Advertisement
Advertisement

ساحر لدھیانوی کی نظم “تاج محل” ایک تیرہ اشعار پر مشتمل پابند نظم کی ہیت میں لکھی گئی نظم ہے۔اس نظم میں شاعر نے شاہجان بادشاہ کے اپنی ملکہ ممتاز بیگم کے لیے بنائے گئے مقبرے تاج محل کے لیے اپنے جذبات کو پیش کیا ہے۔اس نظم میں وہ اپنی محبت کو غریب کی محبت کہہ کر اس کا موازنہ شاہجان کے تاج محل سے کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

Advertisement

نظم میں شاعر اپنے محبوب کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے کہ تاج محل جو کہ عشق و محبت کی ایک لازوال تصویر ہے بلاشبہ یہ تمھارے لیے محبت کی ایک علامت ہو گی اور تمھیں تاج محل کی اس رنگین وادی سے محبت اور عقیدت بھی ضرور ہو گی لیکن میرے محبوب مجھے کہیں اور ملا کرو اور ملاقات کے لیے یہاں مت بلایا کرو کیونکہ یہ بادشاہوں کی محفل ہے اور میں غریب لوگوں کو کوئی ٹھکانہ یا گزر نہیں ہے۔ اس لیے مجھے یہاں ملاقات کے لیے مت بلایا کرو۔

وہ راستہ جہاں پہ بادشاہوں کی شان و شوکت کے نشان ثبت کیے گئے ہوں جہاں ان بادشاہوں کا جلال بولتا ہو وہاں بھلا محبت بھری روحوں کی آمد کا سفر کیا معنی رکھتا ہے۔اے میرے محبوب وفا اور محبت کے پسِ پردہ جو تشہیر کی جاتی ہے اس سطوت اور شان و شوکت کے نشانات کو بھی دیکھا ہوتا۔شاعر کہتا ہے کہ مردہ بادشاہوں سے بہلنے والی محبت پہلے اپنے تاریک مکانوں کو دیکھا ہوتا کیونکہ اس دنیا میں لاکھوں لوگوں نے محبت کی ہے مگر کوئی یہ نہیں کہہ سکتا ہے کہ ان کی محبت کے جذبوں میں صداقت نہیں تھی۔

Advertisement

وہ لوگ جنھوں نے محبت کی اور ان کی محبت کا جذبہ سچا تھا ان لوگوں کے پاس اپنی محبت کے جذبے کے اظہار کی نمود و نمائش کا سامان موجود نہیں تھا۔ کیونکہ وہ لوگ غریب لوگ تھے۔ تاج محل جیسی عمارات بڑے بڑے مقبرے اور قلعے تعمیر کرنا ان کے بس کی بات نہ تھی۔ یہ محل فصلیں اور مقبرے تو جابر حکمرانوں اور شہنشاہوں کی عظمت کے ستونوں کے سوا کچھ نہیں ہیں۔اس زمانے کے سینے میں جو ایک ناسور نما زخم ہے وہ خاصا پرانا ناسور پے۔

Advertisement

ان سینوں میں میرے اور تمھارے آباؤ و اجداد کا خون جذب ہو چکا ہے۔ کیونکہ میرے محبوب ان لوگوں نے بھی تو محبت کی ہو گی اور انھی کی محبت کاریگری اور فن مہارت نے ہی اس محبت کو ایک خوبصورت اور حسین و جمیل شکل عطاکی ہے۔ان کے پیاروں لوگوں کے مقبرے تب سے لے کر اب تک بے نشان ہی رہے ہیں۔

ایک طرف تاج محل جیسی عمارات ہے تو دوسری جانب ان کے مقبروں پہ آج تک کسی نے ایک شمع بھی روشن نہیں کی ہے۔ یہ باغ، جمنا کا کنارا اور یہ محل اور سونے چاندی سے سجائی کی دیواریں ، دروازے اور کھڑکیاں وغیرہ سب کچھ ان کے پاس نہیں ہے۔ایک بادشاہ نے اپنی دولت کا سہارا لے کر ہم سب غریبوں کی محبت کا مذاق اڑایا ہے کہ ہم غریب لوگ اپنے محبوب سے محبت کے اظہار کے لیے تاج محل کھڑا نہیں کر سکتے ہیں۔اس لیے میرے محبوب مجھے کہیں اور ملا کرو۔

Advertisement

Advertisement