب تقدیر جہاں تیری رضا دیکھ!

اس بند میں شاعر زمین کی زبانی کہتا ہے کہ پیدا ہوتے ہی انسان زندگی کے سب ساز بجنے لگتے ہیں اور اس میں اللہ ﷻ نے محبت کی چاہ ازل سے پیدا کر دی ہے۔ اور اس چاہ کے پیش نظر وہ اپنے محبوب کے رازوں سے واقفیت حاصل کرنےکی جدوجہد کرنے میں لگا رہتا ہے انسان کو اللہ ﷻ نے محنت مشقت اور بہادری جیسی صفات سے مالامال کردیا۔ اور ان صفات کی وجہ سے وہ اشرف المخلوقات بھی کہلایا گیا۔

سوال ۲ : نظم “روح ارضی آدم کا استقبال کرتی ہے” کے تیسرے اور چوتھے بند کی تشریح کیجیے :

بند نمبر 3

سمجھے گا زمانہ تری آنکھوں کے اشارے!
دیکھیں گے تجھے دور سے گردوں کے ستارے!
ناپید ترے بحر تخیل کے کنارے
پہنچیں گے فلک تک تری آہوں کے شرارے
تعمیر خودی کر اثر آہ رسا دیکھ

اس بند میں شاعر نے زمین کی زبانی کہا ہے اگر انسان اپنی حقیقت کو پا لے تو کائنات اس کو اپنے اشاروں پر چلتی ہوئی لگے گی۔ کائنات ہر ذرہ چاند تارے انسان کی ہمت پر اس کو داد پیش کریں گے۔ اور انسان کو ملنے والی عقل سمندروں کی گہرائی سے بھی زیادہ ہے بس اپنی سوچ کا صحیح استعمال سیکھ لے اور خود کو ایسا متقی بنالے کے اس آہیں عرش کی درودیوار تک میں گونجیں اور دعائیں پر اثر ہوجائیں۔

خورشید جہاں تاب کی ضو تیرے شرر میں
آباد ہے اک تازہ جہاں تیرے ہنر میں
جچتے نہیں بخشے ہوئے فردوس نظر میں
جنت تری پنہاں ہے ترے خون جگر میں
اے پیکر گل کوشش پیہم کی جزا دیکھ!

اس بند میں شاعر زمین کی زبانی کہتا ہے کہ اللہ نے انسان کو اللہ ﷻ نے سورج جیسی روشنی عطا فرمائی ہے یعنی علم کی روشنی اور اپنی اس روشنی سے سارا جہاں روشن کرسکتا ہے۔ اور اپنی صلاحیتوں کا استعمال کر کے وہ اپنی دنیا کو جنت بنا سکتا ہے۔ اللہ نے انسان کو ہر کام کی صلاحیت عطا کی ہے بس انسان مو صرف کوشش کرنی ہے اور آس کا صلہ اللہ ﷻ اس بھر پور صلہ عطا کریں گے۔

سوال ۴ : روح ارضی ، آدم سے مخاطب ہو کر کیا کہتی ہے؟ اپنے الفاظ میں لکھیے :

روح ارضی ، آدم سے مخاطب ہو کر کہتی ہے کہ اللہ نے آدم علیہ السلام آپ کو ہر سہولت جنت میں میسر کی، فرشتوں کو تمہارا غلام کیا۔ مگر یہاں تمہیں اپنی محنت اور لگن سے اور اپنے فہم کی صلاحیتوں کو بروکار لاتے ہوئے مجھ میں موجود اللہ کے رازواں کو تلاش کرو۔ اللہ نے آپ کو اشرف المخلوقات بنایا ہے اور آپ کو ہنر سے نوازا ہے۔ بس ضرورت ان کے مناسب استعمال کی ہے جس کی مدد سے اپ اپنی تقدیر بدل سکتے ہیں۔

سوال ۵ : مندرجہ ذیل الفاظ کی جمع بنائیے :

الفاظ جمع
منزل منزلیں
ساحل سواحل
صنم اصنام
عقل عقلوں
فلک افلاک
مشرق مشارق
یوم ایام
زمانہ زمانے
بحر ابحار
ضو اضواء

سوال۷ : تین اشعار ایسے لکھیے جن میں تشبیہ ہو اور تین اشعار ایسے لکھیے جن میں استعارہ استعمال ہوا ہو :

تشبیہ والے اشعار :

دکھلاتا تھا وہ مکاں جادو
محراب سے در سے چشم و ابرو
تمامی کی سنجاف جلوہ کناں
کہ جوں عکس مہ زیر آب رواں
نفس کی آمد و شد ہے نماز اہل حیات
جو یہ قضا ہو تو اے غافلو قضا سمجھو

استعارہ والے اشعار :

آنکھیں ٹھنڈی ہوں جگر تازے ہوں جانیں سیراب
سچے سورج وہ دل آرا ہے اجالا ہے تیرا
نعمتیں بانٹتا جس سمت وہ ذیشان گیا
ساتھ ہی منشی ءِ رحمت کا قلمدان گیا
حرا سے اتر کر سوئے قوم آیا
اور ایک نسخہ کیمیا ساتھ لایا