سلطان ٹیپو کی وصیت

0
  • سلطان ٹیپو کی وصیت
  • شاعر : علامہ اقبال

تعارفِ نظم

یہ شعر ہماری درسی کتاب کی نظم “سلطان ٹیپو کی وصیت“ سے لیا گیا ہے۔ اس نظم کے شاعر کا نام علامہ اقبال ہے۔

تعارفِ شاعر

شیخ محمد اقبال سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ بانگِ درا ، ضربِ کلیم ، بالِ جبریل اور ارمغان حجاز ان کے اردو کلام پر مشتمل کتابیں ہیں۔ پہلے وطن دوستی پھر ملت دوستی اور پھر انسان دوستی ان کی شاعری کے اہم موضوعات ہیں۔ آپ نے مسلمانوں کے سیاسی شعور کو صحیح سمت عطا کی۔

( سلطان ٹیپو کی وصیت )

تو رہ نورد شوق ہے منزل نہ کر قبول
لیلی بھی ہم نشیں ہو تو محمل نہ کر قبول

اس شعر میں علامہ اقبال سلطان ٹیپو کی زبانی کہتے ہیں کہ مسلمانوں تم منزلیں طے کرنے والے ہو تمہیں اس کے حوصل کے لیے محنت اور لگن سےکام کرنا ہو گا اور اس دوران دنیا کی عیش و عشرت راہ میں آئیں گی تو ان نو قبول نہ کرنا وہ تمہاری منزل نہیں ہیں۔ بس اپنی راہ پر آگے بڑھتے رہنا۔

اے جوئے آب بڑھ کے ہو دریائے تند و تیز
ساحل تجھے عطا ہو تو ساحل نہ کر قبول

اس شعر میں علامہ اقبال سلطان ٹیپو کی زبانی کہتے ہیں کہ مسلمانوں تم کو عقل و فہم کے سمندر عطا ہوئے ہیں اپنی سوچ کو محدو نہر کی طرح نہ رکھو بلکہ ٹھاٹھيں مارتا سمندر بن جاؤں اور اس کے لیے اگر تمہیں ساحل کو بھی چھوڑنا پڑے تو چھوڑ دو یعنی علم کے حوصل میں رکاوٹ کو نظر انداز کرو اور آگے بڑھتے جاؤ۔

کھویا نہ جا صنم کدہ کائنات میں
محفل گداز گرمی محفل نہ کر قبول

اس شعر میں علامہ اقبال سلطان ٹیپو کی زبانی کہتے ہیں کہ مسلمانوں دنیا میں تمہیں آسائشوں اوررنگینوں کے جال ہر جاہ ملیں گے ان بچے رہنا کیونکہ یہ انسان کو اس کے مقصد حیات سے دور لے جاتے ہیں۔ بس سیدھے اور سچے راستے پر چلتے چلے جاؤ اور تمہیں تمہاری اصل منزل تک لے جائے گا۔

صبح ازل یہ مجھ سے کہا جبرئیل نے
جو عقل کا غلام ہو وہ دل نہ کر قبول

اس شعر میں علامہ اقبال نے تمثیلی انداز اختیار کرتے ہوئے سلطان ٹیپو کی زبانی کہتے ہیں کہ مسلمانوں جبرائیل علیہ السلام نے پہلے دن ہی کہہ دیا تھا دل کو کبھی عقل کا تابع نہ ہونے دینا کیوں دل نرم اور جذبات سے بھرا ہوتا ہے اس لیے اسے دل کی نہ سنو جو عقل کا غلام ہو۔

باطل دوئی پسند ہے حق لا شریک ہے
شرکت میانہ حق و باطل نہ کر قبول

اس پوری نظم کو علامہ اقبال نے سلطان ٹیپو کی وصیت کہا ہے اس شعر میں وہ کہتے ہیں مسلمانوں باطل سے بچو اور عقیدہ توحيد پر ڈٹ جاؤ یہی تمہاری قوت ہے اور تمہیں باطل پر فتح دلوائے گی۔ اللہ واحد لاشریک کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو شرک اور باطل کی ہمارے دین میں کوئی جگہ نہیں ہے۔

سوال ۱ : مندرجہ ذیل اشعار کی تشریح کیجیے :

اے جوئے آب بڑھ کے ہو دریائے تندوتیز
ساحل تجھئ عطا ہر تو ساحل نہ کر قبول

اس شعر میں علامہ اقبال سلطان ٹیپو کی زبانی کہتے ہیں کہ مسلمانوں تم کو عقل و فہم کے سمندر عطا ہوئے ہیں اپنی سوچ کو محدو نہر کی طرح نہ رکھو بلکہ ٹھاٹھيں مارتا سمندر بن جاؤں اور اس کے لیے اگر تمہیں ساحل کو بھی چھوڑنا پڑے تو چھوڑ دو یعنی علم کے حوصل میں رکاوٹ کو نظر انداز کرو اور آگے بڑھتے جاؤ۔

کھویا نہ جا صنم کدہ کائنات میں
محفل گداز گرمی محفل نہ کر قبول

اس شعر میں علامہ اقبال سلطان ٹیپو کی زبانی کہتے ہیں کہ مسلمانوں دنیا میں تمہیں آسائشوں اوررنگینوں کے جال ہر جاہ ملیں گے ان بچے رہنا کیونکہ یہ انسان کو اس کے مقصد حیات سے دور لے جاتے ہیں۔ بس سیدھے اور سچے راستے پر چلتے چلے جاؤ اور تمہیں تمہاری اصل منزل تک لے جائے گا۔

باطل دوئی پسند ہے حق لاشریک ہے
شرکت میانہ حق و باطل نہ کر قبول

اس پوری نظم کو علامہ اقبال نے سلطان ٹیپو کی وصیت کہا ہے اس شعر میں وہ کہتے ہیں مسلمانوں باطل سے بچو اور عقیدہ توحيد پر ڈٹ جاؤ یہی تمہاری قوت ہے اور تمہیں باطل پر فتح دلوائے گی۔ اللہ واحد لاشریک کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو شرک اور باطل کی ہمارے دین میں کوئی جگہ نہیں ہے۔

سوال ۳ : نظم “سلطان ٹیپو کی وصیت” کا خلاصہ اپنے الفاظ میں لکھیے :

یہ نظم شاعرِ مشرق اعلامہ اقبال نے لکھی ہے۔ اس نظم میں علامہ اقبال نے سلطان ٹیپو کی وصیت ان کی زندگی کو مدِنظر رکھ کر لکھی ہے۔ اس نظم کے ذریعے علامہ اقبال مسلمانوں کو ان کا مقصدِ حیات بناتے ہیں، وہ کہتے میں کے دنیا میں صرف یہ سوچ کر رہو کے یہ دنیا فانی ہے اور اس کی عش و عشرت کو نظر انداز کر کے حق کے پر خار راہ پر چلو تو وہ تمھیں کامیابی تک لے جائے گا۔

اللہ ﷻ کے دیے گئے عقل و فہم سے اس کی قدرت کے زاروں کو سیکھو۔ دنیاوی محفلوں اور اس کی نرمی میں کھونے کے بجائے حقیقی رب کی طرف رجوع کرو محنت مشقت کرو اور اللہ کی بتائی راہ پر چلو۔ اور وہ یہ بھی کہتے ہیں کے جبرائیل علیہ السلام نے کہہ دیا ہے کے عقل کو دل کا غلام نہ ہونے دینا، دل جذبات کی ندی ہے اور عقل مصلحت کا سمندر۔ اپنے آپ کو باطل سے بچاؤ اور صرف ایک اللہ ﷻ کی عبادت کرو، باطل کی کوئی معافی نہیں ہے۔