Advertisement
  • کتاب”اپنی زبان”برائے آٹھویں جماعت
  • سبق نمبر10:نظم
  • شاعر کا نام: روش صدیقی
  • نظم کا نام: شبنم

نظم شبنم کی تشریح:

کیا یہ تارے ہیں زمیں پر جو اتر آئے ہیں
یا وہ موتی ہیں کہ جو چاند نے برسائے ہیں
کیا وہ ہیرے ہیں جو صحرا نے پڑے پائے ہیں
نہ بہت دور پہنچ جائے مری بات کہیں
اپنے آنسو تو نہیں بھول گئی رات کہیں

نظم ‘شبنم’ کے ان اشعار میں شاعر نے زمین پر شبنم کے اترنے کے مناظر کو بیان کیا ہے۔شاعر کہتا ہے کہ شبنم کے قطرے ایسے ہیں کہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ تارے زمین پر اتر آئے ہوں۔یا پھر ایسا لگتا ہے کہ آسمان سے زمین پر چاند نے موتی برسائے ہیں۔ صحرا میں یہ موتی ہیرے دکھائی دیتے ہیں۔ شاعر کہتا ہے کہ میں زیادہ دور کی بات نہیں کرتا ہوں مجھے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ شبنم کے قطرے نہیں ہیں بلکہ بیتی رات اپنے آنسو بھول گئی ہے ھو صبح کے وقت شبنم دکھائی دیتی ہے۔

Advertisement
یہ کہانی بھی سنائی ہے زمیں نے اکثر
کہکشاں جاتی ہے جب پچھلے پہر اپنے گھر
پھینکتی جاتی ہے ہنستی ہوئی لاکھوں گوہر
اور ہر صبح کو یہ کھیل رچا جاتا ہے
ان کو خورشید کی پلکوں سے چنا جاتا ہے

ان اشعار میں شاعر کہتا ہے کہ اکثر زمین یہ کہانی بھی سناتی ہے کہ رات کے وقت جب پچھلے پہر کہکشاں اپنے گھر کی جانب جاتی ہے تو لوگوں پر یہ اپنی ہنسی کے موتی لٹا کر جاتی ہے اور یہ ایک دن کا عمل نہیں ہے بلکہ روزانہ یہ عمل دہرایا جاتا ہے۔کہکشاں کے یہ موتی شبنم کے قطرے ہیں جن کو صبح سویرے سورج کی کرنیں آکر چن لیتی ہیں۔

جس طرح باغ کے پھولوں کو چمن پیارا ہے
بن میں جو کھلتی ہیں کلیاں انہیں بن پیارا ہے
یوں ہی شبنم کو بھی اپنا ہی وطن پیارا ہے
کہکشاں روز بلا کر اسے بہکاتی ہے
پر یہ دامن میں زمیں کے ہی سکوں پاتی ہے

ان اشعار میں شاعر کہتا ہے کہ جس طرح باغ میں موجود پھولوں کو ان کا گھر یعنی باغ عزیز ہوتا ہے اور ایک بن کے اندر کھلنے والی کلیوں کو ان کا وہ بن پیرا ہوتا ہے۔ بالکل اسی طرح شبنم کو بھی اپنا وطن پیارا ہوتا ہے۔کہکشاں روزانہ شبنم کو واپس بلا کر بہکانے کی کوشش ضرور کرتی ہے مگر یہ شبنم واپس زمین پر آکر ہی سکون پاتی ہے۔کیوں کہ یہ زمین کو ہی اپنا گھر مانتی ہے۔

سوچیے اور بتایئے:

شاعر کو کن کن چیزوں پر شبنم کا گمان ہوتا ہے؟

شاعر کو تاروں، موتیوں ، ہیروں اور آنسوؤں پر شبنم کا گمان ہوتا ہے۔

شبنم کو رات کے آنسو کیوں کہا گیا ہے؟

شبنم چوں کہ رات کے وقت زمین پر گرتی ہے اس لیے شاعر نے اسے رات کے آنسو کہا ہے۔

Advertisement

زمین نے شبنم کے بارے میں کیا کہانی سنائی؟

زمین نے شبنم کے بارے میں یہ کہانی سنائی کہ جب ستاروں کا جھرمٹ رات کے پچھلے پہر اپنے گھر جاتا ہے تو اپنی ہنسی کے موتی بکھیرتا جاتا ہے جسے صبح سویرے سورج اپنے پلکوں سے چن لیتا ہے۔

کہکشاں پچھلے پہر لاکھوں گو ہر پھینکتی جاتی ہے، یہ لاکھوں گو ہر کیا ہیں؟

یہ لاکھوں گوہر شبنم کے قطرے ہیں۔

خورشید کی پلکوں سے کیا چنا جا رہا ہے اور یہاں چننے سے کیا مراد ہے؟

خورشید کی پلکوں سے شبنم کے قطرے چنے جاتے ہیں۔ شبنم کے قطروں کے چنے جانے کا مطلب ہے سورج کی گرمی سے ان قطروں کا غائب ہو جانا ہے۔

شبنم اور گوہر کا آپس میں کیا تعلق ہے؟

شبنم اور موتی یعنی گوہر دونوں ہی ایک چیز ہیں۔ دونوں میں چمک موجود ہے۔

شبنم کے علاوہ اور کس کس کو اپنا وطن پیارا ہے؟

باغ کے پھولوں کو چمن، بن میں کھلنے والی کلیوں کو اپنا بن اسی طرح شبنم کو اپنا وطن پیارا ہے ۔ یعنی ہر شخص کو اپنا وطن پیارا ہے۔

Advertisement

شبنم کو زمین کے دامن میں ہی سکون کیوں ملتاہے؟

شبنم کو اپنا وطن پیارا ہے اسی لیے اسے زمین کے دامن میں سکون ملتا ہے۔

مصرعوں کو مکمل کیجیے:

کیا یہ تارے ہیں زمیں پر جو اتر آئے ہیں
یا وہ موتی ہیں کہ جو چاندنے برسائے ہیں
نہ بہت دور پہنچ جائے مری بات کہیں
اپنے آنسو تو نہیں بھول گئی رات کہیں

نیچے دیے ہوئے لفظوں کو جملوں میں استعمال کیجیے۔

صحرا موتیوں سے دامن صحرا بھرا ہوا تھا۔
کہکشاںرات کے پچھلے پہر آسمان پر کہکشاں بہت دلکش دکھائی دے رہی تھی۔
شبنم صبح سویرے سبزہ شبنم سے ڈھکا ہوا تھا۔
خورشیدخورشید کی کرنوں نے شبنم کو ختم کر دیا۔

پڑھیے سمجھیے اور لکھیے:

اردو میں’برا‘ سے برائی‘ اور بھلا‘ سے’ بھلائی بناتے ہیں ۔ اسی طرح ” خوش‘ سے خوشی اور بزدل‘ سے ” بزدلی‘ بناتے ہیں۔ اسی انداز پر آپ
مندرجہ ذیل الفاظ سے اسم بنائیے۔

خوبصورت خوبصورتی
دوست دوستی
خدا خدائی
بڑا بڑائی
روشن خیال روشن خیالی
دشمن دشمنی
اچھا اچھائی
نوجوان نوجوانی